(ریفرنڈم تو پندرہ سو برس پہلے ہوچکا(باباالف کے قلم سے

254

توہین رسالت کے باب میں حکمران جس بے حسی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اس نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو یہ کہنے پر مجبور کردیا کہ آئندہ سماعت میں حکم دے سکتے ہیں کہ حکومت ریفرنڈم کرائے کہ سوشل میڈیا چاہیے یا ناموس رسالت؟ جسٹس صاحب کے یہ الفاظ اس کرب کا اظہار ہیں جو ناموس رسالت کے حوالے سے ہر مسلمان کے دل میں موجزن ہیں۔ امت کسی بھی عہد میں ان جذبات سے خالی نہیں رہی۔ جہاں تک ریفرنڈم کا تعلق ہے تو خدا کی قسم اس کی ضرورت کبھی پیش نہیں آئے گی۔ توہین رسالت کے مرتکبین کے حوالے سے فیصلہ تو پندرہ سو برس قبل ہو چکا۔ اس شہر میں، ربّ السموات و الارض نے جس کی قسم کھائی کہ ’’اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) ہم شہر مکہ کی قسم کھاتے ہیں اس لیے کہ تم اس میں مقیم ہو‘‘۔
مکہ وہ بستی تھی جہاں آپؐ کو قتل کرنے کے آرزو مند بستے تھے۔ جہاں آپ ؐ کی سیرت، شخصیت اور کردار پر بدترین حملے کیے گئے۔ آپ ؐ پر کوڑا پھینکا گیا۔ آپ ؐ اور آپ ؐ کے اصحابؓ کے ساتھ بدترین عداوت اور شقاوت مظاہرہ کیا گیا۔ لیکن اسی وادئ مکہ میں خیرا لبشر ؐ فاتح کی شان سے داخل ہوئے تو ارشاد فرمایا: ’’لا تثریب علیکم الیوم‘‘۔ آج تم سے کوئی باز پرس نہیں۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جنہوں نے آپ ؐ سے جنگ لڑی، عہد شکنی کی، مرد اور عورتیں۔ لیکن جنہوں نے ہجوگوئی کی، آپؐ کی توہین کی، ان کے باب میں ربّ جلیل کا حکم مختلف تھا۔ انہیں امان نہ دی جائے۔ اپنے محبوب کی توہین مالک کو گوارا نہیں۔ توہین تو درکنار اونچی آواز میں کوئی آپ ؐ کی جناب میں گفتگو کرے مالک کونین کو برداشت نہیں۔ اذیت رسول، اذیت الٰہی ہے۔ ابن خطل غلاف کعبہ کے پیچھے چھپا تھا رسالت مآب نے حکم دیا ’’اقتلوہ‘‘۔ اسے قتل کردو۔ سارہ اور رقیبہ دو عورتیں گستاخی کی مرتکب تھیں قتل کردی گئیں۔ کعب بن اشرف، سیدنا محمد بن مسلمہؓ کی قیادت میں قتل کردیا گیا۔ ایک یہودی عورت توہین کی عادی تھی علی المرتضی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں قتل کردی گئی اور ذات مکرم ؐ نے اس کے خون کا بدلہ نہیں دلوایا۔ ایک راہب نے سید لولاک ؐ کی شان میں گستاخی کی ابن عمرؓ کو علم ہوا کہا ’’سامعین نے اسے زندہ کیوں چھوڑا‘‘۔ ایک نصرانی دریدہ دہن تھا امام مالک ؒ نے فتوی دیا اس کی گردن اڑادی جائے۔ امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں: ’’شاتم رسول واجب القتل ہے‘‘۔ تمام آئمہ فقہ امام ابو حنیفہ ؒ ، امام مالک ؒ ، امام شافعی ؒ ، امام احمدبن حنبل ؒ ، امام داؤد ؒ ، امام ابن حزم ؒ اس باب میں متفق ہیں۔
