تبصرۂ کتب

545

معارف مجلۂ تحقیق کا اجرا کل کی بات لگتی ہے۔ آج اس کا تیرھواں شمارہ زیر نظر ہے۔ دن بدن خوب سے خوب تر کا سفر تیزی سے طے ہورہا ہے۔ موجودہ شمارہ ہر خاص و عام کے لیے مفید اور معلومات افزا ہے اللہم زد فزد۔
موجودہ شمارے میں اردو اور انگریزی مقالات در ج ذیل ہیں۔
٭
معاصر مسلم ناقدینِ مغرب کے افکار کا جائزہ
محمد شہباز منج
٭
معبودِ برحق کا الہامی تصور
محمد افضل
٭
’’اسلام کے نظام میراث میں کلالہ کا شرعی مفہوم‘‘
حافظ احمد حماد۔ محمد کاشف نصیر
٭
فلسفہ احکام میراث
محمد اسماعیل
٭
استشراقی منہج تحقیق و تنقید
یاسرعرفات اعوان
٭
مستحقینِ زکوٰۃ: قرآن و حدیث کے تناظر میں
محمد آصف رضا۔ فاروق عزیز
٭
صاحبِ کنزالعمال شیخ علی متقی الہندیؒ …احوال وآثار
محمد ثانی
٭
سیاستِ حاضرہ میں خواتین کا کردار
حمیرا اشرف
٭
معجزات کی حقیقت
عبدالجبار
٭
مغل حکمران اور شیخ محدث عبدالحق دہلوی کے اثرات
فرزانہ جبین
٭
اختلافِ دین کے باعث غیرمسلم اقرباء کی وراثت کا مسئلہ
نصرت جبین
٭
مروجہ احتجاج کی شرعی حیثیت:تحقیقی مطالعہ
محمد اویس اسماعیل
٭
امام ابنِ تیمیہ کا منہج اصلاح
محمود احمد
٭
ملازمت پیشہ افراد کا حقیقی طرزِ حیات اور سیرتِ طیبہ
سعدیہ گلزار
٭
مروجہ تصوف میں حضرت اشرف علی تھانویؒ کی اصلاحات
عبدالغفار پانیزئی
٭
علامہ زمخشری کا تصورِ نظم ِقرآن
سیف اللہ

