(دشمن کی دہلیز پر ۔۔۔۔۔۔(تسنیم صدیقی

208

حلب جل رہا ہے، بم برس رہے ہیں، دیکھتے ہی دیکھتے گھر راکھ کا ڈھیر ہوگئے ہیں۔ ثانیہ نے دل دونوں ہاتھوں سے تھام رکھا ہے۔ شوہر نے دیکھا تو جلدی سے پانی لاکر پلایا، پیٹھ سہلائی، ہاتھ تھامے، دلاسا دیا، لیکن ثانیہ کے آنسو تھم نہیں رہے تھے۔
’’ثاقب یہ دنیا میں کیا ہورہا ہے۔۔۔؟ میں نے 20 برسوں میں تنکا تنکا جوڑ کر یہ گھر بنایا ہے۔گھر ایک دم تو نہیں بنتے۔۔۔ برسوں خون پسینہ ایک کرنا پڑتا ہے۔۔۔ اولاد ایک دن میں جوان نہیں ہوتی، عورت اور مرد اپنی جوانی کا خراج دیتے ہیں۔ مجھے یاد ہے جب پپو چھوٹا سا تھا، کتنا بیمار تھا، تم دفتر سے چھٹی لے لیتے تھے اور ہم دونوں اسپتالوں میں لیے لیے پھرتے تھے۔ پھر جب اسکول میں داخل کروایا تو ہاف ٹائم میں انڈا پراٹھا لے کر اسکول جاتی تھی کہ ناشتا صحیح سے کرکے نہیں گیا ہے۔ جب تک آ نہیں جاتا تھا، چین نہ آتا تھا۔ جب آنکھیں ٹھنڈی ہوتی تھیں، تو نیند آتی تھی ورنہ سونا بھی حرام کرلیتی تھی۔ کسی تقریب میں پپو کے بغیر نہ جاتی، دھیان ادھر ہی لگا رہتا تھا۔ ہر وقت دل میں دھڑکا لگا رہتا کچھ ہو نہ جائے۔ امتحان آتے تو بس مصلے پر بیٹھ جاتی، لگتا جیسے میرے امتحان ہورہے ہیں۔ بچے میری آنکھوں کی روشنی ہیں، مگر ثاقب یہ دنیا میں اندھیرا کیوں ہورہا ہے، یہ کسی ثانیہ کا گھر جل رہا ہے، یہ کسی شمع کا گھر ہے۔۔۔ اب یہ خالی گھر، ٹوٹے گھر کیسے آباد ہوں گے؟ یہ بچوں اور جوانوں کے لاشے، اُف میرے خدایا، منٹوں میں جل کر کوئلہ ہوگئے۔ کتنے گھر اُجڑ گئے، کتنے بچے یتیم ہوگئے، انہیں کون کماکر کھلائے گا، انہیں کون پیار کرے گا؟ ان کا تو گھر بھی نہ رہا، یہ کہاں رہیں گے؟ کیا دنیا میں ظالموں کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں۔۔۔ ارے کوئی ہے، جو ثانیہ کی بہنوں کا گھر بچا لے۔ مولا، دنیا میں اتنا اندھیرا کیوں ہے۔۔۔؟‘‘
وہ سجدے میں پڑی روئے جارہی تھی، کیوں کہ وہ ماں ہے، جانتی ہے عورت کا دُکھ کیا ہوتا ہے۔ اتنی دیر میں ثانیہ کے بچے اس کے آگے پیچھے کھڑے ہیں۔ کیا ہوا ہے ابو، امی کیوں پریشان ہیں۔۔۔؟ ثاقب بچوں کو بتاتا ہے کہ امی ٹی وی دیکھ رہی تھیں، جب حلب پر جو شام کا شہر ہے، بم باری سے تباہی دیکھی تو غم اور دکھ سے یہ حالت ہوگئی ہے۔ بچوں نے ماں کو پیار کیا، اس کے چاروں طرف بیٹھ گئے۔ مما آپ پریشان نہ ہوں، ہم ان کے لیے فنڈز جمع کریں گے تاکہ مظلوم عورتیں اور بچے پھر سے آباد ہوسکیں، ان کا علاج ہوجائے۔۔۔ ان کی پریشانیاں کم ہوسکیں اور ہم اپنے رب کے سامنے شرمندہ ہونے سے بچ جائیں۔ ہم سب مل کر استغفار کریں گے، نمازوں کی پابندی کریں گے، رب کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کریں گے تاکہ وہ راضی ہوجائے۔ ثانیہ نے بڑی مشکل سے اپنے آپ کو سنبھالا۔ پھر عمرے پر جانے کے لیے جو کمیٹی ڈالی تھی، وہ پچھلے مہینے ہی نکلی تھی، وہ ’’اتحادِ امت فنڈ‘‘ میں دے کر سجدہ ریز ہوگئی۔ شاید کسی یتیم کو کپڑا مل جائے، شاید کسی کی روٹی کا انتظام ہوجائے، شاید کسی عورت کو چادر مل جائے، کسی کا سہارا بن جائے۔
’’اور جو خیر تم اللہ کے راستے میں کرو گے، اللہ تمہیں اس کا اجر بڑھا چڑھا کر دے گا۔۔۔‘‘
یہ ترجمہ جو سامنے والی خالہ کے گھر درس میں سنا تھا، آج کانوں میں رس گھولنے لگا۔ ایسا لگا جیسے وہ خانہ کعبہ کے دروازے پر کھڑی ہو اور اپنے رب سے فریاد کررہی ہو۔ اللہ تبارک وتعالیٰ، ہمیں معاف کردے۔۔۔ ہم پر رحم فرما، دنیا پر اپنا کرم کردے تاکہ ساری دنیا میں سکون ہوجائے۔ مولا، میرے دل کو سکون عطا فرما، میرے گھر اور میرے وطن پر اپنی نظر کرم کردے۔ ایسا نہ ہو یہ آگ میرے دروازے تک پہنچ جائے۔۔۔ اُٹھو اللہ کے کلمے کو آئین بنادو ورنہ دنیا میں تمہارا نام بھی نہ ہوگا!!
nn

حصہ