شورش کو اُردُو سکھاتے ہو

401

شجاع صغیر صدیقی نے مرحوم شورش کاشمیری کی یادیں تازہ کرنے کے لیے 31مارچ کی تاریخ دے دی۔ یہ کام ایک ماہ پہلے ہی ہوگیا تھا لیکن اُسی دن جماعت اسلامی کراچی نے دھرنے کا اعلان کردیا۔ ہمیں اطمینان ہوا کہ بال بال بچ گئے۔ شجاع صغیر نے تو دعوتی کارڈ بھی چھپوا لیے جن میں ہمارا نام جانے کیوں ڈال دیا گیا۔ پتا چلا کہ یہ عزیزم مظفر اعجاز کا کیا دھرا تھا۔ ہماری تو شجاع صغیر سے ملاقات تک نہ تھی۔ ان کی خواہش تھی کہ مظفر اعجاز خطاب کریں لیکن مظفر نے یہ کہہ کر ہمارا نام تجویز کردیا کہ شاید ہم شورش کاشمیری کے ہم عصروں میں سے ہیں۔ مظفر کو خوب پتا ہے ہمیں تقریر وقریر کرنا نہیں آتا اور شاید یہی ان کا مقصد تھا کہ اچھا ہے، بھرم کھل جائے گا۔
بہرحال وقتِ مقررہ6 بجے شام آرٹس کونسل پہنچ گئے۔ ہمیں تو راستہ صاف ملا لیکن وہاں پہنچے تو خالی کرسیاں پڑی ہوئی تھیں البتہ اسی بہانے شجاع صغیر کا منہ دیکھ لیا۔ تقریب کے دوسرے منتظم محسن صاحب سے بھی ملاقات ہوئی جو اس سے پہلے ابن صفی اور نسیم حجازی پر بھی پروگرام کرا چکے ہیں۔ اب کسی اور نام کی تلاش میں ہوں گے۔
تقریب کی صدارت عطا الحق قاسمی کو کرنا تھی جن کو اسلام آباد سے آنا تھا۔ مہمان خصوصی شورش مرحوم کے صاحبزادے مسعود شورش تھے۔ دونوں ہی نہیں آئے۔ مسعود شورش کے نہ آنے کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے کہ انہوں نے اپنے نام میں شورش کا لاحقہ لگا لیا ہے لیکن اس کا کچھ اثر قبول نہیں کیا۔ منتظمین نے عطا الحق قاسمی سے رابطہ کیا تو انہوں نے دھرنے کا عذر پیش کردیا کہ کراچی آ تو گئے ہیں لیکن آنسو گیس کی دھند میں دھندلا گئے ہیں۔ کچھ لوگوں کو یہ بدگمانی تھی کہ وہ اسلام آباد سے چلے ہی نہیں۔ مدعو کیے گئے لوگوں میں ایک اور بڑی شخصیت جناب سحر انصاری کی تھی۔ وہ بھی شاید گھر سے نہیں نکلے۔ تاہم صحافت میں ایک اہم نام اور ٹی وی چینلز کے مبصرین میں سے ایک جناب آغا مسعود حسین آگئے۔ جامعہ اردو کے پروفیسر اوج کمال بھی تشریف لے آئے۔ صدارت کے لیے قرعہ فال ماہر تعلیم، سابق پرنسپل اور ہزاروں طالبان علم کے استاد میر حامد علی صاحب کے نام نکلا ۔
سامعین میں سے بھی کچھ لوگ رکاوٹوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے پہنچ گئے تھے ۔ سینئر صحافی جلیس سلاسل بھی موجود تھے۔ ان کا ایک تعارف یہ ہے کہ وہ شورش کاشمیری کے ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ کے کراچی میں نمائندہ ہوتے تھے اور انہیں موقع دیا جاتا تو وہ شورش کے حوالے سے کئی دلچسپ باتیں بتا سکتے تھے۔ یہ انکشاف بھی جلیس سلاسل نے کیا کہ جسارت کے پہلے شمارے میں شورش کی نظم صفحۂ اوّل پر شائع ہوئی جو رنگین تھا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ شورش کراچی میں جسارت کے دفتر بھی آئے ورنہ وہ کسی اخبار کے دفتر نہیں گئے۔
شورش کاشمیری بے مثال خطیب، بے بدل صحافی اور باکمال شاعر تھے۔ مقررین ایک ایک کرکے شورش کے بارے میں روشنی ڈالتے رہے اور خوب اپنی خطابت کا رنگ جمایا۔ ہم یہی سوچتے رہے کہ ہم کیا کہیں اور اگر کچھ کہنا بھی تھا تو ہم سے پہلے والے سب ہی کچھ تو کہہ گئے۔ ہم سے پہلے آغا مسعود کا نام پکارا گیا لیکن وہ ہم سے سینئر بھی ہیں اور پروگرام کے آغاز سے پہلے ہمیں چائے پلانے بھی لے گئے تھے گو کہ اس کی ادائیگی میزبان شجاع صغیر نے کی۔ چنانچہ ہم نے آغا مسعود کو روک کر خود کو آزمائش کے لیے پیش کردیا۔
