الرقہ کی وائی پی جی کو حوالگی… داعش بہانہ‘ ترکی اصل نشانہ

376

الّرقہ Syrian Democratic Force یا SDFکے آگے سرنگوں ہوگیا۔ دریائے فرات کے مغربی کنارے پر واقع ڈھائی لاکھ نفوس پر مشتمل شام کا یہ خوبصورت شہر خلیفہ ہارون الرشید کے دور میں عباسی سلطنت کا دارالحکومت تھا۔ اس کی پہچان مشہور ’الطبقہ‘ ڈیم ہے جو شام میں بجلی کی پیداوار اور آب نوشی و آب پاشی کا سب سے بڑا منصوبہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ علاقہ ایک عرصے سے خانہ جنگی کا شکار ہے۔ الرقہ سے 100 میل مغرب میں بدنصیب حلب یاAleppo ہے جو کبھی شام کا سب سے بڑا اور متمول ترین صوبہ ہوا کرتا تھا مگر اب وہ ایک مہیب کھنڈر کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ الرقہ کا حلب سے بھی برا حال ہے کہ گزشتہ چار ماہ سے اس شہر پر امریکہ، فرانس اور روس کے 15 سے 20 طیاروں کی ٹکڑیاں مسلسل بمباری میں مصروف تھیں، اور اب اس شہر میں ایک بھی عمارت سلامت نہیں بچی۔ بجلی کا سلسلہ منقطع ہے اور ہسپتال تو ایک طرف، مرہم پٹی کے لیے ڈسپنسری بھی موجود نہیں۔ الرقہ ’’فتح‘‘ کرنے کا سہرا صدر ٹرمپ اپنے سر باندھ رہے ہیں۔ ایک مقامی ریڈیو کو اپنے ایک انٹرویو میں امریکی صدر نے کہا کہ (اقتدار سنبھالتے ہی) انھوں امریکی فوج اور فوج کے سپاہیوں کی فکر کو تبدیل کردیا۔ جب صحافی نے پوچھا کہ اس سے پہلے داعش کو شکست کیوں نہ دی جاسکی؟ تو موصوف نے بے ساختہ فرمایا ’’اس لیے کہ اس سے پہلے آپ کا صدر ٹرمپ جو نہیں تھا‘‘۔
یہ شہسوارِ وقت ہے کیسا نشے میں چُور
مارچ 2011ء میں درعا شہر کے ہائی اسکول سے شروع ہونے والی عوامی بیداری کی مہم کو الرقہ میں بھرپور عوامی حمایت حاصل ہوئی، لیکن جلد ہی یہ تحریک انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں چلی گئی، اور جب نہتے عوام نے شامی فوج کو پسپائی پر مجبور کیا تو علاقے پر النصرہ فرنٹ، القاعدہ اور سیکولر تنظیم جیش السورالحر (Syrian Free Army) یا SFAنے قبضہ کرلیا۔ 2013ء کے آخر میں داعش نمودار ہوئی اور 2014ء کے آغاز تک یہ سارا علاقہ داعش کے زیر نگیں آگیا۔ علویوں اور شیعوں کا قتلِ عام، شیعہ امام بارگاہوں کو مسمار کرنے کا کام جو خلیجی ممالک کی حمایت یافتہ النصرہ فرنٹ کے وقت سے شروع ہوگیا تھا، داعش کے دور میں مزید شدید ہوگیا۔ جلد ہی الرقہ کو نام نہاد خلافتِ اسلامیہ کا دارالخلافہ قرار دے دیا گیا اور ’امیرالمومنین‘ ابوبکر البغدادی یہاں منتقل ہوگئے۔
2015ء کے آخر میں فرانسیسی فضائیہ کے بمباروں نے داعش کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا۔ جلد ہی امریکی، برطانوی اور جرمن فضائیہ بھی اس مہم میں شامل ہوگئیں۔ ان حملوں میں داعش کو شدید نقصان پہنچا لیکن اُن کی گرفت کے مکمل خاتمے کے لیے زمینی جنگ کی ضرورت تھی۔ متوقع نقصان کے خوف سے کوئی بھی ملک زمینی دستے بھیجنے کے حق میں نہ تھا، چنانچہ Syrian Defense Force یا SDFکو آگے بڑھانے کا فیصلہ ہوا جو 2015ء میں تشکیل دی گئی تھی۔کہنے کو تو اس فوج کا نام SDF ہے لیکن یہ بنیادی طور پر ترک مخالف کرد دہشت پسندوں کی تنظیم وحدت حمایۃ الشعب یا YPG کے گوریلوں پر مشتمل ہے۔ ان کی لڑاکا خواتین نے وحدت حمایۃ المراۃ یا YPJکے نام سے علیحدہ یونٹ منظم کررکھا ہے۔ کردوں کے علاوہ ترکمن سپاہی بھی SDFکا حصہ ہیں جو لواء السلاجقۃ یا Saljuk Brigadeکہلاتے ہیں۔ داعش کے خلاف لڑائی میںSDFکو امریکہ، فرانس، برطانیہ اور جرمنی کی حمایت تو حاصل تھی ہی، اِس سال کے آغاز میں روسی فضائیہ، خلیجی ممالک اور مصر بھیSDFکی نصرت کو آگئے اور SDFکو جدید ترین اسلحہ کی ترسیل شروع ہوگئی، جس کی قیمت سعودی عرب اور متحدہ امارات نے ادا کی۔ ترکی کی کالعدم کردش ورکرز پارٹی (PKK) اور قوم پرست کردش یونین یا PUK کے مالی و افرادی وسائل بھی SDFکی مہم کے لیے وقف ہوگئے۔ ترک صدر رجب طیب اردوان نے YPGکی حمایت پر شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ انھوں نے امریکی حکومت کو متنبہ کیا کہ اگرYPGکی حمایت جاری رہی تو ترکی الرقہ میں داعش کے خلاف کارروائی سے کنارہ کشی اختیار کرلے گا۔ اور عملاً ترک دستے وہاں سے ہٹا لیے گئے۔ مکمل ناکہ بندی اور بے پناہ بمباری سے داعش کے حوصلے جواب دے گئے اور جمعہ کو YPG کے پرچم سارے شہر پر لہرا دیئے گئے۔
سوال یہ ہے کہ کیا رقہ کی فتح اس شہر کے باسیوں کے لیے تازہ ہوا کا ایک جھونکا ثابت ہوگی جو کئی برسوں سے خوں ریزی اور نفرتوں کے حبس میں گھٹ گھٹ کر جی اور مررہے ہیں؟ بدقسمتی سے اس کا جواب نفی میں ہے۔ رقہ کا قلیل المدت اور اس علاقے کا طویل المیعاد مستقبل خوں فشاں نظر آتا ہے۔ فی الوقت یہ شہر ہتھیار ڈالنے والے سپاہیوں کے لیے مذبح بنا ہوا ہے۔ بلاشبہ دنیا بھر میں خونریزی کا سبب بننے والے داعش کے وحشی کسی ہمدردی کے مستحق نہیں اور انھیں قرار وقعی سزا ملنی چاہیے، لیکن ہتھیار ڈالنے والے سپاہیوں کو مقدمہ چلائے بغیر قتل کرنا مہذب انسانی روایات کے خلاف ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان لوگوں سے تفتیش کرکے داعش کے خالقوں اور ڈوری ہلانے والوں پر ہاتھ ڈالا جاتا کہ آندھی و طوفان کی طرح داعش کا اقبال اور اب ریت کی دیوار کی مانند ان کا زوال تجزیہ کاروں کو مشکوک اور مصنوعی محسوس ہورہا ہے۔ ایک ڈر یہ بھی ہے کہ نرغے میں آئے داعش کے سپاہی ہتھیار ڈالنے کے بجائے یہاں سے فرار ہونے کی کوشش کریں گے کہ جب ہتھیار ڈالنے میں موت یقینی ہے تو کیوں ناں بھاگ کر جان بچالی جائے۔ اس صورت میں یہ فتنہ گر یہاں سے نکل کر کہیں اور قیامت ڈھا سکتے ہیں۔ لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے، یعنی مغرب کو ان مجرموں کی گرفتاری اور پوچھ گچھ سے کوئی دلچسپی نہیں۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق جنگ میں مصروف کردش کمانڈروں کو ہدایت کردی گئی ہے کہ ہتھیار ڈالنے والے غیر ملکی داعش سپاہیوں کو میدانِ جنگ ہی میں موت کے گھاٹ اتار دیا جائے کہ انھیں کوئی ملک لینے کو تیار نہیں۔ YPGکے ایک کمانڈر نے کہا کہ کوئی ملک ہتھیار ڈالنے والے داعش کے گوریلوں یا ان کی عورتوں اور بچوں کو لینے کو تیار نہیں لہٰذا ان کا مار دیا جانا ہی بہتر ہے کہ ہمارے پاس جیل چلانے کے وسائل نہیں۔ چند ماہ پہلے جب عراق کے شہر موصل پر قبضے کے دوران 300 کے قریب داعش سپاہی پکڑے گئے تو اُن سب کو فوراً پھانسی دے دی گئی تھی۔ فرانس دنیا میں سزائے موت کا سب سے بڑا مخالف ہے اور خاص طور سے اگر فرانسیسی شہری کو کسی دوسرے ملک میں سزائے موت سنائی جائے تو وہ اپنے شہری کو موت کے منہ سے نکالنے کے لیے ایڑی سے چوٹی تک کا زور لگاتا ہے، لیکن فرانس نے سزائے موت پانے والے داعش کے فرانسیسی شہریوں کے معاملے پر مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے، بلکہ فرانسیسی وزیرخارجہ محترمہ فلورنس پارلی (Florence Parly) نے یورپ 1 ریڈیو پر اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ (جنگی قیدی بنانے کے بجائے) اگر یہ جہادی لڑائی کے دوران مار دیئے جائیں تو میرے خیال میں یہ سب سے بہتر ہے۔ ان کی (فرانس) واپسی روکنے کا سب سے بہتر طریقہ یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو یہیں ٹھکانے لگادیا جائے۔ اس سے پہلے امریکی وزیرخارجہ بھی کہہ چکے ہیں کہ داعش کے سپاہیوں کو کسی دوسرے ملک بھاگنے نہیں دیا جائے گا اور ہماری حکمت عملی یہ ہے کہ انھیں الرقہ ہی میں فنا کردیا جائے۔
اِس وقتی خونریزی سے بڑا خطرہ شام کا مجموعی بحران ہے جو رقہ پر SDFکے قبضے سے مزید گمبھیر ہوگیا ہے۔ صدر بشارالاسد کے لیے رقہ پر داعش کے بعدSDFکا کنٹرول ہانڈی سے نکل کر چولہے میں گرنے والی بات ہے کہ داعش تو محض ایک دہشت کرد گروہ تھا جسے کسی ملک کی کھلی حمایت حاصل نہیں تھی، جبکہ SDF دراصل امریکہ ہے، اور واشنگٹن نے علاقے میں شامی پناہ گزینوں کے لیے کیمپ قائم کرنے کا اعلان کیا ہے اور انھیں توقع ہے کہ خلیجی ممالک ان انتظامات کے لیے مالی امداد فراہم کریں گے۔ جرمنی اور فرانس نے بھی رقہ کی تعمیرنو کے لیے مالی امداد کا وعدہ کیا ہے۔ گویا امریکہ اور مغرب یہاں طویل عرصے تک رہنے کا منصوبہ بنا چکے ہیں اور ان علاقوں میں شام کی عمل داری اب تقریباً ناممکن ہوچکی ہے اِلاّ یہ کہ صدر اسد امریکہ بہادر سے دو دو ہاتھ پر تیار ہوجائیں۔ شامی حکومت کے لیے چچا سام سے براہِ راست پنگا لینا تو ممکن نہیں لیکن وہ حزب اللہ اور پاسدارانِ انقلاب کی مدد سے یہاں گوریلے داخل کرکے مغرب کے لیے دردِ سر کا سامان پیدا کرسکتی ہے۔ ایک عام مشاہدہ یہ بھی ہے کہ غیر ملکی فوج کے قبضے کی صورت میں کچھ عرصے بعد عوام کی ناراضی بم دھماکوں اور حملوں کی شکل اختیار کرلیتی ہے، لہٰذا اگلے برس کے وسط تک خانہ جنگی کی ایک نئی لہر خارج از امکان نہیں۔
YPG کی یہ زبردست عسکری کامیابی ترکی، عراق، ایران اور شام کے کرد علاقوں میں متوقع عدم استحکام کا سب بن سکتی ہے۔ فی الحال ایرانی کردستان پُرامن و مطمئن نظر آرہا ہے۔ کرد ایرانی سیاست کے قومی دھارے میں ہیں اور ایرانی کردستان میں بے چینی کی بظاہر کوئی لہر نظر نہیں آتی، لیکن جہاں سارا خطہ لسانی و ثقافتی تعصب کا شکار ہو، وہاں کوئی بھی علاقہ نفرت کی آگ سے محفوظ نہیں، اور آگ بھڑکانے کے لیے ایک ہلکی سی چنگاری ہی کافی ہے۔ اس وقت اصل خطرہ ترکی کو ہے اور رقہ پر YPGکا قبضہ انقرہ کے لیے شدید اضطراب کا باعث ہے، بلکہ علمائے سیاست کا خیال ہے کہ داعش کا میلہ ترکی کو غیر مستحکم کرنے کے لیے ہی سجایا گیا ہے۔ چند ہفتے پہلے عراقی کردستان کے لوگوں نے آزادی کے حق میں ووٹ دیا ہے، جس کے جواب میں عراقی فوج اور ان کی ایران نواز شیعہ ملیشیا الحشد الشعبی کرکوک پر چڑھ دوڑیں۔ کرد پیش مرگا نے پیش قدمی کرتی عراقی فوج کو راستہ دے دیا اور کرکوک بلا مزاحمت وفاقی حکومت کے زیرکنٹرول آگیا۔ تاہم الحشد کی جانب سے مقامی کردوں سے ناروا سلوک کی خبریں آرہی ہیں جس سے ایک طرف تو کرکوک میں شیعہ سنی کشیدگی میں اضافہ ہورہا ہے تو دوسری طرف کردستان کے فتنہ گروں کو شیعوں کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے ٹھوس مواد میسر آرہا ہے۔ اب شام کے اکثر کرد علاقے YPGکی گرفت میں آچکے ہیں جو عراقی کردستان کے صدر مسعود برزانی کی کردش ڈیموکریٹک پارٹی (KDP) کا عسکری دھڑا ہے جسے امریکہ، یورپ اور خاص طور سے اسرائیل کی حمایت حاصل ہے۔ ترکی نے اپنے ٰیہاں آباد کردوں کو قومی دھارے میں لانے کے لیے بہت سنجیدہ کوششیں کی ہیں، جن میں کرد بچوں کے لیے مقامی زبان میں تعلیم، انتخابی مہم کے لیے کرد زبان میں تقریر اور طباعت کی اجازت، انتخابات میں کرد سیاست دانوں کی ترک حلقوں سے نامزدگی وغیرہ شامل ہیں۔ ان اقدامات کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔ گزشتہ صدارتی انتخابات میں کردوں نے بھرپور حصہ لیا اور ان کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (HDP)کے امیدوار نے سارے ملک سے 10 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ اسی کے ساتھ ترکی عسکری محاذ پر بھی سرگرم ہے۔ ترک فضائیہ رقہ میں YPGکے خلاف سرجیکل اقدامات کررہی ہے جو امریکہ کو پسند نہیں، لیکن صدر اردوان امریکی اعتراض کو خاطر میں نہیں لارہے۔ اب YPGکو داعش کی جانب سے کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہیں۔ رقہ پر ان کا مکمل قبضہ ہے، اور سب سے بڑھ کر سیاں جی (امریکہ) علاقے کے کوتوال ہیں جس کی وجہ سے اُن کی شوخیاں عروج پر ہیں اور اگلے چند ماہ کے دوران YPG کی جانب سے ترک سرحد پر چھیڑ چھاڑ متوقع ہے جسے مغرب کی غیر اعلانیہ سرپرستی حاصل ہوگی۔ دوسری طرف شام کے مشرق میں عراقی کردستان اور ترکی کی سرحد بھی غیر محفوظ ہوسکتی ہے۔ اگرچہ کہ مسعود برزانی نے بہت ہی غیر مبہم اور دوٹوک انداز میں ترک حکومت کو یقین دلایا ہے کہ کردستان ری پبلک ترکی سے برادرانہ تعلقات کی خواہش مند ہے۔ جناب برزانی نے کہا کہ ترک کردستان کو وہ ترکی کا جزوِلاینفک سمجھتے ہیں اور انھیں کرد علاقوں سمیت ترکی کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے کوئی دلچسپی نہیں۔ کرد رہنما یہاں تک کہہ گئے کہ ترکی کو کردستان کی سرحد پر اپنی فوج رکھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی کہ کرد سپاہی اپنے ترک بھائیوں کے بلامعاوضہ چوکیدار ہوں گے۔ مسعود برزانی کی یقین دہانیوں پر شک کی بظاہر تو کوئی وجہ نہیں، لیکن ترکی کے لیے پریشانی کی اصل وجہ مغرب کا معاندانہ رویہ ہے۔کرد ترکی کی شام، عراق اور ایران سے ملنے والی جنوب مشرقی سرحد پر آباد ہیں اور ان کی مجموعی آبادی 4 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ صدر اردوان کا خیال ہے کہ مغرب سیکولر جمہوری کردستان کے نام سے ایک علیحدہ ریاست قائم کرکے ترکی کی دہلیز پر اپنا ایک مستقل ٹھیا بنانا چاہتا ہے۔ عراقی کردستان کے ریفرنڈم اور اس کے بعد الرقہ کی YPG کو حوالگی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، یا یوں کہیے داعش بہانہ اور ترکی اصل نشانہ ہے۔

حصہ