کون حق بات کرے گا ۔۔۔۔۔؟(سید اقبال چشتی)

217

 ’’کل شاہ فیصل کالونی تین نمبر چورنگی پر احتجاجی مظاہرہ ہے، مظاہرے سے حسین حقانی کو خطاب کرنا ہے، کون حسین حقانی کو لائے گا اور کسی دوسرے مقام پر چھوڑے گا، کہاں سے لیا جائے گا اور کہاں چھوڑا جائے گا؟ یہ تمام باتیں راز ہی رہیں گی۔ اس بات کا خاص خیال رہے کہ حسین حقانی کو پولیس گرفتار نہ کرسکے۔‘‘ یہ بات قومی اتحاد کی تحریک چلانے والے ایک ذمے دار نے اجتماع کے آخر میں کہی۔ جب سب پلاننگ ہوگئی تو ایک کارکن عبدالقدیر، جن کے پاس موٹر بائیک تھی، کی ذمے داری لگائی گئی کہ وہ حسین حقانی کو مقررہ وقت پر مظاہرے کے مقام پر لے کر آئیں گے۔ پاکستان قومی اتحاد نے بھٹو کے خلاف زبردست تحریک شروع کی ہوئی تھی، اس احتجاجی تحریک میں مظاہروں سے خطاب کے لیے حسین حقانی اچانک نمودار ہوتے اور مظاہرین کے دلوں کو اپنے جوشِ خطابت سے گرماتے تو ہر طرف جہاں دیگر نعرے لگتے، وہاں ایک نعرہ یہ بھی لگتا ’’حق بات کرے گا۔۔۔ حقانی‘‘۔
حسین حقانی تقریر ختم کرکے خاموشی سے اپنی شرٹ تبدیل کرکے پولیس کی آنکھوں میں دھول جھونک کر مجمع سے ایسے غائب ہوجاتے جیسے وہ یہاں تھے ہی نہیں، اور لوگ مظاہرے میں کی گئی موصوف کی تقریر پر دیر تک رائے زنی کرتے اپنے گھروں کی طرف چل دیتے۔
آج حسین حقانی پاکستان میں موجود نہیں ہیں، لیکن ان کی تحریر کی بازگشت پورے پاکستان میں سنائی دے رہی ہے۔ اس وقت میڈیا پر سب سے زیادہ موضوع بحث بننے والے پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی ہی ہیں۔ شرٹ بدل کر اپنی شناخت چھپانے والے حسین حقانی اتنے چالاک نکلے کہ جس پارٹی کے خلاف تقریریں کرتے تھے، اُس کو بھی رام کرلیا اور اسی کے دور حکومت میں امریکا کے سفیر بھی بنادیے گئے۔ احتجاجی مظاہروں میں شرٹ بدلنے والے حسین حقانی پارٹیاں بدلنے کے بھی ماہر نکلے اور جمعیت سے مسلم لیگ اور پھر پیپلز پارٹی تک کا سفر شاید اسی مہارت کا حصہ ہے۔
کسی بھی شعبے میں مہارت حاصل کر نے کے بعد بہتر مستقبل کے لیے پاکستان کے پڑھے لکھے ہُنرمند نوجوان یورپ اور امریکا کا رخ کرتے ہیں۔ پاکستان کی حکومت ان نوجوانوں پر جو ڈاکٹر، انجینئر اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں، خاصا کثیر سرمایہ خرچ کرتی ہے، لیکن پاکستان میں ترقی کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے نوجوانوں کی اکثریت ملک سے باہر قسمت آزمائی کرتی ہے اور اپنی تمام تر صلاحیتیں دیارِ غیر میں لگا دیتی ہے، مگر ان نوجوانوں کے دل وطن ہی کی محبت میں دھڑکتے اور ملک کی ترقی و سالمیت کے حوالے سے فکرمند رہتے ہیں۔ لیکن حسین حقانی، جن کو سیاست دان بنانے میں کئی سیاسی جماعتوں کا کردار ہے، آج خود ان کا ’’کردار‘‘ مشکوک ہوگیا ہے۔ حسین حقانی کے انکشافات سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے ملک کی بہتری کے لیے نہیں بلکہ امریکیوں سے تعلقات میں مزید بہتری لانے کے لیے پاکستان کی سالمیت کو داؤ پر لگایا۔ امریکی خفیہ اداروں کے اہل کاروں کو ہزاروں کی تعداد میں ویزوں کے اجرا سے لے کر اُسامہ بن لادن کے ڈرامے تک سب کچھ خفیہ ہے، لیکن پیسے لے کر وطن سے غداری اور غیروں سے نمک حلالی کرنے والے، امریکا میں مزے کرنے والے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔
حسین حقانی کے بقول اُسامہ تک پہنچنے کے لیے پاکستان میں موجود بعض لوگوں نے معاونت کی۔ اُسامہ بن لادن کی ہلاکت پر کتاب لکھنے والے امریکی صحافی ہرش نے بھی کہا ہے کہ ایک سابق فوجی افسر نے اُسامہ تک پہنچنے میں مدد کی اور اس کے بدلے دو کروڑ ڈالر انعام بھی حاصل کیا اور اب وہ امریکا میں مزے کررہا ہے۔ ایبٹ آباد آپریشن حقیقت ہے یا افسانہ، مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارا ضمیر اتنا مُردہ ہوچکا ہے کہ پیسوں کی خاطر اپنے حلف سے روگردانی کرتے ہوئے وطن سے غداری پر آمادہ ہوجائیں!
اسی مُردہ ضمیر کا نتیجہ ہے کہ کرپشن اور لوٹ مار کا کلچر حکومتی اداروں میں عام ہوچکا ہے، اور اب تو ہر فرد کر پشن کو اپنے لیے جائز سمجھتا ہے، کیوں کہ جب کرپٹ سیاسی قیادت اپنے آقاؤں سے ڈیل کرکے اقتدار حاصل کرتی ہے تو وہ ملک اور قوم کا نہیں صرف اپنی لُوٹ مار اور آقاؤں کے مفادات پورے کرنے کا سوچتی ہے، جس سے قومی سانحات جنم لیتے ہیں۔ حکمرانوں کے کردار کو دیکھتے ہوئے کچھ اور لوگ بھی شہرت اور پیسے کے لیے بیرونی آقاؤں کے آلۂ کار بن جاتے ہیں، جیسے حسین حقانی نے امریکی حکام سے اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرنے اور خود کو امریکا کا سچا خادم ثابت کرنے کے لیے پرویزمشرف کی طرح پاکستان کی سالمیت کے خلاف کام کیا۔ حسین حقانی نے تو ملک سے نکل کر اپنے آقاؤں کے پاس پناہ حاصل کرلی لیکن ایک اور سہولت کار ڈاکٹر شکیل آفریدی اب تک اپنے آقاؤں کی مدد کا منتظر ہے۔
پیپلزپارٹی نے اپنے دورِ حکومت میں ’’بلیک واٹر‘‘ کے کارندوں کو ویزے جاری کرکے ملک میں تباہی پھیلانے کی کھلی اجازت دی جس کا خمیازہ قوم اب تک بھگت رہی ہے۔ ملک کے چاروں صوبوں میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیاں گزشتہ دور میں کی جانے والی غلطیوں ہی کا نتیجہ ہیں۔ امریکی اور بھارتی خفیہ اداروں سے تعلق رکھنے والوں کو پاکستان میں داخلے کی اجازت کس نے دی اور یہ تمام لوگ اپنے مقصد میں کس قدر کامیاب ہوئے؟ اس بات کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتا ہے کہ جب بھی بم دھماکا ہوتا، اُس وقت کے وزیر داخلہ رحمن ملک میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے کہتے کہ ’’مجھے دو سے تین دن دیں، اس دہشت گردی کا پتا چل جائے گا‘‘ اور ساتھ ہی یہ بات کہتے کہ ہم ملک میں کسی کو تخریب کاری کی اجازت نہیں دیں گے۔ جب کہ دوسری طرف خبریں آتیں کہ فلاں تنظیم نے ذمے داری قبول کرلی ہے۔
حسین حقانی کے انکشافات سے آج یہ راز کھل رہا ہے کہ حکمرانوں کو دہشت گردی کا علم تھا کہ کون کرا رہا ہے لیکن ہاتھ ڈالتے ہوئے ڈرتے تھے۔ ہر دھماکے کے بعد دو سے تین دن مانگنے والے وزیر داخلہ اب تک دن گن رہے ہیں اور حسین حقانی کو غدار کہہ کر جان چھڑائی جارہی ہے، بلکہ سارا ملبہ جنرل پرویزمشرف پر ڈال کر کنارہ کشی اختیار کررہے ہیں۔
اس طرح جان چھڑانے سے بات نہیں بنے گی کیوں کہ یہ معاملہ انتہائی حساس اور ملک کی سالمیت کے خلاف ہے، لیکن ایک دوسرے پر الزامات لگانے اور ملبہ ڈال دینے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ جنرل پرویزمشرف کے دورِ حکومت میں امریکیوں کو آزادی حاصل تھی کہ وہ ملک میں جو چاہیں کرتے پھریں، انہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں تھا۔ امریکیوں کو فوجی اڈے دینے سے لے کر ویزے جاری کرنے تک جنرل پرویزمشرف کی مرضی شامل تھی۔ اس کا ثبوت سابق جنرل شاہد عزیز نے ایک نجی چینل پر گفتگو کرتے ہوئے دیا کہ جنرل پرویزمشرف نے کورکمانڈرز اجلاس میں رائے مانگی کہ ’’امریکا کو فوجی ہوائی اڈے دینے کے بارے میں آپ لوگ کیا کہتے ہیں؟‘‘ تو سب نے ایک ہی رائے دی کہ فوجی اڈے دینے کا مطلب صاف ظاہر ہے، اور تمام شرکا نے اڈے دینے کی مخالفت کی، لیکن جنرل پرویزمشرف نے کہا کہ میں بلوچستان میں فوجی اڈا دینے کی ہامی بھرچکا ہوں۔ مشاورت سے ہونے والے فیصلے میں برکت ہوتی ہے، لیکن یہاں طاقت کا استعمال کیا گیا اور اس غلطی کا نتیجہ بلوچستان سمیت تمام صوبوں نے بھگتا اور آج تک بھگت رہے ہیں۔
پاکستان کی سرزمین افغانستان پر ڈرون اٹیک اور دیگر حملوں کے لیے استعمال ہوئی، اسی لیے افغانستان اپنے خلاف پاکستان کی سرزمین استعمال ہونے کے الزامات لگاتا رہتا ہے۔ بلوچستان سے بھارتی جاسوس کل بھوشن پکڑا جاتا ہے، کراچی میں بلیک واٹر کے مقامی ایجنٹ پاکستان مخالف نعرے لگاتے ہیں اور لندن میں بیٹھے الطاف حسین پاکستان کو دہشت گردی کا مرکز قرار دیتے ہیں، لیکن یہ نہیں بتاتے کہ NATO کا اسلحہ ان کے دفاتر اور کارکنان تک کیسے پہنچا؟ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا آغاز کیوں اور کس کے اشارے پر کیا گیا؟ وہ کون سے اشارے تھے کہ جنرل پرویزمشرف کے سامنے سٹی ناظم مصطفی کمال کراچی کا جغرافیہ بدلنے کی بات کررہے تھے؟ ظاہر ہے حکومتی حمایت کے بغیر کوئی کراچی کو آگ اور خون میں نہیں نہلا سکتا تھا، لیکن کہا جاتا ہے کہ کوّا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا۔۔۔ دوسروں کی چال چلنے والے بری طرح ناکام ہوئے اور اب خود ان کا جغرافیہ بدل چکا ہے۔ بعض دفعہ کچھ باتیں آگے جاکر صحیح لگتی ہیں۔ جس وقت پورا ملک شورش زدہ تھا، اُس وقت سوشل میڈیا پر مختلف عوامی آرا آتی تھیں کہ بلیک واٹر کو ویزوں کے اجرا سے زیادہ ملک کے ہوائی اڈے دینا خطرناک ہے۔ اسی طرح عوامی مطالبہ بھی کیا جاتا تھا کہ ملک کے تمام مسائل صرف ایک پرویزمشرف کی پھانسی سے حل ہوسکتے ہیں۔ بلوچستان آج تک امن و امان کے حوالے سے سب سے حساس صوبہ شمار کیا جاتا ہے۔ کراچی میں ہونے والی تمام قتل و غارت گری کا ذمے دار پرویزمشرف کو ٹھیرایا جاتا ہے۔ پرویزمشرف پر حملہ کرنے والوں کو تو پھانسی ہوگئی لیکن ملک کی سالمیت اور خودداری پر حملہ کرانے والے، ملک کو امریکی کالونی میں تبدیل کرنے والے ملک سے باہر بیٹھے ہیں اور حکومتی ایوانوں سے حسین حقانی کے خلاف کمیشن بنانے کی بات کی جارہی ہے تاکہ پیپلز پارٹی کے خلاف گھیرا تنگ کیا جاسکے اور جہاں حکومتی گوٹ پھنسی ہوئی ہو، دباؤ ڈال کر مطلب نکال لیا جائے۔ لیکن اس سے قبل بننے والے کمیشنوں کے کیا نتائج رہے، ان کی رپورٹیں آج تک شائع نہیں کی گئیں، شاید اسی لیے مسلم لیگ نواز کمیشن بنانے کے مطالبے سے پیچھے ہٹ گئی ہے۔
حال ہی میں نوازشریف اور آصف علی زرداری کے درمیان بیک ڈور رابطوں کا انکشاف ہوا ہے۔ میڈیا کی اطلاعات ہیں کہ دونوں ’’رہنماؤں‘‘ کے ملکی و سیاسی معاملات پر پسِ پردہ رابطے جاری ہیں۔ حکومت کا حسین حقانی کے خلاف کمیشن بنانے کا مطلب آصف زرداری کے خلاف کمیشن بنانا ہوگا، کیوں کہ اُس وقت زرداری ہی حکمراں تھے، اسی لیے انہوں نے بڑے دبنگ انداز میں کہا کہ ’’اگر کمیشن بنا تو پھر 1999ء سے جتنے بھی کیسز ہیں، ان تمام پر کمیشن بنائے جائیں۔‘‘ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہم تو ڈوبے ہیں صنم، تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔۔۔ سوال ہوں گے تو رازوں سے پردہ اُٹھتا چلا جائے گا کہ پرویزمشرف کیسے آئے، کیوں آئے، ایک فون کال پر ڈھیر کیوں ہوگئے تھے، بلیک واٹر کو کس نے کھلی چھوٹ دی، ویزوں کا اجرا کیسے اور کیوں کر ہوا، شوکت عزیز کون تھے، کہاں سے آئے تھے، کہاں چلے گئے، پاکستان کے وزیراعظم کیسے بن گئے، بے نظیر بھٹو کا قتل کیوں ہوا، کس نے کرایا، آصف علی زرداری کو حکومت کیسے ملی، اسامہ بن لادن پاکستان میں کیسے آیا، کس نے ملک میں رکھا ہوا تھا، امریکی اسامہ کو پکڑنے آئے اور آپریشن کرکے اس کی لاش لے کر چلے بھی گئے، ہمارے ادارے کیا کررہے تھے، کیا اس دن تمام ہاٹ لائنیں بند تھیں؟ سب پر بات ہوگی اور پھر بات سے بات میں راز کھلیں گے۔۔۔ شاید اسی لیے دونوں رہنماؤں نے معاملے کو سلجھاتے ہوئے افہام وتفہیم کی پالیسی جو برس ہا برس سے جاری ہے، مزید جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔ یعنی نہ کمیشن ہوگا نہ بات نکلے گی، اور ویسے بھی کمیشن کا مطلب ہے ’’مٹی پاؤ۔۔۔‘‘ اس بیک ڈور پالیسی اور نورا کشتی کا ڈراپ سین فوجی عدالتوں پر پیپلزپارٹی کا راضی ہوجانا ہے۔ حق بات کون کررہا ہے، باریاں لگا کر حکومت کرنے والے، یا حسین حقانی؟ تمام رازوں سے پردہ کب اُٹھے گا؟ یا یہ سب راز ہی رہیں گے؟ عوام کی قسمت بدلنے کا دعویٰ کرنے والوں کی حقیقت آہستہ آہستہ آشکار ہورہی ہے، اس لیے اب عوام کس کے لیے نعرہ لگائیں، کہ حق بات کون کرے گا۔۔۔؟

حصہ