ہمیں تھوڑا سا تفوق یہ حاصل تھا کہ ہم نے شورش کو سنا بھی اور پڑھا بھی۔ طالب علمی کا زمانہ تھا، ہر طرف شورش کی خطابت کے ڈنکے پٹ رہے تھے۔ ایف سی کالج کی سالانہ تقریب میں، یہ غالباً 1963-64 کی بات ہے، شورش کاشمیری کو بھی مدعو کیا گیا۔ اس پروگرام میں عبدالحمید عدمؔ کو بھی دیکھا اور سنا۔ بہت موٹے تازے شاعر تھے۔ ان کے بارے میں کسی نے تعارف ہونے پر کہا تھا کہ ’’یہ عدم ہے تو وجود کیسا ہوگا۔‘‘ عدم نے اپنے شعروں پر طالبات سے داد وصول کی اور نوجوان طلبہ جلتے رہے۔ لیکن جب شورش خطاب کرنے کھڑے ہوئے تو سب ہی پوری توجہ سے ان کو سن رہے تھے۔ وہ بلا مبالغہ نثر میں شاعری کررہے تھے۔ کیا مقفٰی و مسجع تقریر تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے الفاظ ہاتھ باندھے کھڑے ہوں اور التجا کررہے ہوں کہ ہمیں بھی لڑی میں پرو لیجیے۔ ہمیں بھی باندھ لیں۔ یہ شعر ان کی نذر کیا جاسکتا ہے۔
مری قدر کر اے زمینِ سخن
تجھے بات میں آسماں کر دیا
ہم تو مبہوت تھے اور ہم ہی کیا نہایت شریر طلبہ بھی سکتے میں تھے۔ ایک آبشار تھا کہ بہتا چلا آرہا تھا۔
ایک موقع پر شورش نے کربلا کے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہہ دیا کہ حضرت حسینؓ قتل کردیے گئے۔ مجمع میں سے کسی نے ٹوکا ’’ شہید کہیے شہید‘‘۔شورش نے فوراً یہ شعر پڑھا۔
قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
اور اس کے بعد بڑے طنطنے سے کہا ’’ شورش کو اردو سکھاتے ہو‘‘۔
حقیقت بھی یہی ہے کہ شورش کشمیری النسل تھے اور تمام عمر پنجاب میں گزری۔ لیکن بڑی فصیح اردو بولتے اور لکھتے تھے۔ فصیح اردو تو اور بھی کئی لوگ لکھتے ہیں جن کی مادری زبان اردو نہیں لیکن تلفظ اور لہجے سے پکڑے جاتے ہیں۔ شورش کا تلفظ ایسا کہ اہلِ زبان کہلانے والے سبق حاصل کریں۔ ہم نے پہلے بھی کہا ہے کہ اہلِ زبان وہی ہے جو زبان کا حق ادا کرے۔ ایسے ادیبوں اور شاعروں کی طویل فہرست ہے جن کی مادری زبان اردو نہیں تھی اور اب بھی ایسے ہیں ۔
اس موقع پر ہمیں ملال ہوا کہ شورش نے فنِ خطابت پر جو کتاب لکھی ہے، کاش وہ پڑھ لیتے تو آج کام آتی۔ لیکن ان کی کتاب ’’ اس بازار میں ‘‘ تو پڑھی ہے۔ وہ کب کام آئی۔حالاں کہ ہم کئی بار اس بازار سے گزرے ہیں ۔ خوش گمانی نہ کیجیے۔ بازار میں اور بازار سے کا فرق ملحوظ رکھیں۔ ہمارا اسکول، مسلم ماڈل ہائی اسکول، بھاٹی گیٹ کے قریب، گورنمنٹ کالج سے متصل تھا۔ 15 منٹ بعد اسکول کا بڑا دروازہ بند ہو جاتا تھا جو دستک دے کر کھلوایا جاسکتا تھا لیکن دوسری طرف پی ٹی ماسٹر صاحب ڈنڈا ہاتھ میں لیے دستک دینے پر ایسے مستعد بیٹھے رہتے تھے جیسے ٹریفک اہلکار موٹر سائیکل والوں کی تاک میں رہتے ہیں۔ چنانچہ تاخیر ہونے پر ہم اپنے اساتذہ کو اپنی ذہانت، فطانت اور علمیت سے محروم رکھتے ہوئے بادشاہی مسجد اور شاہی قلعہ کی سیر کو ترجیح دیتے تھے ، وہاں کا راستہ اس بازار ہی سے گزرتا ہے جو کبھی شاہی محلہ ہوا کرتا تھا لیکن جواہرات کی بھرمار کی وجہ سے ’’ہیرا منڈی‘‘ کہلانے لگا ہے۔ وہاں سے دن کے وقت گزر ہوتا تھا جب دریچے سنسان اور بازار ویران پڑا ہوتا تھا۔ بقول شاعرِمزدور احسان دانش :
