پاکستان کے ایٹمی پروگرام

224

پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر اپنی برہمی کا اظہار بھی امریکا اسی ذہنیت سے کرتا آیا ہے۔ پاکستان کی سفیر سیّدہ عابدہ حسین سے جو گفتگو جنرل پاول نے کی تھی، وہ نوٹ کرنے کے لائق ہے۔ امریکا سے شائع شدہ کتاب Between Jihad and Salaam میں جوائس ڈیوس نے عابدہ حسین کا انٹرویو شامل کیا ہے، جس میں انہوں نے بتایا:
جنرل پاول نے مجھ سے پوچھا: ’’امریکی اعتراضات اور مالی امداد ختم کردینے کے باوجود پاکستان کو اپنے جوہری پروگرام پر اتنا اصرار کیوں ہے؟ آپ یہ بات جانتی ہیں کہ یہ بم آپ استعمال نہیں کرسکتی ہیں تو اس کے باوجود آپ انہیں کیوں رکھنا چاہتی ہیں؟‘‘
میں نے کہا: ’’جنرل، آپ کیوں ایٹم بم رکھتے ہیں؟‘‘
جنرل پاول نے کہا: ’’ہم کم کررہے ہیں‘‘۔
میں نے پوچھا: ’’کتنے سے کتنے، جنرل؟‘‘
پاول نے جواب دیا: ’’چھے ہزار سے دو ہزار‘‘۔
میں نے کہا: ’’جنرل، آپ دو ہزار بم رکھیں گے اور چاہتے ہیں کہ ہمارے جو چند بُرے بھلے زمین میں پوشیدہ ہیں، ہم ان سے بھی فارغ ہوجائیں۔ آپ تو ہم سے خودکشی کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ ہم ایک جوہری ریاست کے پڑوس میں رہتے ہیں۔ کیا اگر کینیڈا اور میکسیکو کے پاس بم ہوں تو آپ اپنے بم ختم کردیں گے؟ کیا آپ ایسا کریں گے؟‘‘
جنرل پاول نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا: ’’دیکھیے سفیرصاحبہ، میں اخلاقیات کی بات نہیں کررہا ہوں، میں آپ سے صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ ہم ریاست ہائے متحدہ امریکا ہیں اور آپ پاکستان ہیں‘‘۔
میں نے کہا: جنرل، آپ کا شکریہ کہ آپ نے صاف صاف بات کی ہے‘‘۔
اپنے اقتدار اور قوت کے نشے میں بدمست ہونا، دوسروں کو خاطر میں نہ لانا، ہرکسی کو اپنے مقابلے میں حقیر سمجھنا اور خودپسندی، تکبر اور زعم میں مبتلا ہوکر دوسروں کی تضحیک کرنا، انسان اور اقوام کے وقار کو بڑھاتا نہیں، کم کرتا ہے۔
امریکا کی خام خیالی
ایسی ہی ذہنیت، ان عزائم اور ایسے مطالبات کے ساتھ امریکا دنیا میں جمہوریت کا علَم بردار، حقوقِ انسانی کا محافظ، قانون کی مساوات اور پاس داری کا داعی اور انصاف کا پرچارک ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔۔۔ اور اس کی حکمتِ عملی کا ہدف یہ ہے کہ پوری دنیا کو امریکا کے وژن اور اقدار کو قبول کرلینا چاہیے۔ یہی دراصل سامراجیت کی روح ہے، جس کی بنا پر امریکا اور باقی دنیا کے درمیان اجنبیت، فاصلہ اور تلخی پیدا ہورہی ہے۔
امریکا کی ٹفٹس یونی ورسٹی میں علمِ سیاسیات کے پروفیسر ٹونی اسمتھ نے ایتھکس اینڈ انٹرنیشنل افیئرز میں 16 برس پیش تر اپنے مضمون میں متنبہ کیا تھا کہ نہ امریکا کی طاقت غیرمحدود ہے اور نہ اسے یہ حق حاصل ہے کہ اپنے نظام اور اقدار کو دوسروں پر مسلط کرے، کیوں کہ یہ لبرل امپریلزم ہی کی ایک شکل ہے، جس کا موجودہ زمانے میں کوئی جواز نہیں:
