سہ ماہی لوح ۔ خوب ترین

583

جوش ملیح آبادی کو اردو زبان پر جو عبور حاصل تھا اس سے کون انکار کرسکتا ہے۔ ان کے پاس ایک زبان ہی تو تھی۔ انہوں نے شاعرانہ مبالغے کے ساتھ جو سوانح حیات ’’یادوں کی برات‘‘ کے عنوان سے لکھی تو اسے تبصرے کے لیے حضرت ماہرالقادری کو یہ کہہ کر بھیجا کہ ’’لیجیے ماہر صاحب بکرا حاضر ہے۔‘‘ اور پھر ماہرالقادری نے یادوں کی برات کے ساتھ وہی سلوک کیا جو بکرے کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ جوش نے تبصرے پر برہمی کا اظہار نہیں کیا کہ ’’کیا اس کتاب کو اردو کا قاعدہ سمجھ کر پڑھا ہے۔‘‘ لیکن ہر ادیب و شاعر کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ اس کی ’’تخلیق‘‘ کی صرف تعریف کی جائے۔ بقول محسن بھوپالی:
خوب ہے خوب تر ہے خوب ترین
تجزیے اس طرح نہیں ہوتے
آپ تجزیے کی جگہ تبصرے کردیں۔ اخباری تبصروں میں تو یہ روش عام ہے کہ تبصرے کے بجائے تعارف ہوتا ہے یا پھر یہ کہ کاغذ کیسا استعمال ہوا‘ جلد کیسی ہے اور صفحات و قیمت کیا ہیں۔ اس میں مبصر کو زیادہ زحمت بھی نہیں ہوتی اور بچت بھی ہو جاتی ہے۔ کتابیں تو کئی جمع ہوگئی ہیں لیکن خوفِ فسادِ خلق سے تبصرے شائع کرنے سے گریز ہی بہتر ہے۔ تو چلیے تعارف ہی سہی۔
سب سے پہلے تو سہ ماہی ’’لوح‘‘ کا ذکر ہوجائے اس کے سرورق پر یہ دعویٰ ہے کہ ’’اولڈ راوینز کی جانب سے اسیرانِ علم و ادب کے لیے ’’توشہ خاص۔‘‘ اس دعوے میں کوئی مبالغہ بھی نہیں ہے‘ سوائے اس کے کہ اسیروں کے لیے توشہ کون بھیجتا ہے‘ ان کی تو ’’ملاقات‘‘ آتی ہے لیکن یہ تو شہ علم و ادب کے اسیروں کے لیے ہے اور بڑا بھاری بھرکم ہے۔ مدیر اس کے جناب ممتاز احمد شیخ ہیں اور شیخ ہونے کے باوجود وہ اپنے پلّے سے علم و ادب کی خدمت کر رہے ہیں۔ اس کے لیے وہ کم از کم خراج تحسین کے مستحق تو ہیں۔ ہمارے سامنے سہ ماہی کتابی سلسلے کا شمارہ نمبر 4 ہے اور اسے دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے۔ افسوس اس بات پر کہ پہلے تین شمارے کیوں نظر سے نہیں گزرے۔ (یہ حسنِ طلب ہرگز نہیں) یہ اتنا ضخیم مجلّہ ہے کہ اسے بڑی آسانی سے تین ماہ تک پڑھ سکتے ہیں۔ بڑی تقطیع پر 680 صفحات اور ان صفحات میں بہت کچھ ہے‘ اتنا کہ اسیرانِ علم و ادب کی طبیعت سیر ہوجائے۔ کاغذ بھی معیاری اور کمپوزنگ بھی ایسی کہ کمزور بصارت والے بھی پڑھ کر بصیرت حاصل کر سکتے ہیں۔ قیمت 650 روپے ہے جو ممکن ہے کھڑے کھڑے اس سے دگنی قیمت کے تکے پت زا (پیزا) اڑانے والوں کی جیب پر گراں گزرے۔ ممتاز احمد شیخ ایسے لوگوں کو جوش ملیح آبادی کا یہ مصرع پیش کرسکتے ہیں کہ ’’لئیمو میں داغِ جگر بیچتا ہوں۔‘‘ کسی صاحب کو یہ لوح درکار ہو تو رہبر پبلشرز‘ اردو بازار کراچی سے رابطہ کرسکتے ہیں۔ ’’رہبر‘‘ کی شاخیں حیدرآباد‘ ملتان‘ لاہور اور راولپنڈی میں رہبری کے لیے موجود ہیں۔
