(چھڑی نے زندگی سدھار دی(سید ارشاد وارث

256

بات بہت پرانی ہے مگر مدتوں بعد آج بھی یاد ہے۔ یہ میرے بچپن کے دوست سعید احمد کی کہانی ہے۔ 1944ء میں ہم ہندوستان میں دہلی کے قریب شہر کرنال میں رہتے تھے۔ سعید میرا ہم عمر تھا، ہم چوتھی جماعت سے آٹھویں جماعت تک اکٹھے پڑھے، اکٹھے اسکول آتے جاتے تھے، ایک ہی محلے میں رہتے تھے، ہمارے گھر بھی برابر برابر تھے، اس وقت ہماری عمر کوئی بارہ سال کی ہوگی۔
سعید احمد میں بہت خوبیاں تھیں۔- اچھا دوست تھا، فراخ دل تھا، استادوں اور بڑوں کی عزت کرتا تھا۔ ہم چار دوست تھے، ہم میں سے تین کو ایک آنہ روزانہ جیب خرچ ملتا تھا مگر سعید کو چار آنے ملتے تھے۔ اسکول میں جب ریسیں ہوتی تھی تو سب کھانے پینے کے ٹھیلوں اور چھابڑی والوں کی طرف بھاگتے۔ سعید احمد پہلے اپنے چار آنے خرچ کرتا تھا، پھر ہمارا نمبر آتا تھا۔ اکثر ہر روز ہم میں سے کسی ایک دو کی اکنی بچ جاتی جو ہم سعید کے پاس جمع کروا دیتے تھے۔ اس طرح جو پیسے اکٹھے ہوتے تھے وہ پھر کسی میلے میں خرچ کرتے تھے۔ وہ پکا نمازی تھا، عصر کے بعد قرآن شریف کے درس میں بھی وہ ہمارے ساتھ ہوتا تھا۔ اس کی قرأت بہت خوبصورت تھی، بہت ذہین تھا، ہم سے زیادہ آیاتِ قرآنی اس کو حفظ تھیں، بہت خوش الحان تھا۔ جب بھی ہمارے محلے میں کوئی میلاد ہوتا تھا تو اس کو خاص طور پر نعت خوانی کے لیے بلایا جاتا تھا اور انعام کے طور پر اس کو کبھی اٹھنی اور کبھی روپیہ مل جاتا تھا جو وہ ہم سب کے ساتھ مل کر خرچ کرتا تھا۔ جب وہ مغرب کی نماز پڑھ کر نکلتا تھا تو مسجد سے باہر کھڑی ہندو عورتوں کی گود میں بیمار بچوں کو اچھل اچھل کر پھونکیں مار کر دم کرتا تھا۔
یہ سب جو میں نے کہا یہ اُس کی خوبیاں تھیں، مگر اس کا دوسرا رخ یہ تھا کہ بہت ہی کھلنڈرا تھا۔ سوائے پڑھائی کے اس کے دوسرے بہت قسم کے شوق تھے۔ مثلاً کبوتر بازی، کبوتروں کی ٹکڑیوں کے مقابلے دیکھنا، پتنگ بازی، مرغوں اور تیتروں کی لڑائی کے مقابلے دیکھنا، بلبلیں پکڑنا، پرندے پالنا، گلی ڈنڈا کھیلنا، فٹ بال کھیلنا، کہانیوں کی کتابیں پڑھنا، اسکول میں ہولڈر کی نبس (Nibs) لڑانا، کنچے کھیلنا، کوڈی کوڈی کھیلنا وغیرہ وغیرہ۔
اس کی اماں تو بچاری بہت سیدھی سادی تھیں۔ پیار سے اس کو سمجھاتی رہتی تھیں کہ وہ پڑھائی کی طرف توجہ دے۔ مگر اس کے ابا اس سے بہت ناراض رہتے تھے، بہت ڈانٹ ڈپٹ بھی ہوتی رہتی تھی، مگر اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔
ایک دن میں اس کے گھر اس کے پاس بیٹھا تھا۔ اس کے ابا دفتر سے آئے اور میرے سامنے انہوں نے کہا ’’آج تمہارے ہیڈ ماسٹر شیخ محمد اسماعیل ملے تھے، انہوں نے بتایا کہ نوماہی کے امتحان میں تمام مضامین میں تمہاری حالت خراب تھی، بس تم فیل ہوتے ہوتے بچے، اور اگر یہی صورت رہی تو آٹھویں کے سالانہ امتحان میں تمہارا پاس ہونا بھی مشکل ہے۔ وہ بورڈ کا امتحان ہوگا۔ تم پر کہنے سننے کا تو کوئی اثر نہیں ہوتا، اب آج سے میں خود تم کو پڑھاؤں گا اور تم وہ کرو گے جو میں کہوں گا، اور یہ جو تمہارے فضول شوق ہیں ان سب کو بند کرو۔‘‘
