زاد راہ(حمیرا خاتون)

234

 ’’ندا۔۔۔‘‘ انہوں نے اس کا بازو ہلایا۔
’’ہوں۔۔۔‘‘ ندا نے جواب دیا۔
’’ندا اٹھو ناں۔۔۔‘‘ انہوں نے پھر اس کا بازو ہلایا۔ رات کے تین بج رہے تھے۔
’’اونہو۔۔۔ تنگ نہ کریں۔۔۔ سونے دیں، آج میں کپڑے دھو کے بہت تھک گئی ہوں۔‘‘ ندا نے یہ کہہ کر کروٹ بدل لی۔
’’ندا میرے درد ہورہا ہے‘‘۔ ان کی آواز میں ایسا کچھ تھا کہ ندا ایک لمحے میں اٹھ بیٹھی۔
’’درد۔۔۔کہاں۔۔۔؟‘‘ وہ دائیں بازو سے بایاں دبائے ہوئے تھے۔ ’’یہاں بہت درد ہورہا ہے۔‘‘
’’رات تک تو آپ بالکل ٹھیک ٹھاک تھے، یہ اچانک کیسا درد ہوگیا؟‘‘ ندا ان کی حالت دیکھ کر پریشان ہوگئی۔
’’آپ کو تو پسینہ بھی بہت آرہا ہے۔۔۔‘‘ وہ اپنے دوپٹے سے ان کا چہرہ صاف کرنے لگی۔ ساتھ ساتھ ان کا سر بھی سہلا رہی تھی۔
’’یااللہ کیا کروں۔۔۔ شاہد بھی گھر پر نہیں ہے۔۔۔‘‘ اس کا بیٹا جماعت کے ساتھ ملتان گیا ہوا تھا۔
’’میرا دل بہت گھبرا رہا ہے۔۔۔‘‘ وہ سر دائیں، بائیں پٹخ رہے تھے۔ ندا نے اٹھ کر دروازہ، کھڑکی کھول دی۔ ان کا گھر فرسٹ فلور پر تھا۔ یہ متوسط طبقے کی نئی آبادی تھی۔ شادی کے پچیس سال بعد وہ اس قابل ہوئے تھے کہ اس نئی آبادی میں پلاٹ پر اپنا چھوٹا سا گھر بنا سکیں۔ نیچے کا پورشن کرائے پر دے کر خود اوپر ایک سال قبل ہی شفٹ ہوئے تھے۔ یہاں ابھی پانی کی لائن نہیں تھی تو ٹینکر ڈلوانا پڑتا تھا۔
ندا کے شوہر کوئٹہ سے روزگار کے لیے کراچی آئے تو یہیں کے ہوگئے۔ ندا سے شادی کرکے کرائے کے گھر میں رہنے لگے۔ چھٹیوں میں گاؤں جاکر مل آتے۔ ان کے تین بچے تھے۔ بڑی بیٹی کی میٹرک کے بعد شادی کردی تھی اور وہ کوئٹہ میں تھی۔ بیٹا پڑھائی کے ساتھ جاب بھی کررہا تھا۔ چھوٹی بیٹی کرن میٹرک میں تھی۔
کرائے دار بھی ویک اینڈ کی وجہ سے امی کے گھر چلے گئے تھے۔ اس نئی آبادی میں لوگوں سے ابھی زیادہ تعلقات نہیں تھے۔ سلام دعا کی حد تک معاملہ تھا۔ ویسے بھی آج کل کے مصروف دور میں لوگ تعلقات بنانے اور نبھانے میں چور ہیں۔
ندا پریشان تھی کہ کیا کرے! اس کا اپنا میکہ کورنگی میں تھا، رات کے اس پہر کون اتنی دور سے آتا!
