جامعہ پنجاب

234

 جنوبی پنجاب کے کسی ضلع سے تعلق ہے ان کا۔ کالج میں پرنسپل کے عہدے پر ذمہ داریاں ادا کررہی ہیں۔ ایک فورم پر ملاقات میں بہت پریشان نظر آئیں۔ وجہ معلوم ہوئی کہ ان کے کالج میں وزیراعظم سیکریٹریٹ سے ایک خط موصول ہوا ہے جس میں ہفتہ موسیقی منانے کا حکم دیا گیا ہے۔ بات قومی ترانوں تک ہوتی تو سوچا جا سکتا تھا، مگر اس کی تفصیل میں تو فوک موسیقی، کلاسیکل، صوفیانہ کلام اور جانے کیا کیا شامل ہے۔ طلبہ و طالبات کے مابین مقابلے اور پہلا انعام ڈیڑھ لاکھ روپے، دوسرا ایک لاکھ روپے، تیسرا اس سے کچھ کم۔ پھر مختلف کیٹگریز پر الگ الگ انعام۔۔۔ سینئر اساتذہ پریشان ہیں کہ یکایک بچوں کے اذہان تعلیم سے بالکل ہی ہٹ جائیں گے۔ ہفتہ طلبہ کی طرح کی سرگرمیاں تو تعلیمی اداروں میں ہوتی ہی ہیں ہمیشہ سے، یہ وزیراعظم کو کیا سوجھی کہ اس نوعیت کا حکم نامہ جاری کریں! اگر ایک بار طلبہ و طالبات کا رخ اس طرف مڑ گیا تو اس دلدل میں وہ دھنستے ہی چلے جائیں گے۔ پھر حکومت ہر تعلیمی ادارے میں لاکھوں کے انعامات دے کر کیوں سرپرستی کررہی ہے ان سرگرمیوں کی؟ وہ ایک ماں کی طرح پریشان تھیں۔ ظاہر ہے کہ وہ ایک ماں تھیں، نہ صرف اپنے بچوں کی بلکہ قوم کے اُن بچوں کی بھی جو اُن کی سرپرستی میں دیے گئے ہیں۔ آنے والے وقت کا تصور کرکے ان کے چہرے پر تاریک سائے لہرا رہے تھے۔
ان کی گفتگو پر لاہور کے ایک اور کالج کی پروفیسر گویا ہوئیں کہ ہمارے کالج میں تو باضابطہ ٹیچر کو تعینات کردیا گیا ہے موسیقی کی تعلیم دینے کے لیے۔ وہ اپنے بھاری بھرکم موسیقی کے آلات کے ساتھ آتی ہیں اور ان کے لیے وقت مختص کیا گیا ہے کہ یہ وقت بچوں کے لیے سارے، گاما، پادا، نی سا کے اسرار و رموز سے آگہی کے لیے وقف ہے۔ اور اس نام نہاد کلچر کے پیریڈ میں طلبہ و طالبات کی دلچسپی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اب جبکہ وزیراعظم کی ہدایت ہے تو کس کی مجال ہے کہ حکم سے سرتابی کرے۔ اور اتنی بڑی بڑی رقوم دیکھ کر تو ہر بچہ للچائے گا کہ انعام کا حقدار وہی ٹھیرے۔۔۔!
