(اردو فکشن پر سقوطِ ڈھاکہ کے اثرات(ڈاکٹر زینت افشاں

1883

نام کتاب
:
اردو فکشن پر سقوطِ ڈھاکہ کے اثرات
مصنفہ
:
ڈاکٹر زینت افشاں
صفحات
:
360 قیمت 600 روپے
ناشر
:
ادارہ یادگارِ غالب و غالب لائبریری

پوسٹ بکس 2268، ناظم آباد کراچی74600

فون021-36686998
زیرنظرکتاب ’’اردو فکشن پر سقوطِ ڈھاکہ کے اثرات‘‘ کی مصنفہ ڈاکٹر زینت افشاں اسسٹنٹ پروفیسر فاطمہ جناح یونیورسٹی برائے خواتین ہیں۔ یہ کتاب ان کی پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے۔ ڈاکٹر رؤف پاریکھ تحریر فرماتے ہیں:
’’سقوطِ مشرقی پاکستان ہماری تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ اس موضوع پر تحقیقی و تاریخی نقطۂ نظر سے بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن اس میں سے بیشتر انگریزی میں ہے یا پھر بنگالی میں۔ اس موضوع پر تخلیقی سطح پر بھی کام ہوا ہے اور کئی ناول اور افسانے اس موضوع پر لکھے گئے۔
افسوس کہ اردو میں اس موضوع پر نہ تو تاریخی اور تحقیقی لحاظ سے زیادہ کام ہوا اور نہ ہی تخلیقی سطح پر زیادہ اہلِ قلم نے اس سانحے کے علل و اسباب و نتائج کو پیش کیا۔ ایسا نہیں ہے کہ سقوط ڈھاکہ اردو ادب کا موضوع نہ بن سکا ہو۔ شعرا و ادبا نے یقیناًاس موضوع پر قلم اٹھایا، لیکن ایک تاثر یہ بھی ہے کہ 1971ء کے واقعات اور سانحات کے نتیجے میں ایسا اور اتنا ادب شعر و نثر میں سامنے نہیں آیا جیسا اردو کے اہلِ قلم نے مثلاً1947ء کے فسادات پر یا 1965ء کی جنگ پر پیش کیا تھا۔
اس تاثر کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سقوطِ ڈھاکہ کی اردو ادب میں عکاسی کے موضوع پر صحیح معنوں میں تفصیلی تحقیقی و تنقیدی کام نہیں ہوا ہے۔ حالانکہ اس سانحے نے ہمارے اذہان کے علاوہ ہمارے ادب پر بھی انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ مثلاً یہ کہا جاتا ہے کہ مسعود اشعر مشرقی پاکستان کے سانحے سے متاثر ہوکر افسانہ نگار کے روپ میں بھی سامنے آئے۔ ابراہیم جلیس، مسعود مفتی، انتظار حسین اور اُم عمارہ نے اس موضوع پر متاثر کن تحریریں پیش کیں۔ افسانوں کے دو مجموعے (شہزاد منظر کا ’’ندیا کہاں ہے تیرا دیس‘‘ اور جمیل عثمان کا ’’جلاوطن کہانیاں‘‘) ایسے ہیں جن میں شامل کئی افسانے اسی موضوع پر ہیں۔ حال ہی میں ڈاکٹر بشیر منصور کی کتاب ’’زمیں ظالم ہے‘‘ منظرعام پر آئی ہے جس میں سقوطِ ڈھاکہ پر لکھے گئے افسانے شامل ہیں۔ کئی ناول بھی اس موضوع پر لکھے گئے جن کا صحیح معنوں میں آج تک احاطہ ہی نہ ہوسکا۔
مقام شکر ہے کہ زینت افشاں صاحبہ نے اس قومی سانحے کو اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے کا موضوع بنایا اور اردو فکشن (افسانے اور ناول) میں سقوطِ ڈھاکہ کی عکاسی کا بھرپور تجزیہ پیش کیا۔
ڈاکٹر زینت افشاں لاہور یونیورسٹی آف ایجوکیشن کے فیصل آباد کیمپس میں اردو کی تدریس پر مامور تھیں۔ اب راولپنڈی کی فاطمہ جناح یونیورسٹی برائے خواتین کے شعبۂ اردو میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ ان کی دو کتابیں اس سے قبل شائع ہوچکی ہیں جن میں سے ایک افتخار عارف اور دوسری غلام مصطفی خاں صاحب سے متعلق ہے۔