دوسرے دن مہینے کا پہلا اتوار تھا۔ اس دن سعید احمد کے والد اور دوستوں کے ساتھ سائیکلوں پر شہر سے باہر منڈی سے مہینے بھر کا پرچون کا سامان لاتے تھے جو وہاں شہر سے سستا بھی پڑتا اور ان لوگوں کی سیر بھی ہوجاتی تھی۔
اتوار کی صبح کو منڈی جانے سے پہلے ابا نے اس کو کچھ کام بتایا اور کہا ’’آج تم کہیں نہیں جاؤ گے، کام کرنے کے بعد بھی گھر پر رہو گے۔‘‘ جب میں اتوار کی صبح اس کے ہاں گیا تو وہ صحن میں چارپائی پر کتابوں کاپیوں کا ڈھیر لگائے پڑھ رہا تھا، اس نے مجھ سے کہا ’’تم جاؤ، آج میں کہیں نہیں جاؤں گا۔ ابا نے کچھ کام دیا ہے۔‘‘ میرے جانے کے بعد وہ پڑھائی میں مصروف تھا، اس نے ایسے ہی اوپر آسمان کی طرف دیکھا تو اس کو ایک بھٹکا ہوا اکیلا کبوتر نظر آیا۔ بس فوراً ہی پڑھائی چھوڑ چھاڑ کر وہ بھاگتا ہوا کوٹھے پر گیا، اپنے کبوتروں کو پھڑکایا اور کچھ کو اڑایا جو گھیر کر اس تھکے ہوئے کبوتر کو لے آئے۔ سعید احمد نے فوراً ہی اس کو چھپکا مار کر پکڑ لیا اور اس کے پر قینچ کرکے اس کو دانہ پانی کھانے کے لیے چھوڑ دیا۔
جب وہ کوٹھے سے نیچے آیا تو دیکھا کہ اس کے ابا بیٹھے ہیں۔ ہوا یہ کہ کسی وجہ سے منڈی جانے کا پروگرام منسوخ ہوگیا اور وہ واپس آگئے۔
ابا نے اس کو کچھ نہیں کہا بس صرف اتنا کہا ’’میرے ساتھ آؤ‘‘۔ سعید ان کے ساتھ چل پڑا۔ رستے میں ابا نے کوئی بات نہیں کی، یہاں تک کہ وہ حافظ جی ٹیلر ماسٹر کی دکان پر پہنچ گئے۔ حافظ جی ہیڈ ماسٹر صاحب کے چھوٹے بھائی تھے اور شہر کے مشہور ٹیلر تھے۔ ان کے پاس ہر وقت 15، 20 لڑکے کام کرتے تھے۔
جیسے ہی حافظ جی نے ابا کو دیکھا وہ اپنی کرسی سے کھڑے ہوگئے اور دونوں ہاتھوں سے بڑی گرم جوشی کے ساتھ مصافحہ کیا اور کہا:
’’شاہ صاحب یہ تو میری بڑی عزت ہے کہ آپ میری دکان پر آئے، اگر آپ کو کوئی کام تھا تو مجھے اطلاع کردیتے، میں خود حاضر ہوجاتا۔ بہرحال تشریف رکھیے۔‘‘
جب بیٹھ گئے تو ابا نے کہا: ’’حافظ جی یہ میرا بیٹا سعید احمد ہے، اس میں بہت خوبیاں ہیں مگر پڑھائی میں اس کا دل نہیں لگتا، میں سمجھا سمجھا کر تھک گیا ہوں، آپ کے بھائی اسماعیل صاحب نے مجھے بتایا کہ آٹھویں کے بورڈ کے سالانہ امتحان میں اس کے پاس ہونے کا بھی امکان نہیں۔ اب حافظ صاحب میں اس کو آپ کے سپرد کرنے آیا ہوں، میں کبھی آپ کا احسان نہیں بھولوں گا بس آپ اس کو اپنی شاگردی میں لے لیں اور اس کو اس قابل کردیں کہ یہ عزت سے اپنی روزی کما سکے۔‘‘
