(بھارت، مودی سے یوگی تک(عارف بہار

253

بھارت کی مرکزی ریاست اتر پردیش کی وزارت اعلیٰ کی کرسی پر ایک سخت گیر اور متنازع ہندو یوگی آدتیا ناتھ کا براجمان ہونا ایک نئے نریندر مودی کا ظہور ہے۔ بھارت چند دہائیوں سے ہندو انتہا پسندی کی جس راہ پر دوڑ رہا ہے اس میں ہر پڑاؤ کے بعد جو نیا چہرہ سامنے آتا ہے وہ پہلے سے زیادہ سخت گیر اور کٹر پنتھی ہوتا ہے۔ واجپائی کے بعد لال کرشن ایڈوانی، نریندر مودی منظر پر اُبھرتے چلے گئے تو ان میں ہر شخص اپنے پیش رو سے زیادہ سخت گیر تھا اور اب بی جے پی کے منظر پر یوگی آدتیا ناتھ کے اُبھار نے ماضی کے سب ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں۔ یوگی اپنی وضع قطع میں ایک مذہبی سادھو اور بیانات سے عسکری معلوم ہوتے ہیں۔ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ کی کرسی تک پہنچنے سے پہلے ہی ان کے بیانات کی دھوم مچ چکی تھی۔ ان بیانات سے بھارت کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے لیے نفرت ہی ٹپکتی تھی۔ یوگی کے چند نفرت انگیز بیانات یوں ہیں۔ ’’مسلمان ایک ہند ولڑکی کا مذہب تبدیل کرواتے ہیں ہم ایک سو مسلمان لڑکیوں کا مذہب تبدیل کروائیں گے، جو لوگ سوریہ نمسکار کو نہیں مانتے انہیں ڈوب مرنا چاہیے، مسلمانوں کی آبادی تیزی سے بڑھنا خطرناک ہے مرکزی حکومت کارروائی کرتے ہوئے مسلمانوں کی آبادی کو کم کرنا چاہیے۔ جب بابری مسجد کو گرانے سے کوئی نہیں روک سکا تو مندر بنانے سے کون روک سکتا ہے‘‘۔ یوگی کے نام�ۂ عمل میں ابھی گو کہ مودی کی طرح کوئی ’’گجرات‘‘ نہیں جہاں ریاستی انتظامیہ کی چھتری تلے پانچ ہزار مسلمانوں کو نہایت بے دردی سے قتل کیا گیا تھا اور سیکڑوں خواتین کی آبروریزی کی گئی تھی اس کے باجود یوگی ابھی وزرات عظمیٰ سے دور ہیں مگر نریندر مودی کی طرح اس منزل تک پہنچنے کے لیے وہ اپنی فائل اور پروفائل کو کس طرح بھاری اور طویل بناتے ہیں یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔
یوگی جس ریاست کے وزیر اعلیٰ بنے ہیں دہلی سے لکھنو اور آگرہ تک جیسے تاریخی اور تہذیبی شہر اس کا حصہ ہیں۔ گنگا وجمنا تہذیب بھی یہیں ہے تو قطب مینار سے تاج محل تک مسلم برصغیر کی شاندار تہذیب کا مرکز بھی یہی ریاست ہے۔ یوگی کے برسراقتدار آتے ہی بی جے پی نے اپنے روایتی نظریہ ’’ہندو توا‘‘ کی جانب تیزی سے سفر کا آغاز کیا ہے۔ ریاست میں مذبح کی بندش سے گوشت کا بحران شروع ہوگیا ہے۔ گوشت کی کمی کی زد صرف انسانوں پر ہی نہیں سفاری پارکوں میں مقید گوشت خور جانوروں پر پڑی ہے جنہیں بھینس کا گوشت کھلایا جاتا تھا۔ لو جہاد ایک ایسا فسانہ ہے جس کی برسوں جم کر تشہیر کی گئی ہے۔ ٹی وی اسکرین اوربالی ووڈ کی فلموں میں بھی اس اصطلاح کا چرچا رہا۔ گویا کہ مسلمان لڑکے ہندو ناریوں کو محبت کے جال میں پھنسا کر ان کا دھرم تبدیل کرواتے ہیں۔ اسے خود ہی ہندو میڈیا نے ’’جہادِ محب‘‘ کا نام دے رکھا ہے۔ لوجہاد کے فسانے کو ناکام بنانے کے اینٹی رومیو اسکواڈ قائم کردیا گیا ہے۔ یہ بی جے پی کا انتخابی وعدہ تھا اور یہ اسکواڈ اب پارکوں، بس اسٹاپوں، تعلیمی اداروں میں گھوم پھر کر لڑکوں اور لڑکیوں پر نظر رکھے گا۔ اس عمل کے بعد مسلمان لڑکوں کی شامت آرہی ہے کہ جنہیں کسی ہند ولڑکی کے ساتھ خوش گپیوں کے الزام میں دھر لیا جاسکتا ہے۔