یہ کتاب ہمارا ادارہ اس احساس کے ساتھ شائع کررہا ہے کہ وطنِ عزیز میں ایسے اہم موضوع پر معروضی، تحقیقی و تنقیدی جائزوں کی جو کمی ہے یہ مقالہ اسے کسی حد تک دور کرے گا۔ مقالے میں زینت افشاں نے حتی الوسع تمام مآخذات کا جائزہ لے کر ایک عمدہ اور بھرپور جائزہ پیش کیا ہے جو صرف ادبی مباحث تک محدود نہیں ہے بلکہ سیاسی، ثقافتی اور قومی مسائل کو بھی اس تجزیے میں شامل کیا گیا ہے۔
امید ہے کہ اس کتاب کی اشاعت سے ہمارے نوجوان محققین اس طرح کے دیگر اہم موضوعات پر توجہ دیں گے جو ہماری قومی شناخت اور بقا کے لیے بھی ضروری ہے۔‘‘
کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے:
-1 اردو فکشن کا پس منظر اور پیش منظر (آغاز و ارتقا)
-2 سقوطِ ڈھاکہ: اسباب، واقعات، نتائج یا اثرات
-3 اردو ناول پر سقوطِ ڈھاکہ کے اثرات
-4 اردو افسانے پر سقوطِ ڈھاکہ کے اثرات
-5 (الف) سقوطِ ڈھاکہ کے اردو فکشن (ناول اور افسانہ)
(ب( ماحصل اور نتائج
اس کتاب میں اس موضوع پر بڑی محنت اور ذمہ داری سے تحقیق کی گئی ہے۔ اس موضوع پر ایک عمدہ کتاب اردو کی لائبریری میں شامل ہوگئی ہے۔
کتاب مجلّد ہے۔ سفید درمیانے کاغذ پر طبع ہوئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔**۔۔۔۔۔۔
مجلہ
:
سہ ماہی اردو کراچی
ریسرچ جرنل
مدیر
:
ڈاکٹر رؤف پاریکھ
معاون مدیر
:
رخسانہ صبا
صفحات
:
240
قیمت
:
400 روپے، 20 امریکی ڈالر
ناشر
:
انجمن ترقی اردو پاکستان۔ ڈی 159، بلاک 7، گلشن اقبال کراچی 75300
فون نمبر
:
(0092-21)34973296-34811406
برقی ڈاک
:
sehmahi.urdu@gmail.com
ویب گاہ
:
www.atup.org.pk
کچھ عرصے سے غالباً دو تین سال سے اس عظیم الشان تحقیقی مجلے کی اشاعت منقطع تھی اب ڈاکٹر رؤف پاریکھ کی ادارت میں اس کی نشاۃ ثانیہ ہوئی ہے۔ اس مجلے کا اجرا مولوی عبدالحق بابائے اردو نے 1921ء میں کیا تھا۔ یہ شمارہ جلد نمبر 89 اور 90 کا مشترکہ شمارہ ہے۔ ڈاکٹر رؤف پاریکھ اس شمارے کے اداریے میں تحریر فرماتے ہیں:
’’مقام شکر ہے کہ اب اردو میں تحقیق، طریقِ تحقیق اور اصولِ تحقیق پر مباحث عام ہو گئے ہیں۔ اردو زبان و ادب سے متعلق تحقیقی جرائد بھی خاصی تعداد میں شائع ہونے لگے ہیں اور اب وہ صورت نہیں رہی کہ اردو زبان و ادب کے موضوع پر صحیح معنوں میں چند ہی تحقیقی رسالے شائع ہوتے تھے۔ یہ امر یقیناًخوش آئند ہے۔ البتہ بعض اہل علم کو اس پر کچھ تحفظات بھی ہیں اور ان کا خیال ہیکہ اردو میں اور اردو سے متعلق تحقیقی جرائد کی تعداد اور مواد کی مقدار یا کمیت میں تو اضافہ ہو گیا ہے لیکن اردو تحقیق کا معیار زوال پذیر ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وقتاً فوقتاً بعض عمدہ تحقیقی مقالے بھی ان جرائد میں شامل ہوتے ہیں۔ بہر ھال امید رکھنی چاہیے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مجموعی معیار بھی بلند ہوتا جائے گا۔
