دل ٹوٹ کر گر گیا

230

مدیحہ صدیقی
زندگی کی حقیقت کو جانا تو ہے
پر میں کمزور تھا ٹوٹ کر گر گیا
بجلیوں کے مقابل کھڑا تھا شجر
بس ہوا جو چلی ٹوٹ کر گر گیا
تھا بلندی پر جانے کا تم کو جنوں
چند لمحوں میں حوصلہ ٹوٹ کر گر گیا
جب بہاروں کی امید دھندلا گئی
بیچ رستے میں دل ٹوٹ کر گر گیا
ہاں بہت ناز تھا اپنی تقریر پر
ڈھیر الفاظ کا ٹوٹ کر گر گیا
٭٭٭

حصہ