سلمان علی

232

7اپریل کو عالمی یوم صحت کے طور پر عالمی ادارۂ صحت نے مخصوص کیا ہے ، یہ اس ادارے کے قیام کا دن بھی ہے ۔ عالمی ادارہ صحت اس دن کی مناسبت سے سال بھر کی تحقیقات کی روشنی میں کوئی بیماری منتخب کرتا ہے اور اُس سے متعلق آگہی کے پروگرام کو ترتیب دیتا ہے ۔اس مرتبہ ’’ڈپریشن ‘‘کی بیماری کو منتخب کیاگیا ہے ۔اس کے لیے جو خوبصورت سلوگن بطور تھیم بنایا گیاہے وہ ’’ڈپریشن ۔آؤ بات کریں ‘‘Depression, lets Talkہے جس کے اندر نہایت لطیف پیرائے میں اس بیماری کا علاج بھی پوشیدہ نظر آتاہے کیونکہ ماہرین کے مطابق ڈپریشن کی بیماری کا شکار افراد اپنے مسئلے پر بات نہ کرنے کے سبب ہی اس بیماری میں گھرے رہتے ہیں۔اس سلوگن کے ضمن میں ترتیب دی گئی سرگرمیوں کے نتیجے میں عوام میں اس بات کی آگہی فراہم کی جائیگی کہ وہ ڈپریشن کی کیفیت میں مبتلا ہیں تو اس پر بات کریں اپنے اندر موجود مسائل، پریشانیوں ،دکھوں کو اپنے معالج سے زیر بحث لائیں ۔اس حوالے سے سماجی رابطے کی مقبول ترین سائٹ ٹوئٹر پر WHOنے اپنی ٹوئیٹ میں ڈپریشن کے موضوع پر پکارتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ’’15-29سال کی عمر کے درمیان خودکشی کی دوسری سب سے بڑی وجہ ہے ۔اس پر بات کرنامناسب ہے ،آؤ بات کریں۔‘‘ Lets Talk کا مختصر اور جامع ہیش ٹیگ بھی اسکے ساتھ مقرر کیا ہے ۔ دنیا بھر میں ڈاکٹرز کی تنظیموں اور اداروں کو اس مہم کی تفصیلات سے آگاہ کیاجاتا ہے تاکہ وہ قبل از وقت اس سے متعلق تیاری کریں ۔ کانفرنس، سیمینارز، مقالے ، مضامین، کالم، پریس کانفرنس ، طبی کیمپ ، ٹی وی شوز سمیت ہر ممکن ذرائع ابلاغ سے اس مہم کی ترویج کی جائے گی تاکہ عوام الناس میں اس بیماری سے متعلق درست سمت رہنمائی ہو سکے۔اس ضمن میں عالمی ادارہ صحت کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق’’ ڈپریشن دنیا بھر میں بیمار طبعیت ، معذوری اور خودکشیوں کی سب سے بڑی وجہ بن چکی ہے ۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی جانب سے تازہ تخمینوں کے مطابق اس وقت 300ملین افراد اس بیماری کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں اور تیزی سے ہونے والے اضافے کو دیکھ کر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ دنیا بھر میں تیزی سے پھیلنے والی بیماریوں میں ڈپریشن اس وقت چوتھے نمبر پر ہے جو2030 ء تک پہلے نمبر پر پہنچ سکتاہے۔‘‘ گویا دنیا میں سب سے زیادہ مریض ڈپریشن کے ہو سکتے ہیں۔پاکستان میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 2 کروڑ سے زائد افراد اِس مرض میں مبتلا ہیں۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر مارگریٹ چن کے مطابق ’’ اس مہم کا مقصد دنیا بھرمیں کہیں بھی زیادہ سے زیادہ ڈپریشن زدہ افراد کو علاج کی جانب رہنمائی اور ایسی مدد مل سکے جو انہیں معاشرے کا ایک کارآمد فرد بنا سکے ۔اعداد و شمار دنیا کے اُن تمام ممالک کے لیے بطور ویک اپ کال ہیں جس کے نتیجے میں وہ اپنے ملک میں دماغی بیماریوں کے علاج کووہ اہمیت دے سکیں جتنی اُسے فوری ضرورت ہے۔ہمارے سلوگن میں مریضوں کے لیے یہ پیغام بھی ہے کہ ایسا کوئی شخص جو ڈپریشن کے ساتھ جی رہا ہو ، اگر وہ اپنے کسی اعتماد والے شخص سے گفتگو کرے تو وہ یقیناً اُس کے علاج کی جانب پہلا قدم ہوگا۔‘‘