اہل علم اتفاق کریں گے کہ اردو میں آج تحقیق کی معبر و مستحکم روایت موجود ہے اور اس میں بابائے ارو مولوی عبدالحق، انجمن ترقی اردو اور انجمن کے تحقیقی جریدے اردو کا بہت اہم کردار رہا ہے۔ مولوی صاحب کا شمار اردو تحقیق کے معلمین اول میں ہوتا ہے۔ انہوں نے انجمن سے اردو 1921ء میں جاری کیا جس میں بعض ایسے مقالات بھی شائع ہوئے جن کی تاریخی اور علمی حیثیت ہر شبہے سے بالاتر ہے اور جو اردو تحقیق کے سنگ میل کہے جا سکتے ہیں۔ ہر دور کے جید ترین اہل علم و تحقیق کی فکری کاوشیں اردو میں شائع ہوتی رہی ہیں۔ ان میں سے چند نام یہ ہیں: مولوی عبدالحق، حافظ محمود شیرانی، وحید الدین سلیم، عبدالستار صدیقی، پروفیسر محمد اقبال، عبدالباری آسی، غلام رسول مہر، قاضی عبدالودود، امتیاز علی عرشی، محی الدین قادری زور، نصیر الدین ہاشمی، نورالحسن ہاشمی، پنڈت برج موہن دتاتر یہ کیفی، سید عبداللہ، وحید قریشی، عزیز احمد، غلام مصطفی خاں، غلام حسین ذوالفقار، گیان چند جین، جمیل جالبی، شوکت سبزواری، رشید حسن خان، مالک رام، مسعود حسن رضوی، ادیب، مسعود حسن خان، گوپی چند نارنگ، شمس الرحمن فاروقی، مشفق خواجہ، نذیر احمد، وزیرآغا، حامد حسن قادری، افسر صدیقی، سخاوت مرزا، ایوب قادری، مختار الدین احمد آرزو، عابد پشاوری۔ یہ فہرست یقیناًنامکمل ہے اور بغیر کسی ترتیب یا ترجیح کے پیش کی گئی ہے لیکن مقصود صرف یہ ہے کہ اردوکے صفحات پر تحقیق کی جو کہکشاں جگمگاتی رہی ہے، اس کچھ روشن ستاروں کو یاد کر لیا جائے اوریہ حقیقت بھی واضح ہو جائے کہ اردو اس وقت بھی ’’ریسرچ جرنل‘‘ تھا جب پاک و ہند میں جامعات ہونے والی تحقیق کا وجود تو کجا خود جامعات کی تعداد بھی انتہائی کم تھی اور ان میں سندی اردو تحقیق کا آغاز بھی بہت بعد میں ہوا۔ گیان چند کی تحقیق کے مطابق اردو میں پی ایچ ڈی کی پہلی سند الہٰ آباد یونیورسٹی نے 1942 میں رفیق حسین کو ان کے مقالے پر دی جو اردو غزل کی نشوونما سے متعلق تھا، جب کہ سہ ماہی اردو اس سے کوئی بیس بائیس برس قبلسے شائع ہو رہا تھا۔ اردو کو یہ فخر بھی حاصل ہے کہ علامہ محمد اقبال کی دو تحریریں اس کے جنوری 1936ء اور اکتوبر 1937ء کے شماروں میں شائع ہوئیں۔
ظاہر ہے کہ اب علم و ادب کے میدان میں ایسے مستند و معتبر لکھنے والے کم ہی رہ گئے ہیں لہٰذا اس معیار کو چھونا تو ممکن نہیں نہ ہی کوئی دعویٰ ہے، لیکن بہرحال کوشش یہی ہو گی کہ اسے صحیح معنوں میں تحقیقی و علمی جریدہ بنایا جائے اور صرف مقدار کی بجائے معیار پر بھی توجہ مرکوز کی جائے۔
زمانۂ اشاعت کو دیکھا جائے تو اردو گویا اردو کے پہلے چند باقاعدہ تحقیقی جرائد میں شامل ہے۔ یہ ایچ ای سی کے منظور شدہ جرائد کی فہرست میں بھی کچھ عرصے شامل رہا ہے۔ لیکن اب اسے ایچ ای سی کے باقاعدہ مقرر کردہ معیارات کے مطابق شائع کیا جارہا ہے۔ اردو کی اشاعت میں کچھ تعطل آگیا تھا لیکن اب اسے باقاعدگی سے شائع کیا جائے گا، ان شاء اللہ۔
ہم ان اہلِ قلم کے ممنون ہیں جنہوں نے ہماری درخواست پر بہت کم وقت میں اس شمارے کے لیے مقالات ارسال فرمائے۔ آپ کی آرا ااور مقالات کاانتظار رہے گا‘‘۔
دور جدید کا پہلا شمارہ ہے اس میں جو مقالات شامل کیے گئے ہیں وہ درج ذیل ہیں:
سید محی الدین قادری زور کا نظریہ آغازِ زبانِ اردو مقالہ نگار مرزا خلیل احمد بیگ سابق صدر شعبہ لسانیات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ۔ (دیوان غالب کے) نسخہ، حمیدیہ: دریافت، گم شدگی، بازیافت مقالہ نگار ظفر احمد صدیقی پروفیسر شعبۂ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ۔ مشاہیر کے غیر مطبوعہ خطوط امین زبیری کے نام۔ محمد حمزہ فاروقی محقق و اقبال شناس کراچی۔ اس میں جن حضرات کے خطوط شامل ہیں ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں:
