بخشو کے مور

330

زاہد عباس
خبر کے مطابق منگل کو وزیراعظم ہائوس اسلام آباد میں پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے اپنے وفد کے ہمراہ وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی سے ملاقات کی۔ دو گھنٹے کی اس ملاقات میں وفاقی وزرا سمیت آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ مختار احمد بھی شریک تھے۔ ملاقات میں پاک امریکا تعلقات سمیت خطے کی صورتِ حال پر بات چیت اور دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متعلق امور پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا، جس پر بات کرتے ہوئے وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پُرعزم ہے اور اس جنگ میں مثبت نتائج بھی حاصل کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم امریکا کے ساتھ بہترین تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں۔ جب کہ ٹلرسن نے پاکستان کے کردار کو قیام امن کے لیے اہم قرار دیا، ساتھ ہی انہوں نے ایک مرتبہ پھر پاکستان سے ڈومور کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اپنی سرزمین پر دہشت گردی کے خاتمے کی کوششیں تیز کرے۔ اس دوران ٹلرسن کی سوئی ڈومور پر ہی اٹکی رہی۔
خبر نشر ہوتے ہی محلے کے تھڑوں پر بیٹھ کر سیاست کرنے والوں نے اپنی ذہانت کے مطابق سیاسی تجزیے شروع کردیے۔ یہاں میں یہ بتاتا چلوں کہ ہمارے ملک میں شاید ہی کوئی محلہ یا گلی ایسی ہو جہاں لوگ رات گئے تک کسی چوک یا تھڑے پر ملکی سیاست سے لے کر بین الاقوامی حالات پر بات نہ کرتے ہوں۔ آپ کو ان محلوں اور گلیوں میں ایسے تجزیہ کار بھی ملیں گے جو بڑی باریک بینی سے سیاسی حالات کو دیکھتے ہیں، یعنی یوں سمجھیے کہ ان تھڑوں پر بین الاقوامی حالات و واقعات سمیت ملک کے اندرونی مسائل پر بھی بال کی کھال اتارنے والے موجود ہوتے ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ کی پاکستان آمد اور ڈومور کے مطالبے کے بارے میں خبر نشر ہونے کے ساتھ ہی جہاں پاکستانی الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا پر تجزیہ کار اپنی اپنی آراء دینے لگے، وہیں محلوں میں بنے تھڑوں پر بیٹھے سیاست کرنے والوں نے بھی اس خبر کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ہر کوئی اپنے تجزیے اور سیاسی بصیرت کے مطابق بات کرنے لگا۔ ہمارے محلے میں بنے اسی طرح کے ایک چوک پر ڈومور سے جڑی اس خبر کو چاچا بخشو نے بریک کیا، یعنی چاچا بخشو نے تھڑے پر بیٹھے لوگوں کو یہ بریکنگ نیوز اپنی سمجھ کے مطابق دیتے ہوئے کہا کہ ’’امریکا پاکستان سے دو مور چاہتا ہے، اسی لیے اُس نے اپنا خاص بندہ اسلام آباد بھیجا ہے جس نے ہمارے وزیراعظم سے ملاقات کے دوران موروں کی فرمائش کی ہے۔ ابھی ہم سوچتا ہے کہ اتنے بڑے ملک کا خاص آدمی صرف دو مور لینے آیا ہے! وزیراعظم کو چاہیے کہ پریشان نہ ہو، زرداری سے بات کرے۔ مور سندھ میں پیدا ہوتا ہے، پچھلے دنوں رانی کھیت کا بیماری آگیا تھا جس سے ہزاروں مور مر گیا، معلوم نہیں اب تھر میں کتنا مور بچا! دو تو مل جائے گا۔ اگر نہیں ملتا تو کشمور سے لے کر دے دو۔ یہ انگریز بھی عجب چیز مانگتا ہے، کبھی مولوی مانگتا ہے تو کبھی اپنے پیسوں کا حساب مانگتا ہے، اب کوئی بات نہیں ملا تو مور کی فرمائش کررہا ہے، ہماری حکومت کے حالات پہلے ہی بڑے خراب چل رہے ہیں، ایسا لگتا ہے آج ختم ہوا یا کل ختم ہوجائے گا‘ ساری دنیا میں یہ گورا لوگ ہی حکومت بنواتا ہے اور ختم بھی یہی لوگ کرواتا ہے، زرداری صاحب کا حکومت نے اپنا وقت پورا کیا، اب ہماری سمجھ میں آیاکہ سندھ کا سارا مور کدھر گیا۔‘‘
