ؑؑروح انسانی اور موت کا تعلق

513

ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی
سورہ سجدہ میں ارشادِ ربانی ہے ’’وہی ہے جاننے والا پوشیدہ اور ظاہر چیزوں کا۔ زبردست رحمت والا جس نے جو چیز بنائی خوب بنائی، اور انسان کی پیدائش کی ابتدا گارے سے کی، پھر اس کی نسل کو خلاصہ اخلاط یعنی بے قدر اور حقیر پانی سے بنایا۔ پھر اس کو نک سک سے درست کیا اور پھر اس میں اپنی روح پھونکی۔‘‘ (سورہ سجدہ آیت6تا 9)
روح سے مراد محض وہ زندگی نہیں ہے جس کی بدولت ایک ذی حیات جسم کی مشین متحرک ہوتی ہے، بلکہ اس سے مراد وہ خاص جوہر ہے جو فکر وتدبر، عقل و تمیز اور فیصلہ و اختیار کا حامل ہوتا ہے جس کی بدولت انسان تمام دوسری مخلوقاتِ ارضی سے ممتاز، ایک صاحبِِ شخصیت ہستی، صاحبِِ انا ہستی اور حاملِ خلافت ہستی بنتا ہے۔ اس روح کو اللہ تعالیٰ نے اپنی روح یا تو اس معنی میں فرمایا ہے کہ وہ اسی کی مِلک ہے اور اس کی ذاتِ پاک کی طرف اس کا انتساب اسی طرح کا ہے جس طرح ایک چیز اپنے مالک کی طرف منسوب ہو کر اسی کی چیز کہلاتی ہے، یا پھر اس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کے اندر علم، فکر، شعور، ارادہ، فیصلہ، اختیار اور ایسے ہی دوسرے جو اوصاف پیدا ہوئے ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی صفات کے پرتو ہیں۔ اس کا سرچشمہ مادے کی کوئی ترکیب نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اللہ کے علم سے اس کو علم ملا ہے، اللہ کی حکمت سے اس کو دانائی ملی ہے، اللہ کے اختیار سے اس کو اختیار ملا ہے۔ یہ اوصاف کسی بے علم، بے دانش اور بے اختیار ماخذ سے انسان کے اندر نہیں آئے ہیں۔ اسی سورہ میں ارشادِ ربانی ہوا ہے ’’اور تم کو کان اور آنکھیں دیں اور دل دیے، تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو۔‘‘
انسان کے علم حاصل کرنے کے ذرائع میں کان اور آنکھ کو فضیلت حاصل ہے۔ اگرچہ ذائقہ، لامسہ اور شامہ بھی حسیں ہیں مگر سماعت و بصیرت و بصارت تمام حواس سے بڑے اور اہم ذرائع ہیں۔ اس لیے قرآن پاک میں جگہ جگہ انہی دو ذرائع کو خدا کے نمایاں عطیات کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ دل و ذہن حواس کے ذریعے سے حاصل شدہ معلومات کو مرتب کرکے ان سے نتائج اخذ کرتے ہیں اور عمل کی مختلف امکانی راہوں میں سے کوئی ایک راہ منتخب کرکے اس پر چلنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔
روحِ انسانی کے ساتھ موت کا گہرا تعلق ہے۔ موت یونہی نہیں آجاتی کہ ایک گھڑی چل رہی تھی اور وہ چلتے چلتے بند ہوگئی۔ بلکہ اس کام کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک خاص فرشتہ مقرر کررکھا ہے جو آکر باقاعدہ روح کو ٹھیک اسی طرح وصول کرتا ہے جس طرح ایک سرکاری امین کسی چیز کو اپنے قبضے میں لیتا ہے۔ اس افسرِ موت کے ماتحت فرشتوں کا ایک پورا عملہ ہے جو موت وارد کرنے اور روح کو جسم سے نکالنے اور اس کو قبضے میں لینے کی بہت سی مختلف النوع خدمات انجام دیتا ہے۔ اس عملے کا برتائو مجرم انسان کے ساتھ کچھ اور ہوتا ہے اور مومن روح کے ساتھ کچھ اور ہوتا ہے۔ موت سے انسان معدوم نہیں ہوجاتا بلکہ اس کی روح جسم سے نکل کر باقی رہتی ہے۔ موت کا فرشتہ انسان کو پورا کا پورا اپنے قبضے میں لے لیتا ہے اور قبضے میں وہی چیز لی جاتی ہے جو قابض کے پاس موجودہو، معدوم چیز نہیں لی جاتی۔ موت کے وقت جو چیز قبضے میں لی جاتی ہے وہ انسان کی حیوانی زندگی بلکہ اس کی وہ خودی اور انا ہوتی ہے جو ’’میں‘‘ اور ’’تم‘‘ کے الفاظ سے تعبیر کی جاتی ہے۔ یہ َانا دنیا میں کام کرکے جیسی کچھ شخصیت بھی بنتی ہے وہ پوری کی پوری جوں کی توں نکال لی جاتی ہے بغیر اس کے کہ اس کے اوصاف میں کوئی کمی بیشی ہو۔ یہی چیز موت کے بعد اپنے رب کی طرف پلٹائی جاتی ہے، اسی کو آخرت میں نیا جسم دیا جائے گا، اسی پر مقدمہ قائم ہوگا، اسی سے روزِ حشر حساب کتاب لیا جائے گا اور اسی کو جزا و سزا دیکھنے کو ملے گی۔

حصہ