پشیمان(فوزیہ تنویر)

208

 جانے آج کیا بات تھی کہ فون کی گھنٹی بجتے ہی اسلم کو گھبراہٹ ہونے لگی۔ جوں ہی اس نے فون کان سے لگایا، دوسری طرف سے یہ دل دہلا دینے والی خبر ملی کہ آج صبح حادثے میں اس کے دوست ہاشم کا اکلوتا بیٹا اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔ یہ سُننا تھا کہ اسلم کا دل بیٹھنے لگا۔
اسلم کا ہاشم سے بچپن کا یارانہ تھا۔ اسلم کو پڑھنے پڑھانے سے دل چسپی تھی، لیکن ہاشم پڑھائی سے کوسوں دور بھاگتا تھا۔ اسلم تو تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوگیا اور ہاشم ٹریفک کانسٹیبل بن گیا۔ اسلم جب بھی ہاشم سے ملتا وہ ہر بار ایک ہی رونا روتا کہ اس قدر مہنگائی میں گزارہ مشکل ہوتا جارہا ہے۔ اس کے برعکس اسلم قناعت پسند تھا۔ وہ جواب میں ہاشم کو اللہ تعالیٰ پر بھروسا کرنے کی تلقین کرتا۔
ہاشم تمہارے حالات تو بہت اچھے ہوگئے ہیں۔۔۔کافی دنوں کے بعد جب اسلم اپنے دوست سے ملاقات کی غرض سے اس کے گھرگیا تو اس کا رہن سہن دیکھ کر کچھ چونک سا گیا۔
تمہیں تو معلوم ہی ہے کہ ایک ٹریفک کانسٹیبل کی تنخواہ کتنی ہوتی ہے۔۔۔مر مرکر گزارہ کرنا پڑتا ہے۔ ہاشم اپنے دوست کی سوالیہ نظروں کو بھانپتے ہوئے ازخود بتانے لگا: میرے ساتھیوں نے مجھے ’’اوپر‘‘ کی آمدنی کا مشورہ دیا، تب سے میرے حالات بہت اچھے ہوگئے ہیں۔
اللہ کی پناہ۔۔۔ہاشم تم نے بھی رشوت لینی شروع کردی ۔ تمہیں معلوم ہے کہ تم اپنے گھر والوں کو آگ کے لقمے کھلا رہے ہو۔
میں کون سا کسی کو تنگ کرتا ہوں، دینے والے جتنا دیتے ہیں بہ خوشی لے لیتا ہوں۔
سڑک پر تیز رفتار بس اور ٹرک ڈرائیوروں کو موت کا لائسنس دے دینا کیا یہ دانش مندی ہے؟ تم کیا جانو ان جاہل ڈرائیوروں سے پیسے لے کر تم کتنی ہی جانوں کا سودا کرتے ہو! اسلم ہر حال میں اپنے دوست کو اس بُرائی سے دور رکھنا چاہتا تھا۔
میں تو اُن سے نہیں کہتا کہ وہ تیز گاڑی چلائیں۔ ہاشم اپنے آپ کو صحیح باور کروانے کی کوشش کررہا تھا۔
ایک مخلص دوست ہونے کے ناتے میرا یہ فرض بنتا ہے کہ تمہیں آگ کی طرف جانے سے روکوں۔ اسلم نے دوست سے جانے کی اجازت لیتے ہوئے کہا اور وہاں سے دُکھی دل کے ساتھ روانہ ہوگیا۔
فون پر یہ بُری خبر سنتے ہی وہ فوراً ہاشم کے گھر پہنچ گیا۔ وہاں تو کہرام مچا ہوا تھا۔ اسلم کو سامنے دیکھ کر ہاشم کے صبرکا پیمانہ لبریز ہوگیا اور وہ پاگلوں کی طرح دھاڑیں مار مار کر رونے لگا ’’میرے پیارے دوست تم بالکل ٹھیک کہتے تھے آج میں برباد ہوگیا۔۔۔ میرا اکلو بیٹا میری وجہ سے حادثے سے دوچار ہوگیا۔۔۔ صبح ڈیوٹی کے دوران جب دو بسیں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کر رہی تھیں تو میں نے ان کو روکا، لیکن جب ڈرائیور نے میری جیب گرم کی تو میں نے چالان کرنے کے بجائے انہیں جانے دیا، لیکن چورنگی پر ان بسوں کی ریس کی وجہ سے ایک موٹر بائیک والے کو اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑگئے۔ جانتے ہو اسلم وہ کچلا جانے والا نوجوان کون تھا؟ وہ میرا لخت جگر تھا۔۔۔میں کتنا بدنصیب باپ ہوں، جس کی وجہ سے اس کا پیارا بیٹا اتنی اذیت ناک موت مر گیا۔ میں نے کبھی کیوں نہ سوچا کہ اس تیز رفتاری سے جانے کتنی ماؤں کے جگر گوشے ان سے چھن جاتے ہیں۔۔۔معلوم نہیں کس کس کی آہ نے میرے گھر کا راستہ دیکھ لیا، اللہ تعالیٰ نے مجھے اتنی بڑی سزا دی کہ میرا خالی دامن رہ گیا۔ ہاشم رو پڑا۔ اسلم نے اسے گلے لگایا تو رُندھی آواز میں منہ آسمان کی طرف کرکے بولا:
اے اللہ مجھے معاف کر دے۔ میں سیدھی راہ سے بھٹک گیا تھا۔ یہ کہتے ہوئے وہ دوبارہ روپڑا۔۔۔!!

حصہ