ان بستیوں کے چاند ستاروں پہ کیا بنی
آتے ہیں کھڑکیوں میں نظر کم، بہت ہی کم
ہم نظریں چرائے اور جھکائے گزر جاتے تھے کہ نظریں اٹھانے کا فائدہ بھی کیا تھا۔
گزشتہ بیس، پچیس سال سے انوسٹی گیٹو رپورٹنگ کا بڑا غلغلہ ہے۔ شورش کاشمیری 60برس پہلے انوسٹی گیٹو رپورٹنگ کرنے نکل کھڑے ہوئے تھے۔ کالج کے ایک طالب علم، جو بعد میں علامہ اور رحمت اللہ علیہ بنے، طالب علمی کے دور میں عام سے نوجوان تھے۔ ان کا آنا جانا اس بازار میں بھی تھا۔ شورش کاشمیری یہ تحقیق کرنے نکل کھڑے ہوئے کہ مستقبل کے علامہ کس کے پاس جاتے تھے۔ وہ ان خاتون تک پہنچ بھی گئے اور کچھ حال احوال جاننا چاہا۔ ان کا جواب تھا ’’شورش صاحب! یہ طوائف کا سینہ ہے، اس سے آپ کو کچھ نہیں ملے گا۔‘‘ اس جواب پر احترام لازم آتا ہے۔ ورنہ آج کل تو ایسی باتیں نمک مرچ لگا کراور چٹخارے لے کر بیان کی جاتی ہیں کہ اس طرح ذرائع ابلاغ میں شہرت ملے گی۔
شورش کاشمیری کا ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ مخالفین کے لیے واقعی ایسی چٹان تھا جس سے وہ سر پھوڑ کر لہو لہان ہو جاتے تھے۔ شورش نے 30سال تک اس جریدے کی ادارت سنبھالی اور آدھے سے زیادہ مضامین ان کے ہوتے تھے، کبھی اصلی نام سے اور کبھی قلمی نام سے۔ ان کے جانشین اسے سنبھال نہیں سکے۔ ہم طالب علمی کے زمانے میں شوق سے پڑھتے تھے، محض اس لیے کہ اس میں بڑی معرکہ آرائیاں ہوتی تھیں۔ سنجیدہ قسم کے مضامین تو اس وقت بھی نہیں پڑھتے تھے۔ شورش کا قلم اس وقت زیادہ کاٹ دار ہو جاتا تھا جب کسی کی کھال اتارنی ہو یا منہ توڑ جواب دینا ہو۔ وہ چومکھی لڑا کرتے تھے، خاص طور پر کوثر نیازی سے خوب چلتی تھی۔ کوثر نیاری کا معاملہ یہ ہے کہ میانوالی سے ایک لڑکا میٹرک کر کے لاہور آیا۔ ابھی مسیں بھیگنی شروع ہوئی تھیں ۔ سید مودودی نے اس ’’ چھوکرے ‘‘ کو اپنے گھر میں رکھا، پڑھایا لکھایا، بات کرنے اور لکھنے کی تربیت دی۔ جماعت کے اخبار کوثر یا تسنیم میں سے کسی کا ایڈیٹر بھی بنا دیا۔ پھر ان صاحب نے اپنا رسالہ ’’شہاب‘‘ نکالا۔ ایک شمارے کے سرورق پر کسی ناچنے والی کے دھڑ پر سید مودودی کا سر لگا کر احسان چکا دیا۔ یہ حضرت علیؓ کا قول ہے کہ ’’ جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو‘‘۔ مولانا ایسے تنازعات میں کبھی نہیں الجھے۔ البتہ شورش کاشمیری چٹان میں کوثر نیازی کی خوب خبر لیتے تھے۔ بہت بعد میں جب کوثر نیازی نے معافی مانگتے ہوئے مولانا سے ملنے کی درخواست کی تو ان کا جواب تھا کہ ’’میں اس نام کے کسی شخص کو نہیں جانتا۔‘‘ کوثر نیازی ایک زمانے میں وزیر اطلاعات اور بھٹو کی ناک کا بال تھے۔ لیکن ناک کے بال کوتو نوچ کر پھینک دیا جاتا ہے۔
شورش کاشمیری کی زبان اور قلم ہی نہیں چلتے تھے، وہ ہاتھ پیروں سے بھی کام لے لیا کرتے تھے۔ چنانچہ مال روڈ پر الحمرا مارکیٹ میں دونوں کا آمنا سامنا ہوگیا اور نوبت ہاتھا پائی تک آگئی۔ شورش نے گھی کے ڈبے اٹھا اٹھا کر مارے تو نیازی پسپا ہوگئے۔ اوج کمال کا کہنا تھا کہ وہ پسپا نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے شورش کو زخمی کردیا۔
(جاری ہے)

حصہ