جاہل اور عینک (صاحبہ گلزار علی)

190

ایک مرتبہ کسی جاہل نے بعض لوگوں کو لکھتے پڑھتے وقت عینک لگاتے ہوئے دیکھا تو وہ یہ سمجھا کہ ہو نہ ہو یہ اسی عینک کی برکت ہے جو لوگوں کو لکھنا پڑھنا آجاتا ہے چنانچہ یہ سوچ کر وہ فوراً بازار گیا اور ایک عینک کی دکان میں پہنچ کر دکان دار سے بولا۔ ’’مجھے ایک عینک خریدنا ہے؟ دکاندار نے بہت سے عینکیں لا کر اس کے سامنے رکھ دیں اور بولا لیجئے پسند کرلیجئے‘‘ جاہل آدمی نے ایک عینک اٹھائی، اسے اپنی ناک پر رکھا اور سامنے رکھی ہوئی کتاب کو اٹھا کر پڑھنے کی کوشش کرنے لگا لیکن وہ نہ پڑھ سکا لہٰذا اس نے دکاندار سے کہا یہ عینک ٹھیک نہیں۔ ’’دکاندار نے دوسری عینک پیش کی اور بولا لیجئے اسے لگائیے۔ جاہل آدمی نے جلدی سے اس عینک کو اپنی ناک پر رکھ دیا اور پڑھنے کی کوشش کرنے لگا لیکن اس بار بھی وہ کچھ پڑھ نہ سکا جاہل نے بڑی کوشش کی کہ کم از کم ایک لفظ ہی پڑھ لے مگر وہ کامیاب نہ ہوا جھنجھلا کر اس نے دکاندار سے کہا یہ تو پہلی عینک سے بھی بدتر ہے اب تو دکاندار بھی بگڑ گیا اور بولام تم کو لکھنا پڑھنا آتا بھی ہے، جاہل آدمی بولا اگر پڑھنا لکھنا آتا تو عینک خریدنے یہاں کیوں آتا؟ یہ سن کر دکاندار ہنس پڑا اور دکان میں جو لوگ موجود تھے وہ بھی ہنسنے لگے ایک آدمی بولا ارے بھائی یہ دکان ہے کوئی مدرسہ نہیں، اگر عینک لکھنا پڑھنا سیکھا رہی ہوتی تو آج دنیا میں ایک بھی جاہل نہ ہوتا‘‘۔
nn

حصہ