فیچر

787

کتب بینی اور ذوقِ مطالعہ کی آبیاری کے لیے لاہور کے نوجوان عرفان احمد بھٹی نے عبدالرؤف کی معاونت سے معروف ادیبوں، شاعروں، صحافیوں اور اہلِ علم کے مطالعاتی سفر کی روداد تحریری و زبانی انٹرویو کے ذریعے مرتب کی ہے۔ ان کویہ تحریک ’’مشاہیر اہلِ علم کی محسن کتابیں‘‘ سے ملی۔ 20 معروف اہلِ علم کی مطالعاتی زندگی کی روداد ’’میرا مطالعہ‘‘ کی پہلی جلدایمل مطبوعات، اسلام آباد سے شائع ہوچکی ہے۔ عرفان احمد بھٹی کی درخواست پر ان کی کتاب کے لیے روزنامہ جسارت کے مستقل کالم نگاراحمد حاطب صدیقی (ابو نثر) نے تحریری انٹرویو میں اپنا مطالعاتی سفرنامہ پیش کیا ہے۔ احمد حاطب صدیقی کے تحریری انٹرویو کا پہلا حصہ ملاحظہ کیجیے۔ یہ سلسلہ جاری ہے مزید اہل علم کے مطالعاتی سفر نامے بھی قارئین جستہ جستہ ملاحظہ کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔۔
تعلیمی دستاویزات کی رُو سے میری تاریخ پیدائش ۳؍فروری ۱۹۵۶ء ہے اور مقامِ پیدئش کراچی۔خاندانی پس منظر یہ ہے کہ میرے والد اور میری والدہ دونوں کا تعلق یوپی کے ضلع اعظم گڑھ میں آباد ’صدیقی خاندان‘ سے تھا۔ اس لحاظ سے مجھے یہ کہنے کا شرف حاصل ہے کہ میں ’نجیب الطرفین صدیقی‘ ہوں۔ سیدنا محمد بن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما کی اولاد ہونے کا اعزاز رکھنے والے اِس ’صدیقی خاندان‘ کی اعظم گڑھ میں موجودگی کا ذکر قاضی محمد سلیمان سلمان منصورپوری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی معرکہ آرا کتاب ’’رحمۃ للعالمین‘‘ میں بھی کیا ہے۔ صدیقی خاندان کی یہ شاخ ’’بعد الغاری‘‘ کہلاتی ہے۔ ہمارے اسلاف میں سے اکثر اپنے نام کے ساتھ اس اعزاز کو بھی لکھا کرتے تھے۔ اگر وہ روایت ہمارے خاندان میں اب بھی برقرار رہتی تو میرا نام ’احمد حاطب صدیقی بعد الغاری‘ لکھا جاتا۔
’بعد الغاری‘ کا قصہ یہ ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ کی وہ اولاد جو ہجرت کے سفر میں پیش آنے والے واقعہ غارِ ثور کے بعد پیدا ہوئی ’بعد الغاری‘ کہی گئی۔ غارِ ثور کا یہ واقعہ تمام کتب سیرت میں مذکور ہے۔ سفر ہجرت کے مراحل طے کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ جب غارِ ثور تک پہنچے تو غار کے منہ پر پہنچ کر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم سے عرض کیا کہ ابھی آپ اس غار میں داخل نہ ہوں۔پہلے میں اس میں داخل ہو کر دیکھتا ہوں۔ اگر اس میں کوئی ضرر رساں چیز ہوئی تو آپ کے بجائے مجھے اس سے سابقہ پیش آئے گا۔ یہ کہہ کر آپؓ پہلے غار میں داخل ہوگئے۔غار کو صاف کیا۔ایک طرف سانپوں کے بِل دیکھے تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ نے اپنی چادر پھاڑ کر انہیں بند کر دیا۔ دو سوراخ بند ہونے سے رہ گئے۔ اُن سوراخوں پر آپؓنے اپنے پاؤں کے انگوٹھے رکھ دیے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم سے عرض کی کہ آپؐ اندر تشریف لائیں۔حضورؐ غار میں تشریف لائے تو اس پُر مشقت سفر کی تھکن دور کرنے کی خاطر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ کے زانوپر اپنا سر اقدس رکھ کر آرام فرما ہوگئے۔ اسی اثنا میں ایک سانپ نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ کے ایک انگوٹھے پر ڈس لیا۔ تکلیف کی شدت سے آپؓ کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے، مگر اس خیال سے آپؓ ہلے بھی نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کے خواب میں خلل پڑے گا۔ تاہم سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ کے آنسو حضورؐ کے چہرہ مبارک پرٹپک گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی آنکھ کھل گئی۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ ابوبکر تمہیں کیا ہوا؟سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ نے عرض کیا کہ آپؐ پر میرے ماں باپ قربان، مجھے کسی چیز نے ڈس لیا ہے۔جب آپؐ کے علم میں یہ بات آئی تو آپؐ نے اپنا لعابِ دہن زخم پر لگا دیا اور وہ فوراً ٹھیک ہوگیا، تکلیف جاتی رہی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کے اس معجزے کے اثرات سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ کی ’بعد الغاری‘ اولاد میں آج تک موجود ہیں۔ چناں چہ ہمارے خاندان میں سانپ کے کاٹے سے کبھی کسی کی موت واقع نہیں ہوئی۔
ہندوستان میں ہمارے خاندان کا شمار ’’مِلکی خاندانوں‘ ‘ میں کیا جاتا تھا۔ ’مِلکی‘ اُن خاندانوں کو کہا جاتا تھا جن کی مِلک یا مِلکیت میں شاہانِ مغلیہ اور سلاطین سلطنت شرقی کے ادوار سے ریاستیں، اضلاع، پرگنے اورگاؤں ہوتے تھے۔ جب مجھے ’’شاہجہاں نامہ‘‘ کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا تو یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ ہمارے شجرہ نسب کے مطابق ہمارے اجداد میں سے ایک بزرگ ہمت احمد خاں صدیقی کا تذکرہ ’’شاہ جہاں نامہ‘‘ میں موجود ہے، جس میں انہیں ملنے والے مناصب اور اعزازات کے فرامین بھی نقل کیے گئے ہیں۔ ’’خاں‘‘ (’’خان‘‘ نہیں ’’خاں‘‘)کا خطاب بھی شاہی دربار سے ملا تھا۔ ہمارے اسلاف نے ایک عرصے تک اس خطاب کو اپنے نام کا جزو بنائے رکھا۔ اب کوئی نہیں لکھتا۔
