آخر منصوبہ(محمد عادل منہاج)

221

 ’’پھر بھی مقابلے پر اصل میں تو افغان پور کے جاہل لوگ ہیں، جن کا ملک آج بھی پس ماندہ ترین ہے۔‘‘ صدر نے کہا۔
’’سر وہ لوگ جاہل سہی، مگر لڑنے مرنے میں بہت ماہر ہیں۔ وہ تو پہلے بھی ناکارہ بندوقوں کے ساتھ ہمارے مقابلے پر آگئے تھے اور اب تو پاک انہیں تربیت دے رہا ہے اور جدید اسلحہ بھی انہیں وافر مقدار میں مل رہا ہے، صورتِ حال اتنی آسان نہیں‘‘۔ فوج کے سربراہ نے کہا۔
’’تو پھر یہ سلسلہ آخر کب تک چلے گا! آپ نہیں جانتے کہ اب تو عوام بھی میرے خلاف ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ ہماری ریاستیں بغاوت پر آمادہ ہیں۔‘‘
’’سر میرا مشورہ تو یہی ہے کہ افغان پور سے باعزت واپسی کا کوئی راستہ نکالا جائے۔‘‘ فوج کے سربراہ نے کہا۔
’’واٹ۔۔۔ واپسی، ایک سپر پاور کی پسپائی۔۔۔! ساری دنیا ہمارا مذاق اڑائے گی۔‘‘
’’آپ سیاسی طور پر کوئی ایسا راستہ نکالیں کہ شرمندہ ہوئے بغیر ہم وہاں سے نکل سکیں۔ آپ اشریکا کے صدر سے بات توکریں۔‘‘
’’افسوس، ہمیں یہ دن بھی دیکھنا تھا، خیر اب کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گا ورنہ افغان پور کے ساتھ ساتھ کہیں لاس کی حکومت بھی میرے ہاتھ سے نہ نکل جائے۔‘‘
***
اشریکا کے صدر کے سامنے اس وقت اس کی حکومت کے کچھ سینیٹرز بیٹھے تھے۔ ’’سر، آپ جانتے ہیں کہ چند دن بعد سینیٹ میں پھر وہ بل پیش کیا جانے والا ہے جس کے تحت آپ کو ضمانت دینا پڑتی ہے کہ پاک ایٹمی پروگرام پر عمل نہیں کررہا۔‘‘ ایک سینیٹر بولا۔
’’یس مسٹر ہڈسن، میں جانتا ہوں۔‘‘ اشریکا کے صدر نے کہا۔
’’جناب، ہم چاہتے ہیں کہ اِس بار آپ اس بل پر دستخط نہ کریں۔‘‘ ہڈسن نے کہا۔
’’مگر کیوں؟‘‘ صدر نے چونک کر کہا۔
’’وہ اس لیے کہ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاک گزشتہ کئی برسوں سے ایٹمی پروگرام پر عمل کررہا ہے اور آپ نے جانتے بوجھتے ہوئے اس کی طرف سے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔‘‘ دوسرا سینیٹر بولا۔
’’دیکھیں مسٹر جان، اس وقت پاک کی مدد کرنا ہماری مجبوری ہے، ورنہ افغان پور پر لاس کا قبضہ ہوجائے گا، جو ہمیں منظور نہیں۔‘‘
’’مگر جناب، وہ ہماری مجبوریوں سے فائدہ اٹھا رہا ہے اور ایٹمی طاقت بنتا جا رہا ہے۔ اس کا پڑوسی ملک جبرستان بھی ہم سے ناراض ہے کہ ہم پاک کو جو اسلحہ دے رہے ہیں وہ جبرستان کے خلاف بھی استعمال ہوسکتا ہے۔‘‘ جان نے کہا۔
’’آپ لوگ جبرستان کے ہمدرد ہیں، اسے سمجھائیں کہ اب یہ جنگ بس ختم ہی ہونے والی ہے۔ افغان پور میں لاس کا کباڑہ ہوچکا ہے، اس کی معیشت تباہ ہوچکی ہے، اس کی ریاستیں اس کے ہاتھ سے نکل رہی ہیں، فوج میں بغاوت ہورہی ہے، بس چند مہینوں کی بات ہے، پھر لاس کو افغان پور سے نکلنا پڑے گا، اس کے بعد ہمیں پاک کی ضرورت نہیں رہے گی، پھر میں اسے سمجھ لوں گا اور اس کا ایٹمی پروگرام بھی بند کروا دوں گا۔‘‘ صدر نے وعدہ کیا۔