’’علامہ شبلی نعمانی،مولانا ظفر علی خان، مولانا عبدالماجد دریا بادی، عبدالرزاق مولف ’’البرامکہ‘‘۔ محمد علی حسن ناظم ندوۃ العلماء لکھنؤ، مسعود علی ندوی/ ڈاکٹر سید محمود (1888ء ۔ 1971ء) بابائے اردو مولوی عبدالحق، سید ہاشمی فرید آبادی، سید نواب علی، سیٹھ یعقوب حسن، شیخ محمد عبداللہ علی گڑھ۔ سجاد حسین بن مولانا الطاف حسین حالی۔ اگلا مقالہ ڈاکٹر ابرار عبدالسلام ملتان کی تحقیق ہے عنوان ہے اودھ اخبار اور تفتہ کی وفات کی تاریخیں، ڈاکٹر رفافت علی شاہد لاہور کا مقالہ بعنوان تدوینِ کلیات میر کی ضرورت و اہمیت اور چند اکابرِ تحقیق و تنقید۔ اگلا مقالہ انیسویں صدی کی اردو لغت نویسی میں رجسٹر۔ مقالہ نگار لیلیٰ عبدی حجستہ پی ایچ ڈی اسکالر شعبہ اردو سندھ یونیورسٹی جام شورو۔ اردو لغت بورڈ کی لغت: فہرستِ اغلاط۔ ڈاکٹر شوکت سبزواری (مرحوم) سابق مدیر اول اردو لغت بورڈ کراچی۔
آخر میں تذکرۂ درفشاں 1960ء یعنی تذکرۂ شعرائے تاریخ گواز سید خورشید علی مہر تقوی جے پوری دوسری جلد کی ساتویں قسط بھی اس شمارے میں شامل کی گئی ہے۔
مجلہ سفید کاغذ پر عمدہ طبع کیا گیا ہے سادہ مگر خوبصورت سرورق سے مزین ہے۔
۔۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔۔
نام مجلہ
:
امتزاج (شمارہ3 )
مدیراعلیٰ
:
پروفیسر ڈاکٹر ذوالقرنین احمد(شاداب احسانی)
مدیران
:
پروفیسر ڈاکٹر عظمیٰ فرمان
پروفیسر ڈاکٹر تنظیم الفردوس
ڈاکٹر رؤف پاریکھ
صفحات
:
164 قیمت 400 روپے
ناشر
:
شعبۂ اردو جامعہ کراچی
برقی ڈاک
:
imtezaajurdu@gmail.com
ویب گاہ
:
www.urduku.edu.pk
شعبۂ اردو، جامعہ کراچی کے علمی تحقیقی مجلہ ’’امتزاج‘‘ کا یہ تیسرا شمارہ ہے۔ پہلے دو شماروں کا تعارف ہم کروا چکے ہیں۔ اس شمارے میں ڈاکٹر شاداب احسانی اداریے میں تحریر فرماتے ہیں:
’’امتزاج کا تیسرا شمارہ آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے۔ ’’گیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے‘‘ سے بات آگے بڑھ چکی ہے۔ دورِ ایوبی میں امتحانات کے جوابات کے لیے اردو زبان کو بھی انگریزی کے ساتھ اپنایا گیا تھا۔ سائنس کی تعلیم ہو کہ کامرس کی، پاکستان کے جملہ تعلیمی بورڈز ہوں کہ جامعات، اردو زبان میں جوابات تحریر کیے جاسکتے ہیں، کا حکم نامہ صادر کیا گیا تھا۔ اردو زبان کے اس فروغ کے لیے ڈاکٹر سید عبداللہ، ڈاکٹر ابواللیث صدیقی اور ڈاکٹر فرمان فتح پوری جیسے اکابر نے عوام الناس کے دیرینہ مطالبے کو یقینی بنانے میں نہایت مؤثر کردار ادا کیا۔
