(نام مجلہ (سید فضل الرحمن صاحب

529

نام مجلہ
:
ماہنامہ تعمیر افکار کراچی، اشاعتِ خاص

:
مسلکی اور فقہی اختلافات
حدود، قیود، آداب
صدرِ مجلس
:
سید فضل الرحمن صاحب
مدیر اعلیٰ
:
حافظ حقانی میاں قادری
مدیر
:
سید عزیز الرحمن
معاون
:
سید محمد عثمان
صفحات
:
576۔ قیمت اشاعت خاص 690 روپے
ناشر
:
زوّار اکیڈمی پبلی کیشنز۔ اے 18/4
ناظم آباد نمبر 4 کراچی 74600

ماہنامہ ’’تعمیر افکار‘‘ کراچی، اسلامی افکار کا ترجمان علمی، ادبی اور تحقیقی مجلہ ہے جو ہمارے شہر کے لیے باعثِ عزت ہے، کیونکہ اہلِ علم و عمل سے ہی شہروں کا وقار بلند ہوتا ہے۔ عربی میں کہتے ہیں ’’شرف المکان بالمکین‘‘ یعنی مکان کا شرف مکین سے ہوتا ہے اور مکین کے محاسنِ اخلاق اور علم ہی انسان کو توقیر بخشتے ہیں۔ ہمارے ڈاکٹر سید عزیز الرحمن سید زوّار حسین نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ علیہ کے پوتے اور پروفیسر سید محمد سلیم صاحب کے نواسے ہیں جو ہمہ دم خدمتِ دین میں مصروف رہتے ہیں، جس کا ایک گوشہ ماہنامہ تعمیر افکار کراچی کی ادارت بھی ہے۔ ڈاکٹر سید عزیز الرحمن فرماتے ہیں:
’’تعمیر افکار نے اپنے سفر کا آغاز2000ء میں کیا تھا، اور اس کی پہلی اشاعتِ خاص مارچ 2003ء میں شائع ہوئی تھی، جو پروفیسر سید محمد سلیم رحمۃ اللہ کی شخصیت اور خدمات کے حوالے سے تھی۔ پھر یہ سلسلہ جاری رہا۔ تعمیر افکار نے شخصیات کے علاوہ سیرتِ طیبہ کے حوالے سے چار، اور قرآن کریم کے حوالے سے ایک خاص اشاعت پیش کی۔ یہ ایک اشاعت ہی دو جلدوں اور چودہ سو سے زائد صفحات پر مشتمل تھی۔ ترتیب کے اعتبار سے چھوٹی بڑی اشاعتوں کو ملا کر زیرنظر اشاعت الحمدللہ اس کی بارہویں خاص اشاعت ہے۔ ان میں دو اشاعتیں ایسی شائع ہوئی ہیں جو دو، دو جلدوں پر مشتمل تھیں۔
یہ اشاعت اپنے موضوع کے اعتبار سے ایک اہم عنوان پر مشتمل ہے، یہ عنوان ’’ادب الخلاف‘‘ہے، جو اپنی ضرورت اور جامعیت کے لحاظ سے اہم ترین عنوان ہے، اور اس عنوان کی ضرورت کے احساس کے باوجود اس پر زیادہ کام نظر نہیں آتا، نہ اہلِ علم کی زیادہ توجہ محسوس ہوتی ہے، گو ماضی میں اس پرکافی کچھ لکھا جاچکا ہے۔ اسی ضرورت کے تحت اس عنوان کو تعمیر افکار کی اس اشاعت کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔
اس اشاعت میں مستقل مضامین کے علاوہ کچھ ترجمے پیش کیے جارہے ہیں، اور کچھ طویل تحریروں کی تلخیص پیش کی جارہی ہے۔ یہ تحریریں بکھری ہوئی تھیں، اس اشاعت کی صورت میں انہیں یک جا کردیاگیا ہے۔ اور اصل ماخذ کی نشاندہی بھی کردی گئی ہے۔ جن تحریروں کے آخر میں ماخذ درج نہیں ہے وہ اسی اشاعت کے لیے موصول شدہ ہیں۔ بعض تحریروں میں ہماری درخواست پر مضمون نگاروں نے اضافے کیے ہیں، اس کی وضاحت بھی موجود ہے۔
