کرپشن فری یونین کونسلز مہم(انجینئر عمر فاروق)

296

کرپشن کے ناسور نے پچھلے 70 برسوں میں ہمارے وطنِ عزیز پاکستان کی تمام اداروں کو کھوکھلا کر دیا ہے اور بحیثیت مجموعی ہماری پوری قوم کا یہ کلچر بن گیا ہے۔ جس کے باعث پورا معاشرہ اخلاقی لحاظ سے تنزلی کا شکار ہے۔ اگر آپ اپنے ارد گرد کے ماحول پر نظر ڈالیں یا کسی بھی فرد سے کرپشن کے بارے میں دریافت کریں تو سب کہیں گے کہ رشوت لینے اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں اور بچپن سے ہر بچے کو یہی سبق دیا جاتا ہے، مگر عملی لحاظ سے پورا معاشرہ کرپشن میں ڈوبا ہوا ہے۔ اگر کوئی بچنا بھی چاہے تو اِس ناسور سے بچنا اس کے لیے مشکل بنا دیا گیا ہے۔
اسی کرپشن کا ہی شاخسانہ ہے کہ بڑے اور چھوٹے، گورنمنٹ اور پرائیویٹ، تمام ادارے تباہ ہورہے ہیں اور وزیر اعظم سے لے کر کونسلرز تک تمام سیاسی اور منتخب افراد کرپشن میں حصے دار ہیں۔ چیف جسٹیس کو تو بھری عدالت میں کہنا پڑا کہ کرپشن پر ٹھیک فیصلہ سنادیا تو صرف سراج الحق صاحب ہی پارلیمنٹ میں بچیں گے، باقی سب جیل جائیں گے۔
شہر کراچی 1986 سے اب تک مستقل تخریب کاری کے عمل سے گزرا ہے، کرپشن کے ساتھ ساتھ بھتہ خوری، دہشت گردی، بلدیاتی اداروں میں سیاسی بھرتیوں اور عصبیت نے امتِ مسلمہ کے سب سے بڑے کاسموپولیٹن شہر کو کھنڈرات اور ناکامیوں کا شہر بنادیا ہے۔
گزشتہ بلدیاتی تاریخ میں کراچی کے بلدیاتی اداروں نے اگر کوئی کام کیا ہے تو ان میں سب سے بہترین لوکل گورنمنٹ میں نعمت اللہ خان صاحب کی حکومت تھی، اس کے علاوہ عبدالستار افغانی صاحب کا دور بھی کرپشن سے پاک دور تھا۔ مصطفیٰ کمال نے اپنے پیش رو نعمت اللہ خان کے آغاز کردہ پروجیکٹس کو مکمل کروایا، مگر کرپشن، سیاسی بھرتیوں، چائنا کٹنگ اور زمینوں پر قبضے کے لحاظ سے یہ کراچی کا تاریک دور تھا۔
2015 کے بلدیاتی انتخابات سے لوگوں کو امید ہوئی تھی کہ کراچی کے اندوہناک مسائل حل ہوں گے، مگر ایک برس گزرنے کے باوجود حالات اور زیادہ گمبھیر ہو گئے۔ بلدیاتی حکومتوں کی نا اہلی اور صرف اختیارات کا رونا رونے سے ہوتے ہوئے کام بھی رک گئے اور آج یہ حال ہے کراچی کے عوام چکی کے دو پاٹوں میں پس رہے ہیں۔
پچھلے 30 برسوں میں جس طرح شہر اور اس کے اداروں کو یرغمال رکھا گیا، اس کی وجہ سے عوام میں اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کی ہمت اور سکت ختم ہو کر رہ گئی ہے اور حالات کی تبدیلی ایک خواب بن چکی ہے۔
گزشتہ دنوں جماعت اسلامی نے عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے یونیورسٹی روڈ تعمیر کرو کی کام یاب مہم چلائی اور حکومت کو یونیورسٹی روڈ کی تعمیر پر مجبور کیا۔ اسی طرح یونین کونسلز میں کرپشن کے خاتمے کے لیے بھی ایک بڑی مہم کی ضرورت ہے۔
کراچی میں قریباً 209 یونین کونسلز ہیں اور یونین کونسلز کا کام یہ ہے کہ وہ بلدیاتی مسائل کو حل کریں، شہر کو کچرے کا ڈھیر بننے سے بچائیں، صاف پانی کی فراہمی اور سیورج کی نکاسی کا کام اچھے نظام کے ساتھ چلائیں۔ سڑکوں کی تعمیر اور گلیوں کی پختگی ضرورت کے مطابق کی جائے۔ جس کے حوالے سے پچھلا پورا برس 2016 بلدیاتی حکومت میئر کراچی سے یوسی کونسلر تک اختیارات کا رونا روتے رہے۔ یہ بات دُرست ہے کہ اختیارات اور وسائل نہ ملنے سے ان میں سے کوئی بھی کام نہیں ہوسکتا۔ ایک اور کام، جو یونین کونسلیں کرتی ہے، وہ مختلف سرٹیفکیٹ کا اجرا ہے۔ قریباً 9 کی تعداد میں سرٹیفکیٹ یونین کونسلز جاری کرتی ہیں، جو مندرجہ ذیل ہیں:
(1) برتھ سرٹیفکیٹ، (2) ڈیتھ سرٹیفکیٹ، (3) میریج سرٹیفکیٹ، (4)توثیق طلاق سرٹیفکیٹ، (5) میریج سرٹیفکیٹ، (6) بیوہ سرٹیفکیٹ، (7)NOCs ، (8) PRC، (9) ریمیریج سرٹیفکیٹ
سرٹیفکیٹ کے اجرا کا کام تو بغیر اختیارات کے ہوسکتا ہے، لیکن جن کو مستقل عادت ہو بھتہ خوری کی تو وہ کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ایک سرٹیفکیٹ کی فیس 50 روپے سے 200 روپے تک ہے اور یہ ہر شہری کا بنیادی حق ہے کہ حکومت اسے یہ سرٹیفکیٹ جاری کرے۔ اس حوالے سے ہر شہری یونین کونسلز سے رابطہ کرتا ہے اور منتخب کونسلرز کو ترجیحی بنیادوں پر ان کی رہنمائی کرنی چاہیے، لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ سرٹیفکیٹ کی فیس 50 اور 200 روپے کے بجائے 500 سے 6 ہزار روپے لی جارہی ہے۔ یہ بڑی کرپشن یونین کونسلز میں جاری ہے۔ عوام کی جیبوں سے پیسہ لوٹنے والوں میں میئر کراچی سے کونسلر تک سب کرپشن کی دلدل میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ یہ کرپٹ عناصر عوام کو کوئی ریلیف دینے کو تیار نہیں۔ یہی نہیں، ہر سطح پر بے شرمی کی حد تک بے حسی موجود ہے۔ حکومتی ادارے، عدالتیں، نیب، محتسب، سول سوسائٹی، این جی اورز، تمام سیاسی جماعتیں اس پر خاموش ہیں۔
یونین کونسلز میں بیٹھے عوام کے بلدیاتی نمائندے روزانہ دو سے ڈھائی کروڑ کی کرپشن کرتے ہیں۔ ایک یونین کونسل ماہانہ 10 سے 15 لاکھ کی کرپشن کرتی ہے۔ 20 لاکھ روپے فی گھنٹہ کے حساب سے کراچی کے عوام کی جیبوں سے پیسہ لوٹا جارہا ہے۔ روزانہ کراچی کا ہر شہری ایک روپیہ بھتہ یونین کونسلز کو ادا کررہا ہے۔ صرف 2016 میں ایک ارب کی لوٹ مار کی گئی۔
پچھلے ایک برس میں قریباً 700 کروڑ روپے اِس مد میں کرپشن کی نظر کیے گئے۔ میئر کراچی سے کونسلر تک سب حصہ وصول کررہے ہیں۔ یہ تو صرف سرٹیفکیٹ کے اجرا میں کرپشن ہے، اس کے علاوہ اور کئی راستے ہیں، جہاں سے یونین کونسلز پیسا کھا رہی ہے اور عوام ٹوٹی سڑکوں، کچرے کے ڈھیر، بہتے پانی اور سیوریج کے خراب نظام کا عذاب جھیل رہے ہیں۔ 2009 میں سے صرف جماعت اسلامی کی جیتی ہوئی 6 یونین کونسلز میں یہ فیس 50 سے 200 روپے تھی۔
جماعت اسلامی ’’کرپشن فری یونین کونسلز‘‘ کے عنوان سے مہم کا اعلان کرچکی ہے۔ وہ عوام کو ساتھ ملا کر یونین کونسلز اور بلدیاتی اداروں میں موجود ان ڈاکوؤں کی کرپشن اور بھتہ خوری کو روکے گی اور عوام کو ان کے حقوق کی جدوجہد کے لیے تیار کرے گی۔ احتساب بیورو، نیب، عدالتوں اور اربابِ اختیار سے ملاقاتیں کرکے یونین کونسلز میں ہونے والی کرپشن کی روک تھام کی کوشش کی جائے گی۔ جماعت کاروباری حضرات، تاجر، یونین کے نمائندے، نوجوانوں، میڈیا اور با اثر افراد کو بھی کرپشن کے خلاف ایک بڑی اور ہمہ گیر جدوجہد کا حصہ بنائے گی اوران شاء اللہ سراج الحق کا خواب ’’کرپشن فری پاکستان کرپشن فری یونین کونسلز ‘‘ ایک روز پایہ تکمیل تک پہنچے گا!!
nn

حصہ