ہماری عربی دانی(سارہ محمد اسلم جامعۃ المحصنات کراچی)

281

جب سے ہم جامعہ سے وابستہ ہوئے ہیں خدا گواہ ہے جو ایک لمحہ بھی فراغت کا کاتبِ تقدیر نے ہمارے حصے میں ڈالا ہو۔ نماز فجر کے بعد سے نہار منہ جو روٹین کا آغاز ہوتا تو رات خوابِ خرگوش میں گم ہونے تک دل کو یہی دھڑکا لگا رہتا کہ ابھی گھنٹی بجے گی اور نگران روم سے باہر آنے کا حکم صادر فرما دیں گی۔
ہاسٹل ٹائم تو ہاسٹل ٹائم ہے، یہاں تو کالج ٹائم میں بھی نت نئی سرگرمیوں کا سلسلہ باضابطہ طور پر جاری و ساری رہتا ہے۔ بھئی ہم اقبال کے شاہین جو ٹھیرے۔ پرنسپل جامعہ کو ہر دم یہ خیال پریشان رکھتا ہے کہ۔۔۔
اے طالبہ تیرے علم کے سمندر میں اضطراب کیوں نہیں ہے
ہاتھ میں تیرے کتاب کیوں نہیں ہے؟؟
جامعہ میں ہر سال کلاس کے آغاز پر ٹائم ٹیبل میں ایک نئی سرگرمی کا اضافہ کیا جاتا ہے تاکہ طالبات تعلیم کے ساتھ ساتھ مختلف فنون سے بھی بہرہ ور ہوسکیں۔
عالمیہ اول کی نئی کلاسز کا شیڈول آنکھوں کے سامنے تھا اور اس بار ہمارے لیے عربی لینگویج کورس کا اہتمام کیا گیا تھا۔ بے ساختہ آنکھوں کے سامنے وہ منظرگھوم گیا جب فرشتے ہم سے پوچھیں گے’’من ربک؟‘‘ اور ہم کہیں گے ’’ربی وربک اللہ‘‘۔ آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہوگئیں۔ جنت کی زبان سیکھنے کا شرف ہم کم فہموں کو اللہ نے دنیا میں بخش دیا۔
اب اگلے دن کا شدت سے انتظار تھا۔ طویل انتظار کے بعد آخر وہ مبارک ساعات آپہنچیں۔ معلمہ نے ہمیں عربی حروف الھجاء (حروفِ تہجی) لکھوانے شروع کیے۔ یوں باقاعدہ کلاسز کا آغاز ہوگیا۔ ابتدا میں تو عربی بولنا بہت آسان لگتا لیکن جب معلمہ نے باقاعدہ عربی تحدث (بول چال)کا سلسلہ شروع کروایا تو ہماری آنکھوں کے سامنے تارے ناچ گئے۔کبھی مذکر و مؤنث کا خیال کرتے تو اعراب بھول جاتے۔۔۔ اعراب درست کرتے تو بات بھول جاتے۔۔۔ اور تو اور۔۔۔کبھی تو ضمائر کا استعمال اتنے بے ربط انداز میں کرتے کہ کسی کی بات کسی سے منسوب ہوجاتی۔ ہم کچھ کہہ دینے کے چکر میں پریشان۔۔۔ معلمہ سمجھنے کے لیے بے حال!!
آخرکار معلمہ نے ہمیں ذخیرۂ عربی الفاظ سے زیادہ سے زیادہ آگاہی دلانے کے لیے مختلف دلچسپ موضوعات دیئے جس پر اپنی رائے اور خیالات لکھے جاتے، پھر معلمہ کو پڑھ کر سناتے۔ یوں ہلکے پھلکے انداز میں عربی لغت سے واقفیت تیزی سے بڑھنے لگی، ورنہ تو حال یہ تھا کہ ہر دم سینے سے صدا نکلتی (علامہ اقبال سے معذرت کے ساتھ)
’’تیرے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا
یہاں عربی سیکھنے کی پابندی وہاں عربی بولنے کی پابندی‘‘
پھر ہم عربی دانوں پر ایک صبح کچھ اس انداز سے طلوع ہوئی کہ معلمہ نے ہمیں عربی میں مذاکرہ یا ٹیبلو پیش کرنے کا حکم نامہ جاری کیا۔ پریشانی سے نیندیں اڑ گئیں۔ اردو، پنجابی، سندھی ہر زبان میں ٹیبلو پیش کرنے کا خوب تجربہ۔۔۔ مگر عربی زبان میں۔۔۔!! پھر ایک دوسرے کو ہمت دلائی
اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے
مذاکرے کی تیاری شروع ہوگئی۔ ہم طالبات میں سے ایک طالبہ کو صدرِ مملکت بنایا گیا۔ چار طالبات وزراء کے روپ میں پیش ہوئیں، اور چھ، سات طالبات عوامی نمائندوں کے تحت ملکی مسائل بیان کرتے ہوئے نظر آئیں۔ ابتداً نہ ہم خود سے مطمئن۔۔۔ نہ معلمہ کی امیدوں پر پورے اتر پائے، لیکن خوب زور و شور سے محنت جاری رکھی۔
جب مذاکرہ پیش کرنے کے لیے اسٹیج پر پہنچے تو دل دھڑکنے۔۔۔ بلکہ سینوں سے باہر نکلنے لگے۔ لیکن ہم نے بھی خود کو تسلی دی، بھلا کسی کو کیا معلوم ہم کچھ غلط کررہے ہیں یا صحیح۔۔۔!! پھر کیا تھا۔۔۔ وہ لفظ جو منہ میں آیا، بول کر اسٹیج سے اتر آئے۔ دل کو خوب اطمینان دلایا کہ اب تو انتظامیہ کو ہماری قابلیت کا حال معلوم ہوگیا ہے۔ اب کوئی تیر بہدف نسخہ آزمانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ خیالوں میں خود کو سلائی اور کمپیوٹر کلاسز لیتے ہوئے دیکھتے رہے۔
ہوش تو اُس وقت آیا جب اسٹیج سے ہمارا نام پکارا گیا۔ ہمیں خوب پذیرائی بخشی گئی۔ اب اس وقت انتظامیہ کی جانب سے ہدیے میں ملنے والی عربی اشعار کی کتاب ہاتھ میں لیے بیٹھے ہیں اور کانوں میں پرنسپل صاحبہ کا یہ جملہ گونج رہا ہے ’’انسان غلطیوں سے ہی سیکھتا ہے، اب آپ ان سب اشعار کو خوب اچھے طریقے سے یاد کرلیں تاکہ اگلی دفعہ اشعار کا مقابلہ کروایا جا سکے‘‘۔
ارادہ ہے کہ اب اپنے لیے کوئی لائحہ عمل طے کرلوں اس سے پہلے کہ انتظامیہ میرے لیے کوئی سزا تجویز کرلے یا طالبات کو ہماری نالائقی کا حال معلوم ہو۔
’’سزا کے خوف سے منہ پہ آجاتے ہیں جو چند جملے
طالبات سمجھتی ہیں ہماری خوب ہے قابلیت عربی میں‘‘
آپ لوگوں کا کیا خیال ہے۔۔۔ابھی وقت تو ہاتھ سے نہیں نکلا ناں؟
nn

حصہ