ابو الفرح ہمایوں ۔۔۔۔ایک عظیم قلم کا ایک عظیم انسان(ظہیر خان)

362

 0321-3842177
ترجمہ، کہانیاں اور مزاح کی دنیا میں ایک ایسا شاندار نام جس سے تقریباً ہر کتاب بین آشنا ہے۔ میرے بہت ہی اچھے اور مخلص دوست ہیں، میرے ہی کیا ہر کوئی جو ان سے ایک بار ملنے کی غلطی کربیٹھتا ہے ان کے دوستوں کی فہرست میں شامل کرلیا جاتا ہے اور پھر ہر اتوار کو موصوف اسے فون کرکے اس کی خیریت، اس کے گھر والوں کی حتّیٰ کہ پڑوسیوں تک کی خیریت دریافت کرلیتے ہیں۔ آج کے اس دورِ پُر آشوب میں جبکہ اچھے اور مخلص دوستوں کا فقدان ہے ایسے اعلیٰ اخلاق رکھنے والے ہمدرد دوست جنہیں مل جائیں انہیں اپنی قسمت پہ ناز کرنا چاہیے جس طرح یہ خاکساراپنی قسمت پہ نازاں ہے۔
بائیس کتابوں کے تنہا مصنف جناب ابو الفرح ہمایوں سے میری پہلی ملاقات اس وقت ہوئی تھی جب احسن سلیم نے سہہ ماہی ’’اجرا‘‘ کی اشاعت کا آغاز کیا تھا جلد ہی یہ ملاقات دوستی میں تبدیل ہوگئی۔ احسن سلیم صاحب انتقال فرماگئے ’’اجرا‘‘ بند ہوگیا۔ مگر اﷲ کا شکر ہے ابو الفرح ہمایوں سے ہماری دوستی آج تک قائم و دائم ہے ۔۔۔ ان کے نام سے دھوکا مت کھائیے گا ان کا قطعی تعلق خاندانِ مغلیہ کے ظہیر الدین بابر کے بیٹے نصیرالدین ہمایوں سے نہیں ہے بلکہ ان کا تعلق خاندانِ ادبیہ اور شاعریہ سے ہے۔ والد محترم ابو ظفر زین اپنے وقت کے مشہور ادیب تھے۔ طنز و مزاح میں اپنی مثال آپ تھے۔ چھوٹے بھائی شوکت جمال نے مزاحیہ اور شگفتہ شاعری کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے۔ طنز و مزاح کہنا ان دونوں بھائیوں کو ورثہ میں ملا ہے ایک شاعری کے میدان کے شاہسوار بنے دوسرے نے نثری میدان سنبھال لیا۔ ابو الفرح ہمایوں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز بچّوں کی کہانیوں سے کیا بعد ازاں فلمی رسالوں سے رجوع کیا (فلمی اداکاراؤں سے نہیں کیونکہ ’’ان کا مزاج تو بچپن سے ’مولوی یانہ‘ تھا‘‘) ہفتہ وار اخباروں اور ڈائجسٹوں میں بھی قسمت آزمائی کرتے رہے اور ہر جگہ اپنا لوہا منواتے رہے۔
’’عمر گزری ہے اسی دشت کی سیّاحی میں‘‘ ایک عرصہ سے ان کا قلم متحرک ہے مزاحیہ تحریر ایسی کہ قاری ایک ہی تحریر کو کئی بار پڑھتا ہے اور ہر دفعہ نئے لطف سے دوچار ہوتا ہے۔ ایسی ایسی خوفناک کہانیاں لکھ ڈالیں کہ بندہ اگر رات سونے سے قبل پڑھ لے تو اسے ایسے ڈراؤنے خواب نظر آئیں گے کہ اگر ان خوابوں کو یکجا کرلے تو ایک اچھی خاصی کتاب مرتّب کرسکتا ہے۔ ترجمہ بے نظیر کرتے ہیں بے شمار انگریزی اور دیگر زبانوں میں لکھی گئی کہانیاں، افسانے اور دوسرے موضوعات کا ترجمہ اس خوبصورتی سے کیا ہے کہ ترجمہ محسوس ہی نہیں ہوتا، لگتا ہے ان کی ذاتی تحریر ہے۔ جب بھی ان کی کوئی نئی کتاب شائع ہوتی ہے اس بندۂ ناچیز کو ضرور یاد کرلیتے ہیں۔ چند روز قبل شوکت جمال کے گھر ایک ادبی نشست میں جانے کا اتفاق ہوا وہاں ہمایوں بھائی سے ملاقات ہوئی ان کی نئی نویلی کتاب ’’غمِ حیات‘‘ کا دیدار کرسکا جو وہ میرے لیے لائے تھے۔ کتاب کے عنوان سے تو یہی گمان ہوا کہ اس میں میرؔ یا غالبؔ کے غم زدہ اشعار کی تشریح کی گئی ہوگی یا پھر غم انگیز داستانیں ہوں گی۔ مگر کتاب کے اندر ایسا کچھ نہیں ہے۔ اس میں سچّی کہانیاں اور افسانے ہیں جو حیرت انگیز بھی ہیں اور دلچسپ بھی۔ اندازِ تحریر کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے کسی بھی تحریر میں چاہے وہ کہانی ہو، افسانہ ہو یا کوئی اور اگر اسمیں تسلسل نہیں ہے تو قاری پہلا صفحہ بادلِ ناخواستہ کس طرح ہضم کرلے گا مگر دوسرا صفحہ کھولے بغیر کتاب سرہانے رکھ کر سوجائے گا مگر ہمایوں بھائی کی تحریر کا یہ کمال ہے کہ قاری صرف پہلا صفحہ پڑھنے کے بعد مجبور ہوجائے گا کہ اسے مکمل کرلے۔ اسطرح ساری رات ان کی تحریروں کے جال میں پھنسا رہے گا اور صبح دفتر دیر سے جا کر باس کی ڈانٹ کھائے گا۔
خواتین بھی انہیں بہت پسند کرتی ہیں (میرا مطلب ہے ان کی تحریروں کو) کئی خواتین ان کی جاسوسی کہانیاں پڑھکر آج محکمۂ سراغ رسانی میں افسر بنی بیٹھی ہیں (یہ سفید جھوٹ بھی ہوسکتا ہے)
ابو الفرح ہمایوں ماشاء اﷲ اتنے عظیم قلم کار ہیں کہ جو بھی موضوع ان کے قلم کی زد میں آیا اسے عروج پر پہنچا دیتے ہیں۔ کراچی اور کراچی سے باہر بیشتر رسالے ان کی تحریروں کے منتظر رہتے ہیں۔ ایک عظیم قلم کار ہونے کے ساتھ ابو الفرح ہمایوں ایک عظیم انسان بھی ہیں۔ اخلاق ایسا اعلیٰ کہ کتنا ہی بد اخلاق شخص کیوں نہ ہو ان سے ملاقات کے بعد مشرّف بہ اخلاق ہوجاتا ہے۔ سادگی اس قدر کہ بقول شاعر ’’اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا‘‘ شلوار قمیص زیب تن کرتے ہیں بہت ممکن ہے عہدِ نوجوانی میں سوٹ بوٹ کا شوق رہا ہو لیکن اب تو نوجوانی کے اس دور کو پیچھے چھوڑ آئے ہیں اور اب اس کے بعد والے دور میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اکثر ان کے دولت کدے پر جانے کا اتفاق رہا ہے، پیار بھری مسکراہٹ اور اس قدر محبت سے پیش آتے ہیں کہ دل باغ باغ ہوجاتا ہے۔
’’چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ‘‘ گفتگو ٹھہر ٹھہر کر اس طرح کرتے ہیں جیسے کوئی شفیق استاد اپنے کسی شاگرد کو کوئی اہم نکتہ سمجھا رہا ہے۔ دورانِ گفتگو چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ مستقل رہتی ہے اور بار بار مخاطب سے دریافت کرتے ہیں کہ ’’آج کل آپ کے حالات کیسے ہیں؟‘‘ اب بندہ کہاں تک تصنع سے کام لے آخر کار انہیں اپنے صحیح حالات بتا ہی دیتا ہے۔
تو یہ رہیں ابو الفرح ہمایوں بھائی کے بارے میں کچھ باتیں جو میرے کمزور قلم کے ذریعہ صفحۂ قرطاس پر منتقل کی گئیں اب اگر ان کی شان میں کسی طرح کی کوئی گستاخی سرزد ہوگئی ہو تو یہ بندۂ ناچیز معذرت کا طلبگار ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دورِ حاضر میں انٹرنیٹ کی ترقی نے نئی نسل کو جہاں دنیا کی بے شمار معلومات فراہم کی ہیں وہاں اسے کتابوں سے دور بھی کردیا ہے اب ایسے دور میں اگر کتابیں شائع کی جاتی ہیں تو پبلشر اور مصنّف دونوں ہی مبارک باد کے مستحق ہیں۔ میں ابو الفرح ہمایوں کو ان کی بائیسویں کتاب’’غمِ حیات‘‘ پر دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ وہ اسی طرح ادب کی خدمت کرتے رہیں اور مضامینِ نو کے انبار لگاتے رہیں۔

حصہ