خاکساری ہے تو انکساری کیوں نہیں؟

1029

گزشتہ شمارے میں لکھا تھا کہ ’’اگر کسی کو بتاؤ کہ یہ ’سرور‘ نہیں ’’سرود‘‘ ہے تو حیران ہوکر پوچھتا ہے یہ کیا ہوتا ہے! لیکن ہمارے لاہوری دوست جناب افتخار مجاز کو اس کا پتا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے ’’یہ سرود دراصل موسیقی کا آلہ نہیں ہوتا؟‘‘ اب یہ اطلاع ہے یا سوال؟ جواب تو خود اُن کے سوال میں موجود ہے، اب ہم کیا کہیں۔ تاہم اپنی قابلیت کے اظہار کے لیے عرض کریں کہ سُرود میں اگر حرفِ اوّل بالضم ہے یعنی ’س‘ پر پیش ہے تو اس کا مطلب ہے گیت، نغمہ، راگ۔ اور اگر پہلا حرف بالفتح ہے یعنی سَرود، تو یہ ایک قسم کا باجا ہے۔ علامہ اقبال کی دو نظموں سُرود حلال اور سُرود حرام میں ’س‘ پر پیش لگانے کا التزام کیا گیا ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ علامہ اقبال نے اسے گیت اور نغمہ کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔ مثلاً علامہ کا یہ شعر:
یہ سُرودِ قمری و بلبل فریب گوش ہے
باطن ہنگامہ آباد، چمن خاموش ہے
یا یہ شعر دیکھیے:
جس کو مشروع سمجھتے ہیں فقیہانِ خودی
منتظر ہے کسی مطرب کا ابھی تک وہ سُرود
یہاں ممکن ہے کہ موسیقی کے آلے یا باجے کے معنوں میں آیا ہو۔
علامہ کی بات نکلی ہے تو ان کا ایک شعر نظر سے گزرا:
یہ نکتہ پیر دانا نے مجھے خلوت میں سمجھایا
کہ ہے ضبط فغاں شیری، فغاں روباہی و میشی
فرائیڈے اسپیشل میں دھنک کے عنوان سے علامہ کی کسی نظم یا غزل کی تشریح کی جاتی ہے، لیکن درج بالا شعر شاید ابھی گرفت میں نہیں آیا۔ اس شعر میں روباہی تو سمجھ میں آگیا۔ روباہ لومڑی کو کہتے ہیں۔ میشی کے لیے لغت دیکھنا پڑی تو معلوم ہوا کہ ’مِیش‘ (میم بالکسر) کا مطلب ہے بھیڑ یا بکری۔ علامہ کہتے ہیں کہ ’’ہے ضبط فغاں شیری‘‘۔ یہ غالباً شیر سے اسم کیفیت بنایا گیا ہے، لیکن آج کے دور کی ’’شیری‘‘ تو ہر وقت مصروفِ فغاں نظر آتی ہے، ضبط کا تو کہیں گزر نہیں۔ لغت کے مطابق فارسی لفظ میش مونث ہے اور اس کا مذکر ہے ’’میشا‘‘۔
محترم افتخار مجاز نے ہماری طرف ایک اور سوال اچھال دیا ہے:’’ایک بات بتایئے، یہ ایمان تازہ ہوتا ہے یا مضبوط؟ درست کیا ہے؟‘‘ بھائی افتخار، یہ سوال تو ٹی وی چینلوں پر چلنے والے دینی پروگراموں میں تشریف فرما علماء سے کیا ہوتا، یا اخبارات میں دینی معاملات تحریر کرنے والے مفتیان کرام سے کیا ہوتا۔ ہم اس کے مکلف نہیں ہیں۔ اب پوچھ ہی لیا ہے تو عرض کریں کہ درست تو دونوں ہی ہیں لیکن پہلی شرط ہے ایمان کا ہونا۔ ایمان تو ہر مسلمان کے اندر ہوتا ہی ہے خواہ کسی درجے میں ہو۔ لیکن بعض شخصیات سے مل کر، ایمان افروز تحریریں پڑھ کر ایمان تازہ بھی ہوتا ہے اور مضبوط بھی۔ اس کی ایک مثال دو صحابہ کرام کا واقعہ ہے جن کو اپنے بارے میں شبہ ہوا کہ وہ منافق ہوگئے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ جب ہم آپؐ کی صحبت میں ہوتے ہیں تو ایمان مضبوط ہوتا ہے اور جب دور جاتے ہیں تو وسوسے گھیرلیتے ہیں۔ صحابہ کرام سے زیادہ مضبوط ایمان کس کا ہوگا، لیکن جب وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محفل میں ہوتے تھے تو تازہ ہوجاتا تھا۔ آپ کو بھی ایسی روحانی شخصیات سے ملنے کا موقع ملا ہوگا جن کو دیکھ کر ہی ایمان تازہ ہوجاتا ہے۔ تازگی بجائے خود مضبوطی کی علامت ہے۔ لوگ باوضو ہوتے ہیں لیکن نماز سے پہلے دوبارہ وضو کرتے ہیں اور اسے وضو تازہ کرنا کہا جاتا ہے۔
