بنت آدم اور ابن حوا(سعیدبن عبدالغفار)

777

پاکستان، عالم اسلام اور پوری دنیا میں خواتین کے حقوق پر بہت بحث کی جاتی ہے۔ اس بحث کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ بحث دو طرفہ ہو کر لبرلز اور اسلام پسند طبقوں میں مقید ہوگئی ہے اور اس حوالے سے عموماً جو باتیں کی جاتی ہیں، وہ جذباتیت پر مبنی ہوتی ہیں۔
جو طبقات مغرب اور اس کی تہذیب سے متاثر ہیں، ان کو اسلام کے قوانین وحدود خواتین کے لیے مشقت سے پُر، جبر وتشدد اور ظلم آمیز لگتے ہیں، جب کہ اسلام پسندوں کو لبرلز کی طرف سے خواتین کے لیے بے پناہ آزادی کے مطالبے میں ان کا استحصال نظر آتا ہے اور اس آزادی میں عورت کی عزّت و آبرو کو مجروح محسوس کرتے ہیں۔
اگر ان دونون طبقات کی سوچ سے ذرا ہٹ کر ایک عام بندے کی حیثیت سے غوروفکر کیا جائے تو ہمیں یہ طاقت اور کم زوری کا معا ملہ لگتا ہے۔ عورت کو کم زور سمجھنے کی وجہ سے کچھ لوگ اسے بے پناہ آزادی کا لالچ دے کر اس کا حصول اور دستیابی آسان بنانا چاہتے ہیں اور اپنے لامتناہی مفادات کے تابع رکھنے کی خواہش رکھتے ہیں، جب کہ کچھ دوسرے لوگ نام نہاد خود ساختہ رسوم و رواج پر اسلام کا لبادہ اور لیبل چسپاں کرکے اپنی طاقت اور ناجائز بالادستی کا اظہارچاہتے ہیں۔ یہ دونوں طرح کی سوچ رکھنے والے لوگ ہمارے معاشرے میں موجودہیں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ہم آج تک عورت کو حوا کی بیٹی کہہ کر پکارتے ہیں اور اسے آدم کی طاقت سے دور کردیتے ہیں۔ حالاں کہ جتنا وہ حوا کی بیٹی ہے، اس سے کہیں زیادہ وہ آدم کی بیٹی ہے اور اس کے اندر آدم کا وہ خون ہے، جو اسے بہم طاقت فراہم کرتا ہے، مگر ابن آدم کا ستعارہ بنت حوا سے دوری اور اس کے ساتھ روا رکھے جانے والے برتاؤکا سبب بتاتاہے اور معاشرے کی مجموعی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ آپ غورکیجیے کہ ان الفاظ کا استعمال کرکے پرورش اورنگہداشت کی بھاری ذمّے داری عورت کے حوالے کرکے مردبے پروا ہوجاتے ہیں، جب وہ اپنی ذمّے داری پوری طرح ادا کرکے نڈھال ہوجاتی ہے اور ایک ننھے منے وجود کو ایک ہستی اور ایک مکمل دنیا بنادیتی ہے تو ملکیت اور تسلط کی ذہنیت لیے اس کی قسمت کا ذمّے دار وہ خود بن جاتا ہے، بلکہ ہمارے معاشرے میں تو اس عورت سے، جس نے خون جگر اور رت جگوں سے پال پوس کر جس اولاد کو توانا اور جوان کیا ہوتا ہے، اس کے متعلق فیصلوں میں مشورہ کرنا بھی توہین سمجھا جاتا ہے۔ ظلم بالا ظلم تو یہ ہے کہ معاشرے کے چال چلن، مقامی اور قبائلی رسوم و رواج کو مذہب کی مقدس چادر چڑھاکر اسلام اور قوانین اسلام کی تقدیس کا مذاق بنایا جاتا ہے، بلکہ کچھ لوگ تو اس حد تک بڑھ جاتے ہیں کہ یہ دعویٰ کرنے لگتے ہیں کہ ہمارے سارے رسوم و رواج قرآن و حدیث سے ہی ماخوذ ہیں۔