بخشو کی باتیں سننے کے بعد میرے پاس ہنسنے کے سوا کچھ نہ تھا۔ بخشو کا خبر پر معصومانہ تجزیہ لطیفے سے کم نہ تھا۔ اس وقت محمد بخش عرف بخشو کی ذہانت پر مجھے بھی ایک لطیفہ یاد آگیا۔ ایک ٹیچر بچے سے کہتی ہے ’’بتائو ’کل‘ کو انگریزی میں کیا کہتے ہیں؟‘‘ بچہ جواب دیتا ہے ’’ٹومارو‘‘۔ ٹیچر کہتی ہے ’’اور پرسوں کو؟‘‘ بچے نے بخشو کی طرح جواب دیا ’’ٹو کے اوپر ایک اور مارو‘‘۔ میرے نزدیک یہ ڈومور بھی ٹو کے اوپر ایک اور مارنے جیسا ہی مطالبہ ہے۔
پاکستانی عوام بھی کتنے سیدھے ہیں، نہ جانے کتنے بخشو اپنی سادگی کی وجہ سے یہ بات بھول چکے ہیں کہ امریکا نے پاکستان سے ہمیشہ ڈومور کا ہی تو مطالبہ کیا ہے۔ دنیا پر اکیلے حکمرانی کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے 1980ء کی دہائی میں روس کے خلاف ضیاء الحق کے دور میں پاکستان سے ڈومور ہی تو کرواتا رہا ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ اُس وقت روس کے خلاف ضیاء الحق سے اسلام کے نام پر لشکر تیار کروائے گئے، اور آج انہی لشکروں کے خلاف بھارتی خواہش کے مطابق ڈومور کرنے کے لیے دبائو ڈالا جارہا ہے۔ چالیس برس کے اس عرصے میں پاکستان اور امریکا کی حکومتیں تو تبدیل ہوتی رہیں لیکن ڈومور پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ امریکا اپنی اسی پالیسی کے تحت ایک مرتبہ پھر ہم سے ہماری وہ خدمات چاہتا ہے جن کو پیش کرنے کے لیے 70 ہزار سے زائد لوگوں کی قربانی دینی پڑی۔ وہ مسئلۂ افغانسان کی ذمے داری پاکستان پر ڈال کر محب وطن جماعتوں کے خلاف کارروائی کے نام پر ایسا قتلِ عام چاہتا ہے جس سے ہر صورت مسلمانوں اور پاکستانیوں کا ہی نقصان ہو… یعنی چھری خربوزے پر گرے یا خربوزہ چھری پر، دونوں صورتوں میں نقصان خربوزے کا ہی ہوگا۔
ٹلرسن کی پاکستان آمد پر مجھے وہ زمانہ یاد آگیا جب دنیا بھر میں سفر کرنے والوں کو بہت کم ایسی ائرلائن دستیاب تھیں جو بغیر Stay کیے اپنی منزل تک جائیں۔ مسافروں کو کسی بھی شہر میں تھوڑی دیر یا چند گھنٹے قیام کرنا پڑتا، مثلاً اگر لاہور سے کسی کو دبئی جانا ہے تو ائرلائن کراچی میں چند گھنٹے قیام کرتی۔ اس دوران رشتے دار اپنے اس مسافر سے ائرپورٹ پر ملاقات کرنے جایا کرتے۔ زیادہ تر مسافر اس عارضی قیام کے دوران اپنے عزیزوں کے گھر چلے جاتے اور چار، پانچ گھنٹے قیام کرتے۔ بیرونِ ملک جانے والے مسافروں کی بڑی خاطر تواضع کی جاتی۔ ان مسافروں سے میزبانوں کو کسی قسم کے تحفے تحائف کا لالچ نہ ہوتا۔ وقت پورا ہوتے ہی وہ موصوف چلتے بنتے، ان صاحب کی رشتے داروں کے گھر آمد محبت میں نہیں فقط وقت گزاری کے لیے ہوتی۔ اس طرح وہ اپنی اُس منزل کی جانب چل دیتے جو ان کی اصل منزل ہوتی۔
