(اخبار ادب(ڈاکٹر نثار احمد نثار

312

بزم شمع ادب کے زیر اہتمام پروفیسر منظر ایوبی کی صدارت میں کورنگی پبلک اسکول کورنگی میں ایک شان دار مشاعرہ ہوا۔ پروفیسر عنایت علی خان مہمان خصوصی تھے۔ فیروز ناطق خسرو اور مقبول زیدی مہمانان اعزازی تھے۔ سلمان صدیقی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ جمیل ادیب سید نے تلاوت کلامِ مجید کی سعادت حاصل کی، جب کہ یوسف چشتی نے نعت رسولؐ پیش کی۔ اس پروگرام کے پہلے دور میں مقبول زیدی اور فیروز ناطق خسرو کی کتابوں کی تعارفی تقریب منعقد ہوئی۔ عبدالصمد تاجی نے فیروز ناظق خسرو کے فن اور شخصیت پر گفتگو کی، جب کہ راقم الحروف (ڈاکٹر نثار) نے فیروز خسرو کو منظوم خراج تحسین پیش کیا۔ دیگر مقررین میں عنایت علی خان اور منظر ایوبی شامل ہیں، جنہوں نے کہا کہ مقبول زیدی اور فیروز خسرو کی شاعری میں عروضی دروبست کا خصوصی اہتمام ہے، کیوں کہ یہ دونوں شعرا علمِ عروض سے بھی واقف ہیں۔ ان کی شاعری زندگی سے جڑی ہوئی ہے۔ یہ جو کچھ دیکھتے ہیں، اسے شاعری بنا دیتے ہیں۔ انہوں نے اپنی ذات کے مسائل بھی لکھے ہیں اور معاشرتی ناہمواریوں کا نوحہ بھی لکھا ہے۔ ان دونوں شعرا کی ترقی کا سفر جاری ہے۔ نئی نسل کے لکھنے والوں میں فیروز خسرو ایک اہم نام ہے کہ جنہوں نے طویل عرصے تک شاعری کی اور جب انہیں اعتماد حاصل ہوا تو انہوں نے اپنا شعری مجموعہ شائع کیا ورنہ آج کل تو نوجوان شعرا چند غزلیں کہہ کر اپنا مجموعہ شائع کراتے ہیں، گویا پہلے کتاب مارکیٹ میں لاتے ہیں اور پھر خود کو متعارف کرواتے ہیں۔ اس موقع پر اسحاق خان اسحاق نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا، جب کہ غلامی ربانی نے کلماتِ تشکر ادا کیے۔ اس پروگرام کے دوسرے حصے میں مشاعرہ ہوا،جس میں صاحب صدر، مہمان خصوصی، مہمانان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ کوثر نقوی، راقم الحروف (ڈاکٹر نثار) سیف الرحمٰن سیفی، سحر تاب رومانی، سعد الدین سعد، محسن سلیم، شاہد اقبال شاہد، سخاوت علی نادر، نشاط غوری، یوسف چشتی، اسد قریشی، الحاج نجمی، حجاب فاطمہ، عبدالصمد تاجی، عمر برناوی، افضل ہزاروی، مہتاب شاہ، ماہ نور خان زادہ، جمیل ادیب سید، عبدالمجید محور، صفدر علی انشا، اسحاق خان اسحاق، تاج علی رانا اور کاشف علی ہاشمی نے اپنا اپنا کلام پیش کیا۔
۔۔۔*۔۔۔
غزل سنگت کی 11 ویں شعری نشست شاہدہ عروج صدیقی کے مکان پر ڈاکٹر اکرام الحق شوق کی صدارت میں منعقد ہوئی۔ فیروز ناطق خسرو مہمان خصوصی تھے۔ مقبول زیدی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ اس پروگرام کے دو حصے تھے۔ پہلے دور میں مجموعہ غزل ’’طلسم مٹی کا‘‘ کے خالق فیروز ناطق خسرو کے بارے میں مقبول زیدی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فیروز خسرو سینئر شاعر ہیں اور طویل عرصے سے شعر و ادب کے فروغ میں مصروف عمل ہیں۔ بزم ناطق بدایونی کے پلیٹ فارم سے ہر ماہ ایک مشاعرہ کراتے ہیں، جس میں اس شہر کے بہت اہم قلم کار شریک ہوتے ہیں۔ ان کی جو تین کتابیں زیورِ طباعت سے آراستہ ہوکر ہمارے درمیان موجود ہیں، ان میں ایک غزل کا مجموعہ ہے اور دو کتابیں نظموں پر مشتمل ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری میں جن استعاروں کو بہ کثرت استعمال کیا ہے، ان میں آئنہ، گھر اور ہجرت شامل ہیں۔ اپنی فوجی ملازمت کے دوران بھی انہوں نے شاعری کی اور ریٹائرمنٹ کے بعد بہت تیزی سے ان کے ذخیرۂ کلام میں اضافہ ہورہا ہے۔ انہیں قلم برداشتہ اشعار کہنے میں بھی مہارت حاصل ہے۔ ان کی غزلیں دس، پندرہ اشعار پر مشتمل ہوتی ہیں اور مشکل ترین قافیوں کو باآسانی نظم کر لیتے ہیں۔ انہوں نے ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ سلام و غزل میں انہیں خصوصی مہارت حاصل ہے، لیکن ان کی نظمیں بھی بہت شان دار ہیں۔ یہ ایک علمی و ادبی گھرانے کے چشم و چراغ ہیں۔ ان کے والد ناطق بدایونی صاحبِ کتاب شاعر تھے۔ شاعری ان کے خون میں شامل ہے۔ راقم الحروف (ڈاکٹر نثار) نے فیروز خسرو کو منظوم خراج تحسین پیش کیا۔ اس دور کے بعد شعری دور کا آغاز ہوا جس میں صاحب صدر، مہمان خصوصی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ، جن شعرا و شاعرات نے کلام پیش کیا، ان میں رونق حیات، راقم الحروف (ڈاکٹر نثار)، رانا خالد محمود قیصر، سحر تاب رومانی، پرویز نقوی، الحاج یوسف اسماعیل، انیس جعفری، افتخار حیدر، کشور عدیل جعفری، شارق رشید، مہتاب عالم مہتاب، اسد ظفر، حجاب فاطمہ، اسامہ امیر، شاہدہ عروج اور کِرن زہرہ شامل تھے۔ صاحبِ صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ میں نے بے شمار مشاعرے پڑھے ہیں، میرے مشاہدے میں جن گھریلو نشستوں کی کارکردگی بہت عمدہ ہے، ان میں آج کی شعری نشست بھی شامل ہے۔ آج بہت عمدہ اور منتخب کلام پڑھا گیا۔ اس کا سارا کریڈٹ غزل سنگت کے عہدے داران و اراکین کو جاتا ہے۔ مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ نوجوان نسل بہت اچھا کلام کہہ رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب شاعری ہمارے بچوں میں بھی منتقل ہو رہی ہے اور اُردو زبان و ادب کا مستقبل روشن ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اُردو کے نفاذ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کی ضرورت ہے۔ جن اداروں میں اُردو رائج ہو رہی ہے، وہ قابلِ مُبارک باد ہیں اور جو لوگ اُردو کی مخالفت کر رہے ہیں، انہیں اب اندازہ ہورہا ہے کہ یہ زبان ختم نہیں ہوگی۔ اُردو لشکری زبان نہیں رہی، بلکہ یہ اب دنیا کے اہم ممالک میں بولی جارہی ہے اور وہاں بھی اُردو زبان و ادب پر مطالعاتی اور تحقیقی کام جاری ہے۔
اس موقع پر شاہدہ عروج نے کلمات تشکّر ادا کیے، جب کہ مقبول زیدی نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم رثائی ادب کے فروغ میں بھی مصروفِ عمل ہیں، جب کہ بہاریہ مشاعرے بھی کراتے ہیں۔ مشاعرے ہماری ضرورت ہیں اور جو تنظیمیں یہ کام کررہی ہیں، وہ قابلِ ستائش ہیں۔ قابلِ ستائش ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس مادیت پسند معاشرے میں ادب کے لیے وقت نکالنا بہت دُشوار طلب کام ہے۔ ادب سے ذہن انسانی کو سکون و آگہی حاصل ہوتی ہے اور ہماری معلومات میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔
۔۔۔*۔۔۔