اگر معاملہ یہی ہے تو بتایا جائے کہ جلاکر مارنے کی رسم کہاں سے اسلام میں آگئی اور کون سی حدیث ہے، جو بھیڑ بکری کی طرح عورت کی قیمت مقرر کرتی ہے اور کیا قرآن کی کوئی آیت مردکے قصور کی سزا عورت کو دینے کے بارے میں بتاتی ہے؟ وہ کون سی سند ہے، جو عورت کو زندہ زمین میں اتار کر درگور کرکے اوپر ٹریکٹر چلانے کو جواز بخشتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ انا اور طاقت کے گھوڑے پر سوار لوگ نہ مذہب کے ہوتے ہیں ،نہ شعور اور انسانیت کے۔ وہ صرف اور صرف اپنی آن بان، جھوٹی شان اور خواہشات کے اسیر ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے ان کا تعلق اسلام اور مسلمانوں سے ہے، تو بطور تشخص وہ اسی کی آڑ لیتے ہیں۔ اگر اس کے برخلاف کسی اور مذہب سے متعلق لوگ ایساظلم خواتین پر کرتے ہیں تو لمبی لمبی زبانیں اور لٹھ لے کر منافقت کی انتہاکرتے ہوئے ان کے پیچھے پڑ جاتے ہیں اور اسلام کے قلعے میں بیٹھ کر انہی تیروں سے مقابلہ کرتے ہیں، جن سے وہ پہلے اپنوں کو زخمی کرچکے ہوتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات کو دلیل بنا کر مغرب اور اس کے پروردہ دانش ور اسلام اور قوانین اسلام کو نشانہ بناتے ہیں۔ جیسے قتل غیرت کا معاملہ ہے، جس کو خواہ مخواہ اسلام سے نتھی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حالاں کہ تھوڑا سا علم اور سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ غیرت کے نام پر خواتین کا قتل ایک ایسا معاملہ ہے، جسے اسلام کو بدنام کرنے کے لیے مسلسل استعمال کیا جاتا ہے۔ حالاں کہ ایسے فعل کے مرتکب افراد مذہبی پس منظر رکھنے والے ہوتے ہیں اور نہ اسلام کے بارے میں صحیح معلومات رکھتے ہیں۔
اسلام تو ایسے قتل کی کبھی بھی اجازت نہیں دیتا کہ بغیر کسی تفتیش اور عدالتی کارروائی اور کسی کا مؤقف سُنے بغیر خود ہی قاضی اور منصف کا منصب سنبھالتے ہوئے یک طرفہ فیصلہ سناکر جلاد بنا جائے۔جب بات نکلی ہے تو ذرا دیکھ لیتے ہیں کہ کیا فی الواقع معاملہ ایسا ہی ہے یا یہ بھی اسلام کو بدنام کرنے کے لیے ترکش کا ایک تیر ہے۔ پڑوسی ملک بھارت، جس کی80 فی صد سے زائد آبادی ہندو مذہب کو ماننے والی ہے، مگر پوری دنیا میں غیرت کے نام پر قتل ہونے والی ہر پانچ خواتین میں سے ایک بھارت میں ہوتی ہے صرف اتر پردیش، ہریانہ اور پنجاب کے دیگر علاقوں میں اندازا سالانہ900 کے قریب خواتین سے جینے کا حق چھینا جاتا ہے۔ (ٹائمزآف انڈیا )
الجزیرہ ٹی وی کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال پانچ ہزار خواتین کو اس نام نہاد غیرت کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے، جس میں بیس فی صد بھارت کا حصہ ہیاور یہ اقوام متحدہ کے فراہم کردہ اعداد و شمار ہیں۔ آزاد ذرائع کے مطابق اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے، جو لگ بھگ 20 ہزار تک ہے۔ پاکستان میں بھی اس حوالے سے بھیانک صورتِ حال ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں بھی 800 سے 900 کے قریب خواتین اس ظلم کا شکار ہوتی ہیں، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس کے پیچھے مذہب کا کوئی عمل دخل ہے یا نہیں ؟یا مذہبی پس منظر رکھنے والے لوگ اس کے ذمّے دار ہیں ؟؟
