(ہم تو عاشق ہیں تُمہارے نام کے(احمد حاطب صدیقی

269

زیر نظر کالم اسی عنوان سے اسی صفحے پر 21نومبر 2011ء کو شائع ہوا تھا۔ مگر ہماری سیاست ایک کولھو ہے اور اِس کولھو کے سب بیل اس کے گرد بندھے ایک ہی دائرے میں گھومے جا رہے ہیں۔ لیجیے، یہ چھے برس پرانا کالم پڑھیے اور کولھو پیلنے کا تازہ لطف اُٹھائیے۔
دُنیا بھر میں شور مچا ہوا ہے کہ مائک مولن کو کسی نے خط لکھ دیا ہے۔ بڑی ہاہاکار مچ گئی ہے کہ آخر اُس ’عفیف‘ کو کس نے خط لکھ دیا؟ حکومت کے مخالفین الزام لگاتے ہیں کہ زرداری نے لکھ دیا۔ زرداری کے مصاحب کہتے ہیں کہ حسین حقانی نے لکھ دیا۔ حسین حقانی کہتے ہیں کہ منصور اعجاز نے لکھ دیا۔ جب کہ منصور اعجاز کہتے ہیں کہ:
مجھ سے غالبؔ یہ علائی نے غزل لکھوائی
یعنی خط تو بے شک میں نے لکھا ہے، مگر مجھ سے حقانی نے لکھوایا ہے۔ میں تو محض ٹائپسٹ تھا ’ڈکٹیٹر‘ حسین حقانی تھے۔ اِس پر یاروں نے فٹافٹ یہ نتیجہ بھی نکال لیا کہ کوئی تو تھا جو حسین حقانی کا بھی ’ڈکٹیٹر‘ تھا اور کوئی تو تھا کہ جس کے وہ ٹائپسٹ تھے۔ قوم کے مسائل پر قومی زبان میں سوچنے والوں کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہاں ’ڈکٹیشن لینے‘ سے مراد ’اِملا نویسی‘ ہے۔ جدید تہذیب میں بڑے بڑے پڑھے لکھے لوگ بھی کوئی خط ’بقلم خود‘ نہیں لکھتے۔ ’اِملا‘ کرواتے ہیں۔ اِس مقصد سے ہر بڑے افسر کے بہت بڑے دفتر میں ایک چھوٹا سا ’اِملا نویس‘ ملازم رکھ لیا جاتا ہے۔ خود سے لکھنے میں ایک خوف تو یہ رہتا ہے کہ:
عالمِ وحشت میں جب لکھا کوئی خطِّ فراق
ربط بگڑا میری انشا کا، غلط اِملا ہوا
دوسرا خوف یہ رہتا ہے کہ:
تُمہارے اپنے، بیگانے، ہمارا خط پکڑتے ہیں
اِسی سے حالِ دِل کی ہم نے بھی تحریر کم کردی
مگر خط پھر بھی پکڑا گیا۔ مکتوب الیہ نے پہلے تو مارے شرم کے ایسا کوئی خط ملنے کا اقرار ہی نہیں کیا۔ انکار کردیا۔ مگر پھر ذہن پر زور ڈالا، مذکورہ خط دیکھا، (جس کی عکسی نقل اب ہم بھی دیکھ چکے ہیں) اور اعتراف کیا کہ ہاں خط ملا تو تھا مگر:
جب آئی یار کی تحریر، واہ ری تقدیر
نہ پڑھ سکے اُسے مطلق، خطِ جبیں کی طرح
یعنی جس طرح ہم نے اپنی تقدیر کا لکھا نہیں پڑھا اور عراق وافغانستان میں منہ کے بل جاگھسے، اُسی طرح یہ خط بھی نہیں پڑھا۔ بڑھاپا آگیا ہے، حافظہ جواب دے گیا ہے، آنکھوں سے سُجھائی نہیں دیتا، کانوں سے سُنائی نہیں دیتا اور ٹانگوں سے اُٹھائی نہیں دیتا وغیرہ وغیرہ۔
