امریکا کا عالمی کردار اور ہماری ذمہ داریاان(پروفیسر خورشید احمد)

237

اصولی موقف اور حکمت عملی
اس کام کو انجام دینے کے لیے ہمیں کچھ عالم گیر اصولوں کو اپنی دعوت اور حکمت عملی کی بنیاد بنانی چاہیے اور دنیا کے تمام انسانوں اور تمام اقوام کو ان کی طرف لانے کی کوشش کرنا چاہیے۔ ہمیں نہ دوسروں کا کاسہ لیس ہونا چاہیے، اور نہ ہر ایک سے الگ تھلگ رہنے اور تعلقات توڑنے کا راستہ اختیار کرنا ہی کوئی صحیح طرزِعمل ہوسکتا ہے۔ قدرِ مشترک کی تلاش اور اس پر تعلقات استوار کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ دنیا کے حالات بھی اس مقام پر ہیں کہ کچھ اصولوں اور مشترک اقدار پر سب کو جمع کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے کہ اسی میں تمام انسانوں کی بھلائی ہے۔ بجاے اس کے کہ مسلمان محض دوسروں کے اقدامات پر ردعمل تک اپنے آپ کو محدود رکھیں، ہمیں آگے بڑھ کر پوری انسانیت (بشمول مغربی اقوام) کو کچھ بنیادوں پر متفق کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں درج ذیل اصول ہماری عالمی دعوت کا محور بن سکتے ہیں:
1۔ تمام اقوام کی آزادی، حاکمیت اور سلامتی کا تحفظ ناگزیر ہے۔ اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی بنیاد، تمام انسانوں کی برابری، تمام اقوام کی آزادی اور ان کا حقِ خود ارادیت ہے۔ اسلام نے اسی اصول کو انسانیت کے سامنے پیش کیا تھا اور یہ اصول استعماریت اور امپریلزم کی جڑ کاٹ دیتا ہے۔
2۔ کسی ایک ملک یا تہذیب کی بالادستی پر استوار نظام عالمی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ سب اس اصول کو تسلیم کریں کہ ہرقوم کو اپنی تہذیب و ثقافت کی پاس داری کا حق ہے اور دنیا کی یک رنگی، فطرت کے خلاف اور انصاف کے تقاضوں سے متصادم ہے۔ اس لیے سب کو اپنے اپنے اصول و اقدار کی روشنی میں ترقی کے مواقع حاصل ہونے چاہییں۔
3۔ تم ام انسانی معاملات کو دلیل اور مکالمے (Dialogue) کے ذریعے حل کیا جائے اور قوت کے استعمال کو قانون اور عالمی انصاف کے تابع کیا جائے۔ ہرقسم کے تشدد کے خلاف عالمی راے عامہ کو منظم کیا جائے اور اس میں دہشت گردی کی ہرشکل میں مخالفت شامل ہو۔ نیز دہشت گردی اور آزادی کے حصول یا ملک و ملّت کی حفاظت کے لیے جدوجہد کو اس سے ممتاز و ممیز کیا جائے اور قوت کے استعمال کی حدود اور اس کا ضابطۂ کار متعین کیا جائے۔
4۔ انصاف کے حصول کے لیے دنیا کے تمام انسانوں اور اقوام کو ایک منصفانہ عالمی نظام کا حصہ بنایا جائے۔ انصاف ہی وہ مثبت بنیاد ہے جس پر عالمی امن قائم ہوسکتا ہے اور ظلم کی دراندازیوں سے انسانوں کو بچایا جاسکتا ہے۔
5۔ بین الاقوامی تعاون اور اشتراک کے ساتھ ساتھ قوموں یا ملکوں کے الحاق کی اجتماعی خودانحصاری کے اصول کا احترام کیا جائے۔ اس سے عالم گیریت کا ایک ایسا نظام وجود میں آسکتا ہے جس کے تحت اگر ایک طرف انسانوں، مالِ تجارت، مالی اور دوسرے وسائل کی نقل و حمل میں سہولت ہو، تو دوسری طرف ایسے عالمی ادارے وجود میں آسکیں جس کے نتیجے میں سب کو خوش حالی، استحکام اور باعزت زندگی حاصل ہوسکے۔