اپنے اس خاندانی پس منظر کا ذکر میں اظہار تفاخر کے طور پر نہیں کر رہا ہوں۔نوابین اور رؤسا سے تو سارا ہندوستان بھرا ہوا تھا۔ان کی اولاد میں سے ہونا کوئی امتیازی شرف نہیں ہے۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ اس رئیسانہ پس منظر کے باوجود ہمارے خاندان نے علم سے ناتا نہیں توڑا۔ ہندوستان میں ہمارا خاندان علما کا خاندان کہلاتا تھا۔ہماری دادی کا تعلق اعظم گڑھ کے مشہور گاؤں چِریّا کوٹ (درست تلفظ: چی رَیّا کوٹ) سے تھا۔والد کے نانیہالی رشتہ داروں میں سے مشہور عالم دین مولانا فاروق چریّاکوٹی (جو علامہ شبلی نعمانی کے اُستاد تھے) اور مولانا عنایت رسول چریّا کوٹی (جو سرسید احمد خان کے اُستاد تھے) علمی دُنیا میں آج بھی معروف ہیں۔ میرے دادا مولانا محمد ابراہیم صدیقی بھی عالم تھے اور میرے والد مولوی ابوالحسنات صدیقی بھی علومِ اسلامی اور عربی و فارسی کے علما میں سے تھے۔میرے تایا مولانا ابوالجلال صدیقی ندوی مفسر قرآن اور ماہر لسانیات تھے۔آپ مولانا سید سلیمان ندویؒ اور مولانا حمیدالدین فراہیؒ کے شاگرد تھے۔قرآن کے ’حروف مقطعات‘ کی تشریح اُن کا اختصاصی موضوع تھا، جس کے لیے انہوں نے دنیا کی کئی زبانوں کے حروف تہجی کا عمیق مطالعہ کیا، قدیم عمارتوں، بالخصوص ’آثار قدیمہ‘ ہوجانے والے کھنڈرات پر منقش کتبات انہوں نے بطورِ خاص پڑھے۔ اسی ضمن میں موہنجودارو سے ملنے والی مہروں کے نقوش بھی پڑھ ڈالے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ان نقوش میں پائی جانے والی تحریر یہ بتاتی ہے کہ موہنجو دارو کے باشندے بت پرست نہیں تھے،سیدنا ابراہیم خلیل اللہ (علیہ الصلوٰۃ و السلام) کے ’’دین حنیف‘‘ پر عمل پیرا تھے۔ تمام مغربی ماہرین آثار قدیمہ آج تک یہی کہتے چلے آ رہے ہیں کہ موہنجودارو کی زبان نہیں پڑھی جاسکتی۔ جب کہ مولانا ابوالجلال ندویؒ کا کہنا تھا کہ یہ بات غلط ہے کہ پڑھی نہیں جاسکتی، انہوں نے پڑھنا ہی نہیں چاہا۔
میری عمر جب چار سال، چار مہینے اور چار دن ہوئی تو ’’رسم بسم اللہ‘‘ سے میری ’’مطالعاتی زندگی‘‘ کا آغاز کروایا گیا۔اُس تقریب کے مناظر مجھے اب تک بالکل اسی طرح یاد ہیں جیسے خواب سے اچانک آنکھ کھل جانے پر خواب کے کچھ مناظر یادرہ جاتے ہیں۔ طوالت سے بچنے کے لیے تفصیل نہیں بیان کرتا۔ مولانا ابوالجلال ندوی نے سورہ علق کی ابتدائی آیات پڑھائیں (وہ پڑھتے گئے اور میں دُہراتا گیا)۔ یوں میری ’پڑھائی‘ کی بسم اللہ ہوگئی۔ اس کے بعد رسمی تعلیم کا آغاز ہوا۔ مولانا ابوالجلال ندوی، جنہیں ہم سب بھائی ’’بڑے ابا‘‘کہا کرتے تھے، اپنی بے پناہ علمی مصروفیات کے باوجود بچوں کی علمی پیش قدمی پر بھی گاہے گاہے نظرڈالتے رہتے تھے۔ مجھے پڑھنا آگیا تو اکثر اخبار یا رسائل پڑھوا کر سنتے اور تلفظ کی اصلاح کرتے جاتے۔
