اخبارِ ادب

799

ڈاکٹر نثار احمد نثار
سہ ماہی ادبی رسالہ غنیمت کراچی اور گجرات سے شائع ہوتا ہے اس کے روح رواں اکرم کنجاہی ہیں جو کہ ممتاز شاعر و ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین نظامتِ کار بھی ہیں‘ ان کے کئی شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں نثر میں بھی ان کی متعدد کتابیں ہیں۔ حضرت راغب مراد آبادی کے فن و شخصیت پر بھی انہوں نے ایک کتاب لکھی ہے ان خیالات کا اظہار پروفیسر منظر ایوبی نے سہ ماہی غنیمت مشاعرے میں اپنے صدارتی خطبے میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ نئی نسل شعرا کی شاعری سے اندازہ ہوتا ہے کہ شعر و ادب کا مستقبل تابناک ہے ادب روبہ زوال نہیں ہے بلکہ ترقی کا سفر جاری ہے۔ نوجوان نسل شعرا کی حوصلہ افزائی کرنا ہماری اخلاقی ذمے اری ہے۔ اس مشاعرے کے مہمان خصوصی اسلام آباد سے تشریف لائے ہوئے ممتاز شاعر‘ کالم نگار ڈاکٹر زاہد حسین چغتائی نے کہا کہ اردو ادب کا کثیر سرمایہ نظم کی صورت میں موجود ہے تاہم نثر کے حوالے سے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں اس وقت ادبی محفلیں خظب سجائی جارہی ہیں یہ شہر علم دوست لوگوں کا شہر ہے یہاں اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی کے لیے کام ہو رہا ہے۔ آج کی محفل میں بہت اچھی شاعری سامنے آئی ہے اس تقیب کے مہمانان اعزازی پروفیسر ڈاکٹر طارق ہاشمی (فیصل آباد)‘پروفیسر ڈاکٹر اصغر بلوچ اور آغر ندیم سحر (لاہور) تھے۔ ان صاحبانِ عقل و دانش نے اپنے اشعار سنانے سے قبل کہا کہ کراچی کے نوجوان شعرا کو سن کر بہت خوشی ہوئی ان شعرا نے جدید لفظیات کو غزل کا حصہ بنایا ہے ان کی یہاں غزل کے تمام محاسن موجود ہیں یہ نوجوان شعرا ہمارا سرمایہ ہیں۔ قوموں کے عروج و زوال میں نئی نسل اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اکرم کنجاہی نے اس مشاعرے کی نظامت کی۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ میرے کچھ دوست کراچی آئے ہوئے تھے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر میں نے شعری نشست کا اہتمام کیا ہے تاکہ کراچی کے ابھرتے ہوئے شعرا کو سنا جاسکے۔ انہوں نے صدر مشاعرہ اور مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور اپنے ادارے کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا مقصد اردو زبان و ادب کا فروغ ہے ہم ادب کے خدمت گزار ہیں‘ شاعری ہماری رگوں میں دوڑ رہی ہے۔ شاعری اور مشاعرے ہماری تہذیب کا حصہ ہیں اچھی شاعری سن کر خوشی محسوس ہوتی ہے کسی بھی معاشرے کی پہچان اس کے قلم کار ہوتے ہیں کیوں یہ طبقہ معاشرتی مسائل لکھتا ہے لوگوں کو خواب دکھاتا ہے اچھے مستقبل کی نوید سناتا ہے قوم و ملک کے حالات بہتر بنانے کی تجاویز دیتا ہے۔ انہوں نے اس موقع پر صاحب صدر کے بارے میں کہا کہ پروفیسر منظر ایوبی ہمہ جہت شخصیت ہیں ہمیں فخر ہے کہ ہم آج ان کے ساتھ مشاعرے پڑھ رہے ہیں ان کی علمی و ادبی خدمات سنہرے حروف سے لکھی جارہی ہیں۔ زاہد حسین چغتائی نوائے وقت اسلام آباد کے کالم نگار ہیں‘ ماہر تعلیم ہیں ان کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے جارہے ہیں۔ ڈاکٹر طارق ہاشمی‘ فیصل آباد یونیورسٹی میں اردو کے پروفیسر ہیں شاعری کے علاوہ نثر میں بھی ان کا طوطی بولتا ہے۔ غالب و مولانا صلاح الدین پر ان کے تحقیقی و مطالعاتی مقالے جات ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہیں جدید غزل‘ جدید نظم کے حوالے سے بھی یہ معتبر شخصیات میں شامل ہیں۔ ڈاکٹر اصغر بلوچ فیصل آباد یونیورسٹی کے سابق صدر ہیں اقبال اور فیض پر ان کا تحقیقی کام موجود ہے ان کے کئی شعری مجموعے اشاعت پذیر ہوچکے ہیں۔ آغا ندیم سحر روزنامہ نئی بات لاہور کے صحافی ہیں لوحِ ادراک کے نام سے وہ سرگودھا یونیورسٹی میں تحقیقی کام کر رہا ہے اس موقع پر مشاعرے کے آرگنائزر سحر تاب رومانی نے کلمات تشکر ادا کیے انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے مشاعرے میں شہر کے تمام شعرا شریک ہوں اس لیے ہم ہر بار مشاعرے میں کچھ نئے شعرا کو دعوت دیتے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں بڑی خوشی ہے کہ آج ہمارے درمیان بیرون شہر کی چند معتبر شخصیات موجود ہیں۔ اس مشاعرے میں صاحب صدر‘ مہمان خصوصی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ جن شعرا نے کلام پیش کیا ان میں ڈاکٹر مختار حیات‘ اختر سعیدی‘ حنیف عابد‘ رانا خالد محمود قیصر‘ شاعر علی شاعر‘ سحر تاب رومانی‘ کاشف حسین غائر‘ حامد علی سید‘ نجیب عمر‘ صدیق راز ایڈووکیٹ‘ افضل ہزاروی‘ آئرن فرحت‘ شگفتہ شفیق‘ آزاد حسین آزاد‘ تنویر سخن‘ ندیم سحر‘ الحاج نجمی اور کامران طالش شامل تھے۔
…٭…
اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے شمشیر الحیدری ہال میں یادِ رفتگاں کے سلسلے میں ممتاز شاعرہ ’’پروین شاکر‘‘ کے حوالے سے مذاکرے کا اہتمام کیا گیا بعدازاں شعری نشست منعقد ہوئی۔ اس تقریب کے صدر ایاز محمود تھے ظفر محمد خاں ظفر مہمان خصوصی تھے‘ اختر سلیم سید مہمان اعزازی تھے جب کہ قادر بخش سومرو نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ ایاز محمود نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ اردو ادب میں جن خواتین نے عزت و شہرت پائی ان میں سے پروین شاکر بھی شامل ہیں وہ جواں فکر شاعرہ اور صاحبِ اسلوب نثر نگار بھی تھیں وہ چار شعری مجموعوں اور بے شمار نثری تحریروں کی خالق تھیں ان کا تعلق علمی و ادبی گھرانے سے تھا وہ ایک متوسط طبقے کی خاتون تھیں انہوں انگریزی ادب میں ایم اے کیا تھا وہ بیورو کریسی کا حصہ تھیں ان کی موت سے ہم ایک عظیم شخصیت سے محروم ہوگئے ہیں۔ اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر قادر بخش سومرو نے استقبالیہ کلمات ادا کرتے ہوئے پروین شاکر کے فن و شخصیت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پروین شاکر 24 نومبر 1952ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں ان کا خاندانی نام پروین بانو تھا جب کہ یہ پروین شاکر کے نام سے مشہور ہوئیں ان کے والد کا نام شاکر حسین تھا جو کہ بھارت سے ہجرت کرکے کراچی آئے تھے۔ شاعری کے ابتدائی دنوں میں پروین شاکر کا تخلص ’’بینا‘‘ تھا۔ وہ ایک باصلاحیت شاعرہ تھیں انہوں نے اپنے زمانۂ طالب علمی میں مختلف شعری مقابلوں میں حصہ لیا اور انعامات حاصل کیے وہ ریڈیو پاکستان کے فی البدیہہ مقابلوں میں بھی شریک ہوتی تھیں وہ انگریزی ادب کی دلدادہ تھیں تاہم اردو ادب میں ان کی گراں قدر خدمات سے انکار ممکن نہیں۔ ان کی ایک کلیات ’’ماہِ تمام‘‘ کے نام سے شائع ہوئی جس میں ان کے چار شعری مجموعے ’’خوشبو‘‘ ’’صدِ برگ‘‘ خود کلامی‘‘ اور انکار‘‘ سے منتخب اشعار لیے گئے ہیں۔
