لوجی ہم آگئے ہیں(شکیل خان)

305

 طویل غیر حاضری کے بعد ایک مرتبہ پھر آپ کے سامنے ہوں۔ اچھا یہ ہوا کہ اجمل سراج نے تھوڑی سی ڈانٹ ڈپٹ کے بعد اخبار میں چھپنے کی اجازت دی اگر بچپن کے اسکول والا معاملا ہوتا کہ میاں صاحبزادے اتنے دن کہاں غائب تھے‘ ہمارے زمانے کے ماسٹر صاحب اور آج کے ٹیچر اس طرح سے سوال پوچھتے تھے خیر آج کے ٹیچر میں تو یہ ہمت ہی نہیں کہ وہ اپنے طالب علموں سے کوئی سوال کرے اس لیے کہ وہ صرف پیسے لیے پڑھا رہا ہے اور پڑھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ میں اس کو فیس ادا کر رہا ہوں اس لیے یہ میری تربیت کا ذمے دار نہیں ہے۔
میرے اساتذہ میری تربیت کے بھی ذمے دار تھے
لیکن میں ذرا پرانا ہوں اس لیے اس زمانے کی بات کر رہا ہوں جب تعلیم کے ساتھ تربیت بھی استاد کی ذمے داری ہوتی تھی اور وہ اس ذمے داری کو اپنی گورنمنٹ کی دی ہوئی تنخواہ میں بہت اچھی طرح سے پوری کرتا تھا۔ جب ٹیوشن سینٹر کا دور نہیں تھا کہ اساتذہ کرام تنخواہ کو سرکار سے پوری لیں اور پڑھائیں ٹیوشن سینٹر میں جا کر جہاں بھی تعلیم کے نام پر معلومات کا ٹرانسفر ہو رہا ہے اس لیے کہ تعلیمتو ایک مکمل پیکج ہے جس میں تربیت ضروری ہے۔
خیر بات اجمل سراج کی ڈانٹ سے شروع ہو کر تعلیمی نظام کی خرابیوں تک جا پہنچی۔ یہ ازخود اتنا بڑا موضوع ہے کہ جس پر ہم گزشتہ 70 سال سے غور کر رہے ہیں اور شاہ دولہ کے چوہوں کی فیکٹری تعلیمی اداروں کے نام پر لگا کر فارابی اور خیام ان سے نکالنے کی ترکیبیں سوچ رہے ہیں۔ یہ تعلیمی ادارے صرف اچھے کلرک‘ مدارس‘ فرقہ پرست مولوی اور کانونٹ مغربی آقا ہی پیدا کرسکتے ہیں ان میں کسی فارابی‘ خوارزمی یا ابن حیان کی پیدا ہونا ایک فضول سی بات ہے۔
گزشتہ ہفتے کراچی جگمگتا رہا
چلیے دل جلانے کی باتیں چھوڑ کر آگے چلتے ہیں۔ گندا‘ کچرے سے اَٹا ہوا‘ ٹوٹی سڑکوں اور غلاظت کے پانی سے بھرا ہوا کراچی گزشتہ ہفتے کہیں کہیں سے جگمگاتا بھی رہا ہے۔
یہ صفائی کہیں تو بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض کی مرہون منت تھی اور کہیں کراچی کے اپنے فرزندوں کے ہاتھ کی سجائی ہوئی۔
بحریہ ٹاؤن فیم ملک ریاض نے کراچی کا کچرا اٹھانے کا کیا اعلان کیا عوام نے بعض سیاست دانوں کو ناموں کے ساتھ کچرا لکھنا شروع کردیا اور کچرا کنڈیوں پر ان کے نام لکھ دیے۔
شاعروں اور مشاعروں کی برسات اور فجر کی اذان
کراچی کی رونقیں لوٹ آئی ہیں راتیں جاگنے لگی ہیں‘ رات کے کسی بھی پہر نکل جائیں گاڑیاں اور لوگ آتے جاتیض نظر آتے ہیں جو نظر کو بھی بھاتے ہیں۔