قتل غیرت کا مذہب سے ناطہ جوڑنے والے قرآنی آیات، احادیث یا فقہ اسلامی میں سے کسی ایک امام کی رائے کو ہی دلیل میں پیش کرسکتے ہیں؟
قرآن وحدیث کے مطالعے سے جو بات سامنے آتی ہے، اس میں واضح طور پر نظر آتا ہے کہ قوانین اور احکامات اسلامی کے مطابق قاضی عدالت، گواہوں اور انصاف کے تقاضے مکمل کرنے کے بعدحاکم وقت کی اجازت ہی سے یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ یہ خاتون یا یہ شخص فساد فی الارض کا مرتکب ہے، اسے جینے کا کوئی حق نہیں، لیکن ایسا کوئی اختیار باپ، ماں، بھائی، چچا یا ماموں کو ہرگز نہیں ہے کہ وہ خاندان کی عزّت کاحوالہ دے کر شک کی بنیاد پر یا یقین ہی کو حجت مان کر کسی کی جان لے اور اس پر فقہاکرام کا اتفاق ہے۔
(الموسوع الفقہیہ الکویتیہ)
آئین پاکستان اور تعزیرات کے مطابق بھی ایسا کام کرنے والا قاتل ہی کہلائے گا اور اس پر قتل کی دفعات ہی لاگو ہوں گی، مگر عملاً نفاذ سے معطل ہی ہیں، جس طرح دیگر قوانین کا حال ہے،لہٰذا قوانین اسلام اورحدودکے مطالعے کے بعد ہی ایسی بات کی جائے تو بہتر ہے، اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس نفسیات کو بدلنے کے لیے کون سے اقدامات کی ضرورت ہے اور اس میں مذہب کا کردار کیا ہونا چاہیے؟مگر اس سے پہلے ذرا مذہبی طبقات کی عورت کے بارے میں سوچ اور رویّہ کا جائزہ لیا جائے۔
اپنے آپ کو مذہب سے جوڑنے والے طبقات بھی عورت کو اس کا آئینی، شرعی اور اخلاقی حق دینے سے کتراتے ہیں۔ (الا ماشاء اللہ)
ہو سکتا ہے کہ اس کے لیے ان کے پاس کوئی جواز بھی موجود ہو، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عبادات سے لے کر سیر وتفریح، شادی بیاہ سے لے کر تعلقات اور تقریبات تک ہر چیز میں تفاوت اورتضاددیکھ کر بنت آدم کی طرف سے ردعمل کا اظہار ایک فطری عمل ہے۔ کیا اسلام نے واقعی میں عورت کو قوانین کی جکڑبندیوں میں اتنا قابو کیا ہے کہ اس کا دہلیز کے پار قدم رکھنا بھی حرام ہوگیا؟کیا شریعت نے عورت کے گرد اتنی اونچی فصیل کھڑی کردی ہے کہ اس سے سر ٹکرا کر جان تو دے سکتی ہے، مگر اس سے باہر سانس لینا بھی غلطی شمار کی جائے گی۔
ظاہر ہے کہ اس طرح کی پابندیاں شریعت کے پیج پر توموجود نہیں، مگر صنفی امتیاز کی بنیاد پر کئی پابندیاں صرف مردانگی اور طاقت کے اظہار کے لیے ہیں اور اس کے لیے شریعت کے مخصوص احکامات اور تاویلات کا سہارا بھی لیا جاتا ہے،ایک چھوٹی سی مثال میں ذاتی تجربے سے شیئر کرتا ہوں۔
