اسلام کا سرچشمۂ قوت

650

حبیب الرحمن
عروج و زوال کی داستانوں کا جب جب بھی اور جہاں جہاں بھی ذکر آئے گا، خواہ وہ عام مجلس ہو یا تاریخ کے اوراق، مسلمانوں کی داستان مد و جزرکا ذکر ہمیشہ سر فہرست رہے گا۔ ہر قوم عروج بھی حاصل کرتی ہے اور زوال بھی اس کے مقدر میں لازماً آتا ہے لیکن داستان اسلام ان سب سے بہت مختلف و منفرد مقام رکھتی ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں ہر اس قوم نے جس نے ایک مرتبہ بھی اپنے عروج کو اگر چھو بھی لیا تو وہ اس طرح روبزوال ہوئی کہ دھول مٹی بن کر رہ گئی اور اپنی پوری کی پوری تہذیب و تمدن کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پیوندخاک ہو کر رہ گئی۔
تاریخی مقامات کی کھدائیوں میں دریافت ہونے والے پورے کے پورے شہر اور چھوٹے بڑے آثار اس بات کے گواہ ہیں کی دنیا پر حکومتیں کرنے والی اقوام اپنی ساری تہذیب کے ساتھ اس طرح مدفون ہوئیں کہ دنیا کے نقشے میں انھیں دوبارہ ابھرنے کاموقعہ ہی نہ مل سکا۔
اسلامی سلطنت بھی بلاشبہ اپنے 23سالہ خلافت کے بعد اپنی اسلامی تعلیمات کے خد و خال کو بر قرارنہ رکھ سکی اور خلافت کو ملوکیت میں تبدیل کرتی چلی گئی لیکن اس کے باوجود بھی مسلمان سلاطین اسلامی تعلیمات اور خدا خوفی سے اتنے سر شار تھے کہ انھوں نے اپنے طرز حکومت اور نظام عدل و انصاف کو اللہ کے احکامات کے اتنا نزدیک تر رکھا کہ ان کی سلطنت میں آجانے والے اسلام سے اور حکمرانوں کے نظام عدل و انصاف سے متاثر ہوکر جوق در جوق حلقہ بگوش اسلام ہوتے چلے گئے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسا دور خلافت جس کا اسلام تقاضہ کرتا ہے وہ تو کبھی لوٹ کر نہیں آسکا لیکن یہ واحد ملت، قوم اور تہذیب ہے جو تمام تر زوال کے باوجود بھی نہ تو ختم ہوئی اور نہ ہی اس میں شامل ہونے والوں کا سلسلہ کسی بھی دور میں میں رک سکا یا روکاجاسکا اور نہ ہی کبھی ایسا دیکھنے میں آیا کہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی تحریکیں چلنا بند ہو گئی ہوں۔
تیرہ سو سال سے زائدکا عرصہ گزرجانے کے باوجود اور انگریزوں کی غلامی میں 200سال گزار نے کے باوجود اسی بر صغیر انڈ و پاک میں مسلمانوں نے فرنگی نظام اور احیائے اسلام کے لیے فرنگیوں سے بڑے بڑے معرکے لڑے، اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کا انجام ان کوششوں کے مطابق نہیں ہو سکا جن کے لیے قربانیاں دی گئیں لیکن اس کے باوجود بھی عزم و حوصلے کو شکست کوئی نہ دے سکا چنانچہ 1857؁ء کی جنگ آزادی ہو یا تحریک خلافت، مسلمانانِ ہندفرنگیوں کے نظام ظلم و ستم کے آگے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح مصروف جہاد رہے اور اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی جد و جہد سے ایک لمحے کے لیے بھی غافل نہ رہے اور پھر دنیا نے دیکھا کہ اسی کفر و الحاد کی تنگ و تاریک وادی جس کو بر صغیر کہا جاتا تھا اور جس میں ہند اور فرنگیوں کا راج تھا ، مسلمانوں نے بے پناہ قربانیاں دے کر ایک خطۂ زمین حاصل کیا جس کو آج پاکستان کہا جاتا ہے۔ بلا شبہ حکمرانوں کی نااہلی کے سبب اسی پاکستان کا ایک بڑا حصہ جس کو مشرقی پاکستان کہاجاتا تھا وہ محرومی کا شکار ہو کر مغربی پاکستان سے علیحدہ ہوا لیکن باقی ماندہ پاکستان دنیا کے نقشے پر اسی طرح موجود ہے۔
اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی سعی و جہد کی اس بے مثال کامیابی کو چشم فلک کبھی فراموش نہیں کر سکتی لیکن شاید اس بد قسمتی کو بھی اہل عرش کبھی نہ بھلا سکیں کہ اتنی عظیم کامیابی کے باوجود بھی جس منزل کو حاصل کرنے کے لیے مسلمانان ہند نے بے بہا قربانیاں دیں وہ منزل ان کی نظروں سے اوجھل ہو گئی اورنظام مملکت انھیں فرنگیوں اور ہندیوں کی طرز حکومت میں ڈھلتا چلا گیا جس نظام سے نجات حاصل کرنے کے لیے اس خطۂ زمین کو حاصل کیا گیا تھا۔ شاید ایسی ہی کسی کیفیت میں مولانا الطاف حسین حالی ؔنے اپنے جذبے کا کچھ یوں اظہار کیا تھا۔
پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے
اسلام کا گر کر نہ ابھرنا دیکھے
مانے نہ کہ مد ہے ہر جزر کے بعد
دریا کا ہمارے جو اتر نا دیکھے
عروج کوزوال، فاتحو ں کو شکست، کامیابیوں کو ناکامیاں اور غالبوں کو مغلوبیت، یہ سب نشیب و فراز زندگی کا حصہ ہیں، خوش آئندبات یہ ہے کہ ہر دور میں کوئی نہ کوئی اللہ کا بندہ ایساآتارہاہے جوقوم کی رہنمائی کرتا رہا ہے۔ برصغیر انڈ و پاک میں بھی اللہ نے شاید مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کواسی لیے پیدا کیا تھا کہ وہ اس خطے کے مسلمانوں کو اسلام کی اصل روح اور اسلام کے صحیح خد و خال سیروشناس کرا سکیں اور بتا سکیں کہ اسلام محض چند عبادات کا نام نہیں بلکہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو انسان کی ذاتی زندگی سے لیکر اجتماعی زندگی کے ہر پہلو، جس میں معیشت، معاشرت، حکومت، سیاست، نظام عدل و انصاف، غرض کہ زندگی کے ہر پہلو پر انسان کی رہنمائی کرتا ہے اور اس پر کاربند ہوئے بغیر نہ تو زندگی کی خوشیاں، امن، سکون، اطمنان اور خوشحالی کا دور دورہ ہو سکتا ہے اور نہ ہی ایسا انصاف ممکن ہے کہ سزاپانے والا بھی یہ کہہ اٹھے کہ مجھے جو بھی سزا دی جانے والی ہے وہ میرے جرم کے عین مطابق ہے اور میں ایسی ہی سزا کا مستحق تھا۔
لوگوں تک اسلام کی صحیح حقیقت پہنچانے کے لیے انھوں نے اپنی زندگی کو وقف اسلام کردیا تھا۔ اپنی تقریروں اور تحریروں سے انھوں نے لوگوں تک اسلامی تعلیمات کی جو شمع روشن کی وہ ایک طویل عرصے تک مسلمانوں کو روشنی فراہم کرتی رہے گی۔
نہ تو ان کی تقریروں کا کوئی شمار ہے اور نہ ہی تحریروں کا ۔ لاتعدادتحریں تو ایسی ہیں جو کتابوں کی شکل حاصل کئے ہوئے ہیں اور بیشمار ایسی کتابیں ہیں جو اہل علم و ذوق نے آپؒ کے خطبات، سوالات و جوابات اور بہت سارے رسالوں میں لکھے گئے مضامین کو ترتیب دے کر انھیںکتابی صورت دی ۔ ان کی یہ کاوشیں ایک جانب کارثواب بنیں اور دوسری جانب بیشمار انسانوں کی رہنمائی کا ذریعہ۔ اسی قسم کی ایک کامیاب کوشش جناب ’’حفیظ الرحمن احسن ؔ‘‘ صاحب کی ہے جس کو وہ مولاناؒ کے بہت سارے اداریوں کو جمع کرکے ایک کتابی شکل دینے میں کامیاب ہوئے۔ جناب ’’حفیظ الرحمن احسن ؔ‘‘ اپنی اسی کتاب میں کچھ یوں تحریر فرماتے ہیں۔
