(بعض تجزیہ نگاروں نے اسے پچاس سال میں کسی الیکشن کا سب سے کم ٹرن آؤٹ کہا۔(سید عارف بہار

208

مقبوضہ کشمیر میں لوک سبھا کی دو نشستوں پر ضمنی انتخابات کے دوران آٹھ کشمیری نوجوان بھارتی جمہوریت کی بھینٹ چڑھ گئے۔ بھارت کی جمہوریت دہلی، امرتسر، ممبئی اور آگرہ میں شاید کوئی اچھا نظام ہو، مگر کشمیر کی وادیوں میں یہ جمہوریت ایک خوفناک شکل اور ڈراؤنا خواب بن گئی ہے، جسے کشمیریوں کے لہو کی چاٹ لگ چکی ہے۔ جب تک یہ چند نوجوانوں کا لہو پی نہ لے، اسے سکون اور قرار نہیں آتا۔ اتوار کو ایک بار پھر یہی ہوا، جب کشمیری نوجوان انتخابات کے بائیکاٹ کی حمایت میں اپنے جذبات کا اظہار کررہے تھے تو بھارتی فوجیوں نے کئی مقامات پر گولیاں چلا کر درجنوں نوجوانوں کو زخمی اور آٹھ کو شہید کردیا۔
برہان مظفر وانی کے بعد کشمیر غم واندوہ میں ڈوبا ہوا ہے اور اپنے نوخیزوں کے چھلنی جسموں سے اُداس، اور بچھڑنے والوں کی یاد میں ماتم زدہ ہے۔ موت کے خوف سے آزاد ایک نسل کشمیریوں کی قیادت بھی کررہی ہے اور ان کے رجحان اور رویوں کی تشکیل بھی کررہی ہے۔ اس نسل کے پاس لٹانے کو آخری متاع نقدِ جاں ہے اور وہ سر ہتھیلی پر رکھ کر دشمن کے مقابل کھڑی ہے۔ بھارت کے سابق وزیر دفاع یشونت سنہا کی سربراہی میں گزشتہ برس جس وفد نے کشمیر کے حالات کا بغور مشاہدہ کرکے اپنی رپورٹ جاری کی تھی اس کا خلاصہ بھی یہی تھا کہ کشمیر میں موت کے خوف سے آزاد نسل برسرِ میدان ہے۔ اس کا ثبوت حریت پسندوں اور بھارتی فوجیوں کے درمیان انکاؤنٹر ہیں۔ ایسے مواقع پر لوگ کراس فائر کی زد میں آنے کے خوف سے گھروں میں دبک کر بیٹھ جاتے ہیں، مگر کشمیر کے بہادر بیٹے اور مائیں فوج اور حریت پسندوں کے درمیان تصادم میں ہاتھوں میں پتھر لے کر گھروں سے نکل پڑتے ہیں اور گھات لگاکر فوجیوں پر پتھراؤ کرتے ہیں۔ کئی معرکوں میں حریت پسند، عوام کے اس کردار کی بدولت گھیرا توڑ کر بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اس بہادری کو کوئی نام نہیں دیا جاسکتا۔ دنیا میں عام آدمی کی طرف سے موت کا تعاقب کرنے کی ایسی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔ انتخابات کے موقع پر شہادت کو گلے لگانا بھی کشمیری عوام کے جذبوں اور جراتوں کا ثبوت ہے۔ بھارت نے ان انتخابات میں عوام کی شرکت کو یقینی بنانے کے لیے بے پناہ اقدامات کررکھے تھے۔ بیس ہزار فوجی ان انتخابات کی نگرانی اور حفاظت کے کام پر مامور تھے۔ انتخابات کا بائیکاٹ کرنے والی حریت کانفرنس کی قیادت کو اپنی بات کہنے سے روکنے کے لیے جیلوں میں ڈال دیا گیا تھا۔ پیلٹ گن کا خوف پہلے ہی لوگوں پر طاری کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ فاروق عبداللہ جو ایک نشست پر امیدوار تھے، عوام کا دل لبھانے اور ہمدردی سمیٹنے کے لیے بھارت کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کررہے تھے اور آماد�ۂ مزاحمت نوجوانوں کی حمایت میں رطب اللسان دکھائی دیتے تھے۔ ان کی تقریروں کے وڈیو کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہورہے تھے۔ اس سے ووٹر ٹرن آؤٹ بڑھ جانے کا امکان تھا، مگر پولنگ کے دن بوتھ ویران رہے اور پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹروں سے زیادہ پولیس اور فوج کے اہلکاروں کی بھیڑ لگی رہی۔ انٹرنیٹ اور ٹیلی فون سروس مکمل طور پر بند کردی گئی تھی۔ کشمیرکا آزاد اور بیرونی دنیا سے رابطہ کلی منقطع کردیا گیا تھا۔ کشمیر کے ماتمی اور سوگوار ماحول میں کوئی بھی شخص انتخابات میں حصہ لینے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں تھا۔ کشمیریوں کے زخموں سے مسلسل خون رس رہا تھا۔ وہ برہان وانی کی شہادت کے بعد شروع ہونے والی مزاحمت کے ماحول سے ابھی ذہنی اور عملی طور پر باہر نہیں آئے تھے۔ ایسے میں بھارت نے انتخابات کا ڈول ڈال کر ان کے زخموں پر نمک پاشی کرنے کی کوشش کی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وسطی کشمیر کی نشست کے لیے قائم ایک سو پولنگ اسٹیشنوں پر خود مشتعل ووٹروں نے پولنگ بوتھوں پر پیٹرول بموں اور پتھروں سے حملے کیے اور کئی ایک کو جلا ڈالا گیا جن پر پولنگ نہ ہوسکی۔ سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ میں بیس سال میں چھے الیکشن لڑ چکا ہوں مگر میں نے اس ایسا پُرتشدد الیکشن پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ اس عالم میں بھارتی فوج نے انتخابات کے خلاف احتجاج کرنے والے آٹھ نوجوانوں کو موت کی نیند سلا کر اپنی جمہوریت کا خونیں رخ اور رنگ دنیا پر آشکار کیا۔بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس کے مطابق ووٹر ٹرن آؤٹ 6.2 فیصد رہا، بعد میں اسے 7.2 بتایا گیا۔جبکہ گزشتہ انتخابات میں اسی نشست پر ٹرن آؤٹ 26 فیصد رہا تھا۔ بعض تجزیہ نگاروں نے اسے پچاس سال میں کسی الیکشن کا سب سے کم ٹرن آؤٹ کہا۔ حریت کانفرنس نے انتخابات کے روز آٹھ نوجوانوں کی شہادت کے خلاف دوروزہ ہڑتال کاا علان کرتے ہوئے اس ساری صورتِ حال پر ایک طویل بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ مقامی میڈیا کسی دباؤ میں ٹرن آؤٹ کے حوالے سے غلط اعداد وشمار پیش کررہا ہے، حقیقت یہ ہے کہ ٹرن آؤٹ دو فیصد سے بھی کم رہا ہے۔حریت کانفرنس کی قیادت نے مشترکہ بیان میں کہا کہ بھارت انتخابات کی یہ جنگ ہار چکا ہے۔سری نگر کے ایک انگریزی روزنامے ’’گریٹر کشمیر ‘‘نے اس صورت حال پر ’’بلیک ڈے فار ڈیموکریسی ‘‘ (جمہوریت کے لیے سیاہ دن)کی سرخی جمائی۔وسطی کشمیر میں انتخابات میں عوام کے اس موڈ کو دیکھ کر وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کے بھائی تصدق حسین مفتی نے دوسری نشست کے انتخابات کے التوا کا مطالبہ کیا۔ تصدق مفتی کا مؤقف تھا کہ اب حالات انتخابات کے لیے سازگار نہیں رہے۔ پاکستانی مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے مقبوضہ کشمیر کی اس صورت حال پر تشویش کا اظہارکیا۔