میری چھوٹی بہن، جس کی عمر پندرہ برس ہے، رمضان المبارک کے روزے اور نماز تراویح ذوق و شوق سے ادا کرتی ہے۔ جب عید الفطر کا وقت ہوا تو ہم سب بھائی خوب تیار ہو کر رب کے حضور سجدۂ ریز ہونے عیدگاہ روانہ ہوئے تو حسرت ناک نگاہوں سے دیکھ کر لاچار ی اور بے چارگی سے کہنے لگی کہ بھائی روزے اور تراویح کا اہتمام تو ہم نے بھی کیا ہے، مگریہ سجدۂ شکر اور بذریعہ عبادت خوشی کا اظہار صرف مردوں کے لیے کیوں؟ کیا اسلام نے ہمارے لیے کوئی حکم نازل نہیں فرمایا ،جو ہم بھی آج اس کے دربار میں حاضری کے لیے جا ؒ سکیں۔۔۔اب رہ رہ کر مجھے وہ ساری احادیث یاد آنے لگیں جن میں اللہ تعالی نے اپنے محبوب نبیؐ کے ذریعے اس بڑے دن کوعورت و مرد کی تخصیص کیے بغیر منانے کا حکم دیا ہے، بلکہ نسوانیت کی فطرت کو دیکھ کر مخصوص ایام والی خواتین کو بھی عیدگاہ آنے کا حکم فرمایا ہے۔
اب اس بات کا ہرگز یہ مقصد نہیں ہے کہ لبرلز کی طرح خواتین کے لیے برابر کے حقوق کامطالبہ کیا جارہا ہے اور خوشی کی طرح غمی کے موقع پر بھی خواتین کو نماز جنازہ کے لیے جواز فراہم کیا جارہا ہے، مگر جس کام کی شریعت اور احادیث میں گنجائش اور رعایت موجود ہے، اس سے کسی کو فائدہ نہ دینا زیادتی ہے اور بغاوت پر آمادہ کرنے والی بات ہے۔ مقام حیرت تو یہ ہے کہ جن حجروں اور مکانوں سے ایسے فتاویٰ صادر ہوتے ہیں، ان کی اپنی خواتین خریداری اور کار تبلیغ یا اپنے کسی دنیاوی مقاصد کے لیے گھر کی دہلیز پار کرتی ہیں، مگر انہیں عبادت کے لیے مساجد میں جگہ دینے کو ہمارامعاشرہ تیار نہیں۔ ہندوانہ کلچر کے زیر اثر پروان چڑھنے والی رسوم و رواج کو آج بھی اہمیت دی جاتی ہے اورجہاں مشکل محسوس ہوتی ہے، وہاں خاندانی، قبائلی اور مقامی رسوم کو مذہب سے دلیل فراہم کرکے اپنی ناجائز اور غیرشرعی قوامیت حاصل کی جاتی ہے۔ یہ اس نفسیات کے پیدا کردہ مسائل ہیں، جو ابن آدم نے بنت حوا کا استعارہ استعمال کرکے اپنی آدمیت کو مزید مضبوط بنانے کی کوشش کی ہے اور ضرورت پڑنے پر اس کے لیے(feminism ) کی تحریک چلا کر اسے بولڈ اور بے باک بنانے کی سعی کی تاکہ اس کی صلاحیتوں اور مہارتوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا جاسکے۔ غور کریں تو اندازہ ہوجاتا ہے کہ جہاں سے صنفی تقسیم کی ابتدا ہوتی ہے، وہاں سے عورت کا تماشا بننا شروع ہوجاتا ہے اور اسے مزید تذلیل کا سامان بنایا جاتا ہے۔ اس کی واضح مثال دوران حمل چھٹی، الاؤنسز اور دیگر معاملات ہیں، جو اس وقت کاروباری دنیا میں زیربحث ہیں۔ طرفہ تماشا تو یہ ہے کہ جن ممالک نے خواتین کو برابری کے حقوق دلانے کا ہُما سر پہ بِٹھایا ہے، وہاں پر بھی مرد حضرات خواتین سے زیادہ تنخواہیں اور مراعات حاصل کرتے ہیں۔ مغربی دنیا سے ہٹ کر ہمیں اپنے معاشرے کو دیکھنا ضروری ہے اور جائز شکایات کو رفع کرنا بھی توجہ طلب ہے، کیوں کہ وقت اور حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اسلامی تعلیمات کے مطابق بحیثیت انسان اور بنت آدم عورت کے ساتھ روا رویّہ نہ بدلا تو ہمارے معاشرے کا یہ تضاد بہت سے نئے گُل کِھلا سکتا ہے!!
nn

حصہ