داتا اور منگتا

449

عابد علی جوکھیو
انسان کو خالق نے اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ یہ شرف اسے عقل و شعور کی وجہ سے دیا گیا۔ پھر یہی عقل و شعور انسان سے اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ وہ ان کا ٹھیک ٹھیک استعمال کرے اور اسی کسوٹی کے مطابق اعمال کرے۔ انسانی عقل بھی خالق کی دَین ہے، اس لیے انسان چاہے جتنا بھی آگے بڑھ جائے، ترقی کرلے، چاند تک پہنچ جائے، وہاں انسانی آبادی بسانے کی ترکیبیں بناتا پھرے، وہ اسی حد تک کام کرسکتی ہے جتنی کہ خالق نے اسے صلاحیت دی ہے۔ اس لیے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو اُس کی تمام تر صلاحیتوں اور طاقت کے باوجود چیلنج کیا ہے کہ وہ ذرا اُس کی کائنات سے باہر نکل کر تو دکھائے، جہاں اس کی فرماں روائی نہ ہو، یا پھر اس سے کوئی بچ سکتا ہو۔ اس عقل و شعور کے ساتھ ساتھ خالق نے انسان میں خیر و شر کا مادہ بھی رکھ دیا کہ اشرف المخلوقات ہونے کا تعلق صرف عقل و شعور سے نہیں بلکہ اس کا استعمال کرتے ہوئے خیر و شر کی تمیز کرکے خیر کے راستے کو اپنانے سے متعلق ہے۔ انسان کی کامیابی صرف اور صرف اسی خیر میں مضمر ہے۔ چونکہ خیر انسانی فطرت کا حصہ ہے اسی لیے خالق نے دونوں جہانوں کی حقیقی کامیابی خیر اور خیر کے کاموں میں ہی رکھی ہے، اس کے سوا جو بھی ہے وہ سراسر گمراہی اور دھوکا ہے۔ انسان خیر کے سوا کسی دوسرے رستے سے جو بھی مقام و مرتبہ حاصل کرلے وہ اُس کے لیے سکون کا باعث نہیں بن سکتا، اس لیے کہ اس مقام و مرتبے کی بنیاد ہی غلط رکھی گئی ہے۔ انسانی عقل و شعور انسان سے اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ وہ فطرتِ سلیم کے مطابق عمل کرے، نیک کام کرے، بھلائی کا کام کرے، لوگوں کے لیے آسانیاں فراہم کرے، بھوکوں کو کھانا کھلائے، پریشان حال افراد کی پریشانی کو دور کرنے کی کوشش کرے، غم زدہ افراد کے چہروں پر مسکراہٹ پھیلائے، بے سہارا افراد کی دادرسی کرے… یہ سب وہ کام ہیں جو انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں جن کا خالقِ کائنات بھی تقاضا کرتا ہے۔
چونکہ انسان کی فطرت میں خیر و شر کا مادہ رکھا گیا ہے، اس لیے یہ بھی عین حقیقت ہے کہ ان دونوں عوامل کے مطابق عمل وقوع پذیر ہوں۔ جہاں خیر ہوگا وہاں شر کا انکار بھی نہیں کیا جاسکتا۔ خیر و شر کا معاملہ اپنی جگہ، خیر میں بھی مختلف انسانی افعال اور مقام ہوتے ہیں۔ اسی طرح کچھ افعال ان دونوں کے درمیان کے بھی ہوتے ہیں جو اپنی ذات میں شر نہیں لیکن ناپسندیدہ ہیں۔ انسان کسی مجبوری یا غلطی کی بنا پر ایسے افعال کرتا رہتا ہے جو اپنی ذات میں شر نہیں لیکن شریعت یا معاشرت میں ناپسندیدہ ضرور سمجھے جاتے ہیں۔ انسان پر کبھی بھی ایک جیسے حالات نہیں رہتے، کبھی امیری تو کبھی غریبی، کبھی غنا تو کبھی فقر، کبھی صحت تو کبھی بیماری، پہلے جوانی پھر بڑھاپا، کبھی ہر معاملے میں فراوانی تو کبھی تنگی… الغرض کوئی بھی انسان یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ ہمیشہ ایک ہی حال میں رہے گا۔ دنیا ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ صبح کا صحت مند شام کا بیمار، کل کا امیر آج کا غریب… یہ اس دنیا کا دستور ہے۔ اسی کو خالقِ کائنات نے بیان کیا کہ یہی وہ دن ہیں جنہیں ہم لوگوں کے مابین گردش کراتے رہتے ہیں۔ انسان ایک لحاظ سے اپنے وجود میں دو مقامات کا حامل ہوتا ہے، ایک داتا اور دوسرا منگتا… کبھی کوئی داتا ہوتا ہے تو کبھی منگتا۔ آج کا بادشاہ کل کا فقیر۔ ایک انسان اپنی ذات میں داتا ہوتا ہے، لوگوں کو خوب نوازتا ہے، جو اللہ نے اُسے دیا اس میں سے لوگوں کی فلاح کے لیے خرچ بھی کرتا ہے، لیکن خالق کی طرف سے ایک اور آزمائش آتی ہے کہ وہ یکسر محتاج ہوجاتا ہے… اگرچہ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ جو اللہ کے بتائے ہوئے اصولوں پر زندگی گزارے اُس کے ساتھ ایسے معاملات ہوں، لیکن اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اللہ اپنے بندوں کو مختلف طرح آزماتا ہے، کبھی دے کر، تو کبھی واپس لے کر… اس لیے یہی دعا سکھائی گئی کہ ’’وہ سب اللہ کا ہی ہے جو اُس نے دیا اور جو اُس نے ہم سے واپس لیا۔‘‘
اسلام اپنے ماننے والوں کو داتا بننے کا درس دیتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ اس کا ہر ماننے والا داتا ہو، نہ کہ منگتا۔ اگرچہ بوقتِ ضرورت مانگنے کی اجازت بھی دی گئی ہے لیکن اس کو پسندیدہ قرار نہیں دیا گیا۔ صحابہؓ کی زندگیوں میں ہمیں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں کہ وہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مالِ غنیمت یا بیت المال سے کچھ مانگنے آتے تو آپؐ کبھی انہیں مرحمت فرما دیتے تو کبھی اس عمل پر ناپسندیدگی کا اظہار بھی کرتے۔ یہ بات ایک طرف، لیکن اسلام کا تصورِ داتا بڑا عجیب ہے، اسلام کا مطلوبہ داتا تو سیدنا ابوطلحہ انصاریؓ کی مانند ہوتا ہے کہ خود بھوکا رہ کر بھی دوسروں کو کھانا کھلاتا ہے۔ حتیٰ کہ اپنے بچوں کے منہ کا نوالا بھی مہمان کو کھلا دیتا ہے۔ اگرچہ مال کی فراوانی اور خوشحالی میں داتا بننا بھی قابلِ ستائش ہے کہ بہت سے ایسے لوگ ہیں جو مال کی فراوانی کے باوجود داتا نہیں بن پاتے (اور ان کے مرنے کے بعد دوسرے ان کے مال پر عیش کرتے ہیں)، لیکن اسلام کو ایسے داتا مطلوب ہیں جو کچھ نہ ہونے کے باوجود بھی داتا بنتے پھریں…
استادِ محترم مولانا ڈاکٹر ساجدجمیل صاحب نے اپنا ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک بار وہ کسی سڑک پر پیدل جارہے تھے، توانہیں سامنے سے ایک مفلوک الحال بابا جی اپنی گٹھری اٹھائے آتے دکھائی دیے، ان دونوں کے درمیان کچرے کا ایک ڈھیر تھا جہاں ایک بچہ ان دونوں سے بے خبر کچرے میں سے کام کی چیزیں جمع کرنے میں مصروف تھا۔ مولانا صاحب فرماتے ہیں کہ باباجی کو دیکھ کر مجھے ایسا محسوس ہوا کہ وہ کوئی ضرورت مند ہیں اور مجھ سے کچھ ضرور مانگیں گے… اسی خیال سے میں سوچ رہا تھا کہ جب وہ مانگیں گے تو انہیں کچھ نہ کچھ دوں گا… ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ وہ باباجی کچرے کے ڈھیر پر پہنچ کر رک گئے اور اپنے مخصوص لہجے میں بچے سے پوچھا ’’بھوک لگی ہے؟