’’کرن بیٹا اٹھو، آپ کے ابو کی طبیعت خراب ہورہی ہے۔۔۔‘‘ اس نے کرن کو اٹھایا۔
’’امی کیا ہوا ابو کو۔۔۔؟‘‘ کرن ان کی حالت دیکھ کر گھبرا گئی۔
’’ابو ۔۔۔ ابو!‘‘ وہ رونے لگی۔
’’روؤ نہیں بیٹا۔۔۔ اللہ سے دعا کرو۔‘‘ ندا نے اسے تسلی دے کر اپنا فون اٹھایا، نمبر ڈائل کیا تو پتا چلا کہ بیلنس ختم ہوچکا ہے۔ اس نے سوچا تھا کہ رات کی تو بات ہے، صبح ڈلوا لے گی۔ اس کے شوہر اس وقت تک نیم بے ہوش ہورہے تھے۔ ان کا فون اٹھایا تو پتا چلا کہ اس پر پاس ورڈ لگا ہوا ہے۔
’’کرن ابو کے فون کا پاس ورڈ پتا ہے؟‘‘
’’نہیں امی۔۔۔‘‘ کرن ابو کو جگانے کی کوششوں میں مصروف تھی۔
’’کرن تم ابو کے پاس بیٹھو اور سورتیں پڑھتی رہو جو بھی یاد ہیں۔ میں گلی میں دیکھتی ہوں، شاید کوئی اٹھ جائے۔‘‘ ندا نے چادر اوڑھی اور اللہ کا نام لے کر قدم باہر رکھا۔ رات کے تین بجے، سنسان گلی، اکیلی عورت۔۔۔ ایک لمحے کو اس کا دل ڈرا، مگر پھر شوہر کا خیال آتے ہی اس نے پڑوس میں بیل دے ڈالی۔ بیل شاید آف تھی، کوئی آواز نہ آئی۔ اس نے دستک دی۔۔۔ بار بار دی مگر بند کمروں میں پنکھوں کے شور میں گہری نیند میں کون اس کی دستک سنتا! ندا نے دوسرے گھر میں دستک دی، کوئی نہیں نکلا۔ تیسرے، چوتھے، پانچویں پر دستک دینے والی تھی کہ کرن کی آواز سناٹے میں آئی: ’’امی۔۔۔‘‘
وہ گیٹ پر کھڑی تھی۔ ندا کا دل انجانے خدشے سے دھڑکا۔ اس کے قدم من من بھر کے ہوگئے۔ اس سے ہلا تک نہیں گیا۔ کسی انجانے خوف نے اس کا دل جکڑ لیا۔
’’امی ابو کو ہوش آگیا ہے۔۔۔‘‘ کرن کی آواز اس کے لیے زندگی لائی۔ وہ دوڑتے قدموں سے گھر کی طرف بھاگی۔ وہ ہوش میں مگر درد سے نڈھال تھے۔ قمیص پسینے سے گیلی ہوگئی تھی۔
’’انہیں اسپتال لے کر جانا ہوگا۔۔۔‘‘ ندا نے گھبرا کر کرن سے کہا۔
’’میں ایمبولینس کے لیے فون کرتی ہوں۔۔۔‘‘ ندا نے کرن کا موبائل فون اٹھاتے ہوئے کہا۔
’’ہیلو۔۔۔ ایمرجنسی ہے، آپ فوراً ایمبولینس لے آئیں۔۔۔‘‘ ندا نے جلدی جلدی ایک ہی سانس میں گھر کا ایڈریس سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’ایمبولینس اس وقت موجود نہیں ہے، ایک گھنٹے بعد آئے گی تو بھیج دیں گے۔‘‘ دوسری طرف سے کورا سا جواب ملا۔
’’ایک گھنٹہ۔۔۔‘‘ ندا نے ان کے چہرے پر نظر ڈالی۔ زندگی اور موت کی بازی لگی ہوئی تھی، پتا نہیں کس کی ہار لکھی تھی۔ صرف ایک سانس کا رشتہ ہے، نہ جانے کب ٹوٹ جاتا ہے اور اس زندگی کے لیے انسان نہ جانے کتنے جتن کرتا ہے، کتنے لوگوں کے دل توڑ جاتا ہے، اپنی خواہشات کی تکمیل کی خاطر اللہ کے کتنے احکامات کو نظرانداز کرتا ہے۔