حسبِ سابق یہ اشاعت بھی برادرِ بزرگ جناب ڈاکٹر حافظ حقانی میاں قادری کی تحریک، تشویق اور تعاون کا نتیجہ بلکہ حاصل ہے۔ ڈاکٹر صاحب اپنے اخّاذ ذہن سے مختلف عنوانات سوچتے رہتے ہیں اور ہمیں مصروف رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس کاوش کو بھی قبول فرمائے۔
ہمیں امید ہے کہ یہ اشاعتِ خاص آج کی ایک اہم ضرورت کو پورا کرے گی اور ہمیں علمی اختلاف کے اسلاف کے منہج و طریق کار سے روشناس کرانے کا باعث بنے گی۔
ہم ملتمس ہیں کہ اس اشاعت کے فروغ میں، اور خصوصاً نوجوان اہلِ علم تک پہنچانے میں اہلِ علم اور اہلِ خیر اپنا کردار ادا کریں۔ یہ اسلاف کا ورثہ ہے اور اس کی ضرورت ہم سب کو ہے، خصوصاً آج کے حالات میں یہ مشترکہ ذمے داری ہے، ہم اپنی محدود سی صلاحیتوں کے ساتھ جوکچھ کرسکے وہ لے کر حاضر ہیں۔
اللہ تعالیٰ قبول فرمائے، اس اشاعت کو مفید بنائے، ثمربار ثابت کرے اور ہمیں درست راستے کی ہدایت عطا فرمائے، جس پر گامزن ہوکر ہم آئندہ آنے والی نسل کو ایک مثالی معاشرہ دے سکیں۔ آمین۔ بجاہ سید المرسلین و علیٰ آلہ وصحبہ اجمعین ومن تبعھم باحسان الیٰ یوم الدین۔‘‘
ڈاکٹر حافظ حقانی میاں قادری لکھتے ہیں:
’’شریعتِ اسلامی کی جامعیت میں جہاں بہت سے پہلو شمار کرائے جاسکتے ہیں، وہیں اس کا ایک اہم ترین پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں نئے نئے زاویے سے غور وفکر کی آزادی دی گئی ہے۔ آزادئ فکر کو یہ مقام اسلام کے سوا کسی مذہبی روایت سے میسر نہیں آسکتا۔ اسلام نے اس کے ساتھ ساتھ اس اختلاف کے نتائج و ثمرات کو مؤثر اور مفید بنانے کے لیے آدابِ اختلاف بھی تعلیم فرمائے ہیں، اس لیے ہر ذی شعور کا غوروفکر اور تدبر کائنات کی رنگا رنگی اور ہمہ ہمی میں مزید تنوع پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ یہ بات مفید بھی ہوسکتی ہے اور مضر بھی۔ اس کی مضرتوں کو دور کرنے کے لیے شریعت نے اس کی ضابطہ بندی کی ہے۔ یہی ضابطہ بندی ادب الخلاف کہلاتی ہے۔
ادب الخلاف کے ضمن میں علماء سلف نے بہت عمدہ ہدایات تعلیم فرمائی ہیں۔ ان کی آرا کی روشنی میں فقہی اختلافات اور مسلکی امور کے سلسلے میں ایک جامع ضابطۂ اخلاق سہولت کے ساتھ تیار کیا جاسکتا ہے۔ ہم نے ذیل میں کوشش کی ہے کہ چند ایسی شخصیات کے بعض افکار مرتب و منضبط انداز میں پیش کیے جائیں، جن کو امتِ مسلم کی مجموعی میراث سمجھا جاتا ہے اور جنہیں ہر ایک اپنے سرکا تاج خیال کرتا ہے۔‘‘
اگر اختلاف اپنی جائز حدود سے نکل کر مخالفت اور جنگ و جدل میں تبدیل ہوجائے تو اس کی تباہ کاری بے حد و حساب ہوجاتی ہے۔ افتراق و انتشار، نفرت اور حسد سے فضائل ضائع اور رزائل ہر سو پھیل جاتے ہیں۔ اسی شناعت کو مدنظر رکھتے ہوئے چند نیک لوگوں نے یہ مجلہ ترتیب دیا ہے۔ اس میں کوشش کی گئی ہے کہ اختلاف کی تشریح اس طرح کی جائے کہ عامۃ الناس کو اس مسئلے کے خوب و بد سے پوری طرح آگاہ کردیا جائے اور صراطِ مستقیم کی طرف رہنمائی کردی جائے تاکہ کوئی عذر بے علمی کا نہ رہ جائے۔ اس شمارے کے محتویات درج ذیل ہیں اور چار حصوں میں منقسم ہیں۔
اتحادِ امت
اختلاف کیا ہے؟ (طہ جابر فیاض علوانی)، فقہی اختلاف کے اسباب (حافظ حبیب الرحمن)، اختلاف کی تاریخ (طہ جابر فیاض علوانی)، اتحادِ امت، امام ابن تیمیہ ؒ کے افکار کی روشنی میں (ڈاکٹر محمد مطنی۔ تلخیص سید محمد عثمان)، مسئلہ تکفیر میں اعتدال کی راہ (شیخ عبدالوہاب شعرانی۔ ترجمہ: ناظم اشرف مصباحی)، اسوۂ رسول اور ملّی یکجہتی (صاحب زادہ ساجد الرحمن)، اتحاد بین المسلمین (مفتی غلام قادر)، فرقہ بندی کی مذمت (مولانا سید زوار حسین شاہؒ )، انتہا پسندی کے ازالے میں رواداری کے اثرات (ڈاکٹر احمد بن یوسف الدرویش۔ مترجم: محمد اسد)
مسلکی اختلاف اور ہم
فرقہ بندی ایک فسانہ (مولانا مناظر احسن گیلانی)، اسلام اور فرقہ واریت (مولانا قاری محمد طیب۔ ترتیب و تدوین: مولانا قاری تنویر احمد شریفی، تلخیص: احمد عمر القادری)، فرقہ بندی اور معاشرے پر اس کے اثرات (ڈاکٹر محمود احمد غازی)، تفرقہ بازی: اسباب اور سدباب (ڈاکٹر عبدالقدیر خان)، بین المسالک ہم آہنگی اور اختلافِ رائے کے دائرے (مولانا زاہد الراشدی)، فرقہ واریت کے حل کے لیے حکمتِ عملی (ڈاکٹر محمد خالد مسعود)، مسلکی اختلافات (مولانا فضل ربی)، بین المسالک ہم آہنگی، عملی طریقہ، چند گزارشات (ڈاکٹر محسن نقوی)، بین المسالک ہم آہنگی کے لیے چند ناگزیر اقدامات کی نشاندہی (انجینئرمختار حسین فاروقی)، ہم آہنگی کا مشترکہ بنیادیں (علامہ محمد رمضان توقیر)، فرقہ وارانہ اختلاف اور راہِ اعتدال (علامہ ابتسام الٰہی ظہیر)، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی حکمت عملی، ماضی اور حال کے تجربات کی روشنی میں (ڈاکٹر سید عزیز الرحمن)
فقہی مکاتبِ فکر
فقہی مسالک کے درمیان جمع و تطبیق (مولانا سید سلمان حسنی ندوی)، استنباط مسائل میں مجتہدین فقہا کے اختلاف کا ایک مختصر جائزہ (ڈاکٹر محمد عبدالشہید نعمانی)، فقہی اختلاف کے آداب و ضوابط (حافظ حبیب الرحمن)، اختلاف کی اخلاقیات (ڈاکٹر سلمان فہد عودہ۔ ترجمہ: مولانا محمد عبیداللہ اسعدی)، اختلاف کے آداب (ڈاکٹر صالح بن حمید۔ ترجمہ: مفتی مزمل حسین کپاڈیا)، اسلامی مسالک میں فقہی اختلاف اور اس کی نوعیت (ڈاکٹر محمود الحسن عارف)، اختلاف: حدود اور آداب (مولانا صفی اللہ)
علماء کی ذمے داریاں
اکابر علمائے دیوبند کی علمی دیانت اور فقہی توسع (مولانا زاہد الراشدی)، بین المسالک ہم آہنگی میں علماء کا کردار (مولانا سمیع الحق)، مشاہدات، تجربات اور تجاویز (ڈاکٹر انیس احمد)، بین المسالک ہم آہنگی، کرنے کے چند کام (مفتی محمد زاہد)، دینی مدارس کا نصاب اور ہم آہنگی (مولانا محمد راغب نعیمی)، ہم آہنگی میں دینی مدارس کا کردار (علی طارق)‘‘
ہم بچپن سے علماء کی زبانی یہ سنتے آئے ہیں کہ فرقہ واریت شرک ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہر گروہ اسلام کے وسیع مفاد کو پس پشت ڈال کر اپنے محدود مسلکی یا ذاتی مفاد کو ترجیح دیتا ہے۔ اس سلسلے میں نام نہاد سیکولر حکومتوں کی کارکردگی کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا جو غیرملکی اسلام دشمن قوتوں کی خوشنودی کی خاطر یہ آتشِ جہنم بھڑکاتی ہیں۔ مولانا زاہد الراشدی حفظہ اللہ نے اپنے مضمون میں اس راز سے بھی پردہ اٹھایا ہے، لکھتے ہیں:
’’تجربے اور مشاہدے کے مطابق جس طرح مشترکہ قومی یا دینی مسئلے کے لیے جدوجہد یا کسی دینی مسئلے پر بیرونی دباؤ کے باعث ہمارے درمیان ہم آہنگی کے دو بڑے سبب ہوتے ہیں، اسی طرح ہمیں پھر سے منتشر کردینے کے بڑے سبب بھی میرے خیال میں دوہی ہیں:
ایک یہ کہ جب مذہبی قیادتوں کا اتحاد اور مشترکہ جدوجہد زیادہ دیر چلتی نظر آنے لگتی ہے تو ہر مسلک اور مذہبی مکتب فکر کی نچلی سطح کو اپنا اپنا مسلک خطرے میں محسوس ہونے لگ جاتا ہے اور مسلکی تشخص و امتیاز پس منظر میں جاتا ہوا دکھائی دینے لگتا ہے۔ چنانچہ اس سطح کے لوگ اپنے اپنے مسلک کے تحفظ کے لیے بڑی محنت کے ساتھ ایسا ماحول پیدا کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں کہ بڑی قیادتیں ان کے سامنے بے بس ہوجانے میں ہی عافیت محسوس کرتی ہیں اور معاملات پھر پرانی ڈگر پر واپس جانا شروع ہوجاتے ہیں۔
انتشار و افتراق کا دوسرا بڑا سبب یہ ہوتا ہے کہ دینی قیادتوں کا اتحاد جب کسی دینی مسئلے پر ملک کے عمومی نظام میں کسی تبدیلی کا باعث بنتا دکھائی دینے لگتا ہے تو ’’اسٹیٹس کو‘‘ کی محافظ قوتیں چوکنا ہوجاتی ہیں اورآہستہ آہستہ وہ ریڈ لائن نمایاں ہونے لگتی ہے جو قیام پاکستان کے بعد سے مروجہ نظام کو ہر حالت میں باقی رکھنے کی خواہش مند قوتوں نے قائم کر رکھی ہے۔ اور وہ ’’اسٹیٹس کو‘‘ کی حفاظت میں اس قدر حساس ہیں کہ مروجہ نوآبادیاتی نظام میں کسی ہلکی سی تبدیلی کا امکان بھی انہیں بے چین کردیتا ہے۔ پھر وہ قوتیں اپنے خفیہ وسائل و ذرائع کو حرکت میں لاتی ہیں اور دینی قیادتیں اپنی تمام تر صلاحیتوں اور کوششوں کے باوجود ’’تارپیڈو‘‘ ہوکر رہ جاتی ہیں۔
کچھ عرصے قبل لاہور کے فلیٹیز ہوٹل میں متحدہ علما کونسل کے زیراہتمام سود کے مسئلے پر منعقد ہونے والے سیمینار میں اکاؤنٹس کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ایک ریٹائرڈ اعلیٰ افسر نے بتایا کہ ہم لوگ ایسے مواقع پر سرکردہ علمائے کرام کی خدمت میں باقاعدہ حاضری دے کر اور انہیں ان کے مسلک کے ساتھ گہری ہمدردی اور وفاداری کا یقین دلا کر نذرانے بھی پیش کرتے تھے اور ایسے مسائل کی طرف انہیں توجہ دلاتے تھے جو مسالک کے درمیان خلفشار کا باعث بنتے ہیں۔ اور اس طرح ہم قومی سطح پر دینی جماعتوں کے اتحاد کو سبوتاژ کردینے میں کامیاب ہوجاتے تھے۔‘‘
عوام و خواص کو دین کی تعلیمات کی طرف بلانا اور منکرات سے آگاہ کرنا اللہ جلِ شانہ کا پسندیدہ عمل ہے۔
مجلہ نیوز پرنٹ پر عمدگی سے طبع کیا گیاہے۔
۔۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔۔

حصہ