ناول(محمد عادل منہاج)

200

’’مطلب یہ کہ اس وقت اشریکا کو ہماری ضرورت ہے۔ وہ ہمیں اسلحہ دے رہا ہے۔ جنگ کے بعد ہوسکتا ہے وہ ہمیں پوچھے بھی نہیں، تو کیوں ناں ہم افغان پور کی طرح کاشیر کے مجاہدین کو بھی اسلحہ سپلائی کریں اور ان کی بھی اسی طرح تربیت کریں تو وہ بھی جبرستان کا بیڑہ غرق کرسکتے ہیں۔‘‘
’’تجویز تو اچھی ہے مگر کاش ہم کچھ عرصہ پہلے سے اس پر عمل شروع کردیتے تو آج نتائج مختلف ہوتے۔ اب افغان پور کا مسئلہ تو کچھ عرصے میں حل ہونے ہی والا ہے۔ اس کے بعد اشریکا ہماری کوئی مدد نہیں کرے گا۔‘‘
’’ہاں، مگر ہمیں اس کام کی شروعات تو کر ہی دینی چاہیے، آگے جو ہوگا دیکھا جائے گا۔‘‘
***
ملک کی ایک خفیہ عمارت میں اس وقت ایک اہم اجلاس ہورہا تھا۔ صدارت کی کرسی پر بوڑھا پولس بیٹھا تھا، جس کے چہرے پر ہمیشہ کی طرح خباثت ٹپک رہی تھی۔ اس کے سامنے ایسے ایسے لوگ بیٹھے تھے کہ اگر دنیا دیکھ لیتی تو چونک اٹھتی اور بہت سے رازوں سے پردہ اٹھ جاتا۔ پولس کہہ رہا تھا: ’’ہم سب کا ایک ہی مشن ہے، دنیا سے مسلمانوں کا خاتمہ۔ اس مقصد کے لیے آج سے کئی برس پہلے ایک منصوبہ بنایا گیا تھا، جس پر کامیابی سے عمل ہورہا ہے۔ اگرچہ درمیان میں کچھ مسائل بھی پیش آئے، مگر منصوبے میں ہر چیز کا حل موجود ہے۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ افغان پور کا فیصلہ ہونے والا ہے۔ لاس وہاں سے نکل جائے گا۔ کیوں مسٹر بیف، آپ کیا کہتے ہیں؟‘‘ پولس ایک شخص سے مخاطب ہوا تو سامنے بیٹھا لاس کی فوج کا سربراہ کھڑا ہوگیا:
’’آپ ٹھیک کہتے ہیں سر، میں نے صدر کو اچھی طرح بتادیا ہے کہ وہ جنگ ہار چکا ہے۔ اب کوئی باعزت معاہدہ کرکے افغان پور سے نکل جائے‘‘۔ لاس کی فوج کا سربراہ بولا۔
’’ہوں، اسے یہ موقع ہم دیں گے۔ وہ بہرحال غیر مسلم ہے، اس ناتے ہمارا بھائی ہے۔ مسلمان دشمنی میں ہم سب ایک ہیں۔ پاک کے صدر کو سمجھا دیا جائے کہ وہ لاس سے معاہدہ کرلے‘‘۔ پولس بولا۔
’’پاک کا صدر آج کل ہماری بات نہیں مان رہا ہے‘‘۔ یہ کہنے والا اشریکا کا نائب صدر تھا۔
’’کیا مطلب؟ اس کی یہ مجال۔۔۔!‘‘ پولس کے لہجے میں ناگواری تھی۔
’’دراصل ایک عرصے تک وہ ہماری مجبوری بنارہا۔ اب وہ ہماری مجبوریوں سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ وہاں کے چند غدار سیاست دان تو ہمارے ساتھ ہیں، مگر صدر کے تیور کچھ اور ہیں۔ وہ افغان پور میں وہاں کے سب لوگوں کو ملاکر ایک مضبوط حکومت بنانا چاہتا ہے‘‘۔ نائب صدر نے بتایا۔
’’ناممکن۔۔۔ یہ کبھی نہیں ہوگا،کیوں کہ یہ بات منصوبے کے خلاف ہے۔ افغان پور پر آج یا کل ہمارا قبضہ ہوگا، مگر ابھی وہاں افراتفری ہی رہے تو بہتر ہے۔ اگر وہاں کے مجاہدین نے ایک مضبوط حکومت بنالی تو وہ ہمارے لیے دردِ سر بن جائیں گے، لہٰذا پاک کے صدر کو سمجھاؤ، نہیں مانتا تو وہاں کے عوام کو اس کے خلاف کردو، پارلیمنٹ کو اس کے خلاف کردو۔ اگر پھر بھی بات نہ بنے، تو راستے سے ہٹادو‘‘۔ پولس غرّا کر بولا۔
’’ایسا ہی ہوگا جناب‘‘۔ نائب صدر نے کہا۔
’’اور ملک راک کی کیا صورتِ حال ہے؟‘‘ پولس نے پوچھا۔
’’اس کی بھی اپنے پڑوسی سے لڑلڑ کر حالت خراب ہوچکی ہے‘‘۔ نائب صدر نے بتایا۔