طرحی مشاعرے زبان وادب کی ترویج و اشاعت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اس سے مشقِ سخن میں اضافہ ہوتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز صحافی و شاعر اختر سعیدی نے ادبی تنظیم مکتب کے طرحی مشاعرے کی صدارت کرتے ہوئے اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اجمل سراج کی محنت سے آج ہم سب ایک عمدہ نشست میں بیٹھے ہیں اور آج نوجوان شعرا کی ایک بڑی تعداد یہاں موجود ہے۔ مہمان خصوصی پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے کہا کہ ایک زمانے میں لانڈھی کورنگی کا علاقہ اُردو ادب کی سرگرمیوں کا مرکز تھا، پھر نامعلوم وجوہ کی بنا پر یہاں کی ادبی محفلیں اُجڑ گئیں، لیکن اب یہاں ادبی تنظیمیں مصروف عمل ہیں، جس کی وجہ سے شعر و شاعری کی محفلیں آباد ہورہی ہیں۔ ادبی تنظیم مکتب ابھی بالکل تازہ تازہ میدانِ ادب میں وارد ہوئی ہے۔ یہ آج دوسرا طرحی مشاعرہ کرا رہی ہے۔ اُمید ہے کہ اس تنظیم کے زیرِاہتمام ادبی پروگرام ہوتے رہیں گے۔ اجمل سراج نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ لانڈھی میں بزمِ حمید کے زیر اہتمام 24 سال تک طرحی مشاعرے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد لانڈھی کورنگی میں طرحی مشاعروں کا رواج ختم ہوگیا تھا۔ اب ہم نے طرحی مشاعروں کی ابتدا کی ہے۔ آج کے طرحی مشاعرعے کا مصرعۂ طرح ’’چاند مہمان ہے مرے گھر میں‘‘ یہ رسا چغتائی کی غزل کا مصرع ہے۔ آج سب لوگ اس مصرع پر اشعار کہہ کر لائے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مشاعرے بھی زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ مشاعروں کے ذریعے نئی نئی تراکیب، استعارے اور لفظیات سامنے آتی ہیں۔ طرحی مشاعروں میں یہ بات بھی دیکھی جاتی ہے کہ ایک ہی قافیے کو مختلف انداز میں کس طرح باندھا گیا ہے۔ طرحی مشاعرے ذہنی ارتقا میں آکسیجن کا کام کرتے ہیں۔ میزبانِ مشاعرہ ارشد کیانی نے کلمات تشکّر ادا کرتے ہوئے کہا کہ نوجوان شعرا کی ایک بڑی تعداد ’’مکتب‘‘ کے مشاعرے میں شریک ہے، یہ بڑی خوش آئند بات ہے۔ ہماری تنظیم کے روح رواں اجمل سراج ہیں، جن کی سرپرستی میں ہم مشاعرے کرارہے ہیں اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ آج کے مشاعرے میں بہت اچھا کلام سُننے کو ملا ہے۔ امید ہے کہ آپ حضرات ہمارے ساتھ اسی طرح تعاون کرتے رہیں گے۔ اس مشاعرے کے مہمانِ اعزازی کشور عدیل جعفری تھے، جب کہ رشید خان رشید نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ مشاعرے میں صاحب صدر، مہمان خصوصی، مہمان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ جن شعرا نے طرحی کلام نذرِ سامعین کیا، ان میں اجمل سراج، محمد علی گوہر، راقم الحروف (ڈاکٹر نثار)، شاہد اقبال شاہد، یوسف چشتی، اشرف طالب، ارشاد کیانی، زاہد عباس، عادل داد، عاشق شوکی، فیصل شبیر، تاج علی رانا، ارشد شاد، کامران محور اور اُسامہ امیر شامل تھے۔ مشاعرے میں سامعین بھی موجود تھے، جو ہر اچھے شعر پر داد دے رہے تھے۔
۔۔۔*۔۔۔
سلمان صدیقی کی ادبی تنظیم ’’درّاک‘‘ کے زیراہتمام راقم الحروف (ڈاکٹر نثار) کے اعزاز میں ایک شعری نشست منعقد ہوئی، جس کی صدارت ڈاکٹر اقبال پیرزادہ نے کی، جب کہ میرپور خاص سے تشریف لائے ہوئے نوید سروش مہمانِ خصوصی تھے۔ اس موقع پر ڈاکٹر اقبال پیرزادہ نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ دراک نے زبان و ادب کے فروغ کے لیے دن رات کام کیا ہے۔ اس تنظیم کے زیرِاہتمام ہر ماہ ایک نشست ہوتی ہے، جس میں اصنافِ سخن پر گفتگو ہوتی ہے اور بعدازاں مشاعرہ ہوتا ہے۔ یہ سلسلہ تسلسل سے جاری ہے، لیکن آج سلمان نے نثار احمد نثار کے لیے اپنے گھر پر ایک چھوٹی سی نشست کا اہتمام کیا ہے، جس میں چند لوگ شریک ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم آج نثار احمد نثار سے دس، بارہ غزلیں سُننا چاہتے ہیں۔ یہ ابھی ابوظہبی میں بارہویں عالمی اُردو مشاعرے میں اپنا کلام سُنا کر آئے ہیں۔ صاحبِ صدر نے مزید کہا کہ امن وامان کی صورتِ حال بہتر ہونے کے سبب کراچی میں بھی عالمی مشاعرہ منعقد ہوا۔ مشاعروں کی روایت ہماری تہذیب کا حصّہ ہے۔ جو لوگ مشاعروں کا اہتمام کرتے ہیں، وہ قابلِ مُبارک باد ہیں۔ سلمان صدیقی نے کہا کہ ڈاکٹر نثار میرے بہترین دوستوں میں شامل ہیں۔ ان کے لیے ایک بڑی تقریب کا اہتمام کروں گا۔ تاہم، آج کی نشست بھی ان کے نام ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ابوظہبی کے عالمی مشاعرے میں ان کی شرکت پر ہم انہیں مُبارک باد پیش کرتے ہیں۔ نوید سروش نے کہا کہ کراچی میں ادبی سرگرمیاں اپنے عروج پر ہیں۔ خدا کرے، یہ فضا ہمیشہ قائم رہے۔ ہم میرپور خاص میں ادبی پروگرام منعقد کراتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ جب سندھ کے مختلف شہروں میں بڑے بڑے مشاعرے ہوتے تھے، لیکن اب وہاں قحط الرجال کی صورت ہے، بہت سے اہم لوگ معاشی مجبوریوں کے سبب ان علاقوں سے ہجرت کر چکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کراچی میں نوجوان نسل شاعری کررہی ہے، یہ خوش آئند بات ہے کہ ہم اپنا ادبی سرمیایہ اپنی نسل میں منتقل کر رہے ہیں۔ اس موقع پر حجاب عباسی نے کہا کہ ہمیں چاہیے کہ ہم نظموں کے مشاعرے بھی منعقد کریں، کیوں کہ اُردو دب کا ایک بڑا حصّہ نظموں کی شکل میں موجود ہے، لیکن آج کل غزلوں کا زمانہ ہے۔ نظم کہنے والے قلم کار کم ہوتے جارہے ہیں۔ موضوعاتی نظموں کا سلسلہ ترقی پسند تحریک کے زمانے میں زوروں پر تھا، لیکن آہستہ آہستہ غزل تمام اصنافِ سخن پر چھاگئی۔ اس موقع پر حجاب عباسی نے اپنا نعتیہ مجموعۂ کلام بھی پیش کیا۔
اس نشست میں ڈاکٹر اقبال پیرزادہ، سلمان صدیقی، حجاب عباسی، نثار احمد نثار، حمیرا راحت اور نوید سروش نے کلام پیش کیا۔ بعدازاں، ایک پرتکلف ظہرانے کا اہتمام کیا گیا تھا۔
۔۔۔*۔۔۔
بزمِ تقدیس ادب (پاکستان) ہر ماہ باقاعدگی سے مشاعرے منعقد کرکے ادبی دنیا میں اعلیٰ مقام حاصل کرچکی ہے۔ یہ بات معروف شاعر استاد فہیم اختر جارچوی نے بزم تقدیس ادب (پاکستان) کے زیر اہتمام منعقدہ مشاعرہ میں صدارتی خطاب میں کہی۔ مشاعرے کے مہمانِ خصوصی راشد حسین راشد، جب کہ مہمان اعزازی محترمہ حجاب عباسی تھیں۔ مشاعرہ کا آغاز احمد سعید خان نے تلاوتِ کلام پاک سے کیا۔ نعت رسول مقبولؐ اکرام رازی نے پیش کی۔ مشاعرے میں جن شعرائے کرام نے کلام سُنایا، ان میں مسند نشینوں کے علاوہ ظفر چمن زیدی، سید آصف رضا رضوی، فیاض علی فیاض، احمد سعید خان، سید علی اوسط جعفری، نور شمع نور، صدیق راز ایڈووکیٹ، عامر شیخ، شاعر حسین شاعر، فخر اللہ شاد، عبدالمجید محور، جمال احدم جمال، رضی عظیم آبادی، ساجد سعید، صفدر علی خان انشا، شارق رشید، کشور عدیل جعفری، نشاط غوری، آکاش رضوی، ابراہیم خلیل، عمران نقوی، محسن رضا و دیگر شامل ہیں۔ مشاعرے کے آغاز سے قبل مسعود عالم مسعود مرحوم کے لیے دعائے مغفرت کی گئی۔ نظامت کے فرائض احمد سعید خان نے انجام دیے۔

حصہ