احوال یک ملاقات کا(آسیہ بنتِ عبداللہ )

213

جب کوئی قوم بھیڑ چال میں مبتلا ہوجاتی ہے تو اس کی تباہی کے مشورے آسمانوں میں ہونے لگتے ہیں، خاص طور پر مسلمان قوم اپنی بربادی کے باوجود قدرت کے واضح اشاروں کو سمجھ نہ پائے تو پھر کوئی چنگیز خان، ہلاکو خان آسانی سے ان پر قابو پا کر ان کے سروں کے مینار کھڑے کرتا ہے اور صاف صاف کہتا ہے کہ ہم تمہاری سزا کے طور پر آئے ہیں۔
میری عادت ہے کہ ہر روز گھر سے دو گھنٹے کے لیے نکلتی ہوں اور اڑوس پڑوس میں ملاقات کرتی ہوں۔ آج دو گھر چھوڑ کر عائشہ کے یہاں پہنچی۔
’’آیئے خالہ جی آیئے، کتنے دن ہوگئے آپ آئی نہیں۔۔۔‘‘ اس نے شکایتی لہجے میں کہا۔
’’ارے بیٹی، محلے میں اتنے سارے گھر ہیں اور میں ایک دن میں ایک ہی گھر ملنے جاتی ہوں، ظاہر ہے ہر ایک کی باری دیر میں ہی آئے گی ناں؟‘‘
’’جی یہ تو آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔۔۔ یہ بتایئے کیا پئیں گی؟‘‘
’’ کچھ نہیں بیٹی۔۔۔ نو بجے ڈٹ کر ناشتا کیا تھا، چائے پی۔ اب اتنی جلدی کچھ نہیں، بس تم میرے پاس بیٹھ جاؤ۔‘‘
’’اچھا میں آتی ہوں۔۔۔‘‘ وہ دوڑ کر گئی اور ایک پلیٹ میں کینو رکھ کر لے آئی ’’چلیے یہ کھاکر آپ کا کھانا ہضم ہوجائے گا۔۔۔ اور سب خیریت ہے ناں؟‘‘
’’ہاں اللہ کا بڑا کرم ہے، سب خیریت ہے، تم سناؤ۔‘‘
’’ارے بس بیٹی کا امتحان ہونے والا ہے، نویں کلاس میں جائے گی، پڑھائی میں تو اچھی ہے مگر آگے سبجیکٹ کیا لیں، یہ سوچ رہے ہیں۔۔۔ آپ بھی کچھ مشورہ دیں ناں۔۔۔‘‘
’’میں تو مشورہ تب دوں گی، جب مجھے پتا ہو کہ اسے کس سبجیکٹ میں دل چسپی ہے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’اچھا تو میں ابھی بلاتی ہوں۔۔۔ عائشہ اِدھر آؤ۔۔۔ نانو کو سلام کرو آکر۔‘‘
میں پورے محلے کے بچوں کی نانو تھی، بلکہ نواسے، پوتے سب کے دوستوں کی بھی نانو۔۔۔ بچے بھی خوش اور میں بھی خوش۔ اس نے آکر ادب سے سلام کیا اور سامنے والے صوفے پر ٹک گئی۔
’’کیا ہورہا ہے پیاری بیٹی، آج کل کیا کررہی ہو؟‘‘
’’جی امتحان کی تیاری کررہی ہوں۔‘‘
’’اچھا تو اب نویں کلاس میں جاؤ گی؟ اللہ تمہیں بہترین نمبروں سے کامیاب کرے، آمین۔ نویں کلاس میں کون سے سبجیکٹ لینے کا سوچا ہے؟‘‘
’’نانو، سوچنا تو تب ہے جب ہمارے پاس کوئی چوائس ہو، ہمیں تو بس یہ پتا ہے کہ سائنس لینا ہے۔‘‘
’’ارے بھئی، وہ کیوں؟‘‘ میں نے حیرانی سے پوچھا۔
’’امی جان سے پوچھیے۔ پورا خاندان ددھیال، ننھیال، محلہ پڑوس سب سائنس پڑھ رہے ہیں۔ ہم لڑکیاں تو ایک طرف، لڑکوں کو بھی مار مار کر سائنس دلوائی جاتی ہے۔ یہ رجحان دیکھتے ہوئے اسکول والوں نے بھی آرٹس اور کامرس وغیرہ کی کلاسیں رکھی ہی نہیں۔ ظاہر ہے، مارے باندھے سب کو وہی پڑھنا ہے۔‘‘
اس بچی کی آواز میں افسوس کے ساتھ ساتھ جھنجھلاہٹ اور دکھ بھی تھا۔
’’اچھا تم جاؤ پڑھائی کرو، جب رزلٹ آئے گا تب تک سوچتے ہیں کیا کرنا ہے۔‘‘ وہ چلی گئی خاموش احتجاج لیے ہوئے۔
’’عائشہ بیٹی تم نے کبھی اس سے پوچھا کہ اسے کیا اچھا لگتا ہے، کس سبجیکٹ میں دل چسپی ہے، کون سی کتاب آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے؟‘‘