حافظ جی سنتے رہے، کچھ دیر خاموش رہے اور پھر بولے: ’’شاہ صاحب! جب آپ نے مجھ پر اتنی ذمہ داری ڈالی ہے تو میں اس پر پوری توجہ دوں گا اور آپ کے بیٹے کو وہ سب خود سکھاؤں گا جو میں جانتا ہوں، مگر شاہ صاحب! میں سخت استاد ہوں، میں کوتاہی اور نالائقی کو برداشت نہیں کرتا، بڑے بڑے ٹیڑھے لڑکوں کو میں سیدھا کردیتا ہوں، یا تو وہ کاریگر ہوجاتے ہیں یا پھر اس کام سے ہمیشہ کے لیے بھاگ جاتے ہیں۔ جب آپ کا بیٹا جاکر کہے گا کہ میں بہت ظالم ہوں، سخت ہوں، مارتا ہوں تو پھر آپ شکایت لے کر میرے پاس مت آنا۔‘‘
ابا نے کہا:’’حافظ جی! میں نے اپنے بیٹے کو آپ کے سپرد کیا۔ اچھا خدا حافظ۔‘‘
ابا، سعید کی طرف دیکھے بغیر دکان سے چلے گئے۔ ابا کے جاتے ہی حافظ جی بالکل بدل گئے۔ انہوں نے سعید کی طرف دیکھ کر کہا: ’’اوئے سعید اِدھر آ، تیرے ابا کی میں بہت عزت کرتا ہوں، وہ تجھے میرے سپرد کرکے گئے ہیں۔ اب تُو وہ کرے گا جو میں کہوں گا، میں نے تجھے بندہ بنا دینا ہے، کوئی لحاظ نہیں کروں گا اور اس چھڑی کو بھی دیکھ لے، جیسے سب لڑکے ہیں ایسا ہی تُو ہے۔‘‘
پھر حافظ جی نے ایک لڑکے کو بلا کر کہا: ’’لے جا اس کو اور کاج بنانے سے شروع کر۔‘‘ اس لڑکے نے سعید کو کمرے کے ایک کونے میں بٹھا دیا اور بتایا کہ کاج کیسے بنایا جاتا ہے۔ سعید خاموشی سے بیٹھ گیا اور کاج بنانے لگا۔ وہ گردن جھکائے کام کرتا رہا، حافظ جی کے ہاتھ میں کھجور کی چھڑی تھی اور وہ کمرے میں اِدھر اُدھر پھر رہے تھے کہ اچانک انہوں نے زور سے چھڑی ایک لڑکے کی کمر پر ماری۔ لڑکے کی ’’ہائے‘‘ کی آواز آئی اور ساتھ ہی حافظ جی نے کہا: ’’تُو لائن نہیں دیکھ رہا اور غلط قینچی چلا دی۔ اب اس کپڑے کی قیمت کیا تیرا باپ دے گا اُلّو کے پٹھے۔‘‘ اس کے بعد دو تین اور لڑکوں کے چھڑی لگی۔ ایک بجے کام بند ہوگیا۔ حافظ جی نے سعید کو بلا کر کہا: ’’اب اپنے گھر جا، نماز پڑھ اور روٹی کھا کر تین بجے اِدھر آجا۔ اگر نہیں آیا تو یہ چھوکرے تجھے پکڑ کر لائیں گے۔ اس شہر میں تُوکہیں چھپ نہیں سکتا، سمجھا۔ بس جا۔‘‘
سعید وہاں سے سیدھا اپنے گھر گیا۔ ماں نے روٹی دی، وہ خاموشی سے کھاتا رہا۔ اس کی ماں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ بڑے پیار سے ماں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہا: ’’بیٹا اپنے ابا کی بات مان لے۔‘‘ سعید نے کوئی جواب نہیں دیا۔ روٹی کھا کر وہ سیدھا میرے گھر آیا اور کہا: ’’چل میرے ساتھ، میں جلدی میں ہوں‘‘۔ میں نے کہا ’’کہاں چلنا ہے؟‘‘ تو بولا ’’راستے میں بتاؤں گا۔‘‘ پھر اس نے حافظ جی کے ہاں کا قصہ سنایا۔
ہمارے گھر کے پاس سڑک کے دونوں طرف ایک بہت بڑی جگہ تھی جس کو ’’سرائے‘‘ کہتے تھے، وہاں رات گزارنے کے لیے کھاٹ مل جاتی تھی، آس پاس گاؤں سے جو تانگے سواریاں لے کر شام کو آتے تھے ان کے گھوڑے تانگے رات وہیں گزارتے تھے، اور وہاں ہر قسم کے جانوروں، پرندوں اور مویشیوں کی خرید و فروخت ہوتی تھی۔ سعید نے اپنے جاننے والے کبوتر کی دکان والے سے کہا ’’میں ابھی اپنے سارے کبوتر بیچنا چاہتا ہوں، اپنے لڑکوں کو میرے ساتھ بھیجو کہ وہ لے آئیں۔