نقد و نظر

٭
عورت کے چہرے اور آواز کا پردہ
سید حسن الدین احمد
انگریزی زبان میں یہ مقالات شامل کیے گئے ہیں:
* Evaluating the Works of Maualna Muhammad Isma’il al -Udwi
Mukhtiar A.Kandhro
* Protection and Respect for the Places of Worship in Islam
Sanaullah Bhutto
Saifullah Bhutto
Muhammad Tufail Chandio
* Growth of Economic System by Implementation of Islamic Economics: The Experience of Pakistan
Shahzadi Pakeeza
Mohsina Munir
* Eradicating Poverty through Salam and Istisn`a’ Strategy for Poverty Reduction in Rural Pakistan
Atiq-ur-Rehman
Muhammad Asghar
Shahzad
* Role of Media in Increasing Educational Experiences and Islamic Attitudes (Students, Teachers) to Support Teaching – Learning Process and Character Building in the Light of Islam
Alia Ayub
Maroof Bin Rauf
Khadija Karim
Sadia Suleman Khan
مجلے میں اداریہ نام کی کوئی چیز نہیں۔ ’’مدیر غائب‘‘ بننے کے بجائے موقع سے فائدہ اٹھا کر اپنے خیالات کو رقم کرنا چاہیے۔
مقالات کا تعلق علمی مسائل سے ہوتا ہے۔ تحقیق کے لیے زندہ مسائل کو منتخب کیا جائے تو قومی زندگی کے لیے زیادہ مفید ہوں گے۔
مجلّہ سفید کاغذ پر خوبصورت طبع ہوا ہے۔ تحقیقی ادب میں وقیع اضافہ ہے۔
……٭٭……
سہ ماہی انوارِ رضا کی چند خصوصی اشاعتیں زیر نظر ہیں، ان کا مختصر تعارف پیشِ قارئین ہے۔
ملک محبوب الرسول قادری حفظہ اللہ کا تعلق اہلِ سنت و الجماعت بریلوی مسلک سے ہے، اور ان کا حضرت مولانا شاہ احمد نورانی سے بڑا قلبی تعلق ہے۔ پہلی خصوصی اشاعت حضرت سفیر اسلام نمبر ہے جو تحریکِ خلافت، تحریکِ موالات، تحریکِ ختم نبوت، تحریکِ پاکستان کے عظیم مجاہد، بین الاقوامی شہرت یافتہ مسلم مبلغ و مصلح، عالمی مبلغِ اسلام، خلیفہ سیدی امام احمد رضا، قائداعظم محمد علی جناح کے رفیقِ سفر اور دینی مرجع حضرت مولانا شاہ عبدالعلیم صدیقی کی گرانقدر دینی، علمی، سماجی، ملّی، قومی و روحانی خدمات کے اعتراف میں پیش کی گئی ہے۔ حضرت مولانا شاہ عبدالعلیم صدیقی، حضرت مولانا شاہ احمد نورانی کے والد بھی تھے۔
حصہ اردو کے صفحات 480، حصہ انگریزی کے صفحات 112، رنگین صفحات 28… کُل صفحات 620۔ قیمت 550 روپے۔ ہر طرح سے جامع بنانے کی کوشش ہے۔
سہ ماہی انوارِِ رضا جوہر آباد کا خطباتِ نورانی نمبر۔ اس خصوصی اشاعت میں حضرت مولانا شاہ احمد نورانی ؒ کے 18 خطبات جمع کیے گئے ہیں۔ پیغامات اور منظومات اس کے علاوہ ہیں۔ تصاویر بھی دی گئی ہیں۔ صفحات 264، قیمت 360 روپے۔
سہ ماہی انوارِ رخاص جوہر آباد نمبر 1 ملکی اور عالمی بدلتے حالات میں قائد اہل سنت مولانا شاہ احمد نورانی کے سیاسی تجزیے و تبصرے صفحات 368 قیمت 450 روپے۔
سہ ماہی انوارِ رضا جوہر آباد کی خصوصی اشاعت بنام تعمیر ملت کے لیے جمعیت علماء پاکستان کی سیاسی جدوجہد۔ تاریخ اور سیاسی جدوجہد کی تفصیلات اس نمبر میں جمع کردی گئی ہیں۔ صفحات 576، قیمت 550 روپے۔
یہ تمام اشاعتیں سفید کاغذ پر طبع کی گئی ہیں اور مجلّد ہیں۔ اس قسم کی خصوصی اشاعتیں مستقبل کے لیے بہت اہم ہوتی ہیں کیونکہ ان سے تاریخی لوازمہ مہیا ہوتا ہے۔ جیسے خطبات شاہ احمد نورانی ٹیپوں سے تحریر میں لائے گئے ہیں جو ایک پُرمشقت کام ہے۔ ہم نے بھی شاہ صاحب کی بہت سی تقاریر سنی ہیں جو دینی بھی تھیں اور سیاسی بھی۔ سیاست میں ان کا مطمح نظر نظام مصطفی کا نفاذ تھا، یعنی اسلامی نظام کو پاکستان میں نافذ دیکھنا چاہتے تھے۔
……٭٭……
مرزا دبیر اپنے زمانے کے مشہور مرثیہ گو شاعر تھے، ایک خاص ماحول کے اندر انہوں نے اپنے فن کی جوت جگائی اور فنِ شاعری میں مرثیہ گوئی کو بلند مقام عطا کردیا۔ اردو زبان کے سلسلے میں ان کے مراثی کی جو اہمیت ہے وہ اہلِ نظر سے مخفی نہیں۔ ڈاکٹر ظہیر فتح پوری نے انتخاب کرکے بیس مرثیوں کو اس کتاب میں مرتب کردیا ہے۔ یہ اس کتاب کا تیسرا ایڈیشن ہے جو اہتمام کے ساتھ سفید کاغذ پر عمدہ طبع ہوا ہے۔ اس پر بحث رہی ہے کہ مرزا دبیر میرانیس سے اچھا شاعر ہے، یا میر انیس مرزا دبیر سے اچھا شاعر ہے؟ اس سلسلے میں کتب بھی تحریر کی گئی ہیں۔ ضمیر اختر نقوی تحریر فرماتے ہیں:
’’دبیر کا تخلیقی سرمایہ دکنی شعرا کو چھوڑ کر اردو کے سب شاعروں سے زیادہ ہے۔ روایات کے مطابق تو ان کے مرثیوں کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے، تاہم مطبوعہ مرثیوں کی تعداد 367 ہے۔ دبیر کے بعد غالباً انیس کے مرثیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، یعنی 176 ۔‘‘
ڈاکٹر ظہیر فتح پوری نے اس انتخاب ’مراثیِ دبیر‘ پر مبسوط مقدمہ لکھا ہے۔ اردو زبان میں لکھنؤ کے مرثیوں کا خاص مقام ہے۔ لغات اور اسلوب و ادائیگی میں ان کا مقام بہت بلند ہے۔ امداد امام اثر تحریر فرماتے ہیں:
’’ایثار اور سخاوت شہرۂ آفاق ہے۔ علم و فضل کے ساتھ توفیقِ عبادت، شرافت، منکسر مزاجی، خاکساری، فروتنی، خوش مزاجی، خوش اخلاقی، خوش اوقاتی ان کے اخلاقِ حسنہ ہیں۔‘‘
مسعود حسن رضوی لکھتے ہیں:
’’مرزا دبیر علی اللہ مقامہ کا پایۂ شاعری معرضِ اختلاف میں رہا ہے، مگر ان کے علم و فضل، ذہن و ذکا، زہد و اتقا، مذہبیت اور موسیقیت کا کسی کو انکار نہیں‘‘۔
مرزا غالب بھی دبیر کو مرثیے کا سب سے بڑا شاعر تسلیم کرتے تھے۔ علم اردو زبان کے لیے ان مراثی کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔

حصہ