1990ء کے بعد کشمیر میں جو صورتِ حال پیدا ہوئی ہے اس میں کئی برس تک وہاں صدر راج نافذ رہا۔ اسمبلی اور وزیراعلیٰ کے بجائے تمام معاملات گورنر چلاتا رہا۔ نوّے کی دہائی کے وسط میں جب بھارت کے اوسان بحال ہوئے تو امریکہ، برطانیہ اور دوسری عالمی طاقتوں کے تعاون سے بھارت نے کشمیر میں سیاسی عمل کی بحالی کی طرف پیش رفت شروع کی۔ ریاستی انتخابات کی مخالفت کو جمہوریت کی مخالفت کا لبادہ پہناکر حریت پسندوں کو انتخابی عمل کی کھلی مخالفت سے باز رکھنے اور انھیں اسے سبوتاژ کرنے سے روکنے کے لیے سرتوڑ سفارتی کوششیں ہوتی رہیں۔ وادی میں انتخابی عمل کے آغاز سے پہلے امریکی اور برطانوی سفارت کاروں نے اسلام آباد کے دورے کیے اور پاکستان پر حریت پسندوں کو انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے سے روکنے کے لیے اپنا اثر رسوخ استعمال کرنے کا دباؤ ڈالتے رہے۔ پاکستان میں اس دباؤ کا سامنا کرنے کی سکت نہیں تھی، لہٰذا اس نے حریت پسندوں پر اپنا اثر رسوخ استعمال کرکے انتخابی عمل میں زیادہ مداخلت نہیں کی۔ بعد کے ہر الیکشن کے لیے بھارت کے ہاتھ میں یہ آسان نسخہ آگیا۔ ہر الیکشن سے پہلے مغربی سفارت کار سرگرم ہوکر پاکستان پر دباؤ بڑھاتے رہے، جس کے نتیجے میں ایک طرف الیکشن میں حصہ لینے والے مقبوضہ کشمیر کے سیاست دان یہ اعلان کرتے رہے کہ انتخابات کا مسئلہ کشمیر سے کوئی لینا دینا نہیں اور یہ انتخابات عوام کے روزمرہ مسائل کے حل کے لیے
(باقی صفحہ 45)
لڑے جارہے ہیں، تو دوسری طرف مظفرآباد میں حریت پسندوں کی طرف سے کچھ ایسے ذومعنی جملے کہے جاتے جن سے وادی میں یہ پیغام جاتا رہا کہ الیکشن میں حصہ لینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ حریت کانفرنس کے اندر سے کچھ آوازیں انتخابات کو نان ایشو قرار دیتی رہیں، اور یوں پاکستان سے اس عمل میں سہولت کاری کا کام لیا جاتا رہا، جس کے نتیجے میں وادی میں ووٹر ٹرن آؤٹ بتدریج بڑھتا چلا گیا۔
اب صورتِ حال قطعی مختلف ہے اور اس وقت پاکستان اور بھارت میں مذاکرات اور روابط کے سب راستے بند اور منقطع ہیں۔ بیک چینل ڈپلومیسی ختم ہے اور غیر ملکی سفارتی ذرائع بھی تھک کر پیچھے ہٹ چکے ہیں۔ اس ماحول میں بھارت اپنے بل بوتے پر وادی میں انتخابات کرانے کا یہ تجربہ کربیٹھا، اور یوں اُسے عوامی غیظ و غضب کی شکل میں کشمیر کی زمینی حقیقت کا سامنا کرنا پڑا، اور بھارت کی جمہوریت کا دامن کشمیریوں کے خون کے چھینٹوں سے داغ دار ہوکر رہ گیا۔

حصہ