‘‘ دکان کے لڑکے جال وغیرہ لے کر ساتھ ہولیے۔ سعید نے سارے کبوتر اور کابک وغیرہ جو کچھ تھا سب ان کو دے کر روانہ کردیا اور مجھ سے کہا کہ تم گھر جاؤ، اور اماں سے کہا ’’میں نے کبوتر بیچ دیے، اب وہ کروں گا جو ابا کہیں گے، میں پڑھوں گا، حافظ جی کے ہاں نہیں جاؤں گا۔‘‘ اور پھر کتابیں اٹھا کر کوٹھے پر چلا گیا۔ کوئی چار بجے حافظ جی کے دو تین لڑکے سعید کے گھر آئے، دروازے کی کنڈی کھٹکھٹائی۔ سعید کی اماں نے پوچھا ’’کون ہے؟‘‘ آواز آئی ’’خالہ جی! سعید کو باہر بھیج دو۔‘‘ اماں نے کہا ’’وہ گھر پر نہیں ہے۔‘‘ لڑکے چلے گئے۔ شام کو پانچ بجے سعید کے ابا گھر آئے، اس وقت سعید کوٹھے پر بیٹھا پڑھ رہا تھا، اس کی ماں نے اس کے ابا کو ساری بات بتائی، وہ کچھ نہ بولے۔
مغرب کی نماز کے لیے سعید مسجد میں گیا، جب وہ نماز کے بعد نکلا تو ابا نے اس کو پاس بلایا، اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور اسے بازار کی طرف لے گئے، راستے میں ابا نے کہا:
’’دیکھ بیٹا! تُو پڑھے گا تو تیرے ہی کام آئے گا، تیری عزت ہوگی اور ہم بھی خوش ہوں گے۔‘‘ باتیں کرتے کرتے وہ سعید کو لالہ آتما رام حلوائی کی دکان پر لے گئے اور تین تین گرم گلاب جامن ملائی کے ساتھ اس کو کھلائیں، خود بھی کھائیں اور کچھ گھر کے لیے لیں۔‘‘
دوسرے روز سعید نے پھر ہم سب دوستوں کو پورا قصہ سنایا۔ ہم نے پوچھا آخر ایک دن میں وہ کیسے بدل گیا؟ تو اس نے کہا ’’جب ابا مجھے حافظ جی کے پاس چھوڑ کر واپس جانے لگے تو ابا نے میری طرف دیکھا بھی نہیں، مگر مجھے ایسا لگا جیسے ابا رونے والے تھے۔ ان کی اس بات سے میرا دل بہت دکھا اور میں نے فیصلہ کرلیا کہ اب میں صرف دل لگا کر پڑھوں گا اور اپنے ابا کو مزید دکھ نہیں پہنچاؤں گا۔‘‘ اُس دن کے بعد سعید ہم سب کے ساتھ پڑھائی میں دن رات ساتھ رہا۔ جب آٹھویں کا رزلٹ آیا تو وہ کلاس میں دوسرے یا تیسرے نمبر پر تھا۔
اسی سال اس کے والد کا تبادلہ حصار کا ہوگیا، جہاں سے اس نے 1946ء میں فرسٹ ڈویژن میں میٹرک کیا اور دلی میں اس کو وائسرائے کے دفتر میں نوکری مل گئی۔ ستمبر 1947ء میں وہ سرکاری ملازم کی حیثیت سے پاکستان آگیا۔ میرا اور سعید کا خط کتابت کے ذریعے ہمیشہ رابطہ رہا، یہاں تک کہ تقسیم کے ایک سال بعد ہماری ملاقات کراچی میں ہوئی۔ دو اور پرانے دوست بھی مل گئے اور ہم سب نے پرائیویٹ پڑھ کر اپنی تعلیم مکمل کی، اور ایک وقت آیا جب سعید نے دس سال کی سرکاری ملازمت چھوڑ کر ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت کرلی اور ایک ہی سال بعد کمپنی نے اس کو جنرل منیجر بنا دیا۔
کبھی کبھی جب ہم سب پرانے دوست اکٹھے ہوتے ہیں تو سعید ایک زوردار قہقہہ لگا کر بڑے زوروشور سے کہتا ہے: ’’یار حافظ جی کی اس چھڑی کی مار تو دوسروں پر پڑی مگر اس نے میری زندگی سدھار دی۔‘‘

حصہ