ان پانچ بنیادوں کی طرف دنیا کے تمام انسانوں کو دعوت دے کر امت مسلمہ اور پاکستان ایک ایسے عالمی نظام کی داغ بیل ڈال سکتے ہیں، جو حقیقی امن و انصاف کا ضامن ہوسکتا ہے۔
بلاشبہہ آج کے طاقت ور اس کی راہ میں حائل ہوں گے، لیکن دنیا کے تمام دوسرے ممالک کو منظم اور متحرک کر کے اور پْرامن ذرائع سے عالمی راے عامہ کو منظم کرکے اس قدرِ مشترک کو نئے نظام کی بنیادبنایا جاسکتا ہے۔ نیز یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب دنیا کے ممالک دوسروں پر بھروسا کرنے کے بجاے اپنے اوپر بھروسا کر کے اپنے وسائل کو صحیح صحیح استعمال کرنے اور منظم کرنے کی جدوجہد کریں اور تعاون اور اشتراک کی منصفانہ شکلوں کو رواج دیں۔ جس طرح دنیا کے بہت سے ممالک میں، بشمول آج کے ترقی یافتہ مغربی ممالک، اندرونِ ملک دولت کی تقسیم اور قوت کے توازن کو حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس میں ایک درجہ کامیابی بھی حاصل ہوتی ہے، اسی طرح عالمی سطح پر ایک متوازن اور منصفانہ نظام کا قیام ممکن ہے، بشرطیکہ اس کے لیے صحیح طریقے پر مسلسل جدوجہد ہو۔
مسلم ملّت کے لیے خطوطِ کار
اس ایجنڈے کو عالمی سطح پر محض پیش کرنا مطلوب نہیں۔ اس ایجنڈے پر دنیا کو لانا اسی وقت ممکن ہوگا جب مسلمان ممالک خود اپنے گھر کو درست کریں اور اس کا آغاز خود احتسابی سے کریں۔
آج جو کچھ ہو رہا ہے، اسے ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونا چاہیے۔ جو افراد یا ملک یہ سمجھتے تھے کہ امریکا سے دوستی کے ذریعے ان کو حفاظت، عزت اور سلامتی مل جائے گی اور جو اپنی دولت اپنے ملکوں میں رکھنے کے بجاے امریکا اور یورپ میں اسے محفوظ سمجھ رہے تھے، ان کو اندازہ ہو جانا چاہیے کہ انھوں نے کیسا کمزور سہارا تھاما تھا اور کس طرح خود کو دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا۔
اس سے یہ سبق بھی حاصل کرنے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے کہ مانگے کا اجالا کبھی روشنی کی ضمانت نہیں دے سکتا۔ یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ خودانحصاری اور اپنی قوت کی تعمیر کے بغیر آپ اپنی آزادی، اپنے ایمان اور اپنی عزت کی حفاظت نہیں کرسکتے۔ مقصد کسی سے لڑنا نہیں لیکن اپنے گھر کی تعمیر اور اپنے ممالک کی مضبوطی اور دوسروں پر محتاجی سے نجات، قومی سلامتی کے لیے ازبس ضروری ہے۔
اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ مسلم ممالک میں خود اپنے عوام پر اعتماد کی فضا پیدا کی جائے۔ شخصی اور سیاسی آزادیاں حاصل ہوں، اختلاف کو برداشت کیا جائے، اور معیشت اور سیاست پر چند خاندانوں کی اجارہ داری کو ختم کیا جائے، کہ اسی میں اصحابِ اقتدار کے لیے بھی خیر ہے اور مسلم عوام کے لیے بھی۔