‘‘ ابھی وہ بچہ ان کی بات سمجھ بھی نہ سکا تھا، اور حیران نظروں سے انہیں دیکھ رہا تھا کہ شاید بابا جی کو بچے کو آنکھوں سے جواب مل گیا، انہوں نے اپنی گٹھری سے بریانی کی ایک تھیلی نکال کر اسے دی اور میرے قریب سے ایسے گزرے کہ انہوں نے مجھے دیکھا ہی نہیں… مولانا صاحب فرماتے ہیں کہ باباجی کے اس عمل نے مجھے جہاں حیران کیا وہیں اپنے اوپر شرمندہ بھی، کہ میں جسے منگتا سمجھ رہا تھا حقیقت میں تو وہ داتا تھا… یہی وہ داتا ہوتے ہیں جو لوگوں کی خدمت پر مامور ہوتے ہیں، جن کا کام ہی لوگوں کے لیے آسانیاں فراہم کرنا ہوتا ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو ایسے مقامات پر پہنچ جاتے ہیں جہاں ان کی ضرورت ہوتی ہے، اور اپنے کام کرکے خاموشی سے چلے جاتے ہیں، انہیں کسی شہرت اور نام کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ وہ خدائی فرشتے ہوتے ہیں جنہیں اللہ نے ایک خاص مشن کے لیے بھیجا ہوتا ہے، اور وہ اسی میں اپنی زندگی صرف کردیتے ہیں… اگر ہم ان بابا جی کا جائزہ لیں جو اپنی مفلوک الحالی کے باوجود سلوک کی اعلیٰ منزل پر فائز تھے، انہیں پتا تھا کہ اس وقت کون ضرورت مند ہے، وہ لوگوں کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتے تھے، اور دوسری طرف ان کی اپنی زندگی اور حال کو دیکھیں تو لوگوں کو ان پر رحم آنے لگتا ہے، لیکن وہ کسی سے رحم کی اپیل نہیں کرتے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تمہیں وہاں سے دوں گا جہاں تمہیں وہم و گمان بھی نہ ہوگا۔
ہمارے زمانے کے باباجی اشفاق احمد نے اپنے ایک پروگرام میں فرمایا تھا کہ ’’انسان کے وجود میں دو مقام ہوتے ہیں، داتا اور منگتا… جو اللہ تعالیٰ کا بندہ ہو جاتا ہے وہ صورت کے اعتبار سے بھی داتا ہوجاتا ہے اور معنوں کے اعتبار سے بھی داتا ہوجاتا ہے… اس لیے بزرگانِ دین فرماتے ہیں: صاحبو! سوال مت بنو، جواب بنو…‘‘ اسلام میں سوال بننے کو ناپسندیدگی سے دیکھا گیا ہے۔ سوال کا مطلب دوسروں پر بوجھ بننا ہے، اپنی ہستی کو کم سے کم تر کرنا ہے، اپنی اشرفیت کو ختم کرنا ہے۔ اس لیے احادیث میں بھی بلاضرورت سوال کرنے سے منع کیا گیا ہے، اور ایسا کرنے والوں سے متعلق سخت وعیدیں بھی بیان کی گئی ہیں… یہ صرف اس لیے کہ انسان جسے اشرف المخلوقات بنایا گیا ہے وہ دوسروں کے لیے زحمت کے بجائے رحمت اور آسانیاں فراہم کرنے والا بن جائے۔ اسلام کے مزاج میں مسائل پیدا کرنا یا بیان کرنا نہیں بلکہ ان کا حل تلاش کرنا ہے، اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ کی زندگیوں کو اٹھا کر دیکھ لیں، آپ کو وہاں صرف مسائل کا حل ملے گا… کیونکہ اصل مقصد ان مسائل کا حل ہے نہ کہ ان پر صرف گفتگو در گفتگو کرنا۔ اسلام کا داتا وہی ہے جو لوگوں کے مسائل حل کرے، انہیں آسانیاں فراہم کرے، ان کے دکھوں کا مداوا کرے، پریشانیوں کے حل کا ذریعہ بنے، یہاں تک کہ وہ مرجع خلائق بن جائے… دنیا میں انہی افراد، معاشروں اور اجتماعیت نے ترقی اور اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل کی ہے جو حقیقی معنوں میں داتا بنے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان اوصاف سے متصف ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔

حصہ