’’خالہ، پوچھ کر کیا کریں، یہاں تو جو سائنس نہیں پڑھتا اسے نکما، نالائق، فضول سمجھا جاتا ہے۔ دن رات نکو بنایا جاتا ہے۔ جب سارے کزنز جمع ہوتے ہیں تو بے چارے یا بے چاری کو حیران ہوہوکر یوں دیکھا جاتا ہے جیسے کہ وہ خلائی مخلوق ہے۔ یہ سب دیکھ کر ہم نے سوچنا چھوڑ دیا۔‘‘
’’سوچنا چھوڑ دیا۔۔۔؟ ارے بھئی اگر سب سائنس پڑھیں گے تو باقی سبجیکٹ کون پڑھے گا مثلاً قانون، ریاضی، وکالت، صحافت، فائن آرٹ، ادب۔۔۔ اگر ایسا ہی رہا تو جج، وکیل، ریاضی دان، صحافی، شاعر، ادیب یا سائنس دان بننے کے لیے کوئی مشین ایجاد کرنا پڑے گی، جو یہ سارے ہنرمند پیدا کرے۔ تعلیم بھی کوئی فیشن ہے کہ سب کررہے ہیں تو ہم بھی وہی کریں گے۔۔۔ جن کو سائنس پسند ہے وہ ضرور پڑھیں۔ ڈاکٹر، انجینئر، سائنس دان سب ہی ضروری ہیں۔۔۔ جب سب اپنی اپنی پسند کے مطابق پڑھیں گے تو جلدی ترقی کریں گے۔ زبردستی کی تو کوئی بھی چیز انسان کو کھا جاتی ہے۔۔۔ اور یہ بات صرف شعبۂ تعلیم ہی میں نہیں، بلکہ ہر شعبۂ زندگی میں ایسا ہی ہورہا ہے۔۔۔ مگر تعلیم۔۔۔ تعلیم میں یہ گڑبڑ سب کچھ تباہ کردیتی ہے۔ میں نے دنیا دیکھی ہے، عائشہ جب 1970ء میں آرٹس پڑھ کر امتحان دیا تو مجھے بہت مزا آیا۔ جتنا چاہو لکھو۔۔۔اپنی معلومات کو دل بھر کے صفحات پر منتقل کرو۔ میرا رزلٹ آیا تو میں فرسٹ ڈویژن میں کامیاب ہوئی تھی، اس کے ساتھ اردو میں اضافی نمبر یعنی سو سے بھی زیادہ۔ اپنی قومی زبان میں اعزازی نمبر لینا میرے لیے سب سے بڑا اعزاز تھا۔ اُس وقت بھی سائنس سیکشن کی لڑکیاں ہمیں نالائق اور نکمی کہتی تھیں، اور عجیب مضحکہ خیز انداز میں ہماری طرف دیکھا کرتی تھیں۔ میں تو سمجھتی تھی، اب وہ وقت ختم ہوچکا ہوگا، لیکن ابھی تک وہی سب کچھ چل رہا ہے۔ افسوس صد افسوس، کچھ علاقوں کو چھوڑ کر اندرون شہر یہی حال ہے۔ کسی کو یہ نظر نہیں آتا کہ انہی نکمی لڑکیوں اور لڑکوں نے عملی زندگی میں کتنا کام کیا، کتنا نام کمایا، کس قدر ملک و قوم کی خدمت کی؟ آرٹس کے سارے شعبے سائنس پڑھ کر نہیں چلائے جارہے، ہم انجانے میں اور اندھی تقلید میں ایک بہت بڑا اور خطرناک خلا پیدا کررہے ہیں۔‘‘ میں جذبات میں بولتی چلی گئی، اور جب چپ ہوئی تو عائشہ نے سوال کیا ’’ہم اب کیا کرسکتے ہیں خالہ جان، جو ٹرینڈ بن چکا بس بن چکا۔۔۔‘‘
’’نہیں، اب بھی وقت ہے ہمیں اسٹینڈ لینا ہوگا، اپنے بچوں سے پوچھو وہ کیا پسند کرتے ہیں۔ مائیں اسٹینڈ لیں گی تو معاشرہ صحیح رخ پر جائے گا۔ جو لوگ اعتراض کریں، ان کے لیے دلائل کے ساتھ جواب تیار رکھو۔ یہ جواب مطالعہ کرنے سے ہمیں ملے گا۔ غضب خدا کا، بچوں کو کھلاتے ان کی پسند کا، پہناتے ان کی پسند کا اور پڑھاتے ان کی مرضی کے خلاف۔۔۔ یہ تو سراسر زیادتی ہے۔ نہ صرف تم سب کام کرو بلکہ اپنی پہنچ میں جو جو آتے ہیں، ان کا ذہن بھی بناؤ۔ وعدہ کرو مجھ سے، میں بھی اب اس عنوان پرکام کروں گی، لکھوں گی، بولوں گی، سمجھاؤں گی۔‘‘
’’خالہ جان آپ نے میری آنکھیں کھول دیں۔۔۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے، آمین۔‘‘
’’اللہ تعالیٰ تمہیں بھی اس مشن میں کامیابی دے، آج دو گھنٹے تمہارے پاس ہی پورے ہوگئے۔۔۔ کل کسی اور کا احوال دریافت کروں گی، ان شاء اللہ!!‘‘

حصہ