با خدا عالم اسلام کا رویہ جذباتیت پر مبنی نہیں ہے جیسا باور کرایا جاتا ہے۔ عالم اسلام کا یہ رویہ اور طرزعمل ان کے عقیدے کا حصہ ہے جو مضبوط دلائل سے محکم ہے۔
* تمام انبیاء علیہ السلام اور نبی اکرم ؐ کی ذات والاصفات ہر لحاظ سے جامع اور مکمل ہے۔ کائنات کی ان مقدس ترین ہستیوں کو جامع اور مکمل ہونا ہی تھا کہ خالق اور مخلوق کے درمیان واسطہ ہیں۔ ہر شک وشبہ سے بالاتر۔ پوری انسانیت سے کہا گیا کہ جب ان کا زمانہ پاؤ تو ان کی اتباع کرو ان کامل ترین ہستیوں کی گستاخی کا جو لوگ ارتکاب کرتے ہیں وہ محض کچھ شخصیات کی توہین نہیں کرتے بلکہ خالق اور مخلوق کے درمیان رابطے کے واحد ذریعے کو غیر معتبر کرنے کے مرتکب ہوتے ہیں۔ تخلیق اپنا مقصد خود معلوم نہیں کرسکتی۔ اس آگہی کے لیے وہ خالق کی طرف دیکھتی ہے۔ خالق وحی کے ذریعے اپنی مخلوق کو اس کی غایت سے آگاہ کرتا ہے۔ تصور کیجیے اگر وحی اور صاحبان وحی غیر معتبر اور مشکوک قرار دے دیے جائیں تو پھر انسانیت اپنے مقصد زندگی کی دریافت کے لیے کہاں جائے گی۔ وہ کس چراغ سے راہ میں روشنی کرے گی۔
* اس لاعلمی کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ بدحواسی پریشانی اور آشفتگی کی شکار انسانیت ’’پر مسرت زندگی‘‘ اور ’’فطرت کی قوتوں‘‘ کی تسخیر کو اپنا مقصد حیات قرار دے گی۔ زندگی کے اس پست اور حیوانی مقصد کا حاصل یہ برآمد ہوگا کہ وہ اپنے آغاز اور انجام۔۔۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔۔۔ سے بے خبر ہوجائے گی اور نہ صرف یہ کہ اپنے جسم، اپنی جبلتوں اور حیوانی تقاضوں کی اسیر ہوکر رہ جائے گی۔ وہ کسی بلند مقصد کو حاصل کرنے کی جدوجہد سے محروم ہوجائے گی۔ کیا یہ کوئی معمولی جرم ہے جس کے مرتکبین کو معاف کردیا جائے۔
* انسانیت کی اکثریت کا معاملہ یہ ہے کہ ان کے ایمان کی عمارت عقیدت کی بنیادوں پر کھڑی ہے۔ جب کوئی بد طینت ان محترم ہستیوں پر انگلی اٹھاتا ہے۔ مکروہات ان کی طرف منسوب کرتا ہے۔ ان کے گرد جھوٹ کا جالا بنتا ہے جو انتہائی شاطرانہ انداز سے بُنا جاتا ہے تو انسانوں کی اکثریت اس قیمتی متاع یعنی عقیدت سے محروم ہوسکتی ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ انبیاء اور رسل کی تعلیمات لاپروا ہوکر معاشرے کی فاسد قوتوں میں گھر جاتی ہے۔ ایثار محبت اور امن کی حامل قوتوں سے دور ہوکر چھینا جھپٹی اور مفاد پرستی سے رشتہ استوار کرلیتی ہے۔