’’بہرحال آپ اس سے سختی سے پیش آئیں، اس کا ایٹمی پروگرام اور آگے نہیں بڑھنا چاہیے، ورنہ جبرستان اس پر حملہ کردے گا۔‘‘ ہڈسن نے دھمکی دی!!
***
’’خرم مراد مجھے خوشی ہے کہ ہم اپنے مقصد میں کام یاب جارہے ہیں اور اب افغان پور آزاد ہونے ہی والا ہے۔‘‘ صدرِ پاک خوشی سے بولے۔
’’جی سر، مگر یہ جو جبرستان نے اپنی فوجیں ہماری سرحدوں پر لگادی ہیں، اس کا کیا ہوگا؟‘‘ خرم مراد کے لہجے میں فکرمندی جھلک رہی تھی۔
’’اس کی آپ فکر نہ کریں۔ یہ لاس کا آخری حربہ ہے۔ اس نے جبرستان کو اشارہ کردیا ہے کہ پاک پر حملہ کردے، مگر وہ ایسا کر نہیں سکتا۔ ابھی اسے پتا نہیں کہ ہم بھی ایٹمی طاقت بن چکے ہیں، اگرچہ اس کا اظہار نہیں کررہے ہیں۔ میں ڈھکے چھپے لفظوں میں جبرستان کے وزیراعظم کے کان میں یہ بات ڈال دوں گا، پھر اسے حملے کی جرأت نہ ہوگی۔‘‘ صدر نے کہا۔
’’چلیے یہ مسئلہ تو حل ہوا، مگر افغان پور کے حوالے سے ایک مسئلہ اور ہے۔‘‘ خرم مراد نے کہا۔
’’وہ کیا۔۔۔؟‘‘ صدر نے پوچھا۔
’’ابھی تو افغان پور کے سارے لیڈر مل کر لاس کا مقابلہ کررہے ہیں۔ چند دوسرے مجاہدین، مثلًا عامر بن ہشام بھی ان کا ساتھ دے رہے ہیں، مگر میں سمجھتا ہوں کہ ان میں آپس میں اتحاد نہیں۔ لاس کے جانے کے بعد ان میں پھوٹ پڑ جائے گی۔ ہمیں ابھی سے اس کا تدارک کرنا چاہیے۔‘‘
’’ہوں، مگر اس مسئلے میں آپ ہی کچھ کرسکتے ہیں۔ آپ ان سے قریب ہیں، ان سے بات کریں، انہیں سمجھائیں کہ لاس کے جانے کے بعد مل جل کر کام کریں۔ میری مجبوری یہ ہے کہ میں پارلیمنٹ کا محتاج ہوں، وہاں زیادہ تر ارکان میرے خلاف ہیں، وہ میری افغان پور کی پالیسی کے بھی خلاف ہیں۔‘‘ صدر نے کہا۔
’’میں تو اپنی پوری کوشش کروں گا کہ لاس کے جانے کے بعد افغان پور میں سب لیڈروں کے اشتراک سے ایک مستحکم اور مضبوط حکومت قائم ہو۔‘‘ خرم مراد بولے۔
’’مجھے امید ہے کہ آپ اپنے اس مقصد میں کام یاب ہوجائیں گے۔ ہاں، مجھے آپ سے ایک اور مسئلے پر بھی گفتگو کرنی ہے۔‘‘ صدر نے کہا۔
’’جی فرمائیے۔۔۔‘‘ خرم مراد نے انہیں غور سے دیکھا۔
’’آپ تو جانتے ہیں کہ جبرستان نے ہمارے علاقے ’’کاشیر‘‘ پر غاصبانہ قبضہ کررکھا ہے اور اس کی فوج عرصے سے وہاں کے شہریوں پر ظلم وستم ڈھا رہی ہے۔‘‘ صدر نے کہنا شروع کیا۔
’’جی ہاں، میرا دل اس پر بہت دُکھتا ہے۔۔۔‘‘
’’میرے ذہن میں ایک خیال آیا ہے کہ کیوں ناں ہم افغان پور والی پالیسی کاشیر میں بھی آزمائیں۔‘‘
’’کیا مطلب۔۔۔؟‘‘ خرم مراد چونک اٹھے!!
(جاری ہے)

حصہ