دو سال کے بعد ایک مرتبہ پھر کراچی میں عالمی مشاعرہ کا پنڈال سجا اور یہ پنڈا خوب سجا۔ بھارت‘ امریکا‘ کینیڈا‘ مشرق وسطیٰ اور کراچی کے شعرائے کرام نے خوب رنگ جمایا حسب معمول گزشتہ مشاعروں کی طرح یہ مشاعرہ بھی فجر کی اذان کے ساتھ ختم ہوا۔
ابتدا میں اس مشاعرے کے انعقاد میں کچھ رکاوٹیں تھیں جو وقت کے ساتھ ساتھ دور کرلی گئیں اور کراچی کے شہریوں نے بہت جم کر اس مشاعرے کو سنا۔
موجودہ گورنر جناب محمد زبیر صاحب جو کہ خود ایک صاحب علماور صاحب علم خاندان سے تعلق رکھتے ہیں‘ مشاعرے میں تشریف لا کر ایک مرتبہ پھر اس بات کا ثبوت دیا کہ اب یہ شہر دوبارہ شہروں کی دلہن بننے کی طرف گامزن ہے۔ اپنی تقریر میں گورنر صاحب نے دنیا کے مختلف حصوں خصوصاً ہندستان سے آنے والے شرکاء کو خراج تحسین پیش کیا۔
میئر کراچی وسیم اختر بھی ان کے ساتھ مشاعرہ گاہ میں تشریف لائے اور عالمی مشاعرے کے بانی اظہر عباس ہاشمی کی یاد میں کراچی میں ان کے نام پر ایک سڑک منسوب کرنے کا اعلان کیا۔
یہ بات بڑی دلچسپی سے دیکھی گئی کہ مختلف سیاسی جماعتوں کے زعما عام شہریوں میں بیٹھ کر مشاعرے سے لطف اندوز ہوتے رہے خاص طور پر میئر کراچی وسیم اختر کی اہلیہ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ فرشی نشست پر بیٹھی رہیں۔
مشہور صنعت کار اور سب کے بھائی جان ایس ایم منیر نے مشاعرے کے انعقاد میں بے پناہ تعاون کیا اور آپ کی مدد و تعاون کے بغیر مشاعرے کا پایۂ تکمیل تک پہنچنا ناممکن تھا۔ آپ بھی خاصی دیر مشاعرے میں موجود رہے۔ راقم نے پہلی مرتبہ اس عالمی مشاعرے کی نظامت کی اور کچھ داد ہمارے حصے میں بھی آئی۔
عالمی مشاعرے کے بعد کراچی میں ذیلی مشاعروں کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا جس میں سادات امروہہ کا مشاعرہ اور کراچی جیم خانہ کا مشاعرہ قابل ذکر ہے۔ ڈاکٹر پیر زادہ قاسم رضا صدیقی جس طرح اس مشاعرے کے انعقاد کے لیے سرگرم عمل رہے وہ لائق تحسین ہے۔ ان شاء اللہ اگلے شمارے میں آرٹس کونسل کی سرگرمیاں لے کر حاضر ہوں گیجب تک کے لیے اللہ حافظ۔
حمیرا راحت
محبت دل کی آنکھ سے ٹپکا ہوا وہ اشک ہے جو کبھی خشک نہیں ہوتا۔ محبت کی بھول بھلیوں میں گم ہو کر انسان ذات اور درونِ ذات کے مسائل بھول جاتا ہے لیکن محبتیں بھی کئی طرح کی ہوتی ہیں کچھ محبتیں دل کے آئینے میں اپنا عکس چھوڑ کر وقت کی طرح آگے بڑھ جاتی ہیں اور کچھ محبتیں ایسی ہوتی ہیں دل کو آئینہ بنادیتی ہیں اور یاد کی طرح ٹھہر جاتی ہیں۔ انسان کو سوزوگداز عطا کرتی ہیں اور کبھی کبھی اُس کا ہاتھ تھام کر اُسے شعر و سخن کی دنیا میں لے جاتی ہیں اور شاعر بنادیتی ہیں۔
وہ چاہتا ہے میری زندگی مکمل ہو
وہ جانتا ہے کمی کوئی نہیں اُس کے سوا
*
