عرب بہاد سے محفوظ ملک سوڈان (ڈاکٹر محمد اقبال خلیل)

231

1990ء میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کے لیے سوڈان کے دارالحکومت خرطوم جانا ہوا۔ مختلف ممالک میں کام کرنے والی ڈاکٹروں کی اسلامی تنظیموں نے 1982ء میں ایک عالمی تنظیم کی داغ بیل ڈالی تھی جس کو فیڈریشن آف اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (FIMA)کہا جاتا ہے، جس کے تحت یہ کانفرنس سوڈان میں منعقد کی جارہی تھی، جس میں کئی ممالک کے مندوبین شریک تھے۔ میں اس سے پہلے 1986-87ء میں 2 سال تک پاکستان کی سطح پر اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن(PIMA) کا صدر رہ چکا تھا۔ جب کہ اس سے پہلے جب 1983ء میں کراچی میں پیما کے سالانہ اجلاس کے موقع پر فیما کا بھی غالباً دوسرا اجلاس منعقد ہورہا تھا، اُس وقت میں پیما کراچی کا صدر اور اس پروگرام کا منتظم تھا جو قدرے مشکل اور نامساعد حالات میں منعقد ہوا تھا۔ اس لیے جب سوڈان میں فیما کے اجلاس کی دعوت ملی تو میں بغیر کسی پہلے سے طے شدہ پروگرام کے اس میں شرکت کے لیے نکل پڑا اور واپسی میں اللہ تعالیٰ نے پہلے عمرے اور زیارت کی سعادت بھی نصیب کی جو ایک الگ عجب داستان ہے۔ اس موقع پر میں نے سوڈان کے دارالحکومت اور دوسرے بڑے شہر خرطوم میں دو باتیں نوٹ کیں۔ ایک یہ کہ دارالحکومت کی کئی شاہراہیں کچی تھیں۔ دوسری یہ کہ گاڑیاں کم تھیں لیکن اعلیٰ درجہ کی مرسڈیز، شیورلیٹ اور فورڈ گاڑیاں تھیں۔ پیٹرول کا کافی کوٹا مقرر تھا۔ اس عالمی کانفرنس میں اُس وقت کے صدرِ جمہوریہ اور فوجی آمر جنرل عمرالبشیر تو تشریف نہ لائے اور اُن کی جگہ نائب صدر جنرل علی عثمان نے کانفرنس کا افتتاح کیا، البتہ بعد میں غیر ملکی مندوبین کی ملاقات اُن سے ضرور کرائی گئی۔ انہوں نے کچھ ہی عرصے پہلے عنانِ اقتدار سنبھالی تھی اور پاکستان کے جنرل ضیاء الحق شہید کی طرح کافی اسلام پسند دکھائی دئیے۔
پھر مجھے 2015ء میں دوبارہ سوڈان جانے کا موقع ملا۔ اس بار سوڈان کی معروف سماجی تنظیم الوکالۃ الاسلامیہ الانماثہ (ISRA)کی جانب سے دعوت ملی تھی، جن کے ساتھ میں پشاور میں کام کرچکا تھا اور ان کے مرکزی بورڈ کا رکن بھی ہوں۔ محترم سینیٹر پروفیسر محمد ابراہیم خان صاحب کی معیت میں یہ سفر بھی بہت خوشگوار رہا اور واپسی پر پھر عمرے کی سعادت نصیب ہوئی۔ لیکن اس بار خرطوم ایک جدید اور ترقی یافتہ شہر کی حیثیت سے نظر آیا۔ گزشتہ 25 سال میں اس کی کایا پلٹ گئی تھی اور اب وہ کسی بھی بڑے شہر کی طرح تمام شہری سہولتوں، شاہراہوں، فلائی اوورز اور رنگ برنگی گاڑیوں سے اٹا ہوا تھا۔ اس بار تو جنرل عمرالبشیر سے ملاقات نہ ہوسکی جو اس پورے عرصے میں سوڈان کے حکمران رہے تھے لیکن ان کے ایک معاون اور سیاسی مشیر سے ضرور تفصیلی ملاقات اور بات چیت کا موقع ملا۔ سب سے بڑھ کر سوغات تو ہمیں عالم اسلام کے مایہ ناز مفکر ڈاکٹر حسن ترابی سے ملاقات کی صورت میں ملی جو اب اس دنیا میں موجود نہیں ہیں لیکن اُن سے ملاقات میں لیا گیا انٹرویو میں پہلے ہی قارئین جسارت کی نذر کرچکا ہوں۔ سوڈان پہنچتے ہی یہ سوال میرے ذہن میں کلبلانے لگا کہ ’’عرب بہار‘‘ نامی عوامی بیداری کی تحریک جس نے 2011-12ء میں کئی عرب ممالک میں موجود پرانی آمرانہ حکومتوں کا دھڑن تختہ کردیا تھا وہ سوڈان میں کیوں نہ پہنچی، اور جنرل عمرالبشیر کی حکومت کیونکر اس سے محفوظ رہی؟
جمہوریہ سوڈان براعظم افریقہ کا ایک عظیم ملک ہے۔ سوا چار کروڑ آبادی کا یہ وسیع وعریض ملک تقریباً 19لاکھ مربع کلومیٹر رقبہ رکھتا ہے، جس کو سفید اور نیلا دریائے نیل سیراب کرتے ہیں۔ سوڈانی لوگ بہت محبت کرنے والے، سادہ، مخلص اور پُرامن لوگ ہیں۔ کٹّرمسلمان ہیں اور اسلام سے والہانہ محبت کرتے ہیں۔ سوڈان 1956ء میں سلطنتِ برطانیہ سے آزاد ہوا، اُس وقت وہ مصر کے ساتھ جڑا ہوا تھا اور اسی کی عملداری میں تھا، اس لیے اس کو بیک وقت تختِ برطانیہ اور قاہرہ سے آزادی ملی۔ یہ فراعنہ کے دور میں بھی سلطنتِ مصر کا حصہ تھا۔ چھٹی صدی عیسوی میں یہاں کے قبائل نے عیسائی مذہب قبول کیا تھا اور پھر پندرہویں صدی میں اسلام کی روشنی سے منور ہوا اور اب سوڈان میں 97 فیصد مسلمان آبادی ہے۔
چند سال پہلے تک سوڈان براعظم افریقہ کا سب سے بڑا ملک تھا لیکن 2011ء میں عالمی طاقتوں کی سازشوں کا نتیجہ اس کے بٹوارے کی صورت میں نکلا۔ عرب بہار کی تحریک تو اس کا کچھ نہ بگاڑ سکی لیکن اس کے جنوبی حصے میں مسلسل شورش اور خانہ جنگی کی وجہ سے یہ ملک تقسیم ہونے سے نہ بچ سکا اور جنوبی سوڈان کے نام سے ایک نیا ملک دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا۔ اس لیے اب یہ افریقہ کا تیسرا بڑا ملک ہے۔ جنوبی خطے کی علیحدگی کے بعد یہ شمالی سوڈان بھی کہلاتا ہے۔ جنوبی سوڈان، مشرقی تیمور کی طرح اکثریتی عیسائی آبادی پر مشتمل ملک ہے جس کی وجہ سے اس کی آزادی کا سبب سمجھ میں آتا ہے۔ وہاں جنرل جان گوئرنگ کی قیادت میں خرطوم حکومت کے خلاف 20 سال طویل جنگ لڑی گئی جس کو پڑوسی عیسائی ممالک کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ اس دوران 15لاکھ اموات ہوئیں اور 4 ملین لوگ بے گھر ہوئے۔ بالآخر طویل خانہ جنگی اور مذاکرات کے بعد اقوام متحدہ کے 2005ء پلان کے مطابق تیل کی دولت سے مالامال یہ خطہ سوڈان سے الگ کردیا گیا۔ اس ملک میں عیسائی آبادی کے ساتھ ساتھ قدیم افریقی قبائل بھی آباد ہیں۔ جنرل گوئرنگ تو ہیلی کاپٹر کے حادثے میں ہلاک ہوگئے اور اپنی جدوجہد کی کامیابی کا ثمر نہ دیکھ سکے، لیکن جس جنگ کا انہوں نے آغاز کیا تھا اس کا سلسلہ آزادی کے بعد بھی جاری رہا۔ متحارب قبائل کے درمیان جنگوں کی وجہ سے 2013ء سے 2015ء کے دوران 22 لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہوئے اور پڑوسی ممالک کی طرف ہجرت کرگئے۔ اس جنگ کی بڑی وجہ جنوبی سوڈان کے صدر سلواکیر اور نائب صدر ریک ماچرکے درمیان اختلافات ہیں۔ 2015ء میں دونوں رہنماؤں کے درمیان پھر تنازع کھڑا ہوا جس کی وجہ سے اب تک گڑبڑ ہے۔ حال ہی میں 17امدادی کارکن قتل کیے گئے ہیں۔
شمالی سوڈان کے ایک خطہ دارفور میں بھی مسئلہ ہے جس کا سامنا سوڈانی حکومت کو کرنا پڑرہا ہے۔ سوڈان کے مغرب میں واقع یہ وسیع علاقہ چاڈ کی سرحد پر واقع ہے۔ یہاں بھی گزشتہ 15سال سے جنوبی سوڈان کی طرح بغاوت برپا ہے، جس میں بڑا باغی گروپ مسلمان ہے، لیکن یہ عام طور پر غیر عرب آبادی پر مشتمل ہے۔ دارفور ایک زمانے میں آزاد ریاست کی حیثیت رکھتا تھا لیکن بعد میں سوڈان میں ضم کردیا گیا تھا۔ اس مسلم ریاست کا تعلق خلافتِ عثمانیہ سے بھی رہا تھا۔ ایک چھوٹا باغی گروپ عیسائی مذہب کا حامل ہے جس کو پڑوسی ملک کی حمایت حاصل ہے۔ دارفور میں بدترین خانہ جنگی رہی ہے جس میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں اور انسانی آبادیاں منتقل ہوئی ہیں۔ اس جنگ کی ایک بڑی وجہ پانی کے حصول اور مویشیوں کے لیے چارے کا بندوبست بھی ہے جو علاقے کی عرب اور غیر عرب آبادی کے درمیان تنازعات کی بنیاد ہے۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق جنگ، قحط اور بھوک کی وجہ سے 3 لاکھ کے لگ بھگ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ اسی جنگ کی وجہ سے سوڈانی حکومت پر نسل کُشی کے الزامات بھی لگائے گئے ہیں اور جنرل عمرالبشیر کو عالمی عدالتِ انصاف نے جنگی مجرم قرار دیا ہے جس کی وجہ سے وہ ملک سے باہر سفر نہیں کرسکتے۔ اس خوفناک جنگ نے ایک بڑے انسانی المیے کو جنم دیا ہے جس کی ہولناکی نے پوری دنیا کو متاثر کیا ہے۔ اس وقت تو قدرے امن ہے لیکن مسئلے کے مکمل حل تک یہ معاملہ سوڈان کے اندر ایک ناسور کی طرح رستا رہے گا۔ ان دوبڑے مسائل کی وجہ سے غالباً سوڈان کے لوگ اس طرح سے کسی نئی سیاسی تحریک میں شمولیت نہ کرسکے، اور عرب بہار تحریک کا یہاں کوئی اثر نہ پڑا۔ البتہ سوڈانی قیادت کا رویہ بھی اس میں اہمیت رکھتا ہے۔
فوجی حکومت ہونے کے باوجود سوڈان میں ایک جمہوری نظام اور کلچر پنپتا رہا۔ حکومتِ سوڈان نے عوام کے مزاج کے مطابق اسلامی اقدار کی پاسداری اور شریعت کی بالادستی کو قائم رکھا۔ عدالتوں کا نظام شرعی قوانین کی پابندی کو جاری رکھے ہوئے ہے اور تمام تر عالمی دباؤ کے باوجود حکومت نے اس معاملے میں مصلحت سے کام نہ لیا۔ اسی طرح ملکی ترقی اور اقتصادی خوشحالی کا سلسلہ بھی امریکا کی جانب سے عائد کردہ اقتصادی پابندیوں کے باوجود جاری رہا۔ امریکا نے اگست 1998ء میں سوڈان میں ایک دوا ساز فیکٹری پر میزائلوں سے حملہ بھی کیا تھا جب القاعدہ نے امریکی سفارت خانوں کو کینیا اور یوگینڈا میں ہدف بنایا تھا۔ اس سے پہلے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن سوڈان میں مقیم تھے اور یہاں سے پھر افغانستان منتقل ہوگئے تھے۔ اُس وقت سے امریکا نے سوڈان سے سفارتی تعلقات منقطع کرلیے تھے، اور سوڈان میں بہت بڑا امریکی سفارت خانہ بند کردیا گیا تھا۔ اقتصادی پابندیوں کا یہ سلسلہ سالہا سال جاری رہا جس نے سوڈان کی معاشی حیثیت کو بری طرح متاثر کیے رکھا۔ سب سے زیادہ نقصان تیل کی برآمدات میں ہوا کیونکہ تیل کے کنووں سے پمپنگ کا نظام اور بندرگاہوں تک ترسیل کا پورا سسٹم امریکی ساختہ تھا اور امریکی ماہرین اس کو چلارہے تھے۔ ان کے جانے سے وہ پورا نظام جام ہوچکا تھا۔ 3 سال قبل چین نے سوڈان کے ساتھ ایک معاہدے کے بعد اپنے تیکنیکی ماہرین کی مدد سے اس پورے سسٹم کو چالو کردیا ہے اور تیل کی ترسیل بحال ہونے کے بعد سوڈان کی معیشت کو بہت سہارا ملا ہے۔ اس طرح چین نے اب امریکا کی جگہ لے لی ہے اور سوڈان کی اقتصادی حالت کو بہتر بنانے میں کلیدی کردار ادا کررہا ہے۔ امریکا نے صدر بارک اوباما کے دورِ صدارت کے اختتام پر جو چند اقدامات کیے اُن میں سوڈان سے اقتصادی پابندیوں کا خاتمہ بھی شامل ہے، جس سے اقتصادی ترقی، بین الاقوامی تجارت اور بینکاری کے نظام میں سوڈان کی واپسی ممکن ہوئی ہے۔
جنرل عمر حسن البشیر 1989ء میں وزیراعظم صادق المہدی کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد برسراقتدار آئے تھے اور اُس وقت سے حکومت میں ہیں۔ 1993ء میں انہوں نے صدارت کا عہدہ سنبھالا۔ 73 سالہ عمرالبشیر اب تک تین دفعہ صدارتی انتخابات جیت چکے ہیں۔ 2005ء میں انہوں نے جنوبی سوڈان کی علیحدگی کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے جس پر 2011ء میں عمل درآمد ہوگیا۔ 2009ء میں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے انہیں دارفور میں جنگی جرائم کا مجرم قرار دیا، لیکن سوڈانی حکومت نے یہ فیصلہ ماننے سے انکار کردیا۔ اس دوران انہوں نے بعض ملکوں کا دورہ بھی کیا جن میں جنوبی افریقہ، مصر اور یوگینڈا شامل ہیں۔ بہر صورت ان کو جس الزام کا سامنا ہے اس سے برأت حاصل کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے سوڈان میں اپنی سیاسی پارٹی بھی بنائی ہوئی ہے اور اقتدار پر اب تک ان کی گرفت مضبوط ہے۔ ملک میں منتخب پارلیمنٹ، کابینہ اور وزیراعظم موجود ہیں۔ انہوں نے ملکی سطح پر پہلے سابق وزیراعظم صادق المہدی اور پھر ڈاکٹر حسن ترابی کی مخالفت بھی کامیابی سے برداشت کی ہے۔ لیکن یہ سوال اپنی جگہ پر موجود ہے کہ ان کے بعد کیا ہوگا؟ جمہوری نظام، ملکی نظام کو ان کی غیر موجودگی میں کیسے سنبھال سکے گا؟

حصہ