اس موقع پر بچپن کا ایک دلچسپ واقعہ یاد آگیا۔ ایک روزبڑے ابا نے گود میں بٹھا کر پوچھا: ’’کیوں میاں ! کیا پڑھتے ہو؟‘‘عرض کیا: ’’عربی کے قاعدے میں الف زبر، الف زیراِے، الف پیش او ۔۔۔ سب پڑھ لیا ہے۔‘‘پھر پوچھا:’’اردو بھی پڑھتے ہو؟‘‘جواب دیا:’’جی ! اردو کا قاعدہ ختم کر لیا ہے‘‘۔اب دریافت فرمایا :’’ اگر ہم اردو کا کوئی جملہ بولیں تو لکھ لو گے؟‘‘ (یہاں یہ دلچسپ بات بھی بتاتا چلوں کہ یوپی کے شرفا، بالخصوص مِلکی خاندانوں کے لوگ ’’شاہانہ واحد متکلم‘‘” “Royal Singular یعنی ’’میں‘‘ کی جگہ ’’ہم‘‘ استعمال کیا کرتے تھے) اس سوال کے جواب میں چھٹانک بھر کی زبان ہلانے کے بجائے۔۔۔ بقول بڑے ابا۔۔۔ میں نے سیر بھر کا سر ہلادیا۔ دائیں سے بائیں، انکار میں!اُنھوں نے کہا: ’’قلم،دوات اور کاغذ لاؤ‘‘۔ میں بڑے بھائی کا زیڈ نب والا ہولڈر، دوات اور کاغذ کا دستہ اٹھا لایا۔ اُنھوں نے اِملاکروانا شروع کردیا:’’لکھو: الف زیر اے ۔۔۔ میم زیر مے ۔۔۔ رے زیررے ۔۔۔ بے زیر بے ۔۔۔ ٹے زیر ٹے ۔۔۔کاف زیر کے ۔۔۔ اور اب تین مرتبہ لام زیر لے لکھ لو‘‘۔ جو کچھ لکھا اس کی صورت املا میں یوں بنی تھی: ’’اِ مِ رِ بِ ٹِ کِ لِ لِ لِ ‘‘۔انہوں نے حکم دیا: ’’ اب اس کو بغیر ہجے کے پڑھو‘‘۔ جب اسے بغیر ہجے کے پڑھا تو مارے خوشی کے باچھیں کھل گئیں۔ فرطِ انبساط سے پھوٹ پھوٹ پڑنے والی ہنسی پر قابو پانا مشکل ہو گیا۔ گویاالف بے پڑھنے والا ایک بچہ اُردو کا ایک مکمل جملہ لکھنے میں کامیاب ہو چکاتھا: ’’اے مِرے بیٹے کیلے لے لے‘‘۔اب تو ایک کھیل ہاتھ آگیا۔ کھیل ہی کھیل میں کئی فقرے بناڈالے۔
حصول علم اور مطالعے کے عمل کو بچوں کے لیے دلچسپ بنانے کی خاطربڑے ابابڑے دلچسپ طریقے اختیار کرتے تھے۔ ایک روز انھوں نے ایک کاغذ پر پان کے ایک مکمل پتے کی شکل بنائی۔ درمیان سے چارلکیریں اُٹھ کر اوپر کو جا رہی تھیں۔پوچھا: ’’ یہ کیا ہے؟‘‘ غور سے دیکھا تو بیرونی لکیروں کو شامل کر لینے سے ایک مانوس سی شکل بن گئی تھی۔ عرض کیا: ’’یہ انسان کے ہاتھ کی ہتھیلی اور اس کی پانچ انگلیاں ہیں‘‘۔جواب سن کر بہت خوش ہوئے۔ شاباش دی اور بتایا : ’’ اردو اور عربی کے ’’ ۵ ‘‘ کا ہندسہ اسی ہتھیلی کی بگڑی ہوئی یا بنی ہوئی شکل ہے ‘‘۔ پھر مزید بتایا : ’’ انسان نے لکھنے کے لئے پہلے پہل تصویریں بنائیں۔ بعد میں یہی تصویریں حروف اور ہندسوں کی شکل اختیار کر گئیں‘‘۔ انہوں نے تمام حروفِ تہجی کی صوری تاریخ بتائی۔ مثلاً میں آپ کو صرف ’’ب‘‘ کے بارے میں بتاتا ہوں۔ ’’ب‘‘ کا لفظ دراصل ’’بیت‘‘ تھا۔ عبرانی میں اب بھی یہ حرف ’’بیت‘‘ ہی کہلاتا ہے۔ یہی حرف لاطینی میں جا کر ’’بِیٹا‘‘ (Beta) ہوگیااور انگریزی میں “B”۔ ’’بیت‘‘ عربی میں گھر کو کہا جاتا ہے۔ اس حرف کیصورتبنانے کے لیے ایک جھونپڑے نما گھر کی تصویر بنائی جاتی۔ ایک افقی لکیر کے دونوں سروں پر عمودی لکیریں کھڑی کرکے اُن پر ۸ کے ہندسے جیسی چھت ڈال دی جاتی۔ تحریر میں ارتقا ہوا تو صرف اُفقی لکیر باقی رہ گئی۔ عمودی لکیروں کو ظاہر کرنے کے لیے اُفقی لکیر کے دونوں سروں کو قدرے اوپر اُٹھادیا گیا۔یوں ’’ب‘‘ کی ارتقائی شکل وجود میں آئی۔
ایک روز کہنے لگے : ’’جب انسان کو پیاس لگی تو اُس نے بے قرار ہو کر کچھ کہنے کو منہ کھولا۔ منہ سے جو آہ نکلی وہی آہ ’’ پانی‘‘ کا نام بن گئی۔ تقریباً ہر زبان میں ’’پانی‘‘ کا نام لیتے ہوئے منہ ضرور کھلتا ہے‘‘۔ غور کیجیے تو عربی کا ’’ ماء‘‘ ہو، انگریزی کا ’’واٹر‘‘ ہو، جرمن کا ’’ واسر‘‘ ہو فارسی کا ’’آب‘‘ ہو یا اردو ہندی کا’’ پانی‘‘ سب کو ادا کرتے وقت پیاس کے ماروں کا منہ کھلے کا کھلا ہی رہ جاتا ہے۔ فقط اہلِ فارس ہیں جن کا منہ اَدائی کے بعد بند بھی ہو جاتاہے۔
ایک دفعہ ہمیں بتایا: ’’ انسان نے لکڑی کاٹنے کے لئے جب اس پر اپنا اوزار (مثلاً کلھاڑا) مارا تو جو آواز نکلی وہی اس عمل کا نام ہو گئی۔ اُردو، ہندی اور انگریزی میں ’’ کٹ ‘‘فارسی اور عربی میں قط اور ’’ قطع۔‘‘ایک بار ہفتہ (فارسی، اردو ) سبت ( عبرانی، عربی) اور سپتاہ (ہندی) کی صوتی مماثلت کا ذکر کرنے کے بعد پوچھا: ’’ہفتہ ہر جگہ سات ہی دن کا کیوں ہوتا ہے؟‘‘جب لا علمی کا اظہار کیاتو انھوں نے بتایا: ’’ ہر سات دن کے بعد چاند کی شکل تبدیل ہو جاتی ہے۔ ابتدائی سات دنوں میں وہ ہلال سے شروع ہو کر نصف تک پہنچ جاتا ہے۔ اگلے سات دنوں میں پورا ہو کر بدر بن جاتا ہے۔ بعد کے سات دنوں میں پھر آدھا ہو جاتا ہے اور آخری سات دنوں کے بعد ازسرِنو طلوع ہونے کے لئے غائب ہو جاتا ہے ‘‘۔ قصہ مختصر یہ کہ میرا ذوقِ مطالعہ تشکیل دینے میں میرے تایا مولانا ابوالجلال ندویؒ نے بہت اہم اور بنیادی کردار ادا کیا ہے۔