کسی بھی قوم کی ترقی کے لیے جہاں نظریہ اور قومی تشخص ضروری ہے وہیں سیاسی، معاشی اور اداراتی نظام کا ایسا آہنگ درکار ہے، جس میں سب کی شرکت ہو، عوام اور حکمرانوں کے درمیان کش مکش کے بجاے تعاون اور اشتراک کا رشتہ قائم ہو۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرف ان الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے: ’’تمھارے بہترین حکمران وہ ہیں جن سے تم محبت کرتے ہو اور جو تم سے محبت کرتے ہیں، اور بدترین حکمران وہ ہیں جن سے تم نفرت کرتے ہو اور جو تم سے نفرت کرتے ہیں‘‘۔ (مسلم، کتاب الامارۃ، حدیث: 35-36)
پھر اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ آزادی اور اشتراک کے ساتھ تعلیم، زندگی کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی، روزگار کے مواقع اور دولت کی منصفانہ تقسیم کو ملکی پالیسی میں مرکزیت کا مقام حاصل ہو۔ وقت کی ٹکنالوجی کو حاصل کیا جائے اور ایجاد و اختراع اور تحقیق و تفتیش کے ذریعے علم اور سائنس پر عبور حاصل کیا جائے۔ نیز معیشت اور ٹکنالوجی کے میدانوں میں بھی خودانحصاری کی پالیسی اختیار کی جائے۔
عالمی طاقتوں کے دباؤ سے نکلنے کے لیے خود انحصاری کی جانب گام زن ہونے کا مطلب دنیا سے الگ تھلگ ہونا نہیں ہے۔ اس کے صرف یہ معنی ہیں کہ ہمیں وسائل پر اتنی دسترس حاصل ہو کہ ہم اپنی پالیسیاں، اپنے مقاصد اور اہداف کے مطابق خود طے کرسکیں، اور دوسروں کی ایسی محتاجی نہ ہو کہ وہ ہماری پالیسی پراثرانداز ہوسکیں۔ دنیا کے تمام ممالک سے تعاون اور تجارت سب کے لیے اسی وقت بہتری کا باعث ہوسکتے ہیں، جب خودانحصاری کے ساتھ یہ تعاون ہو ورنہ یہی بین الاقوامی رشتے اور معاملات ظلم اور استحصال کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔
مسلمان ممالک کی تعمیر و ترقی میں یہ بات بھی سامنے رہے کہ یہ امت ، ’امتِ وسط‘ ہے جس کا کام دنیا کے سامنے خدا کے پیغام کی شہادت دینا ہے اور جو انصاف کے فروغ اور نیکیوں کی ترویج اور برائیوں سے نجات کی داعی ہے۔ اس امت میں اگر تشدد کی سیاست دَر آئی ہے تو یہ اس کے مشن اور مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی اور یہ اس کے اصل کردار پر ایک بدنما دھبّا ہے۔ انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی، اسلام: تشدد، زور زبردستی اور اکراہ کا مخالف ہے اور محبت، بھائی چارے، رواداری اور تعاون و اشتراک کو فروغ دینا چاہتا ہے۔
جہاد کا مقصد انصاف کا قیام اور تمام انسانوں کے لیے آزادی، عزت اور عدل کی ضمانت ہے۔ جہاد اپنی تمام صورتوں میں___یعنی نفس کے ساتھ جہاد، زبان اور قلم سے جہاد، مال سے جہاد اور جان سے جہاد___ واضح اخلاقی حدود اور مقاصد کا پابند ہے۔ ہرسطح پر اس کے تصور، تعلیم اور تبلیغ کی ضرورت ہے تاکہ جہاد کا صحیح فہم و ادراک ہو اور اس کی نعمتوں سے مسلمان اور غیرمسلم سب فیض یاب ہوسکیں۔ یوں تو جہاد کے اس تصور کا فہم اور احترام ہر دور میں ضروری تھا مگر آج جب جہاد کو بدنام کرنے کی کوشش ہورہی ہے اور اسے تشدد اور دہشت گردی کے مترادف قرار دیا جارہا ہے، اس وقت جہاد کی تفہیم اور جہاد کے آداب کے مکمل احترام کی ضرورت ہمیشہ سے زیادہ ہے۔ جہاد اسلام کی ابدی تعلیم اور اس کا رکن رکین ہے۔ اس کا یہ کردار سب سے پہلے خود مسلمانوں کے سامنے واضح ہونا چاہیے تاکہ غیرمسلم بھی اس کی گواہی دے سکیں۔