جامعہ کراچی میں شیخ الجامعہ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی اور پروفیسر ڈاکٹر ابواللیث صدیقی(صدر شعبۂ اردو رئیس کلیہ فنون) کی مساعی سے گریجویشن کی سطح پر تمام کلیہ جات کے لیے اردو زبان و ادب کو لازمی قرار دیا گیا۔ یہ سلسلہ سال ہا سال جاری رہا، بعد ازاں اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے غلغلے میں ناعاقبت اندیش اردو زبان و ادب کے سرخیلوں کی معیت میں اردو کو کالج کی سطح پر کامرس کے نصاب سے خارج کردیا گیا۔ اس اخراج سے اردو میڈیم طلبہ کا خاطر خواہ نقصان ہوا۔ نتائج گھٹ کر آٹھ یا نو فیصد پر آگئے۔ خارج کرنے والوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ کامرس (تجارت) کے نقطۂ نظر سے بھی پاکستان میں مارکیٹنگ اردو زبان کے بغیر ممکن نہیں۔ اور ذرا تاریخ کا مطالعہ کرلیتے تو اندازہ ہوتا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے تاجر اردو سیکھے بغیر نہ تجارت کرسکتے تھے اور نہ ہندوستان پر غلبہ حاصل کرسکتے تھے۔ بارہ برس تک اردو زبان کامرس کے نصاب سے باہر رہی۔ خاکسار جب شعبے کا صدر مقرر ہوا تو مجلسِ نصاب کے پہلے ہی اجلاس میں اس دیرینہ مسئلے پر متفقہ قرارداد منظور کرائی۔ کلیۂ فنون کے جملہ اراکین نے کامرس کے نصاب میں اردو زبان کی شمولیت کی حمایت کی۔ کالج کے بعض اساتذہ اور کلیۂ تجارت کی مخالفت کے باوجود اکیڈمک کونسل کے جملہ اراکین نے اس قرارداد کو منظور فرمایا اور شیخ الجامعہ محترم و مکرم پروفیسر ڈاکٹر محمد قیصر نے حکم صادر کیا کہ بی۔کام میں اردو کے پرچے کا امتحان 2015ء کے امتحانات کے ساتھ منعقد ہوگا۔ خاکسار کو اطمینان ہوا کہ جمہوریت کے زمانے میں جامعہ کراچی نے جمہور کا ساتھ دیا۔ رجسٹرار اور شعبۂ امتحانات نے حکم نامے جاری کردیے۔ امید ہے کہ یہ کارِ جمہور بہ حسن و خوبی انجام پذیر ہوگا۔ اس سلسلے میں وزیراعظم پاکستان اور صدرِ پاکستان سے گزارش ہے کہ پورے ملک میں گریجویشن کی سطح پر اردو کو بطور لازمی مضمون پڑھانے کا حکم صادر فرمائیں۔
پاکستان میں ادارہ برائے اعلیٰ تعلیم و تحقیق (ایچ ای سی) نے جامعات کے معیارات کو بڑھانے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔ ہر سال جامعات کو درجہ بندی کا مرحلہ درپیش ہوتا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی ہی کو پاکستان کی مسلسل ترقی کا ضامن کہا اور سمجھا جاتا ہے، جبکہ اس بات کو قطعاً نظرانداز کردیا گیا ہے کہ جہاں سماجی علوم کو اہمیت نہیں دی جائے گی وہاں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کا امکان بھی بعید از قیاس ہے۔ سماجی علوم کے فروغ میں زبان و ادب کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ عربوں کو بھی ترقی سماجی علوم کے ذریعے سماجی استحکام کے بعد نصیب ہوئی۔ یہی کچھ حال اہلِ فارس کا بھی رہا اور یہی کچھ احوال اکیسویں صدی کی دنیا کا بھی ہے۔ جو خطہ ترقی کرنا چاہتا ہے اسے سماجی علوم کے ذریعے خطے کو مستحکم کرنا پڑتا ہے اور اس استحکام کے لیے زبان و ادب کو زینہ بنانا پڑتا ہے۔ پاکستان کے قیام میں ارد و زبان کو وہی اہمیت حاصل ہے کہ جو یورپین خطوں کی زبانوں کو۔ پاکستان اور اردو کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ لہٰذا اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے اربابِ اختیار سے ملتمس ہوں کہ
’’اے خانہ براندازِ چمن کچھ تو ادھر بھی‘‘
پاکستانیت کے فروغ کے بغیر پاکستان کی ترقی کا خواب ایک ایسا خواب ہے جس کی تعبیر کوئی نہیں۔ اس تعبیر کی ضمانت صرف اور صرف اردو زبان ہے۔
اس شمارے میں سات مضامین شامل ہیں جو ہر اعتبار سے
