(پاکستان میں سرمایہ کاری: امکانات و مشکلات(ڈاکٹر رضوان الحسن انصاری

209

پچھلے ہفتے یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب لاہور میں منعقد انٹرنیشنل ریسرچ کانفرنس میں شرکت کی اور وہاں اپنا تحقیقی مضمون بھی سامعین کی نذر کیا۔ یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب پاکستان کے سب سے بڑے تعلیمی نیٹ ورک پنجاب گروپ آف کالج کا حصہ ہے اس نیٹ ورک میں تین چارٹرڈ یونیورسٹیاں، 330 کالجز اور 700 اسکولز ہیں اس کے علاوہ تعلیم سب کے لیے کے تحت 300 اسکول طلبہ کو زیور تعلیم سے آراستہ کررہے ہیں۔
کانفرنس کے پروگرام میں ایک مذاکرہ بھی شامل تھا جس کا موضوع ’’پاکستان میں سرمایہ کاری کے مواقعے اور چیلنجز‘‘ تھا جس کے لیے کاروباری اداروں کے اعلیٰ افسران، کاروباری تنظیموں کے اعلیٰ عہدیداران اور سرکاری اداروں کے نمائندے شامل تھے۔ جنہیں اظہار خیال کے لیے بلایا گیا تھا، ملک میں سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے شرکا نے تین نکات کو اپنی گفتگو کا موضوع بنایا یعنی حکومتی پالیسیاں، ریگولیٹرز اور کاروباری طبقہ۔ شرکا اس بات پر متفق تھے کہ پاکستان میں کاروبار اور سرمایہ کاری کے مواقعے (potential) بہت ہیں ایک طرف بجلی کی قلت میں کمی ہورہی ہے دوسرے امن وامان کی صورت حال نسبتاً بہتری کی طرف گامزن ہے، تیسرے ملک میں متوسط طبقے کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے اور وہ اس وقت آبادی کا تیس فی صد ہے، مگر آج کوئی نیا کاروبار شروع کرنا چاہے تو اسے رجسٹریشن سے لے کر بعد کے مراحل پورا کرنے کے لیے ایک تکلیف دہ اور طویل سلسلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ جس میں سرکاری اداروں کی سست روی اور کرپشن، غیر ضروری کاغذی کارروائی، محکمہ ٹیکس کی عجیب و غریب شرائط اور دیگر بیس بائیس اداروں کی فرمائشیں پوری کرنا ہوتی ہیں۔ اس صورت حال میں بہت کم لوگ نئے کاروبا یا نئی سرمایہ کاری کی طرف قدم بڑھاتے ہیں اور اس دریا کو وہی پار کر پاتے ہیں جن کے ہاتھ لمبے یا جن کی بہت آگے تک پہنچ ہو۔
دوسری طرف نئی نسل کے وہ نوجوان جن کے پاس بزنس کے لیے نئے آئیڈیاز، نئے منصوبے یا پروجیکٹ ہیں لیکن آگے تک کی پہنچ کی نعمت سے محروم ہیں وہ اپنے خیالات یا منصوبوں کو عملی شکل نہیں دے سکتے۔ ایک صاحب نے بتایا کہ یورپین ممالک میں آدھے گھنٹے کے اندر اندر اپنی کمپنی آپ رجسٹر کراسکتے ہیں اور 50 پونڈ یا یورو کی ادائیگی کے بعد دو ہفتے میں رجسٹریشن سرٹیفکیٹ آپ کو مل جاتا ہے۔ عالمی بینک کا ایک اشاریہ ہے ’’کاروبار میں آسانی (easey doing busniess)‘‘ اس انڈکس میں کاروبار کی شروعات، بجلی کا حصول، پراپرٹی کی رجسٹریشن، بینک لون کا حصول، ٹیکس کی ادائیگی، غیر ممالک میں تجارت کے مواقعے اور کاروباری تنازعات کا حل جیسی چیزیں شامل ہیں۔ دنیا کے 190 ممالک میں اس انڈکس میں پاکستان کا نمبر 138 ہے۔ اس سے یہ اندازہ آسانی سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں کاروبار یا سرمایہ کاری کتنی مشکل ہے۔ اسی وجہ سے مجموعی قومی پیداوار میں سرمایہ کاری کا حصہ چین میں 43 فی صد، انڈیا میں 33 فی صد، سری لنکا میں 30 فی صد، بنگلا دیش میں 28 فی صد جب کہ پاکستان میں 16 فی صد ہے۔
مذاکرے کے شرکا کا دوسرا اہم نکتہ کاروباری طبقہ، ان کا طرزِ عمل اور ان کا کاروباری رویہ ہے۔ شرکا کے بقول کاروباری لوگ جس ڈھب پر چل رہے ہیں اس کو بدلنا نہیں چاہتے۔ اپنی مصنوعات میں بہتری و جدت کے لیے تحقیق پر توجہ نہیں دیتے۔ کاروباری اداروں کو تحقیقی و ترقی (research and development) کا شعبہ قائم کرنا چاہیے اس کے لیے کچھ بجٹ مختص کرنا چاہیے جو اس بات پر صرف ہو کہ موجودہ اشیا و مصنوعات میں کیا تبدیلی، کیا جدت اور کیا بہتری لائی جاسکتی ہے۔ اس سے مصنوعات کی طلب میں اضافہ ہوگا اور سرمایہ کاری کے مواقعے پیدا ہوں گے۔
اسی طرح کاروباری اداروں کو تعلیمی شعبہ کے ساتھ اپنے رابطوں کو بڑھانا چاہیے تا کہ تعلیمی اداروں میں جو اعلیٰ سطح پر تحقیق ہورہی ہے وہ کاروباری ضروریات کے مطابق ہو۔ دنیا بھر میں ریسرچ کانفرنسوں میں بڑی بڑی تجارتی کمپنیوں کے افسران موجود ہوتے ہیں۔ تحقیق کرنے والوں سے سوال و جواب کرتے ہیں اپنے کاروباری مسائل اُن کے سامنے پیش کرتے ہیں اور ان مسائل کے حل کے لیے مکالمہ یا مذاکرہ منعقد ہوتا ہے۔ جس کا فائدہ دونوں فریق کو ہوتا ہے۔ مذاکرہ میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ کاروباری طبقے کو دستاویزی معیشت کو اپنانا چاہیے۔ ٹیکس کلچر کو فروغ دینا چاہیے۔ ٹیکس چوری کی روش کو ختم کرنا چاہیے اس کے ساتھ ساتھ محکمہ ٹیکس کے افسران بھی ہر ایک کو ٹیکس چور نہ سمجھیں۔ کاغذی کارروائی کو آسان بنائیں۔ رشوت کو ختم کرکے حلال آمدنی پر اکتفا کریں۔ مذاکرے کے اختتام پر تمام شرکا کی متفقہ رائے یہ تھی کہ ملک میں سرمایہ کاری میں اضافہ حکومت اور کاروباری طبقے کی مشترکہ کوششوں سے ہی ہوسکتا ہے۔

حصہ