عصرِحاضر میں اسلامی تحریکات کی خدمات میں سے ایک نمایاں خدمت یہ ہے کہ ایک طرف اس نے جہاد اور روحِ جہاد کے احیا کا کارنامہ انجام دیا ہے، تو دوسری طرف جہاد کے مقاصد، آداب اور ضابطۂ کار کی وضاحت اور احترام کر کے اس کے اصل کردار پر توجہ مرکوز کی ہے اور مسلمانوں کو اس کا پابند بنانے کی کوشش کی ہے۔
مسلم ممالک کے درمیان معاشی، سیاسی، تعلیمی، ٹکنالوجی اور میڈیا کے میدانوں میں قریب ترین تعاون بلکہ اتحاد اور الحاق کی ضرورت ہے، جو نظریے اور تاریخ کے اشتراک کے ساتھ مفادات کے اشتراک اور سیاسی اور معاشی حوالوں سے باہمی تعاون اور احترام کی محکم بنیادوں پر استوار ہونا چاہیے۔ یہ ایسی ضرورت ہے، جسے مؤخر نہیں کیا جاسکتا۔ اس نظام میں تنازعات کے تصفیے کا بھی مناسب انتظام ہونا چاہیے، تاکہ حقیقت پسندی سے اتحاد کو مستحکم کیا جاسکے۔ عالمی سطح پر مسلم نقطۂ نظر کو پیش کرنے کے لیے میڈیا کی مؤثر ترقی و تنظیم بھی ضروری ہے۔
اسلام کے عالمی کردار کی مؤثر ادائی اسی وقت ممکن ہے جب تمام مسلمان ملک اور امت مسلمہ ان خطوط پر اپنی اجتماعی زندگی کی تشکیل کرے۔ ’امتِ وسط‘ کی حیثیت سے اللہ کی بندگی اور انسانوں کے لیے انصاف اور فلاح کے نظام کی داعی کی حیثیت سے اپنے گھر کی تعمیر کرے اور دنیا کے سامنے اس کا نمونہ پیش کرے۔
پاکستان کا خصوصی کردار
وقت کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان اور اہلِ پاکستان پر بھی ایک بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ہمارے اندرونی معاملات میں بیرونی قوتوں کی چھپی اور کھلی دراندازیاں مشکلات میں اضافے اور آزادی کے لیے خطرات کا باعث ہیں۔ ان حالات کا تقاضا ہے کہ تصادم، عدم مشاورت اور وقت گزاری کی پالیسی ترک کرکے ایک ایسی پالیسی اپنائی جائے، جس میں پاکستان، اس کے نظریے اور قوم کی سلامتی اور ترقی کو یقینی بنایا جاسکے۔ اس کے لیے درج ذیل امور فوری توجہ کے طالب ہیں:
1۔ اللہ سے وفاداری اور اس پر بھروسے کو سب چیزوں پر اولیت دی جائے۔ اللہ کی طرف رجوع ہو اوراپنی غلطیوں اور کمزوریوں کا اپنے مالک کے حضور اعتراف کرکے اس سے طاقت اور رہنمائی طلب کی جائے۔ پوری قوم اور اس کی قیادت اپنے خالق و مالک کا دامنِ رحمت تھامے اور اس سے مدد مانگے۔
2۔ عوام پر اعتماد کیا جائے اور ان کو اعتمادمیں لیا جائے اور مؤثر طور پر ان کو قومی سلامتی، ترقی اور تعمیرنو کے لیے متحرک کیا جائے۔
3۔ ایسی نظریاتی کش مکش اور لاحاصل بحث سے بچا جائے جس میں مغربی میڈیا اور دانش ور ہمیں مبتلا کردینا چاہتے ہیں۔ ’بنیاد پرستی‘، ’انتہاپرستی‘ اور ’فرقہ پرستی‘ ہمارے مسائل نہیں۔ جدید اور قدیم کی بحثیں بھی بہت پرانی باتیں ہیں اور ہم ان سے گزر چکے ہیں۔ اسلام کی بنیادی تعلیمات بہت صاف اور واضح ہیں۔ اسلام ایک مکمل نظامِ زندگی ہے جو بنیادی اخلاقی اقدار کی روشنی میں انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تشکیل کرتا ہے۔ سیکولرزم ایک مردہ گھوڑا ہے، اس پر سواری کے خواب دیکھنا ایک حماقت ہے۔ پاکستان کے دستور نے جن تین بنیادوں کو واضح طور پر پیش کر دیا ہے، یعنی: اسلام، جمہوریت اور وفاقی طرزِحکومت انھیں متفق علیہ بنیاد بناکر قومی پالیسی کی تشکیل کی جائے اور ان طے شدہ امور کو ازسرِنو زیربحث لانے کی جسارت نہ کی جائے۔ اسلام اعتدال کا دین ہے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد، دونوں برابر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ضرورت اس پر عمل کی ہے۔ ہمارا ایجنڈا، ہماری تحریکِ آزادی اور ہماری قراردادِ مقاصد، ہمارے دستور میں طے ہے۔ اسے مضبوطی سے تھام لیجیے۔
4۔ ملک کی دفاعی قوت کی حفاظت کو اولیت حاصل ہے۔ اس خطے میں امریکی فوجوں کی موجودگی پاکستان کے لیے ایک خطرہ ہے۔ اسی طرح بھارت کے عزائم کا ادراک اور مقابلے کے لیے فوج اور قوم میں ہم آہنگی اور دونوں کا متحرک و فعال ہونا ضروری ہے۔
5۔ پاکستان اور اسلامی دنیا میں ایسی معاشرتی ترقی کا حصول جو ملکی پیداوار اور پیداآوری صلاحیت میں ہمہ افزوں اضافے کا باعث ہو، ترقی کی رفتار میں نمایاں اضافہ کیا جائے، تاکہ ملک کی مارکیٹ وسیع تر ہو۔ جدید ٹکنالوجی کا حصول اور ترقی جس کا لازمی جزو ہو۔ معاشی انصاف اور دولت کی منصفانہ تقسیم جس کا مرکزی ہدف ہو اور جس کا مطلوب معاشی ترقی کے ساتھ عدلِ اجتماعی کا قیام اور خود انحصاری کا حصول ہو۔ عسکری قوت کے ساتھ معاشی قوت کا حصول بھی باعزت زندگی کے لیے لازمی شرط ہے۔
6۔ جموں و کشمیر میں بھارتی افواج کی بہیمانہ سرگرمیوں کی مذمت کرنے اور مظلوم کشمیری مسلمانوں کے حقِ خود ارادیت کے بارے میں مکمل یکسوئی اور مضبوط و متحرک موقف پر عمل درآمد کی راہوں پر چلنے کی ضرورت ہے۔ حکومتِ پاکستان کو کشمیر کمیٹی کی ازسرِنو تشکیل کرکے، دنیا بھر کے سامنے کشمیر کے مقدمے کو پوری قوت سے پیش کرنا چاہیے۔
7۔ افغانستان میں بدامنی کی فضا کو قائم رکھنا امریکا اور بھارت کی ضرورت ہے، تاکہ وہاں ان کی موجودگی کا کوئی نہ کوئی جواز پیش کیا جاسکے۔ اس ضمن میں چین اور روس کے ساتھ مل کر وہاں امن قائم کرنے کی جو کوششیں ہورہی ہیں، انھیں تیز تر کیا جائے اور کابل میں محدود انتظامیہ کو افغانستان کی نمایندہ قوت تصور کرنے کے بجاے وہاں کی اصل قوت کے مراکز کو شریکِ مشورہ کیا جائے۔ دین، تاریخ اور مشترک مفادات کی بنیاد پر امن اور باہمی تعاون کو فروغ دیا جائے۔
8۔ فلسطین پر مغربی اقوام کی زیرسرپرستی صہیونی سلطنت کے ناجائز وجود کو ختم کیا جائے اور اعلانِ بالفور کے بعد ایک سو سال سے مسلط کردہ جبری خوں ریزی کا خاتمہ کیا جائے۔
9۔ مسلم ممالک بالخصوص عرب ممالک سے تعلقات میں گہرائی پیدا کی جائے اور مشترکہ حکمتِ عملی کی ضرورت و اہمیت کو اْجاگر کیا جائے۔
10۔ ایران اور وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ مشترک مفادات میں باہم تعاون کو بڑھایا جائے۔
ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ایک جانب یہ امور حکومتِ پاکستان کے مثبت اور مؤثر کردار کا تقاضا کرتے ہیں تو دوسری جانب وطن عزیز کے اہلِ دانش اور ماہرین کو بھی حق کی گواہی اور وقت کے چیلنج کا جواب دینے کے لیے پکارتے ہیں۔

(جاری ہے)

حصہ