(باقی صفحہ 46)
تحقیقی معیار پر پورا اترتے ہیں۔ اہلِ قلم اور محققین کے تعاون پر شکر گزار ہوں، نیز میرے تمام رفقائے کار بالخصوص پروفیسر ڈاکٹر تنظیم الفردوس اور ڈاکٹر رؤف پاریکھ کی قدم قدم پر معاونت میری خوش نصیبی ہے۔ آخر میں مذکورہ تحقیقی مضامین کے لیے اشاعتی آرا سے نوازنے والے مبصرین کی علمی و تحقیقی بصیرت کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔
اس شمارے میں جو مقالات پیش کیے گئے ہیں ان کی تفصیل درج ذیل ہے:
۔۔۔شبلی نعمانی کی غیر مدون پہلی تقریر۔ ڈاکٹر اصغر عباس سابق صدر شعبۂ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ۔
۔۔۔امیر مینائی کے غیرمطبوعہ اردو قصائد (ایک تحقیقی مطالعہ)۔ صدف تبسم ریسرچ اسکالر شعبۂ اردو جامعہ کراچی۔
۔۔۔ دبستانِ کراچی کی غزل میں نئے ادبی رجحانات اور عصری حسیت۔ محمد احمد علی ریسرچ اسکالر شعبۂ اردو جامعہ کراچی۔
۔۔۔’’ضیاء النبی‘‘ کے تناظر میں محاورہ اور مرادی معنی۔ محمد رفیع ازہر ریسرچ اسکالر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کراچی۔
۔۔۔’’رانی کیتکی کی کہانی‘‘ کا مابعدالطبیعیاتی مطالعہ۔ محمد رفیق الاسلام استاد شعبہ اردو گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج بہاولپور
۔۔۔ ملّی شاعری میں نعتیہ عناصر (سقوطِ ڈھاکا) کے تناظر میں۔ ڈاکٹر محمد طاہر قریشی ڈی جے سائنس کالج کراچی۔
۔۔۔اکیسویں صدی میں اردو زبان و ادب کے خدوخال۔ ڈاکٹر شاداب احسانی، پروفیسر شعبہ اردو جامعہ کراچی۔‘‘
مجلہ سفید کاغذ پر عمدہ طبع ہوا ہے۔ سادہ سرورق ہے۔
۔۔۔۔۔۔**۔۔۔۔۔۔
نام کتاب
:
تاریخ آسام
مصنف
:
شہاب الدین احمد طالش
مترجم
:
میر بہادر علی حسینی
مرتب
:
ساجد صدیق نظامی
صفحات
:
216 قیمت 300 روپے
ناشر
:
مغربی پاکستان اردو اکیڈمی لاہور
25-C لوئر مال لاہور

فون نمبر0301-8408474
0333-4182396
یہ کتاب 1805ء میں فورٹ ولیم کالج کلکتہ میں لکھی گئی۔ اصل کتاب کا نام ’’تاریخ آشام‘‘ ہے۔ کیونکہ اُس عہد میں ’’آسام‘‘ کا تلفظ ’’آشام‘‘ بھی کیا جاتا تھا۔ تاریخ آسام بنیادی طور پر شہاب الدین طالش کی فارسی کتاب فتحیہ عبریہ/تاریخ ملک آسام کا ترجمہ ہے۔ اصل فارسی کتاب کا موضوع اس جنگی مہم کے احوال ہیں جو 1663ء میں میر جملہ میر محمد سعید اردستانی کی سربراہی میں اورنگ زیب عالم گیر نے آسام کی طرف روانہ کی تھی۔ اردو تاریخ آسام ہنوز غیر مطبوعہ رہی ہے۔ البتہ 1840ء میں اس کا ایک فرانسیسی ترجمہ پیرس سے شائع ہوچکا ہے۔
تاریخ آسام کے مترجم میربہادر علی حسینی ہیں۔ حسینی فورٹ ولیم کالج کلکتہ سے میر منشی/ہیڈ منشی کے طور پر منسلک رہے۔ میرامّن کو گلکرسٹ سے ملوانے والے یہی تھے۔ ان سے یادگار دیگر تالیفات میں اخلاقِ ہندی، نثر بے نظیر، نقلیات، رسالہ قواعد اردو اور ترجمہ قرآن مجید شامل ہیں۔
ساجد صدیق نظامی گورنمنٹ اسلامیہ کالج لاہور کینٹ میں اردو کے لیکچرر ہیں۔ انہوں نے اورینٹل کالج، پنجاب یونیورسٹی سے ایم فل (اردو) کی تکمیل کے لیے ’’تاریخ آشام‘‘ کو مرتب کیا۔ اب یہ کتاب مغربی پاکستان اردو اکیڈمی لاہور کی جانب سے پہلی مرتبہ اردو دنیا کے سامنے پیش کی جارہی ہے۔
اس نادر کتاب کے مرتب جناب ساجد صدیق نظامی تحریر فرماتے ہیں:
’’مغل بادشاہوں کے درباروں میں تاریخ نویسی کا ذوق بابر کے دور سے شروع ہوگیا تھا۔ بابر سے اورنگ زیب تک ہر مغل بادشاہ نے دیگر امورِ سلطنت سرانجام دینے کے ساتھ علم پروری کی روایت بھی جاری رکھی۔ اسی علم پروری کا یہ نتیجہ ہے کہ آج ہم مغلیہ عہد میں تحریر کی گئی کئی کتبِ تواریخ موجود پاتے ہیں۔ ان تواریخ کی موجودگی میں ایک مؤرخ کے لیے مغلیہ عہد کا کوئی اہم واقعہ مخفی نہیں رہ سکتا۔ ان کی مدد سے آج بھی مؤرخین اس عہد کی مکمل اور مفصل تصویر دیکھ سکتے ہیں۔ ان تواریخ میں محض واقعات ہی درج نہیں بلکہ متعلقہ دور کی ثقافتی سرگرمیوں، ادبی گہما گہمیوں، سیاسی چالوں اور نظام سلطنت کی پیچیدگیوں کا بھی اتنا ہی ذکر ہے۔
اگر محض مغلیہ عہد کی اہم تواریخ کی ایک فہرست تیار کی جائے تو کئی ایک نام سامنے آتے ہیں: عبدالرحیم خانِ خاناں کا بابر نامہ، میرزا حیدر کاشغری کی تاریخ رشیدی، عبدالقادر بدایونی، نظام الدین ہروی اور ابوالفضل کی منتخب التواریخ، طبقاتِ اکبری اور اکبرنامہ۔ اسی طرح عہدِ جہانگیری میں معتمد خان ایرانی کا اقبال نامۂ جہانگیری اور سکندر گجراتی کی مرآۃ سکندری، اور عہدِ شاہ جہانی میں محمد امین قزوینی کا بادشاہ نامہ اور طاہر خراسانی کا شاہ جہاں نامہ نظر آتا ہے۔ عہدِ اورنگ زیب میں بھی یہ روایت جاری نظر آتی ہے۔ ہم مغلیہ عہد کی معروف تواریخ کے اہم نام اس عہد میں دیکھ سکتے ہیں۔ مثلاً عملِ صالح موسوم بہ شاہ جہاں نامہ، از محمد صالح لاہوری اور مرآۃ العالم: تاریخ اورنگ زیب از خواجہ محمد بختاور خان۔ اسی طرح سجان رائے بٹالوی کی خلاصۃ التواریخ اور عاقل خان رازی کی طبقاتِ عالمگیری بھی عہدِ اورنگ زیب کی یادگاریں ہیں۔ عہدِ اورنگ زیب ہی میں ہم ایک اور تاریخ کا نام دیکھتے ہیں اور یہ ہے تاریخ ملک آشام یا فتحیہ عبریہ/عبرتیہ (اس زمانے میں آسام کے علاقے کو فارسی تلفظ میں آشام ہی کہا جاتا تھا۔ لہٰذا اس دور کی سبھی تواریخ میں آشام ہی درج ہے) از شہاب الدین احمد طالش۔ اگرچہ یہ تاریخ دیگر تواریخ کی طرح مفصل نہیں، اور نہ ہی زمانی اعتبار سے پورے عہدِ اورنگ زیب پر محیط ہے، مگر اس کی اہمیت اس وجہ سے ہے کہ یہ اورنگ زیب عالمگیر کی تخت نشینی کے چوتھے برس 1073ھ/ 1663ء صوبہ آسام پر شاہی افواج کی چڑھائی کی آنکھوں دیکھی روداد ہے۔ اس برس شاہی لشکر میر جملہ خانِ خاناں معظم خان میر محمد سعید اردستانی کی سربراہی میں آسام کی فتح کو روانہ ہوا تھا۔ تاریخ ملکِ آشام کا مصنف شہاب الدین احمد طالش وقائع نگار کی حیثیت سے اس لشکر کے ہمراہ تھا۔ یہ مہم قریب ایک سال کے عرصے پر محیط رہی، لہٰذا اس مہم میں پیش آمدہ واقعات کا تذکرہ ’’تاریخ ملک آشام‘‘ میں موجود ہے۔ بعد کے ادوار میں کئی مؤرخین نے عہدِ اورنگ زیب کی تواریخ لکھتے ہوئے متعلقہ مقامات پر اس تاریخ سے خاصا استفادہ کیا ہے۔