شعری ذوق پیدا کرنے میں میری والدہ کا بڑا ہاتھ ہے۔ ابھی باقاعدہ تعلیم کا آغاز نہیں ہوا تھا کہ قرآنِ مجید کی مختصر سورتوں کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے اقبالؔ کی کئی نظمیں مجھے یاد کرادی تھیں۔ حفیظ جالندھری کے ’شاہنامۂ اسلام‘‘سے منتخب اشعار وہ بڑے ترنم سے سنایا کرتی تھیں۔ آج بھی میری سماعتوں کی یاد داشت میں اُن کا وہ مخصوص ترنم نغمہ ریز رہا کرتا ہے، جو میں نے ان سے بچپن میں سنا تھا۔۔ مسلسل سننے کی وجہ سے حفیظؔ کے مشکل اشعار بھی مجھے درست تلفظ کے ساتھ زبانی یاد ہو گئے تھے۔۔۔اب تک یاد ہیں:
ابھی لوری نہ دی تھی جنبشِ دامانِ مادر نے
کہ دل گرما دیا تھا نعرۂ اللہ اکبر نے
نہ اُلٹا تھا ابھی مضمونِ طفلی کا ورق میں نے
لیا تھا بائے بسم اللہ سے پہلا سبق میں نے
ابھی ملبوسِ گویائی نہ تھا پوری طرح پہنا
کہ سیکھا تھا زباں نے قُل ھُو اللہ احد کہنا
حفیظؔ نے شاہنامۂ اسلام کی جلد دوم کے اندر اپنی منظوم داستان ’’سخن ہائے گفتنی در پیرایہ سرگزشت مصنف‘‘ میں جو اپنی تعلیمی کہانی بیان کی ہے، وہ مجھے اپنا ہی قصہ محسوس ہوتا ہے۔ شایدہمارے بچپن تک پورے بر صغیر کے مسلمانوں کی تعلیمی تہذیب ایک سی تھی۔ حفیظؔ کی اس سرگزشت کے اشعار بھی مجھے میری والدہ نے اُسی دورمیں یاد کروا دیے تھے:
مجھے مسجد میں لے جایا گیا قرآن پڑھنے کو
خدا اور مصطفیؐ کی راہ میں پروان چڑھنے کو
مرا اُستاد حق آگاہ تھا، مردِ مسلماں تھا
پرستارِ خدائے پاک تھا، پابندِ قرآں تھا
وہ سادہ تھا، بہت ہی صاف و سادہ تھے اُصول اُس کے
وہ کہتا تھا خدا اِک ہے، محمدؐ ہیں رسول اُس کے
اُسے ایمان تھا ایمان ہی کی استقامت پر
فرشتوں پر، کتابوں پر، رسولوں پر، قیامت پر
*
مری حُبِّ رسول اللہ کی بنیاد ہے مسجد
خدا آباد رکھے، آج بھی آباد ہے مسجد
تصور میں ہے اب تک صحن مسجد کا وہ نظّارا
اُدھر اُستاد، اِدھر مَیں، درمیاں رِحل اور سیپارا
شکستہ بوریے پر ہمسنوں کا بیٹھنا مل کر
وہ ہر سادہ خوشی پر سب کا ہنسنا خوب کھِل کھِل کر
وہ آوازِ اذاں پر دفعۃً خاموش ہو جانا
صفیں آراستہ کرنا، ہمہ تن گوش ہو جانا
یہی فردوس تھا جس میں ہوئی تھی ابتدا میری
اسی فردوس میں اے کاش ہوتی انتہا میری
یعنی اُس زمانے کے رواج کے مطابق میری باقاعدہ تعلیم کا آغاز بھی مسجد ہی سے ہوا۔ قرآنِ مجید کا ناظرہ مکمل ہو جانے کے بعد مجھے’ابتدائی مدرسے‘ میں داخلہ کرایا گیا، جسے آج کل ’پرائمری اسکول‘ کہا جاتا ہے۔ابھی پانچویں جماعت میں تھا تو یہ دیکھ کر کہ غلط یا درست تلفظ کے ساتھ، اب مجھے پڑھنا آگیا ہے، میرے بڑے بھائی جناب محفوظ الرحمن صدیقی نے مجھے کہانیوں کی چھوٹی چھوٹی کتابیں لاکر دینا شروع کر دیں۔