سن یہ رونا نہیں گرانی کا(زاہد عباس)

338

کیا دور تھا جب والد صاحب صبح سویرے دفتر جاتے اور شام مغرب سے قبل ہی گھر آجاتے۔ میرے خیال میں شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ والد صاحب اپنے معمول سے ہٹ کر گھر آئے ہوں۔ گھر والوں کی تمام ضروریات اکیلے والد صاحب کی کمائی سے ہی پوری ہوجاتی تھیں۔ تہواروں پر خریداری سے لے کر جیب خرچی تک۔۔۔ سب اسی تنخواہ میں ہوجاتا جو اُس وقت ابو کو ملا کرتی تھی۔ گھر میں خدا کا دیا سب کچھ تھا۔ ایک تنخواہ میں گھر بھی چلتا اور سال بعد مختلف شہروں کی سیر بھی ہوجایا کرتی۔ میں نے ابو کو کبھی مالی طور پر پریشان نہیں دیکھا۔ یہ صورت صرف ہمارے گھر کی نہیں بلکہ اُس دور میں محلے کے گھر گھر میں اسی قسم کے حالات ہوا کرتے تھے۔ کنبہ بڑا ہو یا چھوٹا، کمانے والا صرف ایک ہوتا جو پورے گھرانے کی تمام ضرورتوں کو پورا کرتا۔ رفتہ رفتہ سب کچھ بدلنے لگا۔ شاید کسی شاعر نے اس وقت کی مناسبت سے ہی یہ شعر کہا ہو:
میرے بچو مجھے دل کھول کے تم خرچ کرو
میں اکیلا ہی کمانے کے لیے کافی ہوں
وقت گزرتا گیا، آنے والے حکمرانوں نے عوام کے لیے جو پالیسیاں بنانا شروع کیں ان کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستانی روپیہ جو پڑوسی ممالک سے زیادہ ویلیو رکھتا تھا وہ دن بہ دن نیچے کی طرف آتا گیا۔ حکمرانوں کی معاشی پالیسیوں نے ملکی معیشت کو تباہ کرکے رکھ دیا۔ مہنگائی ہر آنے والے دن کے ساتھ بڑھتی گئی۔ ضروریاتِ زندگی عوام کی پہنچ سے دور ہوتی گئیں۔ اندرونی و بیرونی قرضوں کا بوجھ عوام پر ایسا پڑا کہ آج اگر کسی سے یہ کہا جائے کہ وہ ایک تنخواہ میں گھر چلائے، تو یہ اس کے لیے ناممکن ہوگا۔ ایک فرد دو نوکریاں کرکے بھی صرف دو وقت کی روٹی کمانے پر مجبور ہے۔
پاکستان میں ایک عرصے تک دو طبقات تھے، اگر کوئی امیر تھا تو دوسرا طبقہ غریب سے تھوڑا بہتر، جسے مڈل کلاس کہا جاتا۔ اب مڈل کلاس کہاں ہے، کسی کو کوئی خبر نہیں۔ غیر ملکی آقاؤں کو خوش کرنے اور آئی ایم ایف کے دیے ہوئے کلیے کے تحت معاشی نظام کے نفاذ سے یہی نتیجہ نکلنا تھا جو اس وقت ہمارے سامنے ہے کہ لوگ روزگار کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں، بے روزگاری تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔ اگر کسی سے کہہ سن کر کوئی کام مل بھی جائے تو اس سے کمائے ہوئے پیسوں سے گھر کا چولہا بھی نہیں جلتا۔ اس ساری صورتِ حال میں لوگ نفسیاتی مریض بنتے جارہے ہیں۔ ظاہر ہے جس معاشرے میں بھوک و افلاس ہوگا، بیماریوں کے ساتھ ساتھ وہاں جرائم میں بھی اضافہ ہوگا۔ سمجھا یہ جاتا ہے کہ ان حالات کا سامنا صرف مزدور طبقے کو کرنا پڑتا ہے۔ ایسا نہیں ہے، بلکہ اب تو یہ صورت حال ہوچکی ہے کہ دفتروں میں کام کرنے والے بھی پارٹ ٹائم کام کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ایک تنخواہ ان کے خاندان کے لیے ناکافی ہوتی ہے۔ لیکن حکمرانوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان کے نزدیک سب ٹھیک چل رہا ہے۔ اگر کبھی کسی سیاسی رہنما سے بات کی جائے تو اُس کا جواب کچھ یوں ہوتا ہے کہ ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر بڑھتے جا رہے ہیں، لوگ خوش حال ہیں، سڑکوں پر گاڑیوں کا سیلاب ہے، ہر شخص موبائل فون استعمال کرتا ہے، ترقی اور کیا ہوتی ہے! خوش حالی اسی کا نام ہے۔ لوگ تو بلاوجہ روتے رہتے ہیں۔ بازاروں میں جاکر دیکھو، خریداری کس طرح ہورہی ہے۔ یعنی اگر جیب میں مال ہے تو ہر چیز خریدی جا سکتی ہے۔ اگر آپ کے پاس پیسہ نہیں تو اس کی ذمہ دار حکومت نہیں۔
قارئین! اگر حکمرانوں کی باتیں سنی جائیں تو واقعی اس بات پر یقین کرنے کو جی چاہتا ہے کہ مہنگائی ہے تو کیا ہوا، اگر ہم ضروریاتِ زندگی کی کوئی چیز خریدنے کی سکت نہیں رکھتے تو اس میں حکمرانوں کا کیا قصور ہے!