’’ہوں، اب منصوبے کا دوسرا حصہ وہاں سے شروع ہوگا۔ فی الحال، راک کے صدر کو اپنے اعتماد میں لیے رکھو، اس کا حوصلہ بڑھاتے رہو، پھر میں تمہیں بتاؤں گا کہ وہاں کون سا کھیل شروع کرنا ہے‘‘۔ پولس عیّاری سے مسکرایا، پھر وہ ایک اور شخص کی طرف متوجہ ہوا: ’’مسٹر راڈ، آپ کے لیے کچھ اور ہدایات ہیں۔‘‘
’’حکم سر‘‘۔۔۔ راڈ کھڑا ہوگیا۔
’’آپ دنیا کے سب سے مشہور نشریاتی ادارے ڈی این این کے سربراہ ہیں۔ آپ اپنا کام بہت اچھی طرح کررہے ہیں اور مسلسل گبرائیل کو سپورٹ کررہے ہیں۔‘‘
’’شکریہ جناب، میں بھلا ایسا کیوں نہ کروں، آخر میں بھی گبرائیل کا ہی ایک حصہ ہوں۔‘‘
’’آپ نے ٹھیک کہا۔ ہماری کامیابی کی وجہ یہی ہے کہ یہودی دنیا میں جہاں کہیں بھی ہو، وہ ہمیشہ گبرائیل کے مفاد کے لیے کام کرے گا۔ خیر، آپ نے افغان پور کی اچھی کوریج کی ہے۔ اب وہاں جنگ کا خاتمہ ہونے والا ہے۔ آپ کا کام یہ ہے کہ اس کا سارا کریڈٹ اشریکا کو دیں گے۔ اسے مجاہدین کی کامیابی نہ کہا جائے۔ بس یہی پروپیگنڈہ ہو کہ یہ سارا اشریکا کا کمال تھا۔ اس کے علاوہ آپ اس مجاہد عامر بن ہشام کی بھی کوریج کریں اور اسے مسلمانوں کے ہیرو کے طور پر پیش کریں۔‘‘
’’لیکن اس سے کیا فائدہ ہوگا سر۔۔۔؟‘‘
’’یہ بات ابھی آپ کی سمجھ میں نہیں آئے گی۔ اس شخص سے ہمیں آگے بہت کام لینا ہے۔ ابھی اسے ہیرو بنائیں، پھر اسے زیرو کردیں گے۔‘‘
***
اپنے عالی شان آفس میں بیٹھا پولس کسی گہری سوچ میں گم تھا۔ پھر اس نے میز پر لگا ایک بٹن دبایا اور کہا: ’’منصوبہ ساز نمبر نو کو میرے پاس بھیجو۔‘‘
جلد ہی دروازہ کھلا اور ایک نوجوان اندر داخل ہوا۔
’’سر، آپ نے مجھے یاد کیا؟‘‘ وہ ادب سے بولا۔
’’نمبر نو، تم ہمارے بہت ذہین منصوبہ ساز ہو۔ تمہارے کئی منصوبے کام یابی سے ہمکنار ہوچکے ہیں۔ اب تمہیں ایک اور ذمے داری سونپ رہا ہوں۔ سُنو، پاک کا صدر اب ہمارے لیے بے کار ہوچکا ہے۔ وہ افغان پور کے علاوہ کاشیر میں بھی معاملات خراب کررہا ہے۔ اسے راستے سے ہٹانا ضروری ہوگیا ہے‘‘۔ پولس کے لہجے میں سفاکی در آئی تھی۔
’’یہ کون سا مشکل کام ہے جناب۔۔۔‘‘ نمبر نو بولا۔
’’پہلے پوری بات سُن لو۔ صرف صدر کو ہٹانے سے بات نہیں بنے گی، کیوں کہ افغان پور کے سارے معاملات خرم مراد کے ہاتھ میں ہیں۔ اس پورے گیم کی کامیابی کے پیچھے اسی کا ہاتھ ہے، اسے بھی ساتھ ہی اڑانا ہوگا۔ اس کے علاوہ بھی فوج میں جو جو اس کے ہمدرد ہیں، ان سب کو ختم کردو۔ اس طرح ایک تو ہمارا راستہ صاف ہوجائے گا، دوسرے پاک میں افراتفری پھیل جائے گی اور اس حالت میں ہم ان سے اپنی بہت سی باتیں منوا سکیں گے۔‘‘
(جاری ہے)
’’میں سمجھ گیا سر، میں اس کے لیے ابھی سے منصوبہ بندی شروع کرتا ہوں۔‘‘
’’ایک بات کا خیال رہے، اس ملک میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو اشریکا کو پسند نہیں کرتے اور اس کی چالوں کو سمجھتے ہیں، لہٰذا ان کا ذہن فوراً اشریکا کی طرف جائے گا۔ منصوبہ ایسا ہو کہ صدر اور اس کے ساتھی بھی ختم ہوجائیں اور کوئی اشریکا پر شک بھی نہ کرے۔‘‘
’’سر، کیا اس مقصد کے لیے اشریکا کے ایک دو آدمی قربان کیے جاسکتے ہیں؟‘‘ نمبر نو نے پوچھا۔
’’ہمارا منصوبہ اتنا عظیم ہے کہ ہم اس کے لیے اشریکا کے صدر کو بھی قربان کرسکتے ہیں۔ ساری دنیا اشریکا کو سُپرپاور سمجھتی ہے۔ انہیں کیا معلوم کہ اصل سُپرپاور گبرائیل ہے، جس کا حکم اشریکا پر بھی چلتا ہے۔ ایک دن آئے گا جب ساری دنیا پر ہماری کھلم کھلا حکومت ہوگی۔
nn

 

 

حصہ