صاحبو! یہ ’سپر پاوری‘ کا زمانہ ہے۔ سو سُپرپاور بھی ہر ملک میں اپنا ایک نہ ایک تنخواہ دار ’اِملانویس‘ ضرور ملازم رکھتی ہے۔ ہر حکم اُس کو اِملا کرا دیتی ہے۔ پھر وہ آگے آپ ہی اِملا کراتا چلاجاتا ہے۔ کوئی ناخلف یا نا ہنجار املا لکھنے سے انکار کردے تو مرغا بنادیا جاتا ہے۔ مگر تازہ خبر ہے کہ اِملا لکھ لینے اور اِملا لکھوا دینے کے شبہ میں حسین حقانی کو مرغا نہیں، بکرا بنایا جارہا ہے، وہ بھی قربانی کا۔ حافظ حسین احمد کہتے ہیں کہ جناب حسین حقانی کا ذبیحہ اِس لیے کیا جارہا ہے کہ اگر یہ ذبیحہ نہ کیا تو کہیں کسی ’ذبحِ عظیم‘ کی نوبت نہ آجائے۔ ماضی میں حافظ حسین احمد کا ذبیحہ بھی کچھ اسی انداز سے ہوا تھا۔ یعنی یہ طوط�ئ شیریں مقال سیاست کی قربان گاہ کی بھینٹ چڑھ کر بالآخر اعتکاف میں جا بیٹھا۔ کبھی کبھی کسی عذر شرعی سے اعتکاف سے باہر آتا ہے تو اپنی چہکار سنا جاتا ہے۔ قاضی حسین احمد بھی فعال سیاست میں اب خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ پس اے عزادارو! اگر ہمارے سارے حسین اسی طرح ذبح ہوتے رہے تو کہیں وہ وقت آہی نہ جائے جس کی نشان دِہی علامہ اقبالؔ نے بہت پہلے کردی تھی:
قافلۂ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں
بات حسین حقانی سے چلی تھی۔ حسین حقانی بھی چلے تھے (یہ کالم لکھتے وقت) امریکا سے۔ اور خبروں کے مطابق اب وہ چلتے چلتے کسی طور پاکستان آپہنچے ہیں۔ یہ کالم چھپتے چھپتے صورتِ حال معلوم نہیں کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہوگی۔ نہیں پہنچی تو یہ بات ہمارے حکمرانوں اور سیاست دانوں تک نہیں پہنچی کہ یہ جو اپنے گھر کی ہر بات امریکا تک پہنچاتے ہیں، اور اپنی سیاست کے ذرا ذرا سے واقعات پر امریکا پہنچے ہوئے ہوتے ہیں، اور راز کی ہربات (بقولِ وکی لیکس) امریکی سفیر تک پہنچا آتے ہیں، تو اِسی باعث خود بھی اِن نوبتوں کو جا پہنچے ہیں۔
اب تو خیر خود حسین حقانی بھی یہ بات کر رہے ہیں کہ پاکستان کا دفاع پاکستانی افواج کی ذمے داری ہے، امریکی افواج کی نہیں۔ لیکن امریکا کو اپنے اندرونی معاملات میں ہر سطح پر جو دخیل کرلیا گیا ہے، امریکا میں جو بقولِ لیاقت بلوچ ’حسین حقانی نیٹ ورک‘ بنالیا گیا ہے، اُس کی بات کیوں نہیں کی جاتی؟ یہ جو بی بی کی مشہور ومعروف ای۔میل کی بات ہے (جس میں اُنہوں نے اپنے قاتل نام زَد کیے تھے) یہ جو پاکستانی سیاست دانوں کے مابین ہونے والا امریکی ’این آر او‘ ہے، اور اس سے قبل امریکی مداخلت سے جو کارگل کی جنگ بندی تھی اور جو امریکا کے حکم پر افغانستان سے جنگ کُشائی تھی، ایسے ہی بہت سے معاملات کی ایک بہت طویل فہرست ہے جو امریکا سے ہمارے سیاسی، معاشی اور عسکری ہر سطح کے عشق و معاشقہ کی داستانیں بیان کرتی ہے۔ عاشقی میں توبس یہی سب ہوتا ہے۔ یعنی:
اِس طرح تو ہوتا ہے، اِس طرح کے کاموں میں
جب آوے کا آوا ہی عاشق ہو تو ظاہر ہے کہ پھر رقابت بھی چلے گی۔ خط لکھے بھی جائیں گے، خط پکڑے بھی جائیں گے اور باز پھر بھی نہیں آئیں گے، کیوں کہ عاشقی میں خط صرف اپنی مطلب براری کے لیے ہی نہیں لکھے جاتے، بے مطلب بھی لکھے جاتے ہیں۔ بقولِ غالبؔ :
خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو
ہم تو عاشق ہیں تُمہارے نام کے

حصہ