امریکی طرزِ حیات، اقدار اور اداروں کو دنیا کی دوسری اقوام میں روبہ عمل لانے کی کوشش میں ناکامی کا اندیشہ ہے۔ اس لیے نہیں کہ امریکی طاقت محدود ہے، بلکہ اس لیے کہ بڑے پیمانے پر اس کا استعمال بھی ان عقائد اور طریقوں میں اصلاح نہ کرسکے گا، جو بنیادی طور پر امریکی طریقۂ کار کے مخالف ہیں۔ چین، مسلم دنیا یا روس کا امریکی مطالبوں کے آگے سپر ڈالنے کے لیے آمادہ ہونا بعید از امکان ہے۔ (Ethics & International Affairs ، ج 14، ص 20، مئی 2001 )
بلکہ اس سے بھی پہلے معروف امریکی مفکر والٹرلپ مین نے بڑی پتے کی بات کہی تھی:
جب ایک قوم ساری دنیا کے نظام کو یک ساں شکل دینے کی ذمے داری خود سنبھال لیتی ہے تو اس طرح دراصل وہ دوسروں کو اپنے خلاف متحد ہونے کی دعوت دیتی ہے۔ ایک ایسی دنیا میں، جہاں اس بات کا امکان ہے کہ جوہری اسلحہ وسیع پیمانے پر تشکیل پائے، یہ چیز کسی بھی صورت میں امریکی عوام کی قومی سلامتی کے لیے کوئی خوش کُن راستہ نہیں ہوگا۔(رچرڈ بارنیٹ،Intervention and Revolution، 1968، ص 316)
رچرڈ بارنیٹ نے اپنی کتاب اس جملے پر ختم کی ہے:
اگرچہ امریکا اپنی موجودہ عظیم طاقت کو دنیا میں ایک ایسا ماحول پیدا کرنے کے لیے استعمال کرسکتا ہے، مگر اس کے برعکس جب تک امریکی یہ خام خیالی نہ چھوڑ دیں گے کہ دنیا بھر میں تبدیلی لانا ان کا حق اور فرض ہے، اس وقت تک خود امریکیوں کو بھی امن نصیب نہیں ہوسکے گا۔ (ایضاً، ص 332)
جمہوریت کا نام، شہنشاہیت پہ اصرار
ہم سمجھتے ہیں کہ امریکا پر بے اعتمادی اور اس کی مخالفت کا پہلا اور سب سے اہم سبب دنیا کے ممالک میں کوئی خرابی یا مرض نہیں بلکہ امریکا کا یہی زعمِ باطل ہے کہ: ’’وہ واحد سپر پاور ہے اور ہمیشہ سپر پاور ہی رہے گا۔ اس کا حق ہے کہ دنیا اس کے سامنے جُھکے اور اس کی بالادستی قبول کرے‘‘۔
زمینی حقائق کے مطابق دنیا اسے ایک بڑی طاقت تو تسلیم کرے گی، مگر اس کے آگے سجدہ ریز ہونے کے لیے کبھی تیار نہ ہوگی۔ وہ اس سے دوستی کا تعلق بخوشی رکھے گی، مگر غلامی اور چاکری کا مقام کبھی قبول نہیں کرے گی۔ اگر امریکی حکومتیں تھوڑی سی حقیقت پسندی قبول کرلیں اور بالادستی اور شہنشاہی کی حکمتِ عملی کو ترک کرکے تکبّر اور رعونت کے راستے کو چھوڑدیں، تو دنیا ان کے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی ایک بہتر جگہ بن سکتی ہے، اور ان کے عزّت و وقار میں اضافہ ہوگا۔
امریکا سے دنیا کی بے زاری کے اسباب کو سمجھنے کے لیے امریکا کو خود اپنے رویّے اور اپنے وعدوں اور عمل کے فرق پر غور کرنا ہوگا۔ اکیسویں صدی کے بالکل آغاز میں ایک چشم کشا کتاب Blowback: The Costs and Consequences of American Empire
2000 میں شائع ہوئی تھی (’’بلوبیک‘‘ سی آئی اے کی اصطلاح ہے، جس کا مفہوم امریکی عوام کی لاعلمی میں کیے جانے والے اقدامات کا ردّعمل ہے۔ اس کا ترجمہ ’’مکافات‘‘ بھی کیا جاسکتا ہے)۔ تب اس کے مصنف کالمیر جانسن، یونی ورسٹی آف کیلی فورنیا، سان ڈیاگو (امریکا) کے پروفیسر تھے۔ یہ کتاب امریکا اور برطانیہ سے بہ یک وقت شائع ہوئی تھی۔ مصنف نے امریکا کو اپنے رویّے پر غور کرنے کی دعوت دی تھی اور قریباً وہی بات کہی، جو باقی دنیا کے سوچنے سمجھنے والے عناصر کی زبان پر ہے:
مجھے یقین ہے کہ غیرمتعلق اسلحے کے سسٹم پر ہمارے وسائل کا غیرمعمولی ضیاع، عسکری ’’حادثوں‘‘ کا مسلسل جاری رہنا اور امریکی سفارت خانوں اور چوکیوں پر دہشت گرد حملے، 21 صدی میں امریکا کی غیر رسمی سلطنت کے لیے بحران پیدا کرنے والے بنیادی عناصر ہیں۔ امریکا، ایک ایسی سلطنت، جو دنیا کے ہرحصے پر فوجی طاقت کے دباؤ اور اپنی شرائط، مگر دوسروں کی قیمت پر امریکی سرمایے اور منڈی کو استعمال کرکے عالمی اقتصادی اتحاد قائم کرنا چاہتی ہے۔ ہم نے اپنے آپ کو ضمیر کی ہر ایسی خلش سے بھی آزاد کرلیا ہے، کہ ہم اس دنیا کے دوسرے لوگوں کو کتنے بُرے نظر آرہے ہیں۔ بیش تر امریکی غالباً جانتے ہی نہیں ہیں کہ واشنگٹن، دنیا کی اقوام پر کس طرح اپنی بالادستی استعمال کرتا ہے، کیوں کہ اس سرگرمی کا کافی حصہ خفیہ یا دوسرے حیلوں بہانوں کے پردے میں انجام پاتا ہے۔ اس حوالے سے بہت سوں کو یہ یقین کرنے میں دقّت پیش آئے گی کہ دنیا میں ہماری حیثیت ایک عالمی سلطنت کی سی ہوگئی ہے، لیکن جب ہم کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا ملک خود اپنی بنائی ہوئی سلطنت کا اسیر ہوگیا ہے تو ہمارے لیے دنیا کے بہت سے واقعات کی تشریح کرنا ممکن نہیں رہتا۔۔۔ سوچنا چاہیے کہ انسانی حقوق، جوہری پھیلاؤ، دہشت گردی اور ماحول کے بارے میں غیرملکیوں کو امریکی پالیسیاں تضاد کا شکار کیوں نظر آتی ہیں؟ (کالمیر جانسن، حوالۂ مذکورہ، ص 7-8)
اُمتِ مسلمہ کو درپیش چیلنج
امریکا اور امریکیت کے اس عالمی روپ کو سامنے رکھتے ہوئے امت مسلمہ اور پاکستان کو یہ امور مدنظر رکھنے چاہییں:
امریکا اور مغربی اقوام آج خواہ کتنی ہی قوی کیوں نہ ہوں، ان کی موجودہ بالادستی اور وسائل پر غلبے اور دسترس کا اِدراک کرنے کے ساتھ، اس عزم کا اعادہ بھی ضروری ہے کہ مسلمان اپنا جداگانہ تشخص رکھتے ہیں۔ ان کی منزل اپنی آزادی اور اپنی تہذیب کی ترقی اور فروغ ہے، جو دوسروں کی غلامی یا بالادستی کے تحت جائے پناہ پر قناعت سے حاصل نہیں ہوسکتی۔ اگر امریکا کا ایک بڑی مادی قوت ہونا ایک حقیقت ہے، تو مسلم امت کے ایک ارب 30 کروڑ نفوس بھی ایک حقیقت ہیں، جنہیں نہ نظر انداز کیا جاسکتا ہے اور نہ محض طاقت سے غلام بنایا جاسکتا ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ تصادم سے پہلو بچاتے ہوئے اپنے گھر کی اصلاح، دینی و دنیوی علم میں پختگی، اپنے داخلی اتحاد کا حصول، اپنے وسائل کی ترقی اور اپنی قوت کا استحکام ہمارا بنیادی ہدف ہو۔ اس کے لیے اپنے ایمان، اپنے دین اور اپنے نظریے پر مضبوطی سے قائم رہنا، وقت کے چیلنج کو سمجھنا اور اپنی بنیادوں کو استوار کرکے اس کا مقابلہ کرنے کی تیاری ہی ہماری فکروسعی کا محور ہونا چاہیے۔
(جاری ہے)

حصہ