ڈیپریشن کوئی معمولی مرض نہیں ہے بلکہ انسان کا دشمن ہے اور یہ ایک ایسا جان لیوامرض ہے جو انسان کی زندگی پر براہ راست اثرانداز ہوتا ہے۔ یہ اثرات تباہ کن ہیں کہ ڈیپریشن کا شکار مریض بڑے بڑے کام تو کجا‘ روزمرہ کے معمولی کاموں کو بھی بمشکل انجام دے پاتا ہے، اس کی شدت کی انتہا اُسے خودکشی جیسا انتہائی اقدام کرنے پر مجبور کر دیتی ہے ۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق ڈپریشن کو خودکشی کے ذریعہ ہونے والی اموات کی دوسری بڑی وجہ قرار دیاہے ۔ خودکشیوں کی یہ تعداددنیا بھر میں سالانہ آٹھ لاکھ بنتی ہے ۔آغا خان ہسپتال کے شعبہ دماغی امراض کے صدر ڈاکٹر محمد واسع سے پاکستان میں اس بیماری سے متعلق اثرات کے حوالے سے ہونے والی گفتگو کے مطابق پاکستان میں ہونے والی خود کشیوں میں ڈپریشن کے مریضوں کا حصہ 2ہزار سالانہ ہے جبکہ تقریباً 20ہزار افراد ایسے ہیں جو اس مرض کی شدت کی وجہ سے خود کشی کی ناکام کوششیں کرتے ہیں‘‘۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اس بیماری کے لیے عمر، جنس کی بھی حد نہیں ،ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے اس کا شکار ہو سکتے ہیں ۔کھلاڑیوں اور شو بزنس سے تعلق رکھنے والے افراد جو اپنی جسمانی فٹنس اور صحت کا بڑا خیال رکھتے ہیں ،مگر ہم نے دیکھا کہ ان میں بھی یہ بیمار ی بدرجہ اتم پائی گئی ہے ۔
ڈیپریشن کے ذریعے ایک ایسی دماغی حالت پیدا ہوجاتی ہے جو دماغ کو اپنا کام صحیح طریقے سے انجام دینے سے روک دیتی ہے۔ یہ ایک ایسی کیفیت ہے جسے نظرانداز کرنا انتہائی خطرناک ہے۔
ماہرین کے مطابق ایسی کچھ علامات وقتی ہوتی ہیں جو کہ کچھ دنوں میں ماحول بدلنے یا کسی اپنے کے ساتھ گفتگو کرنے پر ٹھیک ہو جاتی ہیں ۔انسان اپنی قوت مدافعت سے اس حالت کا مقابلہ کر لیتا ہییا زندگی کے مختلف واقعات شادی ، دیگر تقریبات، کوئی کاروباری منافع وغیرہ یا پھر بعض دفعہ کچھ دوستوں سے بات کرنے سے ہی یہ اداسی ٹھیک ہوجاتی ہے اور کسی علاج کی ضرورت نہیں ہوتی۔لیکن طبّی اعتبار سے یہ کیفیت طویل ہو کر ایک ماہ کا عرصہ لے لے تو یہ ڈپریشن کی بیماری کہلانے لگتی ہے جو آپ کے دماغ میں Serotoninکی مقدار کو مستقل ایک خاص حدسے آگے نہیں بڑھنے دے رہی ہوتی ۔ جسمانی طور پر آپ فٹ فاٹ ہوں گے کوئی بخاروغیر ہ نہیں ہوگا۔مگر اندر ہی اندر آپ کی نیند ، بھو ک سب نارمل سے ہٹ چکی ہوگی۔صرف آپ کے قریبی افراد ہی اگر شعور رکھتے ہیں تو ان علامات کو محسوس کر کے آپ کو علاج کی جانب مائل کر سکتے ہیں ،ورنہ شاید آپ خود بھی لا علمی کی وجہ سے اپنے دماغ میں سری ٹونین کی مقدار کم کرتے رہ جائیں گے۔ ایک قابل علاج مرض ہے ، کئی لوگوں نے بلکہ کئی سیلیبریٹیز نے جو اس مرض کا شکار ہوئے اس کا علاج کروا کر آج نارمل زندگی گزار رہے ہیں۔بلاشبہ اچھی صحت ایک عظیم نعمت ہے ، ہمارا دین بھی ہمیں اچھی صحت اور تندرستی کی جانب راغب کرتا ہے ۔

حصہ