بھارتی مسلمان مرکزی ریاست میں مودی کے ایک اور سخت گیر ایڈیشن کی آمد پر سراسیمہ تو ہیں مگر وہ کسی ردعمل سے گریز کیے ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے ایک محتاط اور معنی خیز تبصرہ مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی کا سامنے آیا ہے۔ ’’یوگی برسرا قتدار تو آئے ہیں مگر وہ خدا تو نہیں‘‘۔ ان کا دوسرا تبصرہ تھا کہ اگر انہوں نے طاقت سے اپنا ایجنڈا نافذ کرنے کی راہ اختیار کی تو یہ بھارت کے پلورل ازم (تکثیریت) کا خاتمہ ہوگا۔ سب سے دلچسپ تبصرہ امریکا کے اخبار ’’نیویارک ٹائمز‘‘ نے اپنے اداریے میں کیا ہے۔ یہ باتیں بھارت کے کسی اردو اخبار یا کسی مسلمان راہنما کا ہوتا تو اسے بے وجہ کا خوف قرار دے کر رد کیا جاسکتا تھا مگر امریکا اور بھارت کے یارانے کے پس منظر میں امریکا کے ایک معتبر اخبار نے چونکا دینے والا اداریہ لکھ کر آنے والے دنوں کی منظر کشی کی ہے۔ اخبار نے Mr.Modi’s Perilous Embracement of Hindu Extremist (ہندو انتہا پسندوں سے مسٹر مودی کا خطرناک معانقہ) کے عنوان سے لکھے گئے اداریے میںآنے والے دور کی دھندلی سی تصویر یوں دکھائی ہے ’’مودی نے 2014میں اپنے انتخاب کے بعد ایک خطرناک کھیل کھیلا ہے۔ وہ اپنی پارٹی کی سخت گیر ہندو بنیادوں کو خوش کرتے ہوئے سیکولر مقاصدکی ترقی اور معاشی فروغ کی باتیں کر رہے ہیں حالاں کہ فکر مندی کی کوئی علامت ظاہر نہیں ہوئی لیکن مودی انتہا پسند ہندؤں کو آگے بڑھاتے نظر آتے ہیں۔ مودی نے بظاہر مسلم اقلیت کے خلاف تشدد کی منظوری دے دی ہے اور یوگی آدتیا کو وزیر اعلیٰ مقرر کرنے کی منظوری دی ہے۔ یہ مذہبی اقلیتوں کے لیے صدمہ انگیز سرزنش اور اس کے دیرینہ خواب سیکولر جمہوریہ کو ہندو راشٹریہ میں بدلنے کی کوشش ہے۔ اس وقت بھارت میں بے روز گاری کو کم کرنے کا چیلنج درپیش ہے۔ اس مقصد کے لیے ہندوستان میں ہر سال دس لاکھ ملازمتیں پیدا کرنا ضروری ہیں اگر مودی اور یوگی سے چیلنج سے نمٹ نہ پائے وہ اگلا الیکشن جیتنے کے لیے اقلیتوں کے خلاف خطرناک کھیل کھیلنے کا راستہ اختیار کریں گے اور یوں مودی کے خوابوں کی سرزمین اقلیتوں کے لیے ڈراونا خواب بن جائے گی‘‘۔
امریکی اخبار کے اس تبصرے اور تجزیے کے بعد اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں بھارت عدم برداشت کے کن راستوں پر سفر کرتا نظر آئے گا؟ اور یہ کہ بھارت کا اندرونی طور پر بدلتا ہوا یہ نقشہ خطے کی سیاست پر کس طرح اثرا نداز ہوگا؟

حصہ