’’امی! عمران انکل کو فون کرلیں۔‘‘ کرن کی آواز اسے حال میں واپس لے آئی۔ عمران انکل کا نمبر آف تھا۔ ایک اور دوست کو فون کیا۔۔۔ کئی بیل کے بعد بھی نہیں اٹھایا۔ شاید فون سائیلنٹ پر ہو۔
’’بھابھی کبھی ضرورت پڑے تو بلا تکلف یاد کرلیجیے گا۔۔۔ عابد کو میں ورکر نہیں دوست سمجھتا ہوں۔‘‘ ندا کو عابد کے سابق باس کی بات یاد آئی جو اس نے الوداعی دعوت میں کہی تھی۔ کچھ عرصے قبل ہی انہوں نے دوسری کمپنی جوائن کی تھی۔۔۔ ڈرتے ڈرتے ان کو فون ملایا۔۔۔ دوسری بیل پر فون اٹھا لیا گیا۔
’’عابد تم اس وقت، خیریت تو ہے؟‘‘ ان کی نیند میں آواز آئی۔
’’السلام علیکم، میں مسز عابد ہوں۔ ان کی طبیعت اچانک بہت خراب ہوگئی ہے۔ شاہد بھی ملتان گیا ہوا ہے۔‘‘ ندا نے جواب دیا۔
’’اوہ بھابی کیا ہوا؟‘‘ وہ پریشان ہوگئے۔
’’پتا نہیں بھائی، مگر لگتا ہے شاید ہارٹ اٹیک ہے، آپ ذرا مدد کردیں، ٹیکسی لے کر آجائیں، اسپتال جانا ہے۔‘‘ ندا نے درخواست کی۔
’’آپ فکر نہ کریں بھابھی میں بس آدھے گھنٹے میں آیا۔۔۔ آپ حوصلہ رکھیں۔‘‘ انہوں نے جواب دیا۔
’’وہ آدھا گھنٹہ ان کے لیے گزارنا مشکل ہوگیا۔ عابد کی تکلیف بڑھتی جارہی تھی۔ ندا مستقل دعائیں اور سورتیں پڑھ پڑھ کر دم کررہی تھی، ساتھ ساتھ تسلی بھی دے رہی تھی۔ کبھی ہاتھ سہلاتی، کبھی پاؤں، کبھی چہرہ صاف کرتی تو کبھی سینہ سہلاتی۔
زندگی کی حقیقت کیا ہے؟ ان لمحوں میں اسے اندازہ ہورہا تھا۔ زندگی ملی ہے تو موت بھی آئے گی۔ کامیاب وہ ہے جو اس زندگی کو آخرت کی زندگی کے لیے زادِ راہ بنا لے۔ اسے ایک حدیث یاد آئی ’’اور آئندہ زندگی کے لیے زادِ راہ ساتھ لے لو، اور بہترین زادِ راہ تقویٰ ہے۔‘‘
پتا نہیں کون کیا زادِ راہ جمع کررہا ہے، جانا تو سب ہی کو ہے۔ آج وہ، کل ہماری باری ہے۔ عابد کی کیفیت نے اسے سوچوں میں ڈال دیا تھا۔
دروازہ بجا۔۔۔ باس ٹیکسی ڈرائیور کے ساتھ اوپر آئے، عابد کو اٹھا کر ٹیکسی میں ڈالا۔ ندا اور کرن بھی ساتھ بیٹھیں۔ ٹیکسی تیزی سے روانہ ہوئی۔ عابد بے ہوش ہوچکے تھے۔ کرن اور ندا مسلسل دعاؤں میں مصروف تھیں۔ اسپتال پہنچتے ہی ایمرجنسی میں لے گئے، مگر جلد ہی ڈاکٹر باہر آگئے۔
’’سوری سر۔۔۔ پیشنٹ تو آل ریڈی ایکسپائرڈ ہوچکا ہے۔‘‘
پتا نہیں وہ کیا زادِ راہ لے کر اپنے اللہ کے دربار میں حاضر ہورہا تھا۔۔۔ پتا نہیں۔۔۔ کون جانے، سوائے اللہ اور اس کے کون جانے؟

حصہ