تحریک پاکستان کے عظیم مگر مظلوم ترین رہنماء (شہبا ز ملک)

499

برصغیر کے مسلمانوں نے حصولِ پاکستان کے لیے ایک طویل تحریک چلائی جس میں برصغیر پاک و ہند کے اُن علاقوں کے افراد نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جو آج پاکستان میں شامل نہیں، اور ان شخصیات نے بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا جو ملک سے باہر تھیں۔ ان میں سب سے معروف و ممتاز اور قابل احترام مگر مظلوم شخصیت لفظ ’’پاکستان‘‘ کے خالق چودھری رحمت علی تھے۔ چودھری رحمت علی نے پاکستان نیشنل موومنٹ کی بنیاد رکھ کر اس کے پلیٹ فارم سے تحریکِ پاکستان کے لیے بھرپور کردار ادا کیا، مگر اس عظیم فریڈم فائٹر کو پاکستان بننے کے بعد ہر سطح پر نظراندا ز کردیا گیا، کیوں کہ بابائے قوم اور شہید ملت کے بعد اقتدار پر ایسے لوگ قابض ہوگئے جن کا تحریکِ پاکستان سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا، جس کے لیے محسن بھوپالی مرحوم نے کہا تھا کہ
نیرنگئ سیاستِ دوراں تو دیکھیے
منزل اُنہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے
چودھری رحمت علی 16 نومبر 1896ء کو موضع موہراں تحصیل گڑھ شنکر ضلع ہوشیار پور مشرقی پنجاب میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد حاجی شاہ محمد دینی رجحان کے حامل ایک چھوٹے سے زمیندار تھے جن کا تعلق گجر خاندان سے تھا۔ آپ ابھی کمسن ہی تھے کہ آپ کی والدہ انتقال کرگئیں۔ چناں چہ سوتیلی ماں نے آپ کی پرورش کی۔ آپ کو گاؤں کی ریت و دستور کے مطابق سب سے پہلے قریبی مسجد میں قرآن و ناظرہ کی تعلیم کے لیے بھیجا گیا۔ اس کے بعد عربی و فارسی کی تعلیم آپ نے گاؤں ہی کے مدرسے میں حاصل کی۔ جب کہ میٹرک کا امتحان آپ نے اینگلو سنسکرت ہائی اسکول امرتسر سے پاس کیا۔ 1914ء میں لاہور آگئے جہاں مزید تعلیم کے حصول کے لیے اسلامیہ کالج میں داخل ہوگئے۔ 1916ء میں انٹرمیڈیٹ کا امتحان دیا، جب کہ 1918ء میں بی اے پاس کیا۔ اس کالج میں رہتے ہوئے چودھری رحمت علی کے جوہر اور ان کی قابلیت کو پروان چڑھنے کے مواقع ملے تو انہوں نے اپنے آپ کو طلبہ و اساتذہ سب سے منوالیا۔ چودھری رحمت علی نے بزم شبلی کی بنیاد رکھی اور اسی کے پلیٹ فارم سے سب سے پہلے غاصب انگریزوں کے خلاف آواز اُٹھائی۔ انہو ں نے 1915ء میں بزم شبلی کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’جن ریاستوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور جہاں مسلمان معاشی، مذہبی اور ثقافتی معاملات میں آزاد ہوں، ان علاقوں کو مسلمان ریاست بنایا جائے‘‘۔ جلد ہی بزم شبلی کے تحت مسلمان طالب علموں کو اسلام اور مسلمانوں کی اہمیت کا احساس دلایا جانے لگا تھا، جب کہ اس سے قبل اینگلو سنسکرت اسکول میں دورانِ تعلیم ہندو اساتذہ اور طلبہ کا مسلمانوں کے ساتھ رویہ دیکھ کر چودھری رحمت علی اس حقیقت کا ادراک کرچکے تھے کہ ہندو اور مسلمان دو علیحدہ قومیں ہیں جو کبھی بھی یکجا ہوکر نہیں رہ سکیں گی اور آخر مسلمانوں کو اپنے لیے کوئی علیحدہ جائے پناہ تلاش کرنا پڑے گی۔ چودھری رحمت علی کالج میگزین ’’دی کریسنٹ‘‘ کے ایڈیٹر بھی بنادیے گئے تھے۔ اسی دوران انہوں نے متعدد محافل اور مباحث میں بھی حصہ لینا شروع کردیا تھا، اور جب پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو کالج سے فوج کی بھرتی کی ایک کمیٹی کے سیکرٹری بھی مقرر کیے گئے۔ 1918ء میں آپ نے کالج کو خیرباد کہہ دیا اور محمد دین فوقؔ کے اخبار ’کشمیر گزٹ‘ میں اسسٹنٹ ایڈیٹر کے طور پر ذمے داری سنبھال لی، جب کہ اس سے قبل وہ برصغیر کے معروف اخبار ’پیسا‘ میں بھی کچھ عرصے اسی عہدے پر کام کرچکے تھے۔ بعد ازاں انہیں ایچی سن کالج میں ٹیوٹرشپ کی ملازمت مل گئی۔ اس ملازمت کے دوران انہوں نے لا کالج لاہور سے قانون کا امتحان امتیازی حیثیت سے پاس کرلیا۔ اس کے بعد نواب آف بہاولپور کے اتالیق بھی مقرر ہوئے، جب کہ آپ نے سردار دوست محمد مزاری کے سیکرٹری کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ چودھری رحمت علی نے مزاری خاندان کے جائداد کے تنازعے کو حل کرانے میں اہم کردار ادا کیا، جس پر انہیں 60 ہزار روپے کی خطیر رقم ملی۔ یہ واقعہ 1927ء کا ہے۔ اس سے اگلے سال آپ 1928ء میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے انگلستان چلے گئے جہاں کیمبرج اور ڈبلن یونیورسٹیوں سے ایم اے اور ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کیں، جب کہ لنکنزاِن (Lincoln’s Inn) سے بار ایٹ لا کی ڈگری لی۔ دوران تعلیم انہوں نے انگریزوں کی سیاست اور سیاسی چالوں کا بغور مشاہدہ کیا۔ انہوں نے ہندوستان پر انگریزوں کے قبضے کی پوری تاریخ کو بھی ایک بار انتہائی غور و تعمق کے ساتھ پڑھا اور اپنے وطن کو ان غاصبوں سے آزاد کرانے کا مصمم ارادہ کرلیا۔ انگلستان میں قیام کے دوران ہی انہوں نے پاکستان کے قیام کی تجاویز پیش کیں اور انہیں عملی شکل دینے کے لیے برصغیر کے طلبہ کو اپنے ساتھ ملا کر پاکستان نیشنل موومنٹ قائم کی اور اس کے پلیٹ فارم سے اپنی جدوجہد کا باقاعدہ آغاز کیا، چناں چہ جن دنوں انگریزوں نے برصغیر پاک و ہند کے مسائل کو حل کرنے کے لیے مسلمانوں، سکھوں اور انگریزوں کی گول میز کانفرنس کا لندن میں انعقاد کیا چودھری رحمت علی نے مسلم زعماء سے اس موقع پر ملاقاتیں کیں اور آزادئ وطن کے لیے اپنی جانب سے کی گئی کوششوں سے آگا ہ کیا۔ دسمبر 1930ء میں پہلی گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح، مولانا محمد علی جوہر اور علامہ اقبال سے آپ نے ملاقاتیں کیں۔ اس کے بعد بھی دونوں گول میز کانفرنس کے مواقع پر چودھری رحمت علی برصغیر کے مسلمان سیاسی رہنماؤں سے ملتے رہے۔ اسی دوران انہوں نے بہت سے انگریز دانشوروں اور رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کیں اور انہیں قائل کیا کہ وہ برطانیہ سرکار کو یہ باور کرائیں کہ ہندو مسلم اتحاد کسی صورت ممکن نہیں۔ برصغیر کے مسائل کا حل صرف اور صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ مسلمانوں کو مسلم علاقوں پر مشتمل ایک علیحدہ ملک دے دیا جائے۔چودھری رحمت علی نے “Now or Never” کے نام سے انگریزی میں ایک پمفلٹ شائع کیا جس میں اس بات کو واضح کیا گیاتھا کہ برصغیر کی ہندو اور مسلم ریاستوں میں علیحدہ علیحدہ تقسیم ناگزیر ہے، اور ایسا اگر ابھی اسی زمانے میں نہیں کیا گیاتو آنے والا ہر دور بدتر ثابت ہوگا اور متحدہ ہندوستان میں موجود دونوں بڑی قومیں خطرناک حدتک ایک دوسرے کی دشمن بن کر قتل و غارت گری پر اتر آئیں گی۔ اسی پمفلٹ میں آپ نے سب سے پہلے لفظ پاکستان کی تشریح بھی کی اور بتایا کہ لفظ پاکستان میں موجود ’پ‘ سے مراد پنجاب، ’ا‘ سے مراد افغانیہ (صوبہ خیبر پخت ون خوا)، ’ک‘ سے مراد کشمیر، ’س‘ کا حرف سندھ کے لیے، جبکہ ’تان‘ سے مراد بلوچستان ہے۔ چودھری رحمت علی نے مشرقی پاکستان کو شامل نہیں کیاتھا بلکہ ان کا کہنا تھا کہ ’’مشرقی پاکستان چونکہ مغربی حصے سے ہزار میل کے فاصلے پر ہے، اس سے دشمن کو وار کرنے کا موقع ملے گا‘‘۔ ان کی یہ پیش گوئی 1971ء میں درست ثابت ہوگئی۔ چودھری رحمت علی کا تحریر کردہ پمفلٹ”Now or Never” بڑی اہمیت کا حامل تھا۔ اس کتابچے میں مطالبۂ پاکستان کو کچھ اس انداز سے پیش کیا گیا تھا: ’’میں کروڑوں مسلمانوں کے ایماء پر جو پاکستان یعنی پنجاب، صوبہ سرحد، بلوچستان اور کشمیر میں رہتے ہیں، کہتا ہوں کہ یہ صوبے اور علاقے ہمارا مشترکہ ورثہ ہیں، اس لیے ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ ہمارے قومی وقار اور وجود کو تسلیم کیا جائے، ہمیں اپنے علاقوں کے لیے ایک جداگانہ اور علیحدہ وطن دیا جائے، اب جبکہ برطانیہ گول میز کانفرنسوں کے ذریعے ہندوستان میں فیڈرل حکومت اور آئین پر سوچ رہا ہے اس وقت یہ ضروری ہے کہ ہمارے اس مطالبے پر ہمدردانہ توجہ دی جائے، اور میں یہ بات بلاخوفِ تردید کہہ سکتا ہوں کہ ہم پاکستان کے مسلمان ایک جداگانہ قومیت کے حامل ہیں، ہم ہندوستان کے ہندوؤں سے قطعاً مختلف ہیں۔ ہمیں ہندوستان کے اندر زندہ رہنے کا پورا حق حاصل ہے۔ ہمیں ہمارا وقار اور درجہ دیا جانا چاہیے۔ ہم باقی پورے ہندوستان سے جداگانہ اور مختلف ہیں، اس سلسلے میں اب ہمارے لیے کہیں ابہام یا تشکیک کا موقع نہیں ہے، سیدھا سا معاملہ اب یہی ہے کہ اس مقصد کے لیے یا تو اب ہم زندہ رہیں یا پھر موت کو قبول کرلیں۔‘‘ چودھری رحمت علی نے اپنا پمفلٹ لندن میں وقفے وقفے سے منعقدہ گول میز کانفرنسوں میں شرکت کرنے والے زعماء میں تقسیم کیا تھا۔ چودھری رحمت علی نے ہندوستان میں موجود دیگر علاقوں کے لیے بھی نام فراہم کیے مثلاً بنگال کے لوگوں کے وطن کے لیے ’’بنگستان‘‘، بہار اور اڑیسہ کے لوگوں کے وطن کے لیے ’’فرخستان‘‘، اور سلطنت حیدرآباد دکن کے لیے ’’عثمانستان‘‘۔ ترکی کی عالمی شہرت یافتہ ادیب اور دانشور خالدہ ادیب خانم نے لندن میں چودھری رحمت علی کے قیام اور تعلیمی سرگرمیوں کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’چودھری رحمت علی نے تحریک پاکستان کے سلسلے میں اپنی کوششوں کا دائرہ کار بڑھاتے ہوئے اپنی جاری و ساری تعلیم کا بھی خیال نہ رکھا بلکہ وہ دیوانہ وار اس تحریک میں مصروف و منہمک ہوگئے، حالانکہ انہیں بہت ساری دشواریوں کا سامنا بھی کرنا پڑا، اور انہوں نے شاید پاکستان بننے سے پہلے شادی نہ کرنے کا عہد کررکھا تھا کہ بہت سے چاہنے والوں کے باوجود وہ کسی کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک نہیں ہوئے، یا شاید انہیں غلام قوم کو آزادی دلانے کے جذبے نے کبھی شادی کے بندھن میں بندھنے کے لیے سوچنے کا موقع ہی فراہم نہیں کیا۔ وہ بعض اوقات پاکستان کے معاملے میں جذباتی بھی ہوجایا کرتے تھے‘‘۔ چودھری رحمت علی نے آزادئ وطن کی خاطر اپنی کوششوں کو انگلستان کی فضاؤں تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ اس سلسلے میں آپ نے جرمنی جاکر ہٹلر سے ملاقات کی۔ برلن میں ہونے والی اس ملاقات میں چودھری رحمت علی نے ہٹلر کو برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں پر برطانیہ کی ناانصافیوں اور ظلم وستم سے باخبر کیا اور وہاں کے سیاسی حالات بھی بیان کیے، جس پر ایڈولف ہٹلر نے مسلمانوں کو آزادی حاصل کرنے میں ہر ممکن مدد دینے کا وعدہ کیا۔ ہٹلرکے علاوہ چودھری رحمت علی فرانس، اٹلی، آسٹریلیا، جبکہ گلف کی چند آزاد ریاستوں کے حکمرانوں سے بھی ملے تھے، اور سب نے آپ کے خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے ہر طرح کے تعاون کا وعدہ کیا تھا۔ چودھری رحمت علی نے پاکستان نیشنل موومنٹ کے ذریعے برصغیر پاک وہند کے مسلم طلبہ کے ساتھ ساتھ دیگر اسلامی ممالک کے طلبہ کو بھی اپنی تحریک سے آگاہ کیا۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح مسلم لیگ نے متحدہ ہندوستان میں رہ کر تحریکِ پاکستان چلائی، اسی طرح پاکستان نیشنل موومنٹ نے پاکستان سے باہر رہ کر قیام پاکستان کی راہیں ہموار کیں۔ پاکستان نیشنل موومنٹ کے اغراض و مقاصد میں محض انگریزوں سے آزادی حاصل کرنا ہی شامل نہ تھا بلکہ ہر سطح پر ہندوؤں کی برتری کو بھی ختم کرنا شامل تھا۔ چودھری رحمت علی نے اس کے مقاصد میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر مظلوم اقوام کی آزادی کے لیے کوششیں اور جدوجہد کرنے کی شق بھی شامل کی تھی۔ جبکہ ایک شق یہ بھی تھی کہ ’’جنوب مشرقی ایشیا سے ’’انڈین ازم‘‘ کی سیکولر غلامی کو ختم کرکے لوگوں میں روحانی آزادی کی فضا قائم کرنا‘‘۔ پاکستان بن جانے کے بعد بھی چودھری رحمت علی کیمبرج ہی میں رہائش پذیر رہے اور بے بسی کے عالم میں وہیں ان کا انتقال ہوا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تحریک پاکستان کا یہ عظیم لیڈر اور تاریخِ پاکستان کا ہیرو، لفظ ’’پاکستان‘‘ کا خالق جس نے اپنی زندگی کی تمام توانائیاں اور ساری خوشیاں آزادئ وطن کے نام کردی تھیں، اور جس نے وقت کی کمی اور تنگی کے باعث شادی تک نہیں کی اور اپنی تعلیم اور کیریئر (Career) کی بھی فکر نہیں کی، وہ ملک بن جانے اور آزادی حاصل کرلینے کے بعد پاکستان میںآکر رہائش پذیر کیوں نہیں ہوا؟ اس سلسلے میں کئی باتیں سامنے آتی ہیں:
1۔ چودھری رحمت علی کو پاکستان بن جانے سے اتنی خوشی نہیں ہوئی تھی جس کے وہ تمنائی تھے، کیوں کہ مسلم لیگ نے بہت کم پر قناعت کرتے ہوئے علاقے حاصل کیے تھے، ان میں کچھ مسلم اکثریتی علاقے مثلاً ہوشیارپور، گورداس پور اور مقبوضہ کشمیر شامل نہیں تھے، جبکہ مسلمانوں نے ان سب کے حصول کا مطالبہ کیا تھا۔
2۔ بابائے قوم کے ساتھ رہنے والے کچھ مسلم لیگی لیڈروں نے بابائے قوم اور چودھری رحمت علی کے درمیان کسی قسم کی غلط فہمی پیدا کردی تھی، جس کے باعث دونوں رہنما ایک دوسرے سے ملنا گوارا نہیں کرتے تھے، حالانکہ دونوں کا مقصد ایک ہی وطن کا حصول تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ 23 مارچ 1940ء کو جب لاہور میں تاریخ ساز جلسہ ہوا چودھری رحمت علی پاکستان (کراچی) ہی میں موجود تھے لیکن انہیں کسی نے بھی جلسے میں مدعو نہیں کیا، حالانکہ وہ اس میں شرکت کے شاید سب سے زیادہ حق دار تھے۔ بعدازاں وہ دوبارہ لندن چلے گئے تھے اور حصولِ پاکستان کے لیے اپنی کوششوں کو مزید تیز کردیا تھا۔
3۔ چودھری رحمت علی اپریل 1948ء میں پاکستان بننے کے بعد پہلی بار آئے تو ان کے ساتھ اُس وقت کی حکومت نے کوئی اچھا برتاؤ نہیں کیا۔ ان کے پیچھے سی آئی ڈی کو لگا دیا گیا۔ وہ جہاں جاتے اُن کا پیچھا کیا جاتا اور اُن کی تمام حرکات و سکنات کو نوٹ کیا جاتا۔ یہ سبکچھ دیکھ کر وہ دل برداشتہ ہوگئے، جبکہ انہی دنوں میں انہوں نے اُس وقت کی حکومت کو خط کے ذریعے مشورہ دیا کہ ہندوستان نے پاکستان کے جو اثاثے روک لیے ہیں اور وہ اقوام متحدہ کے قوانین کے مطابق پاکستان کو اس کا حق دینے کو تیار نہیں اس سلسلے میں اقوام متحدہ سے رابطہ کریں، جسے اُس وقت کی حکومت نے درخورِ اعتناء نہیں سمجھا۔
4۔ قیام پاکستان سے قبل ہی چودھری رحمت علی کو پس منظر میں دھکیلنے کی کوشش کی گئی، جس کا طریقہ یہ اپنایا گیا کہ ان کی خدمات کا ذکر تک کسی فورم پر کسی بھی طرح دانستہ نہیں کیا جاتا تھا، اور پاکستان بننے کے بعد بھی ان کے کارناموں اور خدمات سے نسلِ نو کو بے خبر رکھا گیا۔ آج بھی اگر کہیں درسی کتابوں میں ان کا ذکر ہے تو فقط اتنا سا کہ وہ لفظ پاکستان کے خالق تھے اور انہوں نے انگلستان میں پاکستان نیشنل موومنٹ نامی ایک تنظیم قائم کی تھی۔ چودھری رحمت علی نے اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل پاکستان آنے کا فیصلہ کرلیا تھا کیوں کہ کچھ احباب نے انہیں اس پر رضامند کرلیا تھا۔ انہوں نے پاکستان آنے کی تیاری بھی شروع کردی تھی، لیکن انہی دنوں 28 جنوری 1951ء کو ان پر نمونیہ کا شدید اٹیک ہوا جس کے باعث انہیں ایولن نرسنگ ہوم میں داخل کرا دیا گیا، لیکن محض چار روز تک موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا رہ کر تحریکِ آزادی کا یہ عظیم ہیرو 3 فروری 1951ء کو اپنی زندگی کی بازی ہار گیا، اور جس وطن کی خاطر اس نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا تھا اس وطن کی آزاد فضاؤں میں اسے اپنا چھوٹا سا مسکن بنانے کا موقع بھی نہ ملا۔ اس عظیم محسن کی نعش 18 روز تک نرسنگ ہوم میں پڑی رہی، بعدازاں 21 فروری کو چند مصری طالب علموں نے ان کی نمازِ جنازہ پڑھ کر اسے امانتاً کیمبرج میں دفن کردیا۔ اُن کی نعش آج بھی اپنے وطن کی لحد کو ترستی ہے اور بے ضمیر پاکستانیوں کو آواز دے رہی ہے کہ جس شخص نے تمہیں نام دیا، شناخت دی اور جس کی وجہ سے تحریکِ پاکستان کو عالمی سطح پر پذیرائی ملی اُس شخص کو اُس کے وطن میں دو گز زمین نہیں ملی سکتی! ہمارے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ ان کی کیمبرج میں امانتاً مدفون نعش کو فوری پاکستان منتقل کرکے اسے پورے اعزاز کے ساتھ اس سرزمین کی مٹی کے حوالے کریں۔

حصہ