جاپان کے پارلیمانی انتخابات

225

اتوار 22 اکتوبر کو جاپان میں پارلیمانی انتخابات ہوئے۔ یہاں گزشتہ انتخابات 2014ء میں ہوئے تھے اور وزیراعظم شنزو ایبے (Shinzo Abe) کی مدت اگلے برس پوری ہونی تھی، لیکن وزیراعظم کا خیال تھا کہ شمالی کوریا کے ایٹمی اور میزائل پروگرام سے جاپانی قوم اپنی آزادی اور سلامتی کے بارے میں فکرمند ہے، چنانچہ عوامی مینڈیٹ کی تجدید بہت ضروری ہے تاکہ حکومت کامل عزم و اعتماد کے ساتھ اس سنگین مرحلے پر قوم کی قیادت کرسکے۔
جاپانی ایوانِ نمائندگان یا قومی اسمبلی 465 نشستوں پر مشتمل ہے، جس کے لیے حکمران اتحاد، لبرل اتحاد اور کوئکے اتحاد کے درمیان مقابلہ ہوا۔ اس کے علاوہ قلبِ جاپان پارٹی یا PJK اور آزاد امیدواروں نے بھی حصہ لیا۔ جاپانیوں نے ’بے دلی‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے قلب جاپان پارٹی کو یکسر مسترد کردیا اور وہ ایک بھی نشست حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ گزشتہ انتخابات میں وہ 2 نشستوں پر کامیاب ہوئی تھی۔ ان انتخابات میں دو نئی جماعتوں یعنی(CDP) Constitutional Democrats اور امید پارٹی یاKibo نے بھی حصہ لیا۔ نتائج کے مطابق حکمران اتحاد جو وزیراعظم کی لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (LDP) اور کومیٹو (Komeito) پارٹی پر مشتمل ہے، 313 نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوگیا۔ گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں 14 نشستیں کم ہونے کے باجود اس کی دو تہائی اکثریت برقرار رہی۔ حزب اختلاف کی CDP، کمیونسٹ پارٹی اور سوشل ڈیموکریٹس پر مشتمل لبرل اتحاد 69 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر ہے۔ امید پارٹی اور نپون اشن پارٹی (Nippon Ishin) کے کوئکے (Koike) اتحاد نے 61 نشستیں حاصل کیں۔ اس اتحاد کا نام امید پارٹی کی سربراہ محترمہ Yurico Koike کے نام پر رکھا گیا ہے۔ انتخابات میں 22 نشستیں آزاد امیدواروں نے حاصل کیں جن کی اکثریت حکمراں اتحاد کی حامی ہے۔
مینڈیٹ کی تجدید سے وزیراعظم ایبے کو ٹیکسوں میں چھوٹ، شرح سود میں کمی اور عوامی خدمات پر فراخ دلانہ خرچ کا اختیار مل گیا ہے۔ اقتصادی نظم و ضبط کے ساتھ جناب ایبے جاپانی دفاع کو مضبوط و مستحکم کرنے کے حامی ہیں۔ جاپانی وزیراعظم ملکی آئین میں ترمیم کے خواہش مند ہیں جس کے بعد جاپانی فوج کی تشکیلِِ نو کی جاسکے گی۔ دوسری جنگِ عظیم میں ہتھیار ڈالنے کے بعد اتحادیوں کی نگرانی میں جاپان کا جو آئین تشکیل دیا گیا ہے اُس میں فوج کا کردار بہت محدود ہے اور عملاً اس کی حیثیت رینجرز اور نیم فوجی دستوں کی سی ہے جو قدرتی آفات اور ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ غیر ملکی جارحیت کی صورت میں مؤثر دفاع بھی اس کے بس کی بات نہیں۔ وزیراعظم چاہتے ہیں کہ دنیا کے دوسرے ملکوں کی طرح جاپانی افواج بھی غیر ملکی مدد کے بغیر اپنے ملک کا دفاع اعتماد کے ساتھ کرسکیں۔ اسی کے ساتھ وہ شمالی کوریا کے خلاف سخت رویہ اختیار کرنے کے حامی ہیں اور اس معاملے میں اُن کا مؤقف صدر ٹرمپ کی سخت گیر پالیسی کے عین مطابق ہے۔
وزیراعظم ایبے کی کامیابی سے امریکہ میں دفاعی سامان بنانے والے اداروں Boeing, Raytheon, General Dynamics وغیرہ کی بِکری میں اضافے کی توقع ہے۔ تاہم حکمران اتحاد کی مقبولیت کا زوال اور قائدِ حزبِ اختلاف یوکیو اڈانو (Yukio Edano) کا اقبال وزیراعظم کے لیے اچھی خبر نہیں کہ 2018ء میں پانسہ پلٹ بھی سکتا ہے۔

حصہ