سرکاری بھتہ خوری(تنویر اللہ خان)

311

 عام خیال ہے کہ آج کے انسان میں سوچنے، سمجھنے کی صلاحیت بڑھ گئی ہے اب وہ مستقبل کا صحیح اندازہ کرلیتا ہے اور ماضی سے سبق سیکھ رہا ہے اسی طرح ایک اورخیال یہ ہے کہ اداروں نے ترقی کرلی ہے۔
ممکن ہے مغرب نے ایسی ترقی کرلی ہو، لیکن پاکستان میں ایسا بالکل نہیں ہوا کم از کم ہمارے لیے یہ دونوں باتیں بالکل غلط ہیں۔
مثلاًہمارے اداروں میں جدید کمپیوٹر تو موجود ہیں لیکن ریکارڈ کیپنگ کا کام اب بھی عوام کے ذمے ہے، یقین نہ آئے توآپ نادارا یا پاسپورٹ آفس جاکر دیکھ لیں وہ پچاس سال پہلے مرے ہوئے باپ دادا کا ریکارڈ آپ سے طلب کریں گے اور ہربار اپنے باپ دادا کی زندگی کا ثبوت بھی آپ کو دینا پڑے گا اور مرنے کا ثبوت بھی آپ کو ہی دینا ہوگا۔
ایسا ہی معاملہ ہمارے شعور کا ہے ہم نے ایسے ایسوں کو شہادت کے درجے پر فائز کردیا ہے جن کی ساری عمر خراب کاریوں میں گُزری اور ایسے ایسوں کو خاک میں رول دیا ہے جن کی ساری عمر ملک کی خدمت میں گُزرگئی، شعور کی یہ کیسی ترقی ہے جس نے ڈاکٹر عبدالقدیر کو پھٹے جوتے پہنا کر اور پنشن کے اُنیس ہزار روپے پکڑا کر زمین پر دے مارا ہے اور شرجیل میمن کو سونے کا تاج پہنا کر سر پر بٹھا لیا ہے۔
آیان علی کاندھے پر پرس لٹکائے آنکھوں پر سیاہ گاگلز لگائے بال لہراتی ہوئی تفتیش، تحقیق، عدل و انصاف، حیا اور شرافت کا منہ چڑاتی ہوئی چہل قدمی کرتے ہوئے چوروں کی نئی پناہ گاہ دبئی چلی گئی اور ہم پاکستانی دولے شاہ کے چوہوں کی طرح رال بہاتے ہوئے خالی آنکھوں اور خالی دماغ کے ساتھ یہ سب کچھ ہوتا دیکھتے رہے، پھربھی سمجھتے ہیں کہ ہم بہت سمجھ دار ہوگئے ہیں، ہمارے کامن سینس میں بہت اضافہ ہوگیا ہے۔
پناما کیس کا فیصلہ یکم اپریل کو آنا چاہیے تھا تاکہ پوری قوم اپریل فول کی ایکٹیوٹی میں شریک ہوجاتی لیکن باخبر ذرائع بتاتے ہیں کہ یہ فیصلہ اپریل کے وسط تک آئے گا، پناما کیس کا فیصلہ اپریل میں آئے یا کسی اور مہینے میں آئے اس برس آئے یا اگلے برس آئے اس صدی میں آئے یا کسی بھی صدی میں آئے عام آدمی کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن پناما کیس نے ہمارے دانش ورں کی نام نہاد دانش وری کا پول ضرور کھول دیا ہے، وہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ پناما کیس کا فیصلہ ملک وقوم کی زندگی میں بڑا سنگ میل ثابت ہوگا، بہت سوں کا خیال ہے کہ پناما موجودہ حکمرانوں کی سیاست کو ختم کردے گا۔
میرا اپنے ان ذہین سیاست دانوں، دانش وروں، صحافیوں سے سوال ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں طاقت ور کو کب اُس کی بد اعمالیوں کی سزا ملی ہے؟