1800 ء میں جب کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج قائم ہوا تو اس کے قیام کے مقاصد میں سے ایک مقصد یہ بھی تھا کہ یہاں ایسی کتب تصنیف و ترجمہ کروائی جائیں جو نووارد انگریز اہلکاروں کو برصغیر کی مقامی معاشرت اور ماحول سمجھنے میں مددگار ثابت ہوں۔ تاریخ ملک آشام کو بھی اسی مقصد کے تحت ترجمہ کروانے کے لیے منتخب کیا گیا۔ اس کے ترجمے کا کام میر بہادر علی حسینی نے 1805 ء میں تاریخ آشام کے نام سے سرانجام دیا جو اس وقت فورٹ ولیم کالج سے ؐتعلق تھے۔1805 ء میں یہ ترجمہ تو ہوگیا مگر کسی باعث اس کی اشاعت ممکن نہ ہوئی لہٰذا یہ ترجمہ مخطوطے کی صورت میں موجود رہا۔ میر بہادر علی حسینی کی جتنی تصانیف کا سراغ ملتا ہے ان میں اب تک تاریخِ آسام پردۂ اخفا میں رہی ہے۔ اس کا ایک نسخہ ایشیاٹک سوسائٹی بنگال‘ کلکتہ کے کتب خانے میں اور دوسرا نسخہ ببلیوتھک ناسیونال‘ پیرس‘ فرانس میں محفوظ ہے۔
اس تدوین میں پیرس والے نسخے کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ کلکتہ والا نسخہ باوجود بہت سی کوششوں کے دستیاب نہ ہوسکا جبکہ پیرس والا نسخح بغیر کسی کوشش کے مل گیا۔ برصغیر کے بیشتر کتب خانے ایسے معاملات میں جو رویہ روا رکھتے ہیں وہ سب پہ روشن ہے۔
متن سے پہلے ایک مقدمہ بھی کتاب میں شامل کیا گیا ہے جس میں حسینی کے احوالاور ان کی تصانیف کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تاریخ آشام کی نثر کا مفصل تجزیہ بھی اس میں شآمل ہے۔ متن کے بعد فرہنگ بھی شامل کی گئی ہے۔
یہ کام بنیادی طو رپر میرے ایم فل (اردو) کا تحقیقی مقالہ ہے جس پر 2010 ء میں پنجاب یونیورسٹی ‘ لاہور نے ایم فل کی سند جاری کی۔ اب اسے کتابی صورت میں شائع کیا جارہاہے۔ ڈاکٹر اورنگ زیب عالمگیر‘ پروفیسرشعبۂ اردو‘ اس تحقیقی کام کے نگران تھے۔ ان کی نوازش کے اعتراف کے علاوہ چند کرم فرماؤں کا تذکرہ ور ان کا شکریہ ادا کرنا ضروری ہے۔ خواجہ محمد زکریا صاحب کی مسلسل توجہ اور رہنمائی خاکسار کا سرمایۂ افتخار ہے۔ تاریخ آسام کے متن کی تیاری میں بھی خواجہ صاحب نے بہت زیادہ مفید نکات کی نشاندہی کی۔ محمد سلیم الرحمن صاحب نے خاص کر فرہنگ متن کے بارے میں نہایت مفید مشورے عنایت کیے۔ ان بزرگوں کی توجہ او رکرم فرمائی کا شکریہ ادا تو نہیں ہوسکتا مگر اس کا اعتراف ضرور کیا جاسکتا ہے۔ سید معراج جامی صاحب نے ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب کے کتب خانے سے کلکتے والے نسخے کا عکس حاصل کرنے کے لیے بہت کوشش کیاگرچہ وہ کام نہ ہوسکا۔ ناواقفیت اور عدم تعارف کے باوجود انہوں نے شفقت فرمائی۔ اسی ضمن میں تنویر غلام حسین کاشکریہ ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ ڈاکٹر رفاقت علی شاہد صاحب کے توسط سے بیشتر کتب کی فراہمی کا مسئلہ حل ہوا۔ برادر بزرگ الیاس محمود نظامی نے میری فرمائش پر نیشنل لائبریری ‘ پیرس سے تاریخ آشام کے نسخے کا عکس حاصل کیا۔ عبدالستار صاحب نے کمپوزنگ کے مراحل آسان کردیے۔نظامی صاحب نے کتاب پر مبسوط مقدمہ لکھا ہے صفحہ 43 سے متن کتاب شروع ہوتا ہے۔ اور صفحہ 183 پر ختم ہوتا ہے۔ چونکہ کتاب کی زبان اردو قدیم ہے اس لیے بڑی محنت سے فرہنگ بھی مرتب کی ہے۔ اماکن کی تفصیل بھی دی ہے۔ اسما کا اشاریہ بھی ہے مخطوطے کے چند صفحات آخر میں لگائے گئے ہیں اس کے علاوہ تاریخ آشام کے فرانسیسی ترجمے کے سرورق کا عکس بھی دیا گیا ہے۔
یہ نادر کتاب 300کی ’’کثیر ‘‘تعداد میں طبع کی گئی ہے جس کو شوق ہو وہ فوراً خرید لے۔
کتاب مجلد اور نیوز پرنٹ پر شائع کی گئی ہے۔

حصہ