(خلیق و خوش مزاج محقق (ڈاکٹر خلیق انجم ڈاکٹر طاہر مسعود

1001

خلیق انجم کو یاد کرتا ہوں تو دسمبر1991ء کا سفرِ ہند اور اس کی جملہ تفصیلات کی فلم نگاہوں کے سامنے جگمگ کرتی تصویروں اور منظروں کے ساتھ چلنے لگتی ہے۔ ہاں اسی سال انجمن ترقی ہند، دہلی کی کانفرنس میں شرکت کے لیے دہلی جانا ہوا۔ انجمن نے دارالحکومت دہلی میں بابائے اردو مولوی عبدالحق کی یاد میں عالمی اردو کانفرنس منانے کا فیصلہ کیا تھا۔ انجمن کے سیکرٹری تب خلیق انجم ہی تھے، کانفرنس کے روحِ رواں بھی وہی تھے۔ اُس وقت تک انھیں میں پوری طرح جانتا نہ تھا، البتہ ان کی علمی تحقیقی کتابوں سے واقفیت تھی۔ انھوں نے سرسید کی یادگار تصنیف ’’آثارالصنادید‘‘ کو، جو دہلی کی قدیم عمارتوں کی تحقیق و تفتیش کے حوالے سے نہایت قیمتی تاریخی معلومات کا خزنیہ تھی، بڑے سائز کی تین جلدوں میں مدوّن کیا تھا۔ ان کی تدوین و اشاعت ہی کے باعث یہ کتاب نئے سرے سے زندہ ہوگئی تھی اور علمی حلقوں میں خلیق انجم کے نام کا ڈنکا بج گیا تھا۔ ان کا ایک اور شاندار تحقیقی کارنامہ ’’غالب کے خطوط‘‘ کو یکجا کرکے معلومات افزا مقدمے کے ساتھ مرتب کرنا تھا۔ چار جلدوں میں مرتبہ یہ کتاب پاکستان و ہند دونوں ملکوں کی انجمن ترقی اردو سے شائع ہوئی تھی۔ یہ دونوں کتابیں توان کی مرتبہ تھیں، لیکن ان کی تحقیقی استعداد و معیار کا پہلا نمونہ ’’مرزا محمد رفیع سودا‘‘ جو ان کے پی ایچ ڈی کا مقالہ تھا۔ سوداؔ پر ایسا وقیع کام نہ پہلے ہوا تھا نہ بعد میں ۔ فنِ تحقیق کے اصولوں پر ان کی کتاب ’’متنی تنقید‘‘ آج بھی اردو ادب کی تحقیق کرنے والوں کے لیے رہنمائی کا معتبر وسیلہ ہے۔ پھر میرے رفیقِ بزرگ اور کرم فرما مشفق خواجہ ہندوستان گئے تو خلیق انجم نے ہندی میں کہا جائے کہ ان کا ’’سواگت‘‘ اس طرح کیا کہ ان کی موجودگی میں بجلی کی سی تیزی سے خواجہ صاحب پر ایک کتاب ’’مشفق خواجہ: ایک مطالعہ‘‘ مرتب کرکے شائع کردی۔ اصل میں خواجہ صاحب (مرحوم) کو بھارت میں مقیم دنیائے اردو کے ممتاز و بزرگ محقق جناب مالک رام کی بیماری کی اطلاع ملی تھی۔ اس اطلاع نے خواجہ صاحب کو اس قدر بے چین کردیا کہ عیادت کے لیے انھوں نے فوراً ہی دلی جانے کا فیصلہ کرلیا۔ اس کی اطلاع انھوں نے بہ ذریعہ خط مکتبہ جامعہ کے مہتمم اور ’’کتاب نما‘‘ کے ایڈیٹر محترم شاہد علی خان اور جناب خلیق انجم کو دی۔ خواجہ صاحب کے ادبی کالم ’’خامہ بگوش کے قلم سے‘‘ کی پاکستان ہی میں نہیں ہندوستان میں بھی دھوم مچی ہوئی تھی۔ ان کی تحقیقی کتابوں نے تو ان کے بلند پایہ تحقیقی معیار کا سکہ‘ پہلے ہی وہاں کے اہلِ علم طبقے میں جما رکھا تھا۔ کالموں نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔ چنانچہ جب خواجہ صاحب دلی پہنچے تو جناب شاہد علی خاں، خلیق انجم صاحب اور دیگر احباب نے طے کیا کہ خواجہ صاحب کی آمد کی خوشی میں ان کے یہاں رہتے ہوئے فٹافٹ ان کی ایک کتاب ’’غالب اور صفیر بلگرامی‘‘ اور دوسری کتاب خود خواجہ صاحب کی شخصیت اور ان کے مختلف پہلوؤں مثلاً تحقیق، شاعری اور کالم نگاری پر بھی مرتب کرکے منظرعام پر لائی جائے۔ یہ دوسری ذمہ داری خلیق انجم نے اٹھائی اور جیسا کہ انھوں نے اس کتاب کے دیباچے میں لکھا ہے کہ میری درخواست پر صرف تین دن میں مالک رام، مجتبیٰ حسین، ڈاکٹر تنویر علوی، شمیم حنفی، مخمور سعیدی، شہبازحسین نے مشفق خواجہ کی شخصیت اور ادبی خدمات پر مقالے تحریر کردیئے۔ اس خاکسار کا انٹرویو بھی ’’یہ صورت گر‘‘ والی کتاب سے اور کچھ دیگر انٹرویوز خواجہ صاحب کے اکٹھے کرکے، کچھ خواجہ صاحب کی اپنی تحریریں، غزلیں اور کالم وغیرہ کی مدد سے صرف ڈیڑھ ہفتے کی قلیل مدت میں دونوں مذکورہ کتابیں شائع کردی گئیں۔ خلیق انجم صاحب نے لکھا کہ ’’ہندوستان اور پاکستان میں اپنی نوعیت کی یہ پہلی کتاب ہے، پہلی بار شخصیت اور ادبی خدمات کے بارے میں مقالوں پر مشتمل کتاب پیش کرکے ایک ادیب کا استقبال کیا جارہا ہے۔‘‘
اس واقعے کو تفصیل سے بیان کرنے کا مقصد جہاں خلیق انجم کی فعالیت اور قوتِ کار کو بیان کرنا ہے وہیں یہ بھی بتانا ہے کہ ہندوستان میں پاکستان کے ادیبوں اور اہلِ علم کے لیے کیسا احترام اور محبت و خلوص کے کیسے انمول جذبات پائے جاتے ہیں جن کا تجربہ اور مشاہدہ مجھے بھی خلیق انجم کی بابائے اردو کانفرنس میں شرکت کے دوران ہوا۔ اس معاملے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ پاکستان کے کسی بھی اہم ادیب کا انتقال ہوتا ہے تو وہاں کے ادبی رسائل نہایت اہتمام سے نہ صرف تعزیتی مضامین شائع کرتے ہیں بلکہ بعض علمی و ادبی رسالے تو ان پر خصوصی شمارہ مرتب کرنے میں بھی ذرا تاخیر نہیں کرتے۔ چنانچہ عبداللہ حسین ہوں یا انتظار حسین، یا کوئی اور قابلِ ذکر شاعر و ادیب۔۔۔ وہاں کے رسائل میں مضامین کے علاوہ خصوصی نمبر تک شائع ہوچکے ہیں۔ (عبداللہ حسین پر ایک بھارتی رسالے کی خصوصی اشاعت میں یہ دیکھ کر میں حیران رہ گیا کہ اس میں عبداللہ حسین کے ناول ’’قید‘‘ پر میرا برسوں پرانا مضمون جو کشور ناہید کی زیر ادارت ’’ماہِ نو‘‘ میں چھپا تھا، وہ بھی شامل کرلیا گیا تھا۔ یہ رسالہ علی گڑھ سے عالمی اردو کانفرنس میں شرکت کے لیے آئے ہوئے ممتاز نقاد ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی میرے لیے لیتے آئے تھے۔) ہمارے ہاں کے ادبی رسالوں اور ادبی صورت حال کی غفلت و بے حسی کا قیاس اس سے کیجیے کہ ہندوستان کے خواہ کتنے ہی بڑے ادیب یا محقق کا ’’دیہانت‘‘ ہوجائے یہاں اس بھارتی ادیب کی علمی، ادبی اور تحقیقی خدمات پر مشکل ہی سے کوئی مضمون یا مقالہ لکھا اور چھاپا جاتا ہے۔ پچھلے برسوں میں ڈاکٹر گیان چند، مالک رام، رشید حسن خاں اور خود خلیق انجم کا انتقال ہوا لیکن کسی رسالے کا نمبر تو کجا کوئی قابلِ ذکر یا ڈھنگ کا مضمون یا مقالہ بھی شائع نہیں ہوا۔ قرۃ العین حیدر اردو کی ایسی ادیبہ ہیں جو پاکستان میں بھی ہردلعزیز ہیں۔ ’’آگ کا دریا‘‘ انھوں نے ہی لکھی تھی، اور ان کے کراچی کے زمانۂ قیام میں چھپی، اور پھر اس کے خلاف جو دریدہ دہنی پر مبنی مخالفانہ پروپیگنڈا ہوا غالباً اسی سے دل برداشتہ ہوکر وہ خاموشی سے لندن سدھاریں اور وہاں سے بھارت چلی گئیں۔ لیکن کبھی انھوں نے پاکستان کے بارے میں کوئی ایک منفی فقرہ ادا نہیں کیا جس سے سراغ ملتا ہو کہ انھیں اپنے ناول اور خود ان کی ذات کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈے کا کوئی رنج تھا۔ ان کے انتقال پر برسوں بعد احمد زین الدین نے اپنے رسالے ’’روشنائی‘‘ کا ایک نمبر شائع کیا اور بس۔ یہ بات نہایت افسوس کی ہے کہ پاکستانی ادیبوں اور عالموں کی بابت تو ہندوستانی لکھنے والوں اور وہاں کے رسالوں کے دامنِ دل کشادہ ہوں اور ہم وہاں کے ادیبوں اور محققوں کی طرف سے ایسی بے اعتنائی برتیں۔
بات دُور جاپڑی۔ میں تذکرہ خلیق انجم کا کررہا تھا۔ مرحوم کو قریب سے میں نے اسی دہلی کی عالمی کانفرنس میں دیکھا اور ان کی انتظامی صلاحیت، حاضر دماغی، ہردلعزیزی، قوتِ فیصلہ اور جرأت و استقامت کا قائل وگھائل ہوگیا۔ ہندوستان میں اُن دنوں مذہبی انتہا پسندی کی شروعات ہوچکی تھیں، اس کے باوجود بابائے اردو مولوی عبدالحق پر کانفرنس منعقد کرنے کا فیصلہ نہایت جرأت مندانہ تھا۔ جو لوگ تحریکِ پاکستان کا مطالعہ رکھتے ہیں انھیں معلوم ہوگا کہ 1938ء میں گاندھی جی نے جب ’’ودیا مندر اسکیم‘‘ کے تحت اردو زبان کو ہندی میں ضم کرکے عربی و فارسی رسم الخط کی جگہ دیوناگری رسم الخط اختیار کرنے اور اردو کو ’’ہندوستانی‘‘ کا نام دینے کی تحریک چلائی تو یہ بابائے اردو مولوی عبدالحق ہی تھے جنہوں نے گاندھی جی کی اس اسکیم کا مقابلہ انجمن ترقی اردو کے پلیٹ فارم سے کیا تھا اور اُس زمانے میں ریڈیو اور اخبارات ورسائل کے پلیٹ فارم پر ہندو اور مسلم دانشوروں اور ماہرینِ زبان میں جو بحثیں علمی نوعیت کی ہوئیں ان ہی بحثوں نے یہ واضح کردیا کہ گاندھی جی اور بابو راجندر پرساد اردو سے مخاصمت اس لیے رکھتے ہیں کہ ’’قرآن کے حروف‘‘ میں لکھی جاتی ہے، جیسا کہ ایک موقع پر گاندھی جی نے فرمایا تھا۔ اور بابائے اردو کے اس جرأت مندانہ مؤقف کا نتیجہ یہ نکلا کہ تقسیم کے وقت ہندو بلوائیوں نے دہلی میں انجمن ترقی اردو کے دفتر کو جوشِ دیوانگی میں نذرِ آتش کردیا تھا۔ تو دہلی جاتے ہوئے خلیق انجم سے ملنے کا اشتیاق تو تھا ہی، یہ بھی سوچتا تھا کہ وہ ہندوستان میں بیٹھ کر اردو زبان کی ترقی کے لیے کیا کچھ تگ و دو کررہے ہیں، یہ بھی چل کر دیکھا جائے۔
پاکستان سے اس کانفرنس میں جو لوگ مدعو کیے گئے تھے ان میں ڈاکٹر وحید قریشی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، ڈاکٹر انور سدید، مسعود احمد برکاتی، مولانا غلام مصطفی قاسمی، کمانڈر عسکری ارتقاء کے حسن عابد، احمد داؤد، حسن عباس اور یہ خاکسار شامل تھا۔ میں اور برکاتی صاحب ایک ہی طیارے میں ہم سفر ہوکر دلی کے پالم ایئرپورٹ پر اترے جہاں خلیق انجم صاحب کے بھیجے ہوئے انجمن کے دو کارکنوں نے ہمارا استقبال کیا۔ خلیق صاحب خود انتظامات میں مصروف تھے۔ ہمیں گاندھی پیس فاؤنڈیشن کے ہاسٹل میں ٹھیرایا گیا تھا۔ فاؤنڈیشن کے سامنے ہی انجمن ترقی اردو کی کئی منزلہ شاندار عمارت کھڑی تھی۔ عمارت کے گراؤنڈ فلور کو کرائے پر ایک بینک کو دے دیا گیا تھا، جس کا خطیرکرایہ انجمن کی آمدنی کا مستقل ذریعہ تھا۔ یہ کارنامہ بھی خلیق انجم کے عملی معاملات میں زرخیز ذہن اور ان کی قوتِ عمل کا تھا۔ تب کراچی میں انجمن کا خستہ حال، سال خوردہ دفتر اردو کالج سے متصل تھا۔ میں دونوں انجمنوں کے دفاتر کا موازنہ کرکے افسردہ تھا۔ اس لیے افسردہ تھا کہ تحریکِ پاکستان کی مقبولیت کا سبب مسلمانانِ ہند میں اسلام اور اردو زبان کے تحفظ و دفاع کا احساسِ مشترک تھا۔ دونوں کا ہم نے آزادی کے بعد اپنی مداہنت و مصلحت کوشی، اپنی بدعہدی اور وعدہ شکنی سے جو حشر کیا تھا اس کا قلق دلی میں انجمن کی شاندار عمارت کے سامنے کھڑے ہوکر شدت سے ہوا۔ دلی میں انجمن کی جو عمارت اردو اور مسلم دشمنی میں جلا کر راکھ کردی گئی تھی، اس کی راکھ پر ایک عالی شان عمارت کھڑی پاکستانی انجمن کی عمارت کا منہ چڑا رہی تھی۔ (خیر سے اب گلشن اقبال میں انجمن کی اپنی عمارت ہے اور ڈاکٹر فاطمہ حسن، سیکریٹری کی کوششوں سے ’اردو باغ، کا کام تیزی سے جاری ہے جو اپنی تکمیل کے بعد بھارتی انجمن کی عمارت کو بھی شرمادے گا۔ ان شاء اللہ)
انجمن کی عمارت میں داخل ہونے کے بعد ہم لفٹ کے ذریعے خلیق انجم کے دفتر پہنچے۔ وہ ملے تو لگا ہی نہیں کہ پہلی ملاقات ہے۔ اپنائیت اور شناسائیت تو اُن کے محبت آمیز رویّے میں گھلی ملی ہوئی تھی۔ درمیانہ سا قد، بڑی بڑی آنکھیں، آنکھوں پر سیاہ فریم کی عینک، جمے ہوئے سیاہ بال، موسم سردی کا تھا تو سوئٹر پر کوٹ پہن رکھا تھا اور گلے میں مفلر اس طرح ڈال رکھا تھا کہ کم از کم سوئٹر کے اندر چھپی ٹائی کی ناٹ دکھائی دیتی رہے۔ ان سے معانقہ کرتے ہوئے معاً میری نگاہ ان کی میز اورکرسی کی پچھلی دیوار پر آویزاں دو تصویروں پر پڑی۔ یہ مولوی عبدالحق اور علامہ اقبال کی تصویریں تھیں۔ اُس وقت تو نہیں لیکن دو ایک دن بعد میں نے موقع پاکر خلیق انجم صاحب سے پوچھا:
’’حضور! یہ ہمارے حکیم الامت کی جو تصویر آپ نے لگا رکھی ہے، اس پر اعتراضات تو نہیں کیے جاتے؟‘‘
فوراً ہی بولے:’’کرنے والے اعتراض کرتے ہیں اور پھر ہم جو جواب انھیں دیتے ہیں، اس کے بعد مزید کچھ کہنے کی ہمت نہیں پڑتی۔‘‘
جی تو چاہا کہ پوچھوں:’’آپ کیا جواب دیتے ہیں خلیق بھائی؟‘‘
لیکن پھر کچھ سوچ کر چپ رہا۔ بھارت میں اتنے دھڑلے سے رہنے پر کچھ پوچھتا بھی تو کیا پوچھتا!
اگلے دن بابائے اردو عالمی کانفرنس کے پہلے سیشن میں خلیق انجم کے جوہر کچھ اورکھلے۔ افتتاحی اجلاس کی صدارت وزارتِ اطلاعات کی ڈپٹی منسٹر مسز گرجابیاس کے سپرد تھی۔ معلوم ہوا گرجا بیاس صاحبہ خیر سے شاعرہ بھی ہیں اور ان کی شاعری کی جو نئی کتاب آئی ہے، اس کی مہورت بھی اسی سیشن میں ہوگی۔ کتاب پر گفتگو کے لیے ہمارے ڈاکٹر فرمان فتح پوری تشریف لائے اور ایسی تقریرِ دلپذیر کی کہ ہال داد وتحسین کی تالیوں سے گونج اٹھا۔ لیکن گرجا بیاس صاحبہ کی تقریر نے بھی سماں باندھ دیا۔ تقریر کیا تھی، نثر میں شاعری تھی۔ یہ تو بعد میں کھلا کہ خلیق انجم صاحب نے نہایت مہارت و باریکی سے سیشن کو گرجا بیاس کے نام معنون کردیا تھا، اور شاید ایسا کرنا وقت کا تقاضا تھا۔ لیکن ان کی جرأت کا مظاہرہ تب سامنے آیا جب انھوں نے اپنی تقریر میں حکومتِ ہند کو اس بات پر سخت لتاڑا کہ حکومت کے پاس ناچ گانا کرانے والے ادارے کو دینے کے لیے تو کروڑوں روپے ہیں لیکن اردو ادب کی ترقی کے لیے رقم دیتے ہوئے اس کا دامن تنگ ہوجاتا ہے۔ انھوں نے جیسے ہی اتنا کہا، ہال میں سے ایک صاحب اٹھ کھڑے ہوئے اور چیخ کر بولے:
’’ناچ گانا ہمارے کلچر کا حصہ ہے، آپ نے اس کی مذمت کرکے اچھا نہیں کیا‘‘۔ یہ کہہ کر وہ صاحب تو بیٹھ گئے، لیکن خلیق انجم نے ان کی بات کا جواب دیے بغیر اپنی تقریر جاری رکھی۔ بعد میں انھوں نے بتایاکہ یہ صاحب ’’قومی آواز‘‘ (جواہرلعل نہرو کا جاری کردہ اردو اخبار) میں کالم لکھتے ہیں اور گانے بجانے کی محفلوں میں بھی جانے کے رسیا ہیں تو اس لیے میری چوٹ برداشت نہ کرسکے۔ بدقسمتی سے وہ مسلمان کالم نگار تھے(جن کا نام لینا مناسب نہیں)۔
خلیق انجم صاحب کو دیکھا کہ سخت ذہنی تناؤ میں بھی صبر اور برداشت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ کانفرنس میں دنیا بھر سے مندوبین آئے ہوئے تھے۔ روزانہ ہی سیشن ہوتے رہے۔ اتنے مندوبین کی تواضع، ان کی ضروریات کا خیال۔۔۔ لیکن مجال ہے جو ان کے حسنِ انتظام سے کسی کو بھی کوئی شکایت ہوئی ہو۔ اگر کسی کی پیشانی پر معمولی سا بل بھی دیکھتے تو اپنی شگفتہ مزاجی سے موڈ پل بھر میں ٹھیک کردیتے۔ مجھے نہیں معلوم کہ بیک وقت علمی، عملی اور انتظامی صلاحیت ایک ساتھ کسی شخصیت میں جمع ہوتی ہیں تو کیسے ہوجاتی ہیں۔ اتنی بے پناہ مصروفیتوں میں بھی انھیں تھکتے، پریشان ہوتے، جھنجھلاتے نہ دیکھا۔ عجیب ہی مٹی کے بنے تھے۔ ایک شام وہ ہمیں اُس تاریخی قبرستان لے گئے جہاں حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ ، حضرت شیخ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کے علاوہ حکیم مومن خان مومن کا بھی مقبرہ تھا۔ خلیق انجم ہمیں اس قبرستان اور یہاں مدفون مرحومین کی بابت بتاتے رہے۔ ان کی معلومات قابلِ رشک تھیں۔ یہ تو بہت بعد میں معلوم ہوا کہ دہلی کے قبرستان میں دفن تاریخی شخصیات کی بابت اُن کی ایک نہایت عمدہ تحقیقی کتاب بھی ہے: ’’دہلی درگاہ شاہ مردان‘‘
انھیں انجمن کے دفتر میں اپنے اسٹاف کے ساتھ بیٹھ کر نہایت بے تکلفی سے کھانا کھاتے دیکھا۔ چھوٹے بڑے کا، افسری اور کلرکی کا کوئی فرق و امتیاز روا نہ رکھتے تھے۔ چونکہ دوپہر کے کھانے میں ایک دن میں بھی شریک تھا تو یہ دیکھ کر تعجب بھی ہوا کہ انھوں نے گھر سے آیا ناشتہ دان کھولا، ایک ڈبے میں ثابت مسور کی دال نکالی، اور چمچے کی مدد سے نہایت رغبت سے تناول فرمانے لگے۔
میں نے پوچھا: ’’جناب! یہ کیا؟‘‘
بولے: ’’یہی میرا لنچ ہے۔‘‘ رکے، بولے: ’’وٹامن سے بھرپور ہے۔‘‘
میں انھیں ثابت مسور کی دال سے غذائیت کشید کرتے دیکھتا رہا۔ آدمی تھوڑے پر قانع ہوجائے تو ذائقے کی غلامی سے بھی آزاد ہوجائے۔ کھانا گھر پر مزاج اور مرضی کے موافق نہ ہو تو گھروں میں فساد ہوتے سنا بھی ہے دیکھا بھی۔ خلیق انجم کی کامیاب زندگی کا راز قناعت میں پایا۔
کانفرنس کے آخری دن ساری دنیا سے آئے ہوئے مندوبین کی لمبی قطار بنی تھی، اخبارات کے نمائندے گروپ فوٹو کے لیے کیمرے سنبھالے کھڑے تھے۔ میں نے نوٹ کیا کہ خلیق انجم غائب ہیں۔ ابھی یہ سوچ ہی رہا تھاکہ دور سے وہ آتے دکھائی دیے۔ ان کے انتظار میں فوٹو گرافر رک گئے۔ خلیق صاحب قریب تو آئے لیکن کھڑے کہاں ہوں؟ قطار طویل تھی، جگہ کہیں نہ تھی۔ وہ خود کسی سے کیا کہتے کہ اس تاریخی موقع کی تصویر کے لیے میری بھی تو کوئی گنجائش نکالو۔ جب انھیں سامنے کھڑے قطار میں اپنے لیے جگہ تلاش کرتے پایا تو مجھ سے رہا نہ گیا، میں قطار میں سے نکل گیا اور انھیں اپنی جگہ آکھڑے ہونے کی دعوت دی۔ ان کے قطار کا حصہ بنتے ہی فلیش جھمجھمائے اور تصویریں اترتی گئیں۔ اردو دنیائے ادب کی ایسی کہکشاں پھر مشکل ہی سے کہیں جگمگائی ہو۔
کانفرنس ختم ہوئی تو ایک ایک کرکے سبھی رخصت ہوتے گئے۔ میں ٹھیر گیا کیونکہ مجھے انیسویں صدی کی اردو صحافت پر تحقیقی کام کے لیے انجمن کی لائبریری کے علاوہ شہر کی دیگر لائبریریوں میں بھی کام کرنا تھا۔ چنانچہ جب تک دہلی میں رہا، خلیق صاحب کی ہدایت پر ایم حبیب خاں پچھلی سے پچھلی صدی کے اخبارات کی فائلیں میرے حوالے کرتے رہے۔ ایک دن خلیق صاحب اپنے دولت کدے پر بھی لے گئے۔ گھر میں بھی ماحول بے تکلفانہ اور ان کا رویہ بیوی بچوں کے ساتھ دوستانہ پایا۔ واپسی پر ان سے کچھ عرصہ خط کتابت کا رشتہ بحال رہا۔ ایک خط میں انھوں نے مجھے دوبارہ دہلی آنے کی پُرشفقت دعوت دی۔ افسوس کہ اس دعوت کو قبول کرنے کی نوبت نہ آسکی۔
بعد میں وہ ایک بار کراچی کی اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ابلاغ عامہ کی کانفرنس میں شرکت کے لیے تشریف لائے۔ لیکن بدقسمتی سے ان سے ملاقات نہ ہوسکی۔ اس کا قلق آج بھی دل میں ہے۔ ان کی وفات پر ’’اردو ادب‘‘ دہلی نے خلیق انجم نمبر شائع کیا ہے۔ ان پر جو مضامین لکھے گئے ہیں ان کا مجموعی تاثر یہی ہے کہ ان کے بعد دلی کی ادبی دنیا ایک بار پھر اجڑی اجڑی سے لگنے لگی ہے۔
nn

حصہ