ٹلرسن کی ہمارے ملک میں آمد بھی ایسا ہی اسٹے تھا جو چند گھنٹوں کے لیے تھا۔ امریکی پالیسی کے تحت ٹلرسن نے بھارت جانا تھا، لہٰذا درمیان میں چند گھنٹے قیام کرنا، دعا سلام کرنا اخبارات کے لیے فوٹوسیشن سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ ڈومور کا پیغام ٹیلی فون پر یا وائٹ ہائوس ترجمان کے ذریعے بھی دیا جاسکتا تھا۔ گھر میں آکر ایسی بات کرنا کروڑوں پاکستانیوں کی توہین کے مترادف ہے۔ امریکی کسی نہ کسی طرح لوگوں کو ذلیل کرتے رہتے ہیں، میرے نزدیک ٹلرسن کی پاکستان آمد ہمیں نیچا دکھانے کے زمرے میں آتی ہے۔ پاکستانی عسکری قیادت اور سیاسی قیادت کا ایک ساتھ ٹلرسن سے ملنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ٹلرسن کا وقت بڑا قیمتی ہے اس لیے دونوں قیادتوں سے ایک ساتھ مل کر وقت بچایا جائے۔ امریکی وزیر خارجہ کے اس رویّے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُس نے ہماری اعلیٰ قیادت کی توہین کی ہے۔ جنوبی ایشیا کے دورے پر آئے امریکی وزیر خارجہ کے انداز نے ہر پاکستانی کی توہین کی۔ ہزاروں پاکستانیوں کی شہادت کے بعد بھی امریکا کی طرف سے ہمیں ہی خطے میں امن وامان کی خرابی کا ذمے دار ٹھیرانا سازشی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ چالیس سال سے کسی دائرے میں چکر لگانے سے بہتر ہے کہ بخشو کے تجزیے کے مطابق ڈومور کی خواہش پوری کرتے ہوئے امریکا کو تھرپارکر کے دومور بھجوا دیے جائیں، اُن کی طرف سے دیے گئے پیغامات کو سمجھنے کے بجائے اپنی سوچ کے مطابق فیصلے کیے جائیں۔ ہمارے وزیراعظم کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ماضی میں اوجڑی کیمپ کا جو واقعہ ہوا تھا جس کے نتیجے میں اُن کے والد خاقان عباسی صاحب کی شہادت ہوئی، وہ بھی ڈومور کا ہی شاخسانہ تھا۔ آخر کب تک ہم کسی کی بنائی ہوئی پالیسیوں اور اشاروں پر چلتے رہیں گے؟ زندہ قومیں بڑے فیصلے کیا کرتی ہیں اور پھر امریکی قوم کا تو یہ ماضی رہا ہے کہ جس نے سخت مؤقف اپناتے ہوئے امریکیوں کو آنکھیں دکھائیں وہ کامیاب رہا۔ شمالی کوریا کی جانب سے دیا گیا جواب ہمارے سامنے ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ دنیا کو بتادیا جائے کہ ہم ایٹمی طاقت ہیں، کسی کو ہماری طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت نہیں کرنی چاہیے۔ اینٹ کا جواب پتھر سے دے کر ہی ظالموں سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے، وگرنہ ہر آنے والے دن کے ساتھ امریکا جنوبی ایشیا پر بھارتی تسلط قائم کروانے کی پالیسیاں بناتا رہے گا۔ ہم ایک بہادر اور عزت دار قوم ہیں، کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ ہم پر اپنی مرضی کے فیصلے مسلط کرے۔ دوستی برابری کی بنیاد پر ہونی چاہیے، نہ اس سے کم نہ اس سے زیادہ۔ خطے میں خرابی کی اصل وجہ افغانستان میں بڑھتی بھارتی دخل اندازی ہے۔ پاکستان کے بغیر خطے میں امن کا تصور بے معنی ہے۔ خطے میں امن قائم کرنے کے لیے بھارت کی مداخلت ختم کرنا ہوگی اور پاکستان اور افغانستان کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ پاکستان چالیس سال سے افغانستان کے حالات کی وجہ سے معاشی اور سیاسی طور پر خاصا نقصان برداشت کرتا چلا آرہا ہے۔ خطے میں پائیدار امن کے لیے فوری طور پر ہماری عسکری و سیاسی قیادت کو سر اٹھا کر ملک و قوم کے بہتر مستقبل اور دائمی امن کے لیے فیصلے کرنے ہوں گے تاکہ روز روز کے سر درد سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکے۔
٭٭٭

حصہ