(جدید جاہلیت(ثروت اقبال

371

اللہ کی طرف سے جو ہدایات آئیں، وہ بیک وقت قدیم اور جدید دونوں ہیں۔ اللہ نے یہ ہدایات ازل سے ابد تک کے لیے بھیجی ہیں۔ یہ ہدایات یعنی اسلام اور جہالت ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔ جہالت کے معنی لاعلمی کے ہیں، یعنی کہ اسلام کے خلاف چلنے والے طرز عمل کو جاہلیت کہتے ہیں۔ جو وحی یعنی اللہ کی ہدایت کو ٹھکراتا ہے وہ جاہلیت کا آغاز کر دیتا ہے۔ ہماری عقل انسانی محدود ہے اور اللہ کی ہدایت کا مقابلہ انسانی عقل نہیں کرسکتی۔ جہاں سے ہماری عقل کی حدیں ختم ہوتی ہیں، اس مقام سے وحی کا آغاز ہوتا ہے۔
قدیم انسان قدرت کے پوشیدہ رازوں سے ناواقف تھا۔ مختلف طاقتوں کو دیوتا سمجھ کر پوجا پاٹ شروع کردیا کرتا تھا اور اپنی مذہبی رسومات بنا لیتا تھا۔ آج کا انسان سمجھتا ہے کہ وہ تعلیم و تدریس اور علم کی بَلندیوں پر پہنچ چکا ہے، مگر آج انسان اپنی زندگی کے اہم مواقع پر ادا کی جانے والی رسومات کو دیکھے تو وہ جاہلیت کی پستیوں میں دھنس جانے والا قدیم دور کا انسان ہی نظر آتا ہے۔ موجودہ دور کی جاہلیت کی طرف نظر دوڑائیں تو ہم دیکھیں گے کہ آج کا نوجوان معاشرے میں گم ہوچکا ہے۔ ہم دین سے دوری اور کم علمی کی وجہ سے جاہلیت کی دلدل میں دھنستے جارہے ہیں۔ موجودہ دور میں فحاشی کو لبرل ازم کا نام دیا گیا ہے۔ رشوت کو تحفہ، عریانیت کو فیشن اور سود کو ضرورت بنادیا گیا ہے۔ آج کے دکان دار کی عقل یہ کہتی ہے کہ نیم عریاں عورت کی ڈمی دکان کے باہر سجاؤ گے تو رزاق رزق بڑھا دے گا۔ میڈیا کی جدت پسندی کا فلسفہ یہ ہے کہ بُرائی کو اچھائی بنا کر فیشن بنادو۔ پرچار کرو کہ داغ تو اچھے ہوتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کہیں ہمارا اجتماعی ضمیر مُردہ تو نہیں ہوچکا ہے۔
یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ کے قوانین سے منہ موڑیں گے تو جاہلیت کا سامنا ہی ہوگا۔ اس کی تازہ مثال یہ ہے کہ پچھلے دنوں زوروشور سے یہ مۂلہ اٹھایا جارہا تھا کہ لڑکے کی لڑکے سے شادی اور لڑکی کی لڑکی سے شادی، یعنی ہم جنس پرست آپس میں شادی کرلیں تو ازدواجی زندگی کا تو مقصد ہی فوت ہوجائے گا اور نسلِ انسانی کی بقا کے لالے پڑ جائیں گے۔ اسے نہ انسانی عقل قبول کرتی ہے نہ کوئی مذہب۔ قدرت نے جانوروں کی نفسانی خواہشات بھی رکھی ہیں، مگر ایسا تو وہ بھی نہیں کرتے۔ یہ لوگ حیوانیت کی حدوں کو بھی پار کرچکے ہیں۔ ایسا لگتا ہے معاشرتی جرائم کے ساتھ ہم نے دوستی کرلی ہے اور ان کے ساتھ زندگی گزارنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ جدت پسندی میں آج اپنے مُردوں کو بھی نہیں چھوڑا، جبھی مغرب کی اندھی تقلید میں موم بتیاں جلاکر ایصالِ ثواب پہنچاتے ہیں۔ یہ بھول گئے کہ انگریز کے پاس مُردے کی مغفرت کے لیے کچھ نہیں، مگر ہمارے پاس تو دعائے مغفرت ہے، صدقہ جاریہ ہے۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع میں فرمایا تھا: آج جاہلیت کے تمام فیصلے میرے قدموں تلے روند دیے گئے ہیں۔
کتاب اور صاحبِ کتاب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف آجاؤ تو جاہلیت سے دور ہوجاؤگے اور شیطان کی طرف نکل گئے تو جنہم کی سزا سنائی جاچکی ہے وہ اکیلے جنہم میں نہیں جانا چاہتا لہٰذا جہنم کے لیے اپنے زیادہ ساتھی جمع کرنے میں مصروف ہے۔ اللہ ہم سب کو محفوظ رکھے۔
جاہلیت سے بچنے کے لیے حضرت موسیٰ السلام کی یہ دعا ضرور پڑھا کریں۔ترجمہ ’’میں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں جاہلوں میں ہوں۔‘‘
nn

حصہ