ٹی وی پروگرام پر یاد آیا، چینل 92 پر ایک دینی پروگرام ہوتا ہے جس میں علماء کرام اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ پروگرام کے میزبان بھی ایک عالم ہیں ورنہ میزبانی کیسے کرتے۔ گزشتہ دنوں اپنے پروگرام میں انہوں نے ’’سُرخیل‘‘ کا لفظ استعمال کیا۔ ہم سمجھے کہ شاید یہی صحیح ہو، لیکن خیل میں سُر لگانے کی بات سمجھ میں نہیں آئی، چنانچہ ایک پڑھے لکھے شخص سے پوچھا تو وہ پہلے تو ہنسے، پھر رونے کا ارادہ باندھا تو ہم نے ٹوک دیا کہ پہلے ہماری تصحیح تو کردیجیے، گریہ و زاری پھر کبھی سہی۔ کہنے لگے سُر تو ہندی میں بڑی نر مکھی کو کہتے ہیں یا آواز اور تال کو کہتے ہیں۔ موسیقی والوں نے آواز کی بلندی و پستی کے 7 درجے مقرر کیے ہیں۔ ہر ایک کو سُر کہتے ہیں۔ سُر میں سُر ملانا اردو میں محاورہ بھی ہے۔ اور ’خیل‘ عربی میں بمعنی سواران و اسپان تھا۔ یہ وہ جمع ہے جس کا واحد نہیں۔ فارسیوں نے بمعنی جماعت و گروہ استعمال کیا۔ اردو میں تذکیر کے ساتھ مستعمل ہے۔ چنانچہ ’سَرخیل‘ کا مطلب ہوا جماعت یا گروہ کا سردار۔ علامہ نے بھی خیل جواناں کی ترکیب استعمال کی ہے۔ صوبہ خیبر پختون خوا اور قبائلی علاقوں میں خیل بمعنی خاندان استعمال ہوتا ہے، اور علاقوں کا نام بھی جیسے دتہ خیل، موسیٰ خیل وغیرہ۔
31 مارچ کو آرٹس کونسل میں شورش کاشمیری مرحوم کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک اجتماع ہوا۔ اس میں میزبان بار بار ’انکساری‘ کہہ رہے تھے اور پروفیسر اوج کمال چپکے چپکے تصحیح کررہے تھے کہ انکساری کوئی لفظ نہیں‘ انکسار ہوتا ہے۔ بات تو ان کی صحیح ہے، لیکن یونہی خیال آیا کہ خاکساری بھی تو ہے، پھر انکساری کیوں نہیں؟ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ انکسار کسر کا اسم کیفیت ہے، جب کہ خاک سار دو حروف ہیں اور ’سار‘ بطور لاحقہ آتا ہے جیسے نگوں سار۔ مزید وضاحت ماہرینِ لسانیات کریں۔ برسبیل تذکرہ قدیم شاعروں نے تو انتظار کی مونٹ بھی بنالی‘ انتظاری۔ ایک شعر ہے:
انتظاری نے تری خوب دکھایا لہرا
صبح سے شام ہوئی، شام سے پچھلا پہرا
شاعر نے بڑی لہر میں آکر یہ شعر کہا ہے۔
گوپی چند نارنگ اردو کے بڑے ادیب اور محقق ہیں۔ ’صحیفہ‘ کے مکاتیب نمبر میں 1968ء میں لکھے گئے کچھ خطوط شامل ہیں۔ ان زعما کے مکاتیب سے بہت کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً گوپی چند نارنگ ایک خط میں لکھتے ہیں کہ COLLEAGUE (کولیگ) کا ترجمہ رفیقِ کار ہونا چاہیے۔ ماتحتوں کے لیے اس کا استعمال لغوی طور پر درست نہیں، لیکن ازروئے احترام مستحسن سمجھا جاتا ہے(ہمارے خیال میں ’ہم کار‘ بھی مناسب ہے)۔ گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں ’’مستشرق کے معنی مشرقی علوم کے ماہر کے ہیں، غیر ملکی ہونا شرط نہیں، لیکن IMPLIED ہے (غالباً مستعمل)، اس لیے کہ استعمال میں اس اصطلاح کو غیرملکی ماہرین کے لیے لایا جاتا ہے۔ ملکی ماہر کو تو صرف عالم یا محقق کہا جاتا ہے۔‘‘ محمد احسن خان، لاہور کے نام شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی سے ایک خط میں نارنگ نے لکھا ہے کہ ’’ہونا کی ماضی ہوا کو ہمزہ کے ساتھ ہؤا اکثر قدما نے لکھا ہے، کیفی دتاتریہ نے بھی۔۔۔ لیکن رواجِ عام بغیر ہمزہ کے ہے۔ سو اسے ہمزہ کے کلیہ سے مستثنیٰ قرار دینا چاہیے اور ہوا لکھنا صحیح ہے۔ ہونا کے وزن پر جتنے مصادر ہیں، سونا، بونا، کھونا، رونا سب کی ماضی یاے کے اضافے سے بنتی ہے (یعنی) سویا، بویا وغیرہ۔ دعواے پارسائی صحیح تر ہے، دعویٰ پارسائی صحیح۔ ابناے وطن صحیح ہے۔ اردو میں مضائقہ صحیح ہے ازروے صوتیات۔ اسی طرح شائع۔ (آج کل بعض لوگ شایع لکھ رہے ہیں) وفیات (وفات پانے والوں کا تذکرہ)، اب تویہ OBITUARY (تعزیت) کے معنوں میں ہی (ہی میں) مستعمل ہے۔ لیکن لفظی معنی تو محض ’’وفاتہا‘‘ کے ہیں۔ یہ دراصل وفات کی جمع ہے۔ یوں یہ لفظ غلطی سے وفیات کے تلفظ کے ساتھ بھی لوگوں کی زبان پر چڑھ گیا ہے۔‘‘
یہاں اس بات کا اعادہ کردیں کہ ’’متوفی‘‘ کا مطلب عربی میں ’مارنے والا‘ ہے، مرنے والا نہیں۔ لیکن اب یہی رائج ہوگیا ہے جیسے مُغوی اغوا کرنے والے کو کہتے ہیں، اور اغوا کا مطلب ہے راستے سے بھٹکا دینا۔ جس کو اغوا کیا جاتا ہے اسے بھی تو راہ سے بے راہ کیا جاتا ہے۔
nn

حصہ