ویسے تو لوح میں پڑھنے والی بے شمار چیزیں ہیں لیکن کچھ ’’نوادرات‘‘ بھی ہیں مثلاً پطرس بخاری کا ایک یادگار اداریہ جب وہ طالب علم اور راوی کے مدیر تھے (جنوری 1921) وہ اس دور میں بھی ’’پطرس بخاری‘‘ تھے۔ اس میں ستیہ پال آنند بھی ہیں۔ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ بھی 1857 اور اردو شاعری لے کر آئے ہیں۔ فتح محمد ملک کا رشید احمد کے فکر و فن کا جائزہ بھی ہے۔ نظموں اور غزلوں میں ایک سے بڑھ کر ایک سخن ور اور سخن طراز موجود ہے حتیٰ کہ ظفر اقبال بھی۔ ظفر اقبال نئی زبان تشکیل دے رہے ہیں اوران کا اصرار ہے کہ یہ اردو ہے۔ ان کی چار غزلیں بھی شامل کی گئی ہیں اور انہوں نے اپنی روایت برقرار رکھتے ہوئے ایک نیا لفظ ’’جھات‘‘ زبان کی نذر کیا ہے۔ ان کا شعر ہے:
بس ایک طرف کا ہے یہ خوش رنگ نظارہ
کیا دوسری جانب بھی کبھی ’’جھات‘‘ کرو ہو
اس بحر اور قافیہ ردیف میں کلیم عاجز کی بڑی معرکۃ الآرا غزل ہے جس کا ایک شعر تو ضرب المثل بن گیا ہے کہ:
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
ظفر اقبال نے بھی اس بحر میں کئی اچھے شعر نکالے ہیں۔ مطلع دیکھیے:
تم بات کرو ہو نہ ملاقات کرو ہو
کیوں اتنے پریشاں مرے حالات کرو ہو
یا یہ مقطع:
ہو کر رہے وہ صرف تمہارا ہی ظفر‘ کیوں
اب یہ بھی کوئی بات ہے‘ کیا بات کرو ہو
اگر وہ ’’جھات‘‘ نکال دیں تو پوری غزل اچھی ہے ۔
انور شعور جیسے استادِ وقت کے کلام پر انگلی رکھنا بے ادبی ہے۔ لیکن صفحہ 573 پر ان کی غزل کا مقطع کھٹک رہا ہے جو یوں شائع ہوا ہے:
سر اٹھا کے تو ذرا دیکھو شعور
اور بھی ہیں غم کے مارے ہمارے آس پاس
ہمیں وزن یا عروض کی تو کچھ سمجھ نہیں ہے لیکن خیال ہے کہ دوسرے مصرع میں ’’ہمارے‘‘ زائد ہے۔ یہ یقیناًکمپوزنگ کی غلطی ہوگی۔
منصور مانی کا یہ مصرع بھی سمجھ میں نہیں آیا ’’اس کے حسن برشتہ سے میں ہوا۔‘‘ (شب گزیدہ‘ ص: 196) نظم اچھی ہے اور چوں کہ شاعری بھی ہمارا شعبہ نہیں اس لیے اس سے گریز کرتے ہیں اور ایک بار پھر یہ اعتراف کہ واقعی اسیرانِ علم و ادب کے لیے توشہ خاص نہیں بلکہ مائدہ ہے جس پر ایک کونے میں موسیقاروں اور گلوکاروں پر بھی تبصرہ و تعارف سجا ہوا ہے اور منہ کا مزہ بدلنے کے لیے معروف مزاح نگار ایس ایم معین قریشی بھی موجود ہیں۔ یہ لوح محفوظ نہ سہی لوح محظوظ تو ہے اور عرصہ تک ذہنوں میں محفوظ بھی رہے گی۔

حصہ