یہاں ایک شعر یاد آگیا جس کو پڑھ کر آپ کو بھی یہ یقین ہوجائے گا کہ واقعی شاعر معاشرے پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ معاشرے کی معاشی صورت حال پر کہے گئے اس شعر کا ایک اپنا ہی رنگ ہے:
جو نہیں ہے اسی کا رونا ہے
غم کا رونا خوشی کا رونا ہے
سن یہ رونا نہیں گرانی کا
یہ تو بے قیمتی کا رونا ہے
بات بالکل ٹھیک ہے۔۔۔ اگر حالات کی وجہ سے آپ غربت کی زندگی گزار رہے ہیں تو اس میں آپ ہی کے مالی حالات کا قصور ہے، ورنہ بازاروں میں ہر چیز دستیاب ہے، اس کا الزام بھلا حکمرانوں کو کیوں دیا جائے! یہ دوسری بات ہے کہ مہنگائی نے اگر غریب کے منہ سے نوالہ چھین لیا تو حکومت کو اس سے کیا!
خیر بات ہورہی تھی ملک میں غربت سے مجبور اُن افراد کی جو دو نوکریاں کرنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان میں نوکری پیشہ خود تو پریشانیوں اور ذہنی الجھنوں کا شکار ہوا ہی ہے، ساتھ ساتھ اس کا پورا خاندان بھی دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرنے پر مجبور ہے۔
اکثر مزدور تو دوسری نوکری بھی نہیں کرسکتے، کیوں کہ ان کی ایک ہی نوکری 12 سے 14 گھنٹے پر محیط ہوتی ہے۔ اس صورتِ حال میں ایسے فرد کو مجبوراً اپنا بچہ اسکول سے اٹھاکر کسی ورکشاپ میں لگانا پڑتا ہے۔ اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی اگر گھر میں روزی روٹی کی تنگی ہو تو پھر ان گھروں میں خودکشیاں ہونا یا پھر جرائم کی راہ اختیار کرنا فطری عمل ہے۔ ظاہر ہے کہ بچوں کو تعلیم سے اٹھاکر نوکری پر لگانا، یا کسی شخص کا دوسری نوکری کرنا شوق نہیں۔۔۔ وہ بہ حالتِ مجبوری یہ کام کرتا ہے۔ اپنا آرام ختم کرکے بھی مالی حالات تبدیل نہ ہونا انسان کو مجبوراً غلط قدم اٹھانے کی جانب دھکیل سکتا ہے۔ اگر اپنے اطراف دیکھیں تو آپ کو ایسی کئی داستانِ الم سننے کو ملیں گی۔ مثلاً میرے ایک دوست کو ہی لے لیجیے، ابھی کچھ دن قبل میری اس سے ملاقات ہوئی، باتوں باتوں میں اُس وقت میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے جب اس نے بتایا کہ اس کے گھر والوں نے مہینوں پہلے گوشت پکایا تھا۔ یہ بھی اُن لوگوں میں شامل ہے جو 12 سے 14 گھنٹے نوکری کرتے ہیں۔ اب بھلا ایک نوکری کے ساتھ وہ کس طرح اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی دے سکتا ہے، جبکہ اس کی بیوی گھر میں چھوٹے موٹے کام کرکے کچھ نہ کچھ رقم جوڑ لیتی ہے، لیکن وہ پیسہ صرف گھر کے راشن کے لیے ہی ہوتا ہے۔ مجھے یہاں اپنے دوست کے گھر کی کہانی لکھنے کا کوئی شوق نہیں، بتانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ غربت کے ہاتھوں تنگ نہ جانے کتنے ایسے لوگ ہمارے معاشرے میں موجود ہیں جو عزت بچانے کی خاطر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں، ورنہ یہ حقیقت ہے کہ سرکاری ملازمین خصوصاً چھوٹے اور کم تنخواہ دار طبقے کے ساتھ ناانصافیاں ہوتی ہیں۔ پرائیویٹ اداروں میں کام کرنے والوں کا حال تو اس سے بھی کہیں زیادہ بدتر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی ایک فرد کی کمائی سے گھر چلانا ناممکن ہوچکا ہے۔ اس لیے ہر دوسرے شخص کو دوسری نوکری کرنا پڑتی ہے۔ علاوہ ازیں متعدد دیگر مسائل کی وجہ سے بھی لوگ دو نوکریاں کرنے پر مجبور ہیں، مثلاً کسی کو اپنے والدین کا علاج کروانا ہے، تو کوئی قرض اتارنے کے لیے دو نوکریاں کررہا ہے۔۔۔ کسی کو اپنے بچوں کی تعلیم کے اخراجات پورے کرنے کے لیے اس عذاب کو جھیلنا پڑرہا ہے، تو کوئی بجلی و گیس کے بلوں کی ادائیگی کرنے کے لیے اپنی جان ہلکان کرتا ہے۔ یقیناًدو نوکریاں کرکے کسی بھی فوری مسئلے کو حل تو کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے بطن سے نہ جانے کتنے اور مسائل جنم لے لیتے ہیں۔۔۔ جیسے ہم نے خود ہی معاشرے میں موجود غیر ضروری چیزوں کو اپنے لیے ضرورت بنا رکھا ہے، اس قسم کی کئی غیر ضروری چیزوں کو سہولت کے نام پر حاصل کرنے کی جدوجہد انسانی زندگیاں تباہ کرتی جارہی ہے۔ معاشرے میں پھیلی ان غیر ضروری چیزوں کا استعمال ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں چاہیے کہ خود ہی ایسی غیر ضروری اشیا کی خواہش ترک کردیں جن کے بغیر بھی زندہ رہا جاسکتا ہے، اور مشینوں کی طرح کام کرنے کے بجائے ایسے طریقے اپنائیں جس سے زندگی میں آسانی پیدا ہو۔ دوسری طرف سب سے زیادہ ذمہ داری حکومتِ وقت کی ہوا کرتی ہے، لہٰذا حکمرانوں کو بھی چاہیے کہ وہ روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کریں اور سرکاری و غیر سرکاری ملازمین کو معاشی تحفظ فراہم کریں۔ ریاست اور معاشرے میں امن و امان افراد کی خوشحالی پر منحصر ہوتا ہے، اگر ریاست کے باشندے خوش حال نہیں تو معاشرے میں لوٹ مار، رہزنی اور قتل عام ہوا کرتا ہے۔ تنگ دستی اور غربت ہی ان تمام مسائل کی جڑ ہیں اور یہی معاشرے کی بربادی کا باعث بنتے ہیں۔ ریاست کے ہر فرد میں اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ دنیا سے کٹ کر دن رات ایک کرے اور بچوں کا پیٹ پالے۔ ان حالات میں نسلیں خصوصاً نوجوان بے راہ روی کا شکار ہوجایا کرتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خودکشیوں میں اضافے کے رجحان کا موجب بھی یہی مسئلہ ہے۔ حکومت خود ہی ایسے اقدامات کرے جن کے نتیجے میں ملک سے غربت وافلاس کا خاتمہ ہوسکے اور عوام صرف ایک نوکری سے ہی عزت کے ساتھ دو وقت کی روٹی کما سکیں۔
nn

حصہ