* عبادت الہی کہ مقصد حیات اور غایت اولی ہے اس کی ترجیحات میں شامل نہیں رہتی اور اس کی معاشرت، معیشت، سیاست، انفرادی اور اجتماعی معاملات اور قومی اور بین الاقوامی روابط میں توحید کو مرکزیت حاصل نہیں رہتی۔ لادینیت اور سائنسی فکر کے اس گٹھ جوڑ سے انسان کی اخلاقی زندگی پر بڑے بھیانک نتائج مرتب ہوتے ہیں انسان ہر قسم کی اخلاقی پابندیوں سے آزاد ہوجاتا ہے۔ جبلتوں کے حیوانی تقاضوں کی تکمیل، جنس (sex)، ہر جائز ناجائز طریقے سے دولت کا حصول مقصد زندگی قرار پاتا ہے۔ یوں ایک مادہ پرست سود خور اور اخلاق باختہ تہذیب پرورش پاتی ہے۔ کیا یہ کوئی معمولی جرم ہے جس کے مرتکبین کو معاف کردیا جائے۔
اسلام کے علاوہ دیگر بانیان مذاہب اور ان کی تعلیمات کا ہمیں صحیح علم نہیں جب کہ نبی اکرم ؐ کی شخصیت تاریخ کے ایوانوں میں ہزاروں روشن قمقموں کے درمیان پورے قد سے کھڑی ہے۔ آپ ؐ کی حیات طیبہ کا کون سا گوشہ ہے انسانیت جس سے آگاہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ؐ کی شخصیت ہمیشہ ساری دنیا کی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ ہر عہد میں آپ ؐ کے ماننے والوں میں اضافہ ہوا کمی نہیں ہوئی۔ اللہ تبارک و تعالی نے آپ ؐ کی ذات کو سارے جہاں سے بلند کیا ہے۔ وہ شخصیت جن کی عظمت کی گواہی چودہ صدیوں کے تاریک اور روشن زمانوں نے دی ہے اور سب سے بڑھ کر اللہ ربّ العزت نے دی ہے اس کے بعد بھی اگر کوئی شخص آپ ؐ کی سیرت اور شخصیت پر رکیک حملے کرتا ہے، بے سروپا کہانیاں گھڑتا ہے، آپ ؐ کا مذاق اڑاتا ہے، مضحکہ خیز خاکے بناتا ہے، علم و تحقیق کے نام پر شرمناک بات کرتا ہے، ہر بری بات کو آپ ؐ سے منسوب کرتا ہے، اہانت رسول اللہ کی وہ تاریخ رقم کرتا ہے جو انتہائی گھناؤنی اور شرمناک ہے تو ایسے شخص کو برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ایسا شخص توبہ کرے اور اسے چھوڑ دیا جائے تو پھر دیگر بدبختوں کا معمول بن جائے گا اور یہ سلسلہ دراز سے درازتر ہوتا چلا جائے گا۔
مغرب دنیائے اسلام سے تصادم کے جس جنون میں مبتلا ہے اس تصادم میں مسلمانوں کی بہ نسبت مغرب کی زیادہ چیزیں خطرے کی زد میں ہیں۔ ہمارے پاس قربان کرنے کے لیے مادی چیزیں کم ہیں، روحانی چیزیں ان شاء اللہ اس خطرے سے باہر ہیں۔ مغرب کے پاس جو کچھ ہے اس تصادم میں وہ سب فنا ہو سکتاہے یہی وجہ ہے کہ اسلام کے بارے مغرب کا رویہ مجنونانہ نفرت پر مبنی ہے۔ یہ محض ذہنی نہیں ہے بلکہ اس پر شدید جذباتی رنگ غالب ہے۔ ساری دنیا بھی الٹی لٹک جائے ناموس رسالت پر سمجھوتا ممکن نہیں۔ اسلام وہ مذہب نہیں ہے جس کی بنیاد روسو، والٹیئر، لاک، ہابز اور مغربی دساتیر کے مصنفین نے رکھی ہے۔ یہ محسن انسانیت محمد عربی ؐ کا لایا ہوا دین ہے جن پر خود اللہ اور اللہ کے فرشتے درود وسلام بھیجتے ہیں۔ صلو علیہ وآلہ

حصہ