ایڈمرل منصور الحق نے اُس وقت تک مرتب کی جانے والی تاریخ کے مطابق سب سے بڑا مالی غبن کیا اور نیب کو کچھ فیصد دے کر ایسے پاک ہوگئے جیسے نومولود بچہ۔ اُن کو کیا سزا ملی؟
بے نظیر بھٹو پر سرے محل، دبئی محل، سوئس اکاونٹ، سوئیزلینڈ نیکلس کیس، پولینڈ سے ٹریکٹر کی درآمد پر رشوت جیسے الزام ہیں، اُن پر سکھ علیحدگی پسندوں کی فہرست انڈیا کو فراہم کرنے کا الزام ہے، اُن کو کیا سزا ملی؟
آصف علی زرداری پر ہر قسم کے مالی، اخلاقی اور دوسرے سنگین الزامات ہیں، اُن کو کیا سزا ملی؟
حامد سعید کاظمی کو حاجیوں کو لوٹنے پر سزا ملی لیکن پاکستان کی کمزور جیل اُنھیں بند نہ رکھ سکی، ایٹ دی اینڈ، اُن کو کیا سزا ملی؟
راجا پرویز اشرف، راجا رینٹل کے نام سے مشہور ہوئے، اُن کو کیا سزا ملی؟
پرویز مشرف پرانسانوں کو بیچنے سے لے کر انسانوں کو قتل کرانے تک کے الزامات ہیں، اُن کو کیا سزا ملی؟
مشتاق رئیسانی کے گھر سے اتنے پیسے برآمد ہوئے کہ مشینوں سے گننے میں بھی کئی دن لگ گئے اس کے علاوہ بہت سی ناجائز جائدادیں برآمد ہوئیں، اُن کو کیا سزا ملی؟
ڈاکٹر عاصم پر دہشت گردوں کی مدد کرنے کا الزام ہے، پیسے لے کر میڈیکل کالجز سے لے کر یونیورسٹی کے چارٹر دینے کا الزام ہے، سوئی گیس کے محکمے میں لوٹ مار کا الزام ہے، اُن کو کیا سزا ملی؟
ارسلان افتخار پر اپنے باپ کا ایجنٹ بن کو قانون کو بیچنے کا الزام لگا، اُن کو کیا سزا ملی؟
جماعت علی شاہ پر پاکستان کا پانی انڈیا کو بیچنے کا الزام ہے، اُن کو کیا سزا ملی؟
ایم کیو ایم پر قتلِ عام، بھتہ خوری، ملک سے غداری، مالی بدعنوانی کے سنگین الزامات ہیں، ان جرائم کو کرنے والوں میں چند ایک کے سوا سب پاکستان میں موجود ہیں، اُن کو کیا سزا ملی؟
امن کمیٹی کے عزیر بلوچ حکومت کی حفاظتی تحویل میں ہیں، اُن پر اب تک کیا ثابت ہوا ہے؟ اُن کو کیا سزا ملی؟
اس سب کے بعد ہمارے عوام، دانش ور، سیاسی دانشور، قانون دان، صحافی کہہ رہے ہیں کہ پناما کا فیصلہ پاکستان کی تقدیر بدل دے گا، کیا ایسی پیش گوئی کرنے والوں کودانش ور کہنا چاہیے؟ یہ ہے ہماری عقل کا ارتقاء۔
کتنی مختصر بات ہے لیکن کتنا جامع اور ہمہ گیر پیغام لیے ہوئے ہے:
خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
اس بھیانک منظر نامے کو پڑھ کر آپ یہ نہ سمجھیں کہ پاکستان میں کوئی قانون نہیں ہے، کوئی عدالت نہیں، کوئی پولیس نہیں ہے، کوئی ادارہ نہیں ہے، یہ سب کچھ ہے اور ساری دُنیا سے زیادہ ہے، برطانیہ کا آئین تحریر ہی نہیں، امریکا کا آئین ایک صفحے پر لکھا ہوا ہے لیکن ہمارا آئین ایک ضخیم کتاب ہے۔