اس تقریب کے دوسرے دور میں شعری نشست ہوئی جس میں ظفر محمد خان‘ عرفان عابدی‘ ضیاء شہزاد‘ قادر بخش سومرو‘ عبدالمختار‘ شاہینہ ملک صدیقی‘ زیب النساء زیبی اقبال سہوانی‘ غازی بھوپالی‘ جمیل ادیب سید نشاط غوری‘ طاہرہ سلیم سوز‘ عشرت حبیب‘ نجیب عمر‘ تنویر سخن‘فہمیدہ مقبول‘ آزاد حسین آزاد زینت کوثر لاکھانی‘ نصیر سومرو‘ سلیم حامد‘ شاہدہ عروج‘ اقبال رضوی‘ سید مہتاب شاہ‘ اقبال افسر غوری‘ قاضی دلشاد‘ اسلم حنیف صدیق راز ایڈووکیٹ‘ خالد نور‘ محمد اقبال‘ مہر جمالی اور دیگر نے اپنا کلام نذرِ سامعین کیا۔
…٭…
تقدیس ادب پاکستان ہر ماہ محفل مشاعرہ سجاتی ہے اسی تسلسل میں پروفیسر منظر ایوبی کی صدارت میں محفل نعت و مسالمہ کا اہتمام کیا گیا جس میں فہیم اختر جارجوی مہمان خصوصی تھے اور مہمانان اعزازی شاہد جعفر آفتاب مضطر اور اختر سعیدی تھے۔ نظامت کے فرائض احمد سعید خاں نے انجام دیے سید آصف رضا رضوی نے خطبۂ استقبالیہ دیا اور فیاض علی فیاض نے کلمات تشکر ادا کیے۔ مشاعرے میں صاحب صدر‘ مہمان خصوصی‘ مہمانان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ سید آصف رضا رضوی‘ فیاض علی فیاض‘ سید علی‘ اوسط جعفری‘ صدیق راز ایڈووکیٹ‘ عبدالمجید محور‘ کشور عدیل جعفری‘ شاعر حسین شاعر‘ رشید خاں‘ یوسف اسماعیل‘ عامر شیخ‘ نشاط غوری‘ جمال احمد جمال‘ آسی سلطانی‘ علی کوثر‘ شاہین شمس زیدی‘ جوہر عباس‘ عاشق شوکی‘ آغا ذیشان‘ عزادار حسین‘ تنویر سخن‘ اظہار زیدی‘ زاہد علی سید‘ وسیم احسن اور اختر انجم نے اپنا اپنا کلام سنایا۔ صاحب صدر نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ مذہبی مشاعری میں نعت و مسالمہ انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ نعت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصافِ حمیدہ بیان کیے جاتے ہیں جب کہ مسالمہ کے تحت ہم کربلا کے واقعات نظم کرتے ہیں ان دونوں اصنافِ سخن میں غلو کی گنجائش نہیں ہے‘ ہمیں چاہیے کہ ہم جذبات کی رو میں بہہ کر حقائق سے رو گردانی نہ کریں۔ حضرت امام حسین نے کربلا میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے یزیدی قوتوں کو یہ پیغام دیا کہ کربلا حق و باطل کے درمیان حد فاصل ہے۔
…٭…
اختر سعیدی صحافی و شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ادبی پروگراموں کے آرگنائزر بھی ہیں ان کی ادبی تنظیم ادارۂ فکر نو نے 22 اکتوبر 2017ء اتوار کے دن اپنے دفتر میں محفلِ مسالمہ کا اعلان کیا تا لیکن انہیں چکن گونیا ہوگیا جس کی وجہ سے وہ پروگرام ملتوی کرنا پڑا تاہم اتوار کے دن ان کی عیادت کے لیے کچھ شعرا جمع ہوگئے اور ایک شعری نشست ہوئی۔ رشید اثر نے صدارت کی‘ رشید خالد رشید نے نظامتی فریضہ انجام دیا اس موقع پر صاحب صدر نے کہا کہ اختر سعیدی ایک علم پرور خانوادے کے چشم و چراغ ہیں ان کے والد‘ چچا اور بھائی شاعر تھے اسی طرح شاعری اختر سعیدی کو ورثے میں ملی ہے ان کے تین شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں چوتھے کی تیاری جاری ہے۔ انہوں نے مزید کہا اختر سعیدی بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں لیکن انہوں نے ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ کراچی کی ادبی تقریبات کی کوریج کے حوالے سے اور علم و ادب کے مشاہیران کے انٹرویوز کے حوالے سے صحافتی دنیا میں ان کا نام روشن ہے ان کا ادارہ اردو ادب کے فروغ میں مصروف عمل ہے ان کے کریڈٹ پر متعدد شاندار تقریات ہیں۔ مشاعرے میں صاحبِ صدر‘ ناظم مشاعرہ کے علاوہ جن شعرا نے اپنے اشعار پیش کیے ان میں محمد علی گوہر‘ نثار احمد نثار‘ شاہد اقبال شاہد‘ علی کوثر‘ عاشق شوکی‘ جمیل احمد نور‘ عطا اللہ‘ رضی خان اور راحیل احمد شامل تھے۔
…٭…
تحریکِ نفاذ اردو کراچی کے زیر اہتمام ممتاز شاعر و گلوکار اعجاز توکل کے اعزاز میں تقریب کااہتمام کیا گیا جس کی صدارت سابق چیف جسٹس حاذق الخیری نے کی۔ اظہار خیال کرنے والوں میں ڈاکٹر عالیہ امام‘ فراست رضوی‘ ڈاکٹر نزہت عباسی‘ پروفیسر شہباز نیر بشریٰ ناز اور قندیل جعفری شامل تھے۔ تلاوتِ کلام مجید کی سعادت سلیم ایڈووکیٹ نے حاصل کی اور ہما ناز نے نعت رسولؐ پیش کی۔ ڈاکٹر جاوید منظر نے نظامت کے فرائض انجام دیے اور صاحب اعزاز کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ اعجاز توکل نے 1978ء میں اپنی شاعری کا آغاز کیا ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’تم نے چاہا ہی نہیں‘‘ 1999ء میں اور دوسرا مجموعہ ’’ہوا میں پھول کھلے‘‘ 2017ء میں شائع ہوا ہے۔ یہ گوالیار کے ایک ممتاز گائیک خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اس وقت فیصل آباد زرعی یونیورسٹی میں موسیقی کے استاد کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ تحریکِ نفاذ اردو کے صدر نسیم شاہ ایڈووکیٹ نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اعجاز توکل اردو کے اہم شاعر ہیں اور اردو ادب کے فروغ میں مصروف عمل ہیں ہماری تنظیم کے منشور میں یہ شامل ہے کہ ہم ان شخصیات کے اعزاز میں محفلیں سجاتے ہیں کہ جو زبان ادب کی خدمت کر رہے ہیں۔ آج کی تقریب پزیرائی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ان کی شاعری زندگی سے جڑی ہوئی ہے ان کے کلام میں غم جاناں اور غم زمانہ موجود ہیں یہ ایک حساس آدمی ہیں اپنے اردگرد کے مناظر کو شاعری بنا کر پیش کر دیتے ہیں۔ یہ گلوکاروں کی فہرست میں ممتاز مقام کے حامل ہیں۔ تحریکِ نفاذ اردو کے صدر نے مزید کہا کہ مقام افسوس یہ ہے کہ کورٹ کی ہدایت کے باوجود بھی اردو زبان سرکاری زبان نہیں بن سکی۔ آج بھی دفتری کارروائی انگریزی میں ہوتی ہے۔ اردو زبان کے نفاذ میں تمام دشواریوں کو دور کیا جائے اور اردو کو عملی طور پر سرکاری دفاتر اور دیگر اداروں میں رائج کیا جائے۔ صاحب صدر نے اپنے خطبے میں کہا کہ آج ہم تحریک نفاذ اردو کے توسط سے اعجاز توکل سے ملاقات کا شرف حاصل کر رہے ہیں ان کی شاعری کے خدوخال ہمارے سامنے آرہے ہیں جن سے پتا چل رہا ہے کہ یہ ایک صاحبِ اسلوب شاعر ہیں اور لفظوں کے برتنے کا ڈھنگ جانتے ہیں ان کی شاعری میںمثبت اور رجائی نقطۂ نظر ملتا ہے۔ڈاکٹر عالیہ امام نے کہا کہ اعجاز توکل کی شاعری میں شعور و فکر کے باب روشن ہیں ان کی شاعری ہمارے ذہن و دل کو متاثر کرتی ہے۔ فراست رضوی نے کہا کہ اعجاز توکل کے یہاں شاعری و موسیقی کا التزام موجود ہے جو انہیں اپنے ہم عصر شعرا میں ممتاز کرتا ہے ان کے لہجے میں احساس کی سلگتی ہوئی روشنی ہے۔ انہوں نے کربلا کے استعارے کو غزل کے خوب صورت پیراہن میں ڈھال کر کمال کیا ہے۔ تحریک نفاذِ اردو کی معتمد خاص ڈاکٹر نزہت عباسی نے کہا کہ اعجاز توکل غزل کے شاعر ہیں ان کا اپنا اسلوب ہے‘ ان کا منفرد لہجہ ان کی ندرتِ فکر کا عکاس ہے ان کے کلام میں تازگی و توانائی ہے‘ یہ غزل کی لفظی آرائشوں اور معنی تہہ داریوں میں بہت کچھ کہہ جاتے ہیں ان کے یہاں زبان و بیان کی خوبیاں موجود ہیں ان کے کلام میں سادگی کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح کی چاشنی بھی ہے۔ پروفیسر شہباز نیر نے کہا کہ اعجاز توکل کی شاعری میں شعیت اور غنائیت پائی جاتی ہے یہ سات سروں کے بادشاہ ہیں انہوں نے بے شمار گیت و غزلیں گائی ہیں‘ یہ جس محفل میں جاتے ہیںشمع محفل بن جاتے ہیں۔ بشریٰ ناز نے کہا کہ اعجاز توکل چھوٹی چھوٹی بحروں میںشعر کہنے کے فن میں مہارت رکھتے ہیں وہ ایک اصول پسند شخص ہیں اور محبتوں کے سفیر ہیں۔ قندیل جعفری نے کہا کہ اعجاز توکل باکمال شاعر اور بہترین کلوگار ہیںانہوں نے بھی ان سے بہت کچھ سیکھا یہ موسیقی میں میرے استاد ہیں ان کی غزلوں میں نئے نئے مضامین ملتے ہیں۔ انہوں نے ہر صنفِ سخن میں میں خوش رنگ پھول کھلائے ہیں۔ اس موقع پر صاحب اعزاز اعجاز توکل نے تحریکِ نفاذ اردو کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے ان کے لیے ایک شاندار محفل سجائی انہوں نے اپنی غزلیں سنا کر سامعین سے داد وصول کی۔ آخر میں شاہین حبیب نے کلماتِ تشکر ادا کیے۔
…٭…
گورنمنٹ ڈگری کالج حیدرآباد کے صد سالہ جشن کے موقع پر کُل پاکستان مشاعرہ کا اہتمام کیا گیا‘ مجلس صدارت میں رسا چغتائی‘ پروفیسر سحر انصاری‘ پروفیسر عنایت علی خان اور سرفراز شاہد شامل تھے۔ رضوان صدیقی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ کالج کے پرنسپل ڈاکٹر ناصرالدین شیخ نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج ہمارے کالج میں علم و ادب کی کہکشاں موجود ہے ایک زمانہ تھا کہ ہمارے کالج کی تقریبات میں پروفیسر انوار احمد زئی اور رضوان صدیقی رونق افروز ہوا کرتے تھے انہوں نے مزید کہا کہ وہ تمام شرکا محفل کے شکر گزار ہیںکہ جن کی وجہ سے آج کی تقریب کامیاب ہوئی۔ تقریب کے مہمان خصوصی حیدرآباد بلدیہ کے میئر طیب حسین نے کہا کہ مشاعروںکی روایات ہر زمانے میں زندہ رہی ہے کیوں کہ مشاعرہ وہ ادارہ ہے کہ جہاں علم و آگہی کے چراغ روشن ہوتے ہیں۔ مشاعرے میں رسا چغتائی‘ پروفیسر سحرانصاری‘ پروفیسر عنایت علی خان‘ سرفراز شاہد‘ میجر شہزاد نیر‘ ایاز گل‘ ڈاکٹر جاوید منظر‘ اختر سعیدی‘ سلمان صدیقی‘ آفتاب مضطر‘ عنبرین حسیب عنبر‘ حمیرہ راحت‘ ڈاکٹر نزہت عباسی‘ محسن سلیم‘ روبینہ تحسین بینا‘ ڈاکٹر عتیق جیلانی‘ ریحان بنارسی‘ الیاس شاہد‘ راشد نور‘ فاروق مغل‘ عبدالشکور آسی‘ شوکت نوید‘ شوکت علی شوکت‘ زیب نظامی‘ نسرین الطاف‘ رخسانہ پربت‘ وقار احمد وقار‘ مرزا عاصی اختر‘ نوید سروش‘ امتیاز الحق امتیاز‘ امین اڈیرائی‘ وسیم سومرو اور دیگر شامل تھے۔

حصہ