مسکراتے چہروں پر کیوں خوشی نہیں ملتی
ڈھونڈنے سے بھی مجھ کو زندگی نہیں ملتی
مندرجہ بالا اشعار میں نے یاسمین یاسؔ کی کتاب :رات گئے آنکھوں سے: کی غزلوں سے منتخب کیے ہیں۔ ان اشعار میں ہم شاعری اور شاعرہ دونوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ یاسمین کی نرم روی ، اداسی اور بولتی ہوئی خاموشی کو میں اس کے کلام میں بارہا دیکھا ہے۔۔۔ وہی یاسمین جس کی آنکھوں میں اُداسی ایک دھند بن کر ٹھہرتی ہے اور کبھی پھیلتی ہے اور کبھی تخلیق کے کسی بیکراں لمحے کی چمک بن کر سرگوشی کرتی محسوس ہوتی ہے۔ یاسمین یاسؔ کی شخصیت میں بردباری ، تحمل اور وقار نظر آتا ہے۔
کرب کیا کیا نہ سہا رات گئے آنکھوں سے
ایک آنسو نہ بہا رات گئے آنکھوں سے
خواب ہی تھا کہ مرِی آنکھ کے سارے موتی
کوئی چنتا ہی رہا رات گئے آنکھوں سے
یاسمین یاس ؔ کے ہاں کربِ ذات تو موجود ہی ہے عرفانِ کائنات بھی نظر آتا ہے اُس کے ہاں ہر اچھے شاعر کی طرح حیرت بھی ہے اور سوال اُٹھانے کا فن بھی اُسے آتا ہے وہ جو کسی دانشور نے کہا تھا کہ شاعری سوال اُٹھاتی ہے اور سائنس اُ ن سوالوں کے جواب دیتی ہے۔ شاعر کا منصب چارہ گری نہیں ۔ مسیحائی بھی نہیں شاعر تو صرف زخم سامنے لاتا ہے اب یہ زخم اُس کے اپنے بھی ہوسکتے ہیں اور اُس کے ارد گرد سانس لیتی دنیا کے بھی، شاعر دیکھتی آنکھوں کے منظر کو تصور کرتا ہے صحرا میں اُڑتی ریت کا کرب اور سمندر کی عظمت میں چھپی تنہائی کا دکھ لکھتا ہے:
ترستے ہوں جو اک روٹی کی خاطر
کھلونوں کی وہ خواہش کیا کریں گے
وہ جن کی چھت ہو بارش میں ٹپکتی
وہ ساون کی ستائش کیا کریں گے
یاسمین یاسؔ کے مجموعے 58رات گئے آنکھوں سے ؛ میں شاعرہ کی نظم سے دلی وابستگی کو صاف طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اس نے شاعری میں مروج موضوعات پر نظمیں تحریر کی ہیں یہ نظمیں روشنی کی نوید بھی ہو سکتی ہیں اور زندگی کی ترجمان بھی۔ مگر ہم بھی امجد صاحب کی طرح اسے یہی مشورہ دیں گے کہ یاسؔ جیسے تخلص سے چھٹکارا حاصل کر لیں ، کیونکہ یاسمین یاسؔ کی غزلوں اور نظموں میں جو غم کی لہر سی دکھائی دیتی ہے وہ ملال ہوتے ہوئے بھی جمال رکھتی ہے۔ اس کی اُداسی بھی اُمید کی کرن سے منوعر ہے اور اُس کے آنسو بھی مسکراہٹ کا پیش خیمہ ہیں۔ اُن کی اس نئی شعری کاوش پر مبارک باد پیش کرتے ہوئے اُس کی مختصر نظموں پر رخصت کی اجازت۔
ڈر
نہ جانے کیوں یہ لگتا ہے
محبت کی تپش میں
جلنے والا سارا ایندھن
رتجگا بن کر
مِری آنکھوں کا کاجل بن گیا ہے
اگر یہ پھیل جائے تو!!
*
عادت
ٹُوٹتے پُھوٹتے وجود کو سمیٹنا
آسان تو نہیں
مگر کیا ہے کہ مجھے
کرچیاں سمیٹنے کی عادت ہو چکی ہے

حصہ