ان کہانیوں کو پڑھنے میں مزہ آنے لگا۔ کہانیوں کے ایک سلسلۂ کتب کانام آج بھی یاد ہے’’پاک کہانیاں‘‘۔ اس میں انبیاؑ اور صحابۂ کرامؓ کے دلچسپ واقعات تھے۔ مطالعہ رواں ہوگیا تو کہانیوں کی نسبتاً ضخیم کتابیں پڑھنے کو ملنے لگیں۔ بالخصوص مولانا مائل خیر آبادی کے ناول’’نقلی شہزادہ‘‘ نے تو راتوں کی نیندیں حرام کردیں۔ جب تک ناول ختم نہ کر لیا اسے چھوڑا نہیں۔ کھاتے وقت بھی دایاں ہاتھ روٹی اور سالن کی طرف اور نظریں بائیں ہاتھ میں تھامی ہوئی کتاب پر ہوتی تھیں۔ والدہ محترمہ کھانے کے وقت پڑھنے کا عمل جاری رکھنے پر بہت خفا ہوتی تھیں۔ کئی بار ایسا ہوا کہ بڑے بھائی نے سالن کی پلیٹ اپنی جگہ سے کھسکا دی اور میں انہماکِ مطالعہ میں روٹی کو دسترخوان ہی پر لگا لگا کر کھاتا رہا۔ آج بھی جب کبھی ’نقلی شہزادہ‘ پر نظر پڑتی ہے تو اَروی کاوہی سالن یاد آتا ہے۔ ناولوں کی چاٹ پڑ گئی تو ’محمود کی آپ بیتی‘ اور ’عالی پر کیا گزری‘ سمیت بچوں کے بہت سے ناول اُسی عمرمیں چاٹ ڈالے۔ امتیاز علی تاج، میرزا ادیب اور سعید لخت کی ڈھیروں کہانیاں پڑھ ڈالیں۔ اُن ہی دنوں عصمت چغتائی کی بچوں کے لیے لکھی گئی پُر مزاح کہانی ’’بیلو کی پٹائی‘‘ بھی پڑھی، جس نے مزاح نگاری کی طرف رُجحان کی بنیاد رکھ دی۔
ہمارا مکان کراچی کی ایک مضافاتی بستی ملیر توسیعی کالونی (عُرف: کھوکھراپار) میں واقع تھا۔ چلچلاتی گرمیوں کی دوپہر میں، دُور ملٹری ڈیری فارم سے آتی ہوئی، کوئل کے کوکنے کی آواز کانوں کو بھلی معلوم ہوتی تھی۔ ایسے میں اُس مکان کے کچے صحن میں، امرود کے پیڑ کی چھاؤں تلے چارپائی پر لیٹ کر پڑھنا ہمارے لیے نری عیاشی تھی۔وہ مزے موجودہ پختہ مکان کی اِس سجی سجائی مطالعہ گاہ (Study Room) میں کہاں؟ پانچویں جماعت پاس کر لینے کے بعد مجھے کراچی کے ’’سرکاری مدرسۂ ثانویہ برائے طلبہ سعودآباد ‘‘میں داخل کرایا گیا۔ یہ تعلیمی ادارہ آج بھی موجود ہے۔مگر اُس کی پیشانی پر اب اس خوبصورت نام کی جگہ ’’گورنمنٹ بوائزسیکنڈری اسکول، سعودآباد‘‘تحریر کر دیا گیا ہے۔ اس تعلیم گاہ نے میرے ذوقِ مطالعہ کی سمتی تشکیل میں بھی ایک مہربان ’’مادرِ علمی‘‘ ہی کے مشفقانہ فرائض سر انجام دیے۔
ثانوی جماعتوں میں میرے ایک اُستاد تھے محمد رمضان صدیقی۔ شاعر بھی تھے۔ شوقؔ صدیقی کے تخلص سے مشہور تھے۔ انگریزی پڑھاتے تھے، مگر ساتھ ساتھ غور و فکر کی عادت بھی پروان چڑھاتے جاتے تھے۔لہجہ محبت بھرا۔ الفاظ پُر تاثیر۔ زبان شعروادب بھری۔انداز ایسا کہ جب بھی اورجوبات بھی کہی اُس کاایک ایک لفظ آج بