بھولا بھالا گوگا چلا جا رہا تھا

216

بھولا بھالا گوگا چلا جا رہا تھا۔ چھوٹی سی سونڈ سے راستے میں آنے والی جھاڑیاں ہٹاتا بس چلا ہی جا رہا تھا۔ راستے میں چمپینزی چاچا تگڑم نے پوچھا: ’’کہاں جارہے ہو گوگا؟‘‘
گوگا ایک لمحے کو رکا اور بولا: ’’چاچا تگڑم مما اور ڈیڈ کو ڈھونڈ رہا ہوں، نہ جانے کہاں چلے گئے ہیں۔ صبح کہہ کر گئے تھے بس تھوڑی دیر میں آتے ہیں۔ لیکن دیکھیے سورج ڈوبنے کو ہے، اور وہ اب تک گھر نہیں آئے۔‘‘
’’اوہو گوگا، وہ کوئی بچے تو نہیں۔۔۔ آجائیں گے۔ چلو چلو اپنے گھر کی طرف جاؤ۔ اندھیرا ہوجائے گا تو واپس جانے میں مشکل ہوگی۔‘‘
’’نہیں نہیں چاچا، میں اپنے مما اور ڈیڈ کے بغیر نہیں جاؤں گا۔ انہیں لے کر ہی جاؤں گا۔‘‘ گوگا منہ بسورنے لگا۔ تگڑم کو لگا کہ بس ابھی رو دے گا۔
’’اچھا اچھا دیکھو زیادہ دور نہ جانا، ورنہ واپسی میں مشکل ہوجائے گی۔‘‘ گوگا پھر اپنی چھوٹی سی سونڈ اور اس سے بھی چھوٹی دم ہلاتا ہوا آگے چل دیا۔
تھوڑی دور جاکر اسے پہاڑوں سے بہہ کر آنے والے چشمے کے کنارے مینڈکوں کے ٹرٹرانے کی آواز سنائی دی۔
’’مینڈک ماموں مینڈک ماموں۔۔۔‘‘گوگا نے آواز دی۔
’’ہاں ہاں کیا ہے بھانجے؟‘‘
’’آپ نے یہاں سے میرے مما اور ڈیڈ کو جاتے دیکھا تھا؟‘‘
’’بھئی پہلے یہ بتاؤ مما اور ڈیڈ کیا ہوتا ہے؟ مما تو ہمارے بچے پانی کو کہتے ہیں اور پانی ہم ہر وقت ہی دیکھتے رہتے ہیں اور ڈیڈ شاید کسی پردیسی زبان میں مرنے کو کہتے ہیں، تو ہمارے ہاں تو آج خیر ہی خیر ہے۔‘‘
’’اوہو مینڈک ماموں! آپ کو بھی جنگل کے کسی پرائیویٹ اسکول میں داخلہ لے لینا چاہیے۔ میں آپ سے اپنے والدین کے بارے میں پوچھ رہا ہوں۔‘‘
’’بھئی یہ کیسی الٹی بات کررہے ہو! والدین کو تو اپنے بچے ڈھونڈتے دیکھا تھا۔ اب بچے والدین کو ڈھونڈنے نکلنے لگے ہیں! کیسا الٹا زمانہ آگیا ہے؟‘‘
’’اچھا یہ زمانے کی بات چھوڑیں اور بتائیں کہ آپ نے میرے امی ابو کو یہاں سے گزرتے دیکھا ہے؟‘‘
’’نہیں بھئی ہم نے کسی ہاتھی امی ابا کو یہاں سے گزرتے نہیں دیکھا۔‘‘
’’اوہ! یعنی میں ان کو غلط راستے پر ڈھونڈ رہا ہوں۔‘‘
’’نہیں نہیں گوگا! تم صحیح راستے پر ڈھونڈ رہے ہو، میں نے ان کو تھوڑی دیر پہلے یہاں ٹھیر کے پانی پیتے دیکھا تھا۔ یہ تمہارے مینڈک ماموں اس وقت کیچڑ میں خراٹے لے رہے تھے۔‘‘
گوگا نے سر اٹھا کر دیکھا، ایک دبلا پتلا گرگٹ درخت کی شاخ سے چپکا ہوا تھا جو نظر ہی نہیں آرہا تھا۔ یکدم اس نے گلابی رنگ بدلا تو گوگا کی نظر پڑی۔
’’اچھا شکریہ گٹو گرگٹ۔‘‘
گوگا آگے بڑھ گیا، لیکن اب اس کا دل ذرا ڈر رہا تھا۔ سورج کی روشنی اب آہستہ آہستہ سرخی میں بدل رہی تھی۔ نہ معلوم ابھی کتنی دور نکل گئے ہوں گے مما اور ڈیڈی۔گوگا سوچ رہا تھا۔
اچانک سامنے سے ’’بوبی‘‘ سنہری ہرن کا بچہ نکل کر بھاگا۔ گوگا نے آواز دی: ’’بوبی!! بوبی!!‘‘
’’ہاں کیا ہے؟‘‘بوبی ایک آواز پر رک گیا۔ کیونکہ وہ اور گوگا تو بڑے اچھے دوست تھے۔ بوبی اکثر اپنے امی ابو کے ساتھ دریا کے اس کنارے پر جاتا تھا جہاں گوگا اپنے مما اور ڈیڈ کے ساتھ رہتا تھا۔
’’یار! میں اپنے امی اور ابا کو ڈھونڈ رہا ہوں۔‘‘ گوگا نے مما، ڈیڈ اور والدین دونوں الفاظ کے درمیان سے آسان سا لفظ ڈھونڈ لیا۔
’’ کیوں تمہارے امی ابا کو کوئی جنگل اسکول میں داخل کرا رہا تھا؟‘‘بوبی نے اپنی معصوم بڑی بڑی خوبصورت آنکھوں کو جھپکایا۔
’’اوہو! بوبی اب انہیں اسکول میں کون داخل کرے گا؟ تم کو بھی غلط وقت پر مذاق سوجھتا ہے۔۔۔‘‘ گوگا نے اپنی چھوٹی سی سونڈ اٹھا کر نم ہوتی آنکھوں کو صاف کیا۔
اس کا چھوٹا سا دل اب دکھ سے بھر گیا تھا۔ وہ صبح سے کی جانے والی بھاگ دوڑ سے تھک گیا تھا۔ اب تک امی ابا کا پتا نہیں ملا تھا۔
بوبی نے اپنے دوست کی نم ہوتی آنکھوں کو دیکھا تو بولا:
’’ٹھیرو گوگا میں اپنی امی کو بلاتا ہوں، وہ ضرور کوئی حل ڈھونڈیں گی۔‘‘ بوبی گھنی جھاڑیوں میں گم ہوگیا اور چند ہی لمحوں بعد اپنی امی کے ساتھ واپس گوگا کے پاس آیا۔
’’گوگا! تم اپنے امی ابا کو ڈھونڈ رہے ہو؟‘‘ گوگا نے سر ہلایا۔
’’دیکھو گوگا وہ کوئی بچے نہیں کہ راستہ بھول جائیں۔ وہ واپس آجائیں گے ۔۔۔ چلو میں تم کو واپس چھوڑ آؤں۔‘‘
بوبی کی امی نے گوگا اور بوبی کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ جلد ہی وہ کسی آسان راستے سے دونوں کو لے کر دریا کنارے پہنچ گئیں جہاں گوگا کے امی ابا پریشان کھڑے تھے۔گوگا نے دور سے انہیں دیکھا تو دوڑ کر ان کے پاس آیا اور لپٹ گیا۔
’’کہاں چلے گئے آپ دونوں۔۔۔؟‘‘
امی ابا نے اسے لپٹا کر پیار کیا۔ بوبی کی امی کا شکریہ ادا کیا۔ بوبی کی امی جلدی میں تھیں کیونکہ اندھیرا قریب تھا، اور اندھیرا ہوتے ہی شیر راجا اپنے حالی موالی چیتے، تیندوے اور لکڑ بھگوں کے ساتھ نکل کھڑے ہوتے تھے۔ پھر بھی انہوں نے پوچھا:
’’ہاتھی بھیا! کہاں چلے گئے تھے؟ بچہ بے چارا پریشان تھا۔‘‘
’’اچھی بہن! دراصل کل جنگل بینک کی طرف سے سیکورٹی کی نوکری کے لیے بلایا گیا تھا۔ سوچا کہ ذرا دیکھ کر آئیں، لیکن بھئی توبہ ہے توبہ۔۔۔ ایسے پیسے کا کیا کرنا کہ دن بھر بچہ یوں پریشان پھرے۔۔۔‘‘
گوگا کی امی آگے آئیں۔ وہ گوگا کے ابا کی بات سے متفق نظر نہیں آرہی تھیں۔
’’سنو، اگر ہم ایک ماہ کام کرلیں تو سچے موتی اور پیسوں سے بنا وہ خوبصورت لاکٹ خرید سکیں گے جو اتوار بازار میں بی لومڑی کی دکان پر دیکھا تھا۔
ہائے میں کتنی پیاری لگوں گی وہ پہن کر۔۔۔‘‘ بی ہتھنی نے آنکھیں بند کرکے اپنے آپ کو لاکٹ پہنے آئینے کے سامنے کھڑے دیکھا۔
’’ہرگز نہیں، سب سے اہم ہمارا ننھا گوگا ہے، اس کی پرورش اور تربیت ہے اور گھر کا سکون ہے۔‘‘
گوگا کو سینے سے لگا کر ہاتھی نے سختی سے کہا۔
’’ہاتھی بھیا سچ کہتے ہیں بھابھی!! زیور اور گہنے کی خوشی تو عارضی ہے۔ سچی خوشی گھر کے سکون اور اطمینان میں ہے۔‘‘ سنہری ہرنی نے خدا حافظ کہہ کر بوبی کا ہاتھ تھاما اور گھر کی طرف قلانچیں بھرنے لگی۔
’’سنہری بہن سنہری مشورے کا شکریہ۔‘‘ ہاتھی نے زور سے آواز لگائی۔
nn

حصہ