خیبر پختون خوا میں سیاسی گہما گہمی

252

مسلم لیگ(ن)، جمعیت (ف)، پیپلز پارٹی، اے این پی اور جماعت اسلامی کے جلسے
خیبر پختون خوا میں جاری سیاسی سرگرمیوں، اور بڑے بڑے سیاسی اجتماعات سے مختلف سیاسی جماعتوں کے مرکزی اور صوبائی قائدین کے خطابات اور ان جلسوں میں مخالف سیاسی جماعتوں کے خلاف بے دریغ استعمال کیے جانے والے غیر پارلیمانی لب ولہجے کو دیکھتے ہوئے ایسا گمان ہوتا ہے گویا عام انتخابات کا بگل بج چکا ہے اور ہر جماعت اپنی اپنی بساط اور اوقات کے مطابق ڈگڈگی بجاتے ہوئے عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے میدان میں نکل آئی ہے۔ واضح رہے کہ پچھلے چند ہفتوں کے دوران مسلم لیگ(ن) کے استثنا کے ساتھ خیبر پختون خوا میں اثر رسوخ رکھنے والی تمام جماعتیں اب تک نہ صرف اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرچکی ہیں، بلکہ ان میں سے ہر جماعت اپنے آپ کو سوا سیر ثابت کرنے کے لیے نہ صرف آئندہ عام انتخابات میں کامیابی کے بلند بانگ دعوے کررہی ہے بلکہ صوبے کے طول وعرض میں جاری جلسہ ہائے عام کے ذریعے عام ووٹرز کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔ صوبے میں جاری اس سیاسی افراتفری کو دیکھتے ہوئے حکمران اور اپوزیشن کی کوئی بھی جماعت میدان کھلا چھوڑنے کے لیے آمادہ نہیں ہے، کیونکہ خیبر پختون خوا کی اس انتخابی تاریخ سے ہرکوئی واقف ہے کہ یہاں کے ووٹر نہ صرف ملک کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں زیادہ آزاد خیال اور متحرک واقع ہوئے ہیں بلکہ وہ اپنی اس طاقت کا اظہار پچھلے تین عام انتخابات میں تین مختلف سیاسی قوتوں کو باری باری اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھانے کی صورت میں کربھی چکے ہیں۔ شاید خیبرپختون خوا کے سیاسی میدان کی اس ہموار سطح ہی نے ملک کی تمام قابلِ ذکر جماعتوں کو یہاں اپنے سیاسی مسل دکھانے پر مجبور کر رکھا ہے۔
صوبے میں جاری سیاسی ہلے گلے کے سلسلے میں مولانا فضل الرحمن جمعیت (ف) کے مینگورہ سوات میں ایک بڑے جلسہ عام کے علاوہ پشاور میں ایک ایسے یوتھ کنونشن سے خطاب کرچکے ہیں جس میں نوجوان اور جوان کم، البتہ عمر رسیدہ علماء کرام کی ایک اچھی خاصی تعداد موجود تھی۔ پیپلز پارٹی نے بھی پچھلے کچھ عرصے سے خیبرپختون خوا پرتوجہ مرکوز کررکھی ہے۔ پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری جنہیں اپنے دورِ صدارت اور پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں خیبر پختون خوا آنے کی کم ہی توفیق نصیب ہوئی ہے، اب تک یہاں کے کئی دورے کرچکے ہیں، جب کہ اُن کی دیکھا دیکھی اُن کے سیاسی جانشین اور پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی یہاں کے متعدد دورے کرکے کئی جلسوں سے خطاب کرچکے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کی مرکزی قیادت اِن دنوں چونکہ ایک بار پھر آزمائش کے سخت دور سے گزر رہی ہے اس لیے اُس کی جانب سے تو فی الحال خیبرپختون خوا میں کوئی بڑی سرگرمی دیکھنے کو نہیں ملی، البتہ اس کمی کو مسلم لیگ(ن) کے صوبائی صدر امیر مقام پی ٹی آئی کے ساتھ چومکھی لڑائی لڑتے ہوئے پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں جس میں تاحال وہ کافی حد تک کامیاب نظر آتے ہیں۔ اے این پی جو 2008ء کے انتخابات میں اقتدار کا مزا چکھ چکی ہے اور جسے بعد ازاں2013ء کے انتخابات میں کرپشن کے سنگین الزامات کے نتیجے میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا، اب ایک بار پھر آئندہ عام انتخابات میں کامیابی کے لیے سابق وزیراعلیٰ اور پارٹی کے صوبائی صدر امیر حیدر خان ہوتی کی قیادت میں پر تول رہی ہے۔ امیر حیدر خان ہوتی اے این پی کے دیگر قائدین کے برعکس نہ صرف حال ہی میں فریضۂ حج کی ادائیگی سے لوٹ کر اے این پی کے سیکولر تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کرچکے ہیں بلکہ انہوں نے ناراض بیگم نسیم ولی کو اگلے عام انتخابات سے پہلے مناکر اور اُن کی قیادت میں قائم کیے جانے والے اے این پی ولی گروپ کو واپس اے این پی میں ضم کرنے میں جو کردار ادا کیا ہے وہ اس کا کریڈٹ جہاں پارٹی پر اپنی گرفت کی مضبوطی کی شکل میں حاصل کرنا چاہتے ہیں وہاں وہ اپنی ان کوششوں کے ذریعے اے این پی کو اُس کا کھویا ہوا سیاسی مقام بھی واپس دلانے کے خواہش مند ہیں۔ صوبے میں پختون قوم پرستی کی بنیاد پر سیاست کرنے والی دوسری جماعت قومی وطن پارٹی جو پی ٹی آئی کے ہاتھوں ساڑھے چار برسوں میں دو دفعہ اقتدار سے بے رحمی کے ساتھ علیحدگی کے گہرے زخم سہہ چکی ہے جہاں اپنی سیاسی بقا کی جنگ صوبائی اسمبلی میں اپنے کم ازکم تین ناراض ارکانِ اسمبلی کی خاموش بغاوت کی صورت میں لڑ رہی ہے، وہاں اُسے سیاسی میدان میں بھی اگلے عام انتخابات کے تناظر میں سخت چیلنج درپیش ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ آئندہ انتخابات میں کسی مضبوط سیاسی سہارے کی تلاش میں ہے، اور شاید اسی جستجو نے اُسے این اے 4 پشاور کے ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ(ن) کا دُم چھلاّ بننے پر مجبور کیا ہے۔
صوبے میں جاری سیاسی سرگرمیوں کے تناظر میں حیران کن طور پر پی ٹی آئی ساڑھے چار سال تک اقتدار پر براجمان رہنے اور تمام تر مخالفتوں اور اعتراضات کے باوجود نہ صرف اپنی مقبولیت کا گراف برقرار رکھنے میں کامیاب نظر آتی ہے بلکہ اس کے جلسوں میں لوگوں کے جوش وخروش کو دیکھتے ہوئے بسا اوقات ایسا گمان ہوتا ہے گویا اس کی مقبولیت میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا ہے۔ واضح رہے کہ پی ٹی آئی حال ہی میں سوات، چترال، ایبٹ آباد، دیر، صوابی، نوشہرہ اور پشاور میں اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرچکی ہے، اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے، اور اسی سلسلے کی کڑی کے طور پر پی ٹی آئی نے اے این پی کے سابق صوبائی جنرل سیکرٹری اور بیگم نسیم ولی خان کے دستِ راست فرید طوفان کو بنی گالہ میں عمران خان کے ہاتھوں پی ٹی آئی کی خلعتِ فاخرانہ عطا فرمائی ہے۔
خیبر پختون خوا میں برپا سیاسی ہلچل میں اگر متذکرہ بالا سیاسی جماعتوں کے برعکس کوئی جماعت انتہائی خاموشی اور منظم انداز میں اپنے روایتی اور مستحکم پاکٹس کے ساتھ ساتھ اپنے ممکنہ نئے اہداف کو ٹارگٹ بناتے ہوئے کامیاب پیش رفت کررہی ہے تو وہ جماعت اسلامی ہے، جس کے جواں سال صوبائی امیر مشتاق احمد خان جہاں خود ایک واضح وژن اور منصوبہ بندی کے ساتھ اگلے عام انتخابات میں جماعت اسلامی کو ایک برتر اور نمایاں مقام پر پہنچانے کے لیے پُرعزم ہیں وہاں انہوں نے اس حوالے سے مرکزی نظم کے ساتھ ساتھ ضلعی اور مقامی عہدیداران اور کارکنان کو بھی بہت حد تک متحرک کررکھا ہے۔ یاد رہے کہ جماعت اسلامی اِس سال پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ نہ صرف بڑے پیمانے پر نوجوانوں کو جے آئی یوتھ کے پلیٹ فارم سے جماعت اسلامی کا ہمنوا اور دست و بازو بنا چکی ہے بلکہ براہِ راست انتخابات کے ذریعے انتخابات کے مواقع فراہم کرکے اگلے عام انتخابات کے حوالے سے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو عملی تربیت کے مرحلے سے بھی گزار چکی ہے۔ جب کہ آج کل صوبے کے طول وعرض میں جاری خواتین ممبر شپ مہم کے ذریعے لاکھوں خواتین کو جماعت اسلامی میں شامل کرنے کے لیے خیبر سے چترال تک مہم بھی زور وشور سے جاری ہے۔ ان ہی سرگرمیوں کے سلسلے میں اگر ایک طرف جماعت کے موجودہ مرکزی امیر سراج الحق مسلسل خیبر پختون خوا کے دورے پر ہیں تو دوسری جانب سابق امیر سید منورحسن اور مرکزی سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ بھی صوبے کے دورے کرچکے ہیں۔ سید منورحسن اپنے دورے میں ایک بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کے دوران اس عزم کا اعادہ کرچکے ہیں کہ وطنِ عزیز کو درپیش چیلنجوںاور مصائب و مشکلات سے جماعت اسلامی اور اس کی صالح قیادت ہی نکال سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی معاشرے میں پُرامن، جمہوری اور منظم ومستحکم تبدیلی کی خواہش مند ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے پُرامن جمہوری جدوجہد پر یقین رکھتی ہے۔ صوبے میں ایک بڑی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آنے کے ضمن میں پی ٹی آئی کی طرح جماعت اسلامی بھی اب تک دیر، چترال، سوات، چارسدہ، ملاکنڈ، پشاوراور حال ہی میں صوابی میں بڑے بڑے جلسہ ہائے عام منعقد کرچکی ہے جن سے جماعت کے مرکزی امیر سراج الحق اور صوبائی امیر مشتاق احمد خان اور متعلقہ علاقوں کے مقامی عہدیداران کے علاوہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے مجوزہ امیدواران خطاب کرچکے ہیں۔
صوابی میں اسی نوع کے ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے سراج الحق نے کہا کہ 2018ء کے عام انتخابات سے پہلے پہلے پاناما کے تمام کرداروں کا بلا خوف و تردد احتساب ہونا چاہیے اور اس کے لیے سب سے پہلے میں خود کو پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ مالی کرپشن کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بداخلاقی، میرٹ کی پامالی اور ظلم و ناانصافی کا کلچر بھی عروج پر ہے اور اس ضمن میں تمام متعلقہ افراد اور اداروں کا کڑا احتساب ضروری ہے۔ سراج الحق نے کہا کہ پاکستان اور عالم اسلام کے تمام مسائل کا حل کڑے احتساب میں پنہاں ہے، اور یہ کام شریعت کی بالادستی کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے جس کے لیے جماعت اسلامی پُرخلوص جدوجہد کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے غریب اور محنت کش مزدور بیرونِ ملک محنت مزدوری کرکے جو رقم پاکستان بھیجتے ہیں اسے پاکستان کے حرام خور حکمران پچھلے ستّر برسوں سے لوٹ لوٹ کر بیرونِ ملک منتقل کرتے رہے ہیں جس کے نتیجے میں ملک کنگال ہوچکا ہے اور خزانہ خالی ہونے کی دُہائیاں دی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صدرِ مملکت ممنون حسین بنوں یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں طلبہ وطالبات اور فیکلٹی سے خطاب میں خود اعتراف کرچکے ہیں کہ موجودہ حکومت پچھلے ساڑھے چار برسوں کے دوران 1480ارب روپے کے قرضے لے چکی ہے جن سے نہ تو کوئی ڈیم بنایا گیا ہے اور نہ ہی یہ خطیر رقم کسی دوسرے بڑے منصوبے پر خرچ کی گئی ہے، جس کے نتیجے میں پاکستان پر 82 ارب ڈالر کا قرضہ چڑھ چکا ہے، جب کہ اس عرصے میں 375 ارب ڈالر سے زائد کی کرپشن ہوئی ہے۔ سراج الحق کا کہنا تھا کہ امریکہ نے پاکستان پر بالواسطہ حکمرانی کے لیے یہاں مختلف گھوڑے پال رکھے ہیں جنہیں وقتاً فوقتاً حسبِ ضرورت تبدیل کیا جاتا رہتا ہے، اور یہ سلسلہ پچھلی سات دہائیوں سے جاری ہے۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ خیبر پختون خوا کے غیور عوام امریکی کاسہ لیس حکمرانوں کو اگلے عام انتخابات میں بری طرح مسترد کردیں گے اور اسلام پسند، محب وطن، کرپشن فری قیادت کو آگے لانے کا موقع فراہم کریں گے۔
جماعت اسلامی کی بڑھتی ہوئی سیاسی سرگرمیوں اور ان میں عوام کی بڑھتی ہوئی دلچسپی، نیز امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی جانب سے کرپشن اور کرپٹ سیاسی راہنمائوں کے خلاف چلائی جانے والی بھرپور اور منظم مہم کے تناظر میں سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اگر جماعت اسلامی اسی رفتار سے کرپشن اور کرپٹ لیڈروں کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے احتساب کی اس تحریک کا ٹیمپو اگلے عام انتخابات تک برقرار رکھنے میں کامیاب رہی تو اس کا اثر جماعت کے حق میں بہتر انتخابی نتائج کی صورت میں لازماً پڑے گا۔

حصہ