سرسید احمد خان کا جشنِ دو صد سالہ اور معصوم سی الجھن

349

نون۔ الف
(دوسرا حصہ)
سر احمد خان اور جشن دو صد سالہ کے حوالے سے گزشتہ مضمون میں ہم نے اپنی ایک معصوم سی الجھن کا تذکرہ کیا تھا ، وہ بھی اس خیال سے کہ کوئی تو ہو جو میرے جیساتاریخ کے طالبعلم کے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کا جواب دے سکے ۔ مگر مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ جشن دو صد سالہ کے ہنگاموں اور تعریف و توصیف کے ماحول میں کسی کے پاس اتنا وقت کہاں ہوگا کہ وہ اس موقع پر ایک لمحے ٹہر کر اس جانب توجہ دے سکے ۔
میرے پہلے سوال کے ذیل میں چند اور سوالات ہیں جو پچھلے مضمون میں نہیں آسکے تھے ۔اب پیش خدمت ہیں ۔
پہلے مرحلے پر تو ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سرسید احمد خان کو حالات کا دھارا تبدیل کرنے والی شخصیت مانا بھی جائے یا صرف نظر کرلیا جائے ؟
کیونکہ مسئلہ یہ ہے کہ سر سید احمد خان کی شخصیت کا بطور مصلح ( ریفارمر ) پیش کیا جانا اس بات کا تقاضاکرتا ہے کہ انہوں نے جو کام کیے وہ ان سے پہلے کسی نے نہ کیے ہوں ۔ اسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سر سید احمد خان ہندوستان کے پہلے آدمی نہیں تھے جنھوں نے تعلیمی بیداری اور تعلیمی نظام میں اصلاحات کی بات کی ہو ۔ سر سید سے پہلے یہ کام ہندوستان میں “راجہ رام موہن رائے’ کرچکے تھے
راجہ رام موہن رائے ( پیدائش 1774 ۔ انتقال 1833) ایسٹ انڈیا کمپنی کے عہد میں برصغیر کے ایک بہت بڑا مصلح ِ قوم، عربی و فارسی کے عالم اور مغربی تمدن کے پرچارک۔ بنگال سے تعلق رکھنے والا یہ خاندان پانچ پشتوں سے صوبے کے مغل حکمرانوں سے وابستہ تھا۔ موہن رائے نے قرآن شریف ، فقہ ، اسلامی دینیات اور علم مناظرہ پر عبور حاصل کیا۔ نیز ارسطو کے عربی تراجم اور معتزلہ کی تصانیف کے مطالعے کا بھی موقع ملا۔ ، صوفیوں کی کتابیں بھی پڑھیں اور وحدت الوجود کے فلسفے سے اتنا متاثر ہوا کہ بْت پرستی کی مخالفت اس کی زندگی کا مشن بن گئی۔
رام موہن رائے کو برطانوی اقتدار سے سخت نفرت تھی لیکن کلکتہ میں قیام کے دوران جب اس کو انگریزی قوانین اور طریقِ حکومت کے مطالعے کا موقع ملا تو اس نے محسوس کرلیا کہ غیر ملکی غلامی کا طوق انگریزی تعلیم اور مغربی علوم کی تحصیل کے بغیر گلے سے اْتار ا نہیں جاسکتا ، لہٰذا اس نے انگریزی زبان سیکھی جس سے واقفیت کے باعث مغربی علم و حکمت سمجھنے کا موقع ملا ۔ موہن رائے پندرہ برس تک کمپنی سے وابستہ رہا مگر 1815 میں پنشن لے لی اور سارا وقت سماجی کاموں میں صرف کرنے لگا ۔ راجہ موہن رائے نے ہندو مذہب میں موجود جاہلانہ رسم و رواج میں اصلاح کی غرض سے 1828 میں برہمو سماج کی تنظیم قائم کی اور ہندو معاشرے میں جو برائیاں پیدا ہوگئی تھیں ان کے خلاف مہم شروع کردی۔ بالاخر ” ستی ” کی رسم (جس میں ہندو بیوہ کو مردہ شوہر کی چتا ( جنازے کے ساتھ ہی زندہ جلا دیا جاتا تھا ) کا قانونی طور پر خاتمہ ہوا ۔
سر سید احمد خان گویا راجہ رام موہن رائے کے” فٹ پرنٹ” پر چل رہے تھے ۔ فرق صرف یہ تھا کہ راجہ رام موہن داس نے ہندؤں کے لیے کام کیا اور سرسید نے مسلمانوں کے لیے اس جدوجہد کو شروع کیا ۔
دوسری اہم ترین بات یہ بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ مسلمانوں میں دنیوی اور عصری تعلیم سیکھنے کا شعور اور ترغیب توسب سے پہلے امام غزالی ؒنے دلائی اور تیزی سے یلغار کرتے یونانی خیالات اور باطل فلسفوں کا مقابلہ کیا ۔ امام غزالی ؒکے بعد شاہ عبدا لعزیز نے اس کام کو آگے بڑھایا ۔
اس لحاظ سے سرسید احمد خان کو عصری علوم کی ترغیب دلانے والا اولین فرد کہا ہی نہیں جاسکتا ۔
سر سید احمد خان کے نزدیک عصری علوم حاصل کریں کا معاملہ صرف یہ تھا کہ کسی طرح انگریز کو یہ باور کرایا جائے کہ ہر مسلمان ان کا دشمن نہیں بلکہ خیر خواہ ہے ۔اور اس نے اس کام میں عافیت سمجھی ہے کہ انگریز کا دوست بن کر رہے ۔ اس طرح کا کمپرومایئز نگ ( معذ رت خواہانہ رویہ بہرحال نہ تو راجہ موہن رائے نے اپنایا نہ ہی کسی بھی مسلمان عالم اور سائنس دان نے )
پھر یہ ما ن لینے میں ہرج ہی کیا ہے کہ موہن رائے کی تحریک سے متاثر ہوکر سر سید احمد خان نے بھی موہن رائے کی طرز پر مسلمانوں کے لیے ریفارمر بننے کا انتخاب کیا ہوگا ۔اور من موہن رائے کی طرح بعد میں سرسید نے مسلمانوں کو انگریز حکمرانوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی اسی طرح اس دور میں جب سر سید احمد خان نے یہ کام شروع کیا تب سا ری دنیا کسی نہ کسی اعتبار سے کالونِیکل سسٹم کے پنجے میں جکڑی ہوئی تھی ۔ کیا ا ن حالات میں ہندوستان کے علاوہ کسی اور علاقے میں وہاں کا سر سید پیدا ہوا ؟
میں نے تو بہت غور کیا مجھے ماسوا ترکی کے مصطفی کمال پاشا کے کوئی ایک فرد ایسا نہیں ملا جس نے اس قسم کی ابتلاء میں ہونے کے باوجود سرسید جیسی سوچ اپنائی ہو ۔ اورمصطفی پاشا کو ن سا ریفارمر تھا ؟ ۔اسلا م دشمنی اور انگریز سے وفاداری کے علاوہ تو کوئی قدر مشترک دکھائی نہیں دیتی ۔البتہ مصطفی کمال پاشا کے نظریات سے جان چھڑانے کے بعد ترکی حقیقت میں نشاۃ ثانیہ کے دور میں داخل ہوا جو اب تک جاری ہے ۔
کی دوسری نوآبادیوں نے بھی اپنی زبان سے رشتہ توڑ کر فرنگی زبان اپنائی ؟ ہو تو معلومات میں اضافہ ہوجائے گا ۔
اسی طرح جب میں سر سید احمد خان کو ایک شخصیت کے روپ میں دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں تو یہ بھی سوچتا ہوں کہ کیا کوئی شخصیت مثبت عمل پیہم کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے رد عمل کے نتیجے میں ؟
شخصیت سازی کا عمل ہمیشہ ایک مسلسل مثبت جدوجہد کا متقا ضی ہے ۔ جبکہ سر سید احمد خان ’’معذرت کے ساتھ ر‘‘د عمل کے نتیجے میں سامنے آئے ۔ مسلمانوں کی سلطنت زوال پزیر ہوئی ۔انگریز نے جبری قبضہ کیا اور اس کے نتیجے میں مسلمان احساس محرومی کا شکار ہوئے ۔ اس طرح ایک عمل کے ردعمل نے سر سید جیسی سوچ پیدا کی ۔ اس سوچ کو شخصیت کا نام کیونکر دیا جائے ؟
کیا کیا جائے کہ جب بھی سر سید احمد خان کو ایک شخصیت سمجھ کر ان کی پوری زندگی کا اجمالی جائزہ لیتا ہوں تو سر سید کے لڑکپن میں بازاروں اور کوٹھوں کے تذکرے بھی ملتے ہیں ۔ آثار الصنادید کی تعریف تو اپنی جگہ درست مگر نگاہ بھٹکتی بھٹکا تی ” اسباب بغاوت ہند ” اور تفسیر قرآن پر بھی جانکلتی ہے ۔ اس پہلو کو نظر انداز کیا تو جا سکتا ہے مگر دل گوارا نہیں کرتا ۔
اگر انگریزی ادب کا اردو ترجمہ اور اردو ادب کو انگریزی میں ترجمہ کرنے کی” خدما ت عظیمہ “دیکھتا ہوں تو تعریف کرنے سے پہلے ایک لمحے کو سوچنا پڑتا ہے ہے یہ ترجمے مسلمانوں کی مجبوری تھے یا نووارد انگریز کی ؟
اور پھر مجھے ورینکلر تھیوری کو بھی پڑھنا پڑتا ہے ۔ جس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نوآبادیاتی نظام میں ” غلاموں کی زبان ” کا سیکھنا حکمران غاصب طبقے کے لیے کتنا ضروری ہوتا تھا ۔
کسی کی ذات کو شخصیت ماننے کے لیے تاریخ ہمیشہ نہایت سفاکی کے ساتھ اس کی پوری زندگی کا احاطہ کرتی ہے ۔ اب تاریخ کا یہ کلیہ میں اور آپ تو تبدیل کرنے سے رہے ۔ !

حصہ