اسی طرح تمام ادارے موجود ہیں مثلاً بدعنوانی پکڑنے کے لیے نیب، دفتری اور دوسرے اسی نوعیت کے جرم کرنے والوں کو پکڑنے کے لیے ایف آئی اے موجود ہے، عام جرائم کو پکڑنے کے لیے سی آئی اے موجود ہے، پولیس موجود ہے، انسداد منشیات کا محکمہ موجود ہے، ملاوٹ کو روکنے کے لیے محکمہ فوڈ موجود ہے، کم تولنے والوں کے لیے محکمہ اوزان و پیمائش موجود ہے، جعلی دواوں کی فروخت روکنے کے لیے ڈرگ انسپکڑ موجود ہیں اور نہ جانے کون کون سے محکمے اور وزارتیں قائم ہیں لیکن یہ سب چور، اچکوں، جیب کتروں، چپل چوروں، کم تعداد میں مرغی چوروں اور اسمال ڈکیتوں کو پکڑتے ہیں۔
اگر آپ کو ان باتوں پر یقین نہ آئے تو نوپارکنگ پر اپنی موٹرسائیکل کھڑی کر کے دیکھیں لحموں میں اُٹھا لی جائے گی، ایک چھوٹا سا بے ضرر چاقو لے کر گھر سے نکل کر دیکھیں لحموں میں ناجائز اسلحہ رکھنے کے الزام میں پکڑے جائیں گے، ریل گاڑی میں بغیر ٹکٹ سفر کرکے دیکھیں آپ کی زندگی کا سفر روک دیا جائے گا، پلیٹ فارم ٹکٹ لیے بغیر ریلوے اسٹیشن میں داخل ہوکر دیکھیں آپ سے پہلے سے آخری اسٹیشن تک کا کرایہ وصول کرلیا جائے گا، سیٹ بیلٹ نہ باندھنے پر آپ کو پکڑا جاسکتا ہے، چھکڑا موٹر سائیکل کو کاغذ نہ ہونے کی وجہ سے سوار سمیت بند کردیا جائے گا، ہیلمٹ نہ پہننے پر آپ پر جُرمانہ ہوسکتا ہے، ہیڈلائٹ خراب ہونے پر آپ کو پکڑاجاسکتا ہے، مسجد سے چپل چُرانے پر آپ گرفتار ہوسکتے ہیں۔
لہٰذا اگر اپ کو زندہ رہنا ہے اور عزت کے ساتھ رہنا ہے تو ضروری ہے کہ آپ بڑے جرائم کریں، مثلاً ملک کے اہم قومی راز دشمنوں کو بیچیں، کرکٹ میں بہت ہی بڑا سٹہ کھیلیں، منشیات کی ٹنوں وزنی کھیپ اسمگل کریں خبردار جو ایک آدھ چٹکی ہیروین کا کام کیا ایسا کرنے پر آپ ساری زندگی جیل میں سڑ سکتے ہیں، بھائیوں بڑی چوری کرو، بڑا ڈاکا مارو، بڑی غداری کرو اسی میں عزت ہے۔
میری ایسے ماں باپ، جن کے بچے ابھی پرائمری کلاسز میں پڑھتے ہیں اُن سے گُزارش ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ہر طرح کی بددیانتی، ہر طرح کی ڈھٹائی، ہر طرح کی بے شرمی، ہر طرح کی مفاد پرستی اور خود غرضی کی تعلیم دیں اور جو لوگ تعلیمی ادارے بنانے میں دل چسپی رکھتے ہیں اُن سے گزارش ہے کہ وہ جرائم کی عملی تربیت کا اہتمام ضرور کریں تاکہ ہماری اگلی نسل زیادہ مہارت کے ساتھ پاکستان کو لوٹ سکے اورہم سے زیادہ اونچا سراُٹھا کر جیے۔
عزیزو! ایسا مشورہ دینا بڑے دل گردے کا کام ہے لیکن کیا کروں جو دیکھ رہا ہوں وہی لکھ رہا ہوں، اگر آپ کو میری یہ باتیں اچھی نہ لگی ہوں تو کچھ کرو، دولے شاہ کے چوہوں کی طرح ٹپکتی رال اور خالی آنکھوں کے ساتھ تماشا نہ دیکھو،کچھ کرو۔

حصہ