’’پیش نظر کتاب ’’اسلام کا سر چشمۂ قوت‘‘ عالم اسلام کے اسی بطل جلیل (سید مودودیؒ) اب سے ۴۴ سال پہلے کی تصنیف ہے (یاد رہے کہ یہ کتاب ۱۹۶۹؁ء کو مرتب کی گئی تھی) اس کتاب کا تعلق اس زمانے سے ہے جب موصوف ایک نو عمر صحافی کی حیثیت سے چار سال تک ’’تاج‘‘ جبلپور ۱۹۲۰؁ء اور ’’مسلم‘‘ دہلی (۲۳۔۱۹۲۱ء) کی ادارت کے فرائض انجام دے چکے تھے اور ’’الجممعیۃ‘‘ کے تنہا ذمہ دار ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ یہ کتاب ایک مسلسل اداریے کی شکل میں لکھی گئی تھی جو ’’اسلام کی قوت کا اصلی سر چشمہ‘‘ کے عنوان سے الجمعیۃ کے ۱۸، ۲۲، ۲۶ اور ۲۹؍ جولائی اور ۱۰، ۱۴ اور ۱۸؍ اگست ۱۹۲۵؁ء کے شماروں میں اشاعت پزیر ہوتا رہا۔ ۴۴ سال تک یہ مضمون الجمعیہ کے پرانے فائیلوں میں دفن رہا، اب اسے پہلی مرتبہ کتابی پیراہن میں پیش کرنے کا شرف ’’ـایوان ادبـ‘‘ لاہور کو حاصل ہو رہا ہیــ‘‘۔
پورے عالم اسلام کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ کسی ایک ملک میں بھی اس بات کی کوئی کوشش و کاوش نظر نہیں آرہی کہ وہ اپنے انداز فکر میں تبدیلیاں لائیں اور اپنے آپ کو اتنا مضبوط بنا لیں کہ کوئی دوسری قوم ان پر حکومت نہ کر سکے اور کوئی وسوسہ ان کو اپنی منزل کی جانب پیش قدمی سے نہ روک سکے۔ تحقیق سے بالکل ہی ہاتھ اٹھا لیے ہیں۔ بے پناہ وسائل ہونے کے باوجود بھی ان میں از خود کچھ کر نے کی صلاحیت جیسے مفقود ہی ہو کر رہ گئی ہے۔ اپنے اندر اور باہر سازشوں میں گھرکر رہ گئے ہیں ایمان کمزور سے کمزور ترہوتا جا رہا ہے اور آپس میں دست و گریبان ہو گئے ہیں۔ نہ تو دین اور اس کی تعلیمات کو حاصل کرتے نظر آرہے ہیں اور نہ ہی وہ جدید تعلیم کے حصول کے لیے تیار و آمادہ ہیں، دنیاکہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے لیکن مسلمانوں کی مثال کچھ یوں ہو کر رہ گئی ہے کہ۔
سنا ہے ہم نے دنیا چاند کی بستی پے بستی ہے
تم اپنی ریت کی دیوار پر بیٹھے رہو بیٹا
کوئی بڑا واقعہ اگر ہمیں چونکا بھی دے اور ہم بیدار بھی ہوجائیں تو یہ فعل یا تو اضطراری ہوتا ہے یا وقتی ابال، اس لیے کہ ہم اٹھ تو جاتے ہیں لیکن ان ہواس باختہ افراد کی مانند جو خواب سے بیداری کے بعد کسی ہل چل کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہوں اور جب تک ہم ماحول سجھ پاتے ہیں حادثہ ٹل چکا ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہم پھرسے خواب غفلت کا شکار ہوکر دوبارہ سے گہری نیند سو جاتے ہیں۔
ہمارے چاروں جانب کیا ہو رہا ہے، اس بات کو ہم بخوبی دیکھ رہے ہیں اور یہ بھی جان رہے ہیں کہ ہم پر (مسلمانوں پر) رفتہ رفتہ اغیار کی گرفت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جا رہی ہے لیکن ہم یہی سوچے بیٹھے ہیں کہ یہ مسلط ہو جانے والی گھڑی خود بخود ٹل جائے گی۔ اس کیفیت کو علامہ اقبال جواب شکوہ میںکچھ یوں بیان فرماتے ہیں۔
تھے تو آبا وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو
مولاناؒ نے بنگال کے مسیحی مبلغین کی تبلیغ کے حوالے سے لکھا ہے ۔ یہ اس دور کی بات ہے جب مسلمانوں کو گمراہ کرنے اور ان کو عیسائیت کی جانب راغب کرکے مسلمانوں کو اپنا مذہب تبدیل کرنے کے لیے طرح طرح کی ترغیبات دی جا رہی تھیں ، مسیحی مبلغین نہایت خاموشی کے ساتھ اپنے مشن کو جاری رکھے ہوئے تھے اور مسلمان ’’منتظر فردا ‘‘کی تصویر بنے نظر آرہے تھے ، ایسے موقعے کے لیے مولاناؒ اپنے اداریے بعنوان ’’اسلام پر کفر کی یورش کے اسباب‘‘ میں کچھ یوں فرماتے ہیں۔
’’لیکن واقعہ یہ ہے کہ اب ہماری شور پسندی ایک مرض کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ اب ہم اس بات کے عادی ہو گئے ہیں کہ جب کسی مخالفین کے بڑے حملے یا خاص منصوبے کی ہم تک اطلاع پہنچتی ہے تو دفعہً چونک پڑتے ہیںاور ایک بد ہواسی اور اضطراب کے عالم میں دفاع کی غیر مرتب سی تدبیریںاختیار کرنے لگتے ہیں اور جب خطرہ ذرا کم ہوجاتا ہے تو مطمئن ہو کر بیٹھ جاتے ہیں‘‘۔
باطل ہر آنے والے دن کے ساتھ اہل اسلام کے ارتداد کی کاوشوں میں مصروف کار نظر آرہا ہے لیکن مسلمانوں کا یہ عالم ہے کہ وہ اس بھول میں ہے کہ یا تو ان کے بہکائے میں کوئی نہیں آئے گا یا اللہ تعالیٰ کی جانب سے کوئی ایسا معجزہ ہوجائے گا کہ اہل کفر خود بخود مایوس لوٹ جانے پر مجبور ہو جائیں گے۔
اپنے اسی اداریہ میں مولاناؒ نے ذکر کیا ہے ’’ـاہل سبا کے دیہاتیوں‘‘ کا جنھوں نے ایک دریا کے بہاؤ پر ایک بند باندھ کر پانی کو اس طرح روکا تھا کہ جس سے وہ بارشیں نہ ہونے کی صورت میں اسے استعمال کرکے اپنی کھیتیاں سیراب کیا کرتے تھے۔ اس شہر کا نام ’’مارب‘‘ تھا اوریہ ’’ملک سبا ‘‘ کا دار الحکومت تھا۔ اس بند کے متعلق ان کا خیال تھا کہ یہ دیوتاؤں کا بنایا ہوا ہے اور یہ کبھی تباہ نہیں ہو سکتا۔ جب چوہوں نے اس میں سراخ کرنا شروع کئے تو وہ اس کو بھی قدرت کا ایک معجزہ خیال کرنے لگے اور خود کو یہ کہہ کر مطمئن کر لیا کہ چوہے ایسا کر ہی نہیں سکتے۔ اب ہوا یہ کہ ان بلوں سے آہستہ آہستہ پانی رسنے لگا اور اسطرح کچھ اس پانی کے رساؤ نے اور کچھ اس کی خستگی نے اس پل کو اڑا کر رکھ دیا جس کی وجہ سے ان پر وہ تباہی آئی جو سب کچھ بہا لے گئی۔
اس واقعہ سے جو بات مولانا بیان کرنا چاہتے تھے وہ یہ تھی کہ مسلمانوں کا حال بھی ایسا ہی ہو کر رہ گیا ہے کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اہل شرک و کفر ان کے گرد دائرے پر دائرہ تنگ کرتے جا رہے ہیں لیکن وہ اس فریب میں مبتلا ہیں کہ کوئی نہ کوئی بچاؤ کا راستہ از خود ہی نکل آئے گا۔ بقول شاعر:
پنچھی کیسی بھول میں ہے ہر پنجرے کا
خود سے خود کھل جائے گا در پنجرے کا
کفر و الحاد کے بادل نہ صرف چھاتے جا رہے ہیں بلکہ رفتہ رفتہ گہرے سے گہرے ہوتے چلے جا رہے ہیں لیکن مسلمانوں کا عالم یہ ہے کہ وہ ان گہرے ہوتے بادلوں کے لیے کچھ ایسی تدابیراختیار کرنے کے لیے تیار نہیں جن سے یہ چھائے بادل نہ صرف یہ کہ چھٹ جائیں بلکہ ان کے پیچھے چھپی روشنی کی کرنیں عالم اسلام کا گوشہ گوشہ روشن کرکے رکھ دیں۔ وہ اس بات پر بھی غور کرنے کے لیے تیار نہیں کہ ان کے غالب آتے جانے میں ان کا یا ان کے مذہب اور فلسفے کا کوئی کمال نہیں بلکہ ان کی کامیابی میں ہماری اپنی غلطیوں در غلطیوں کا عمل دخل ہے۔ مولاناؒ اپنے اداریے بعنوان ’’دوسروں کی کامیابی میں ہماری نا اہلی کا ثمر ہے‘‘ میں فرماتے ہیں۔
’’ہمیں سوچنا چاہیے کہ آخر وہ کیا چیز ہے جس کی بنا پر آریہ اور عیسائیوں کو (یاد رکھیں کہ یہ آج سے ۷۰۔۸۰ برس پہلے کی بات ہے) ہمارے مقابلے میںآنے کی جرأت ہوتی ہے۔ ان کے مذہب کو دیکھئے تو وہ ایسے ’’مزخزفات‘‘ (فریب آراستہ، جھوٹ) کا مجموعہ ہے کہ وہ اسے ہمارے سامنے پیش کرنا تو در کنار خود بھی جب کبھی سنجیدگی کے عالم میں غور کرتے ہوں گے تو شرماتے ہونگے۔ پھر آخر کوئی بات تو ہے کہ وہ اپنی اس متاع بے حقیقت کو لے کر بازار میں آتے ہیںاور کامیاب و بامرادجاتے ہیں۔ اس سوال کی حقیقت پر غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ ان کی یہ کامیابی کچھ ان کی قابلیت سے نہیں بلکہ ہماری نا قابلیت کی رہین منت ہے۔ ان کی دکان کا فروغ کچھ اس لیے نہیں کہ ان کی متاع اچھی اور بازار میں اس کی مانگ ہے بلکہ وہ صرف اس لیے بک رہی ہے کہ ہم نے اپنی متاع کی قدر کھودی ہے‘‘۔
اس میں کوئی دو آرا ہو ہی نہیں سکتیں کہ اسلام اگر کسی کے دل میں اتر جائے تو اس کو دل سے نکا لا ہی نہیں جا سکتا لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد کسی پر اس کی نعمتیں آشکار بھی ہونا شروع ہو جائیں لیکن معاملہ اگر یہ ہو کہ ہم چند عبادتوں اور روایتوں کو اسلام سمجھ بیٹھیں اور ان کو اختیار کرلینے کو مسلمانیت تصور کرنے لگیں تو اس قسم کا اسلام دل میں بہت گہرائی کے ساتھ نقش نہیں ہو سکتا اور اس بات کا امکان ہر لمحے موجود رہتا ہے کہ ایسا مسلمان کسی بھی لمحے ارتداد کا شکار ہو جائے گا۔ اسی بات کو مولاناؒ اسی اداریے میں کچھ اس طرح بیان کر تے ہیں۔
’’ہمارا ایمان ہے کہ کوئی شخص اگر ایک دفعہ نعمت اسلام سے بہرہ ور ہو جائے تو دنیا کی کوئی قوت اسے دین حق سے پھیرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی لیکن جب وہ نعمت پیش ہی نہ کی جائے، جب عام مسلمانوں کا اسلام صرف روایتی اور مورثی اسلام رہ جائے، جب ان کو جہالت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے اور وہ اسلام کی خوبیوں سے واقف ہی نہیں کئے جائیں تو اس کی مضبوطی اور استحکام پر اعتماد اور اس کے ناقابل تسخیر ہونے پر بھروسہ کیونکر کیا جا سکتا ہے اور یہ بھروسہ اپنے آپ کو صحیح کیسے ثابت کر سکتا ہے‘‘۔
مولاناؒ نے ان کمزوریوں کا ذکر بھی کیا ہے جن کی وجہ سے نہ صرف ارتداد کا خطرہ بڑھ سکتا ہے بلکہ اس بات کا بھی امکان ہے کہ ہم اس حد تک بے حسی کا شکار بھی ہوجائیں کہ اس قسم کے سارے خطرات ہمارے لیے کوئی بات ہی نہ رہیں اور ان سب باتوں کو ہم کبھی سنجیدگی سے ہی نہ لیں۔ ساتھ ہی ساتھ بڑھتی ہوئی اس بے حسی کے اسباب بھی مولاناؒ زیر بحث لائے ہیں تاکہ ان خرابیوں کو دور کرکے ہم اپنے احوال کی اصلاح کر سکیں۔
(جاری ہے)

حصہ