شمشیر و سناں تو آخر ہو ہی گئی تھی، اب طاؤس ورباب کو اول کرنے کی یہ حکومتی کوششیں اپنے اندر بہت سے اشارے رکھتی ہیں۔ اب لے دے کے ایک جمعیت ہی ہوتی ہے جو خم ٹھونک کر میدان میں آکھڑی ہوتی ہے کہ تہذیب و ثقافت کے عنوان سے کسی طاغوتی ایجنڈے کو آگے نہیں بڑھنے دیا جائے گا۔ کسی تعلیمی ادارے میں جمعیت کے نوجوان چاہے وہ دوچار ہوں یا کئی درجن، ایک خطرہ ہی بنے رہتے ہیں ان ایجنڈوں کی تکمیل میں۔ اسی طرح طالبات کے تعلیمی اداروں میں چاہے وہ دوچار ہی بچیاں ہوں جو جمعیت طالبات سے وابستہ ہوں، فوراً انتظامیہ کی ناک میں نکیل ڈال دیتی ہیں۔ احتجاج ریکارڈ کراتی ہیں۔ یہ درست بات ہے کہ مذہب کسی کی ذاتی جاگیر نہیں ہے۔ نہ کوئی کسی پر کوتوال ہے۔
مجھے یہ بات یوں یاد آئی کہ جب ہم یونیورسٹی میں ہوتے تھے اور ایسے کسی ایجنڈے کی تکمیل کی راہ میں سدِّراہ بن کر کوئی مہم چلاتے تھے، چاہے وہ طالبات سے محضرنامے بھروانا ہی کیوں نہ ہو، تو طالبات کی طرف سے ایک اعتراض سامنے آتا تھا کہ ہم بھی آپ کے جیسے مسلمان ہیں، اور یہ کہ ہماری ذمے داری پر آپ کو کس نے لگا دیا، مزید یہ کہ آپ کو پسند نہیں تو نہ حصہ لیں، دوسروں کی پسند پر اپنی پسند آپ کیسے مسلط کرسکتی ہیں۔۔۔! وغیرہ وغیرہ۔ سو، جو شریعت کی تعلیمات کو نہ سمجھتا ہے نہ سمجھنا چاہتا ہے اُس کے لیے تو بڑی سادہ سی بات ہے کہ شراب خانے بھی کھلے ہوں اور مسجدیں بھی، اور فیصلہ فرد کی چوائس پر چھوڑ دیا جائے۔ جب شراب کے رسیا مسجد جانے والوں کو کچھ نہیں کہتے تو مسجد جانے والوں کو بھی اختیار نہیں کہ ان کے ’’فریڈم آف چوائس‘‘ پر ڈاکا زنی کریں۔ دین کے اسی فہم کے ساتھ لوگوں کی پوری پوری عمریں گزر جاتی ہیں۔ اب نہ انہوں نے قوم بنی اسرائیل کی تاریخ پڑھی ہے، نہ یہ جاننے میں ان کی دلچسپی ہے کہ نیکوکار لوگوں کی تو اُس قوم میں بھی کمی نہ تھی، پھر کیوں امتِ وسط کی ذمے داری سے انہیں معزول کیا گیا۔ ان انفرادی نیکوکاروں کی موجودگی میں کیوں زمامِ کار ان سے چھین لی گئی۔۔۔ کیوں بیت المقدس سے رخ پھیر کر عین حالتِ نماز میں کعبۃ اللہ کی سمت کیا گیا کہ پچھلی تہذیب کا کوئی بھی نشان باقی رکھنا مقصود نہ تھا شریعتِ الٰہی کو۔
یہ تو ہمارا سماجی المیہ ہے کہ دین کو ایک جزو کی حیثیت سے ہم باقی رکھنا چاہتے ہیں اور اس میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ اب ہفتۂ طلبہ کا آغاز تلاوتِ قرآن سے ہی ہوگا بلکہ پہلا مقابلہ ہی نعت خوانی کا رکھا جائے گا۔ برکت کا ہاتھ ہمارے اوپر آگیا، اب پورا ہفتہ وہ لڈی ڈانس ہوں یا پاپ میوزک، یا فن و ثقافت کی آڑ میں کتھک ڈانس یا صوفیانہ رقص و سرود۔۔۔ اس تلاوتِ قرآن کی برکت گویا ہماری ہر بدعملی کو حصار میں لے لے گی؟ جیسے ہمارے ہاں شادی کی تقریب میں مخلوط محفلوں میں سب ہلڑ بازی کرکے دلہن کو قرآن کے سائے میں رخصت کردیتے ہیں، گویا چھاپ لگادی تقریب پر کہ جو کچھ ہم نے کیا ہے کوئی ہمیں دائرۂ اسلام سے خارج نہ سمجھ لے۔۔۔ چاہے بیٹی کو ایک لفظ بھی قرآن کی تعلیم دی ہے یا نہیں، وہ رہے گی قرآن ہی کے سائے میں۔
یہ ہمارے عقائد کی دنیا ہے۔ اب آپ ہی جانیے، ایسے سماج میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو دین کا صحیح شعور رکھتے ہیں، جو نبویؐ مشن کی اصطلاح کا ادراک رکھتے ہیں، جو لفظ ’داعیانہ کردار‘ کا مفہوم ہی نہیں سمجھتے بلکہ اس کے تقاضوں سے بھی آگاہ ہیں، اور نہ صرف آگاہ ہیں بلکہ کماحقہٗ اس کو پورا کرنے کے لیے بھی سر ہتھیلی پر رکھ کر نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ تو جو غالب طاقتیں شیطانی ایجنڈوں کی تکمیل کی تنخواہ پاتی ہیں وہ انہیں اپنے درمیان کس طرح گوارہ کریں گی! سو حق اور باطل کی یہ کشمکش ہمیشہ سے جاری ہے اور رہے گی۔
اب رہا لفظ ’’کلچر‘‘۔۔۔ تو یہ ایک ایسی ٹوپی ہے جو سب کے سر پر فٹ آجاتی ہے۔ ایک ریاست کا کام ہر ایک کے حقوق کا تحفظ ہے۔ ایک جمعہ بازار کی انتظامیہ بھی اسٹال بک کرتے وقت بہت سی باتوں کو مدنظر رکھتی ہے۔۔۔ پھر رہی ملک کی سب سے بڑی جامعہ کی انتظامیہ۔۔۔ ایک ہی دن، ایک ہی وقت، ایک ہی جگہ دو مختلف تنظیموں کو یہ پروگرام کرنے کی اجازت کیوں دی؟ اور کوئی اصول، ضابطہ تو ہوتا ہوگا کہ ایک دوسرے کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ کلچرل ڈے پر تو سندھ میں صرف ناچ گانا اور لڈی ڈانس ہی ہوتے ہیں۔ چلیں جس طرح چاہیں منائیں، مگر ایک تعلیمی ادارے کے وقار کو ملحوظِ خاطر رکھیں۔ اب اگر باہم کوئی تنازع ہوا ہے بوجوہ، تو اس میں طالبات کو ہراساں کرنا تو کسی طرح جائز نہیں، جب کہ حقائق نے بتادیا کہ تنازع اتنا تھا کہ کلچر ڈے منانے والوں سے اسپیکر کی آواز کم کرنے کا مطالبہ کیا تھا، لیکن الیکٹرانک میڈیا تصویر کا دوسرا رخ پیش کرتا رہا۔ سوشل میڈیا پر جو حقائق اور وڈیو کلپ شیئر ہوتے رہے، وہ الگ ہی چشم دید کہانی سنا رہے تھے۔ جائے وقوع پر موجود ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی اور محترمہ فائقہ سلمان کیسے غلط بیانی کرسکتی ہیں؟ وہ حقائق بتارہی ہیں میڈیا کو، مگر میڈیا سے الگ ہی مہم چلائی جارہی ہے حقائق کو مسخ کرکے۔ ہم نے صحیح صورتِ حال جاننے کے لیے جب جائے وقوع پر موجود طالبات سے رابطہ کیا تو انہوں نے وہی حقائق بتائے جو سمیحہ راحیل قاضی نے بیان کیے تھے۔ طالبات کا اپنا الگ پروگرام ہورہا تھا جو 23 مارچ کے عنوان سے تھا، جب کہ جمعیت طلبہ تو استحکام پاکستان کا ہفتہ الگ سے منارہی تھی اور انہوں نے سرگرمیاں ترتیب دی ہوئی تھیں۔ جمعیت طالبات، طلبہ کے ماتحت کوئی ونگ نہیں ہے، وہ اپنی علیحدہ تنظیم اور سرگرمیاں رکھتی ہے۔۔۔ یہ اس کی اپنی تقریب تھی جو طالبات کے لیے ترتیب دی گئی تھی اور ڈاکٹر سمیحہ راحیل مہمان مقرر تھیں۔ وہ اسٹیج کی طرف بڑھ رہی تھیں تقریر کرنے کے لیے، کہ اچانک پشتون طلبہ ڈنڈے ہاتھوں میں لیے طالبات کے کیمپ میں ڈنڈے برساتے داخل ہوگئے، مغلظات سے زبان کو آلودہ کرتے رہے اور اسٹیج تہس نہس کردیا، روسٹرم اور برقی آلات اٹھا کر پھینک دیے اور جارحانہ انداز میں طالبات کو دھمکیاں دیتے رہے۔ طالبات سراسیمہ ہوگئیں اچانک حملے سے، اور چیخ و پکار مچ گئی۔ اس چیخ و پکار کی وڈیو آپ کی نظر سے گزری ہو تو ایک میدانِ جنگ کا سا منظر ہے۔ طالبات کا کیمپ بکھرا پڑا ہے، وہ ’’بچاؤ بچاؤ‘‘ کہہ کر فریاد کررہی ہیں۔ کیمپ کے باہر ایک باریش نوجوان کو جن کا تعلق یقیناًجمعیت طلبہ سے ہے، چاروں طرف سے ڈنڈوں سے ضربیں لگائی جارہی ہیں اور پشتو زبان بولتے ہوئے (ہمیں تو اس پشتون لہجے کو سنتے ہوئے محترم قاضی حسین احمد یاد آگئے۔ ہم نے تو اس لہجے میں ہمیشہ رواداری، امن اور محبت کا پیغام ہی سنا تھا) ایک جیسے حلیے والے اس پر حملہ آور ہیں۔ اب کسی بھی ہونے والے حادثے کے حقائق کو چھپانا بہت آسان نہیں ہے، کیوں کہ ہر ایک کے ہاتھ میں موبائل فون کیمرے کے ساتھ ہوتا ہے۔۔۔ کیا ہوا اور کیوں ہوا؟ کیسے ہوا اور کس نے کیا؟ یہ جاننا بھلا کیا مشکل ہے! جب ایبٹ آباد میں تمام ریاستی اداروں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اسامہ بن لادن کا سراغ لگایا جاسکتا ہے تو ایسے معمولی واقعہ کے شواہد کے لیے تو کوئی بین الاقوامی سراغ رساں ایجنسی بھی درکار نہیں ہوتی۔ یونیورسٹی کی انتظامیہ ہی تحقیق کے لیے کافی تھی اور الیکٹرانک میڈیا، جہاں ہر چینل دعویٰ کرتا ہے کہ ہم آپ کو ’’سچ‘‘ بتاتے ہیں، حقیقت وہ ہے جو ہمارے کیمرے کی آنکھ دیکھتی ہے۔۔۔ کیمرے کی ان آنکھوں میں بھی غیرت کا پانی مرگیا اور دعوے کرنے والی زبانیں بھی جھوٹ کا پرچار کرتی رہیں۔
کچھ ماہ قبل دو سگی بہنیں جن کی شادی دو سگے بھائیوں سے ہوئی تھی، بھائیوں نے اپنی ان دونوں بیویوں کو گھر سے دھکے دے کر نکال دیا۔ وہ گھر کے باہر چبوترے پر بین کررہی تھیں اور مختلف چینل ان کی اس دہائی کو بار بار دکھا رہے تھے۔ ایسے میں پھر ہوتا کیا ہے اسٹیج سج جاتا ہے، خواتین کے حقوق کا پرچار کرنے والی بیگمات مختلف ٹی وی چینلوں پر نمودار ہوتی ہیں اور عورتوں پر تشدد اور خودمختاری کے فلسفے پر اپنے پرانے پیمانوں میں نئی شراب ڈالی جاتی ہے، عورتوں کو باور کرایا جاتا ہے کہ مرد ہی تمہارے حقوق کا دشمن ہے، گھر سے نکلو اور اپنی ’’خودمختاری‘‘ کا تحفظ کرو۔ بات تو اب بھی اتنی ہی ہے کہ بچیوں پر تشدد ہوا ہے، لاٹھی، ڈنڈوں کا آزادانہ استعمال ہوا ہے، لڑکیاں کیمپ چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہوئی ہیں۔۔۔ اور ایسا کسی گلی کوچے میں نہیں ہوا ہے، بلکہ ملک کی سب سے بڑی جامعہ میں ہوا ہے۔ دو ہفتے قبل عورتوں کا عالمی دن منانے اور عورتوں کے حقوق کی بات کرنے والی این جی اوز نے اتنے بڑے واقعے کا نوٹس کیوں نہ لیا؟ بالفرض تصادم طلبہ کے دو گروہوں کے مابین تھا بھی، تو ان طالبات کا کیا قصور تھا؟ ان کو برسر عام للکارنے کی یہ جرأت کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ مختلف طلبہ گروپوں میں اگر تصادم ہوتے بھی ہیں تو طالبات کا ان میں کوئی کردار نہیں ہوتا۔ ان کی سرگرمیوں کے اپنے الگ دائرے ہیں۔ اس ریاست میں ہر بیٹی محترم ہے، ہر ایک کے حقوق ملالہ کے برابر ہیں۔ یوں سرعام ان پر لاٹھیاں اٹھانے والے عبرت ناک سزا کے مستحق ہیں کہ آئندہ ایسی ناپاک جرأت کرنے کی کسی فرد یا گروہ کو ہمت نہ ہو۔ اسے معمولی واقعہ سمجھ کر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
مضمون کی ابتدا میں وزیراعظم کے خط کا ذکر کیا گیا جو کالجوں کے نام جاری ہوا ہے، ظاہر ہے کہ ان راگ رنگ کی محفلوں میں بھنگ ڈالنے والوں کو پہلے سے خبردار کردیا گیا ہے کہ طاؤس و رباب کے راستے میں کوئی نہ آئے۔ جمعیت طلبہ و طالبات کے پاکیزہ وجود ہی ان ایجنڈوں پر عمل درآمد کی راہ کی اصل رکاوٹ ہیں۔ ان کو راستے سے ہٹانے کے لیے تعلیمی اداروں میں خون کی ہولیاں تک کھیلی جاتی رہی ہیں، مگر سید مودودیؒ کا یہ قافلہ رکا ہے نہ تھما ہے۔
سوشل میڈیا پر طالبات کے مختلف گروپوں میں جو کچھ شیئر ہورہا ہے، وہ پاکستانی تاریخ کے اس اندوہناک واقعہ پر سخت اضطراب کا اظہار ہے۔ خود ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی کہہ رہی ہیں کہ ایک دن گزر جانے کے باوجود وہ اب تک اس جذباتی صدمے سے باہر نہیں آسکی ہیں، ملک بھر کی طالبات مخلوط تعلیمی اداروں میں خود کو کس درجہ غیر محفوظ تصور کررہی ہوں گی۔ میڈیا کس کا نمک خوار ہے یہ بھی واضح ہوگیا۔ ایک طالبہ نے فیس بک پر پوسٹ ڈالی ہوئی تھی کہ ’’کاش ہم ڈاکٹر عافیہ کو بتا سکتے کہ آج ان کے دکھ کو ہم کس طرح محسوس کر رہے ہیں۔‘‘
23 مارچ یوم پاکستان کے موقع پر اخبارات و جرائد نے مضامین شائع کیے ہیں، ان میں ایک بڑے اخبار میں وزیراعلیٰ پنجاب کے مضمون کی سطریں ہیں کہ ’’جو خواب بانیانِ پاکستان نے دیکھا تھا وہ گزشتہ کئی دہائیوں تک تشنۂ تعبیر رہا مگر اب حقیقت میں ڈھل رہا ہے۔۔۔ زندہ قومیں نہ صرف اپنے ماضی کے ساتھ رشتہ استوار رکھتی ہیں بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی ان کے بہتر حال اور بہتر مستقبل کی صورت گری کرنے والی قربانیوں سے آگاہ رکھتی ہیں۔‘‘
خادم اعلیٰ! جامعہ پنجاب کی طالبات آپ سے یہ پوچھنے کا حق رکھتی ہیں کہ یہ ہے ان خوابوں کی تعبیر۔۔۔؟ آنے والی نسلوں کو لیپ ٹاپ اور ’’اورنج ٹرین‘‘ منصوبے تحفظ فراہم نہیں کرسکتے۔ قوم کی بیٹیوں کی ردا کا سوال ہے۔ اے اہلِ جاہ و حشم! یہ کوئی معمولی سوال نہیں ہے۔ جان رکھیے، تاریخ کے زینے بڑے پیچ دار ہوتے ہیں، خود کو ثریا کی جانب محوِ پرواز سمجھنے والے اکثر پاتال میں اتر رہے ہوتے ہیں۔ جان رکھیے، قومیں روٹی کے بغیر تو زندہ رہ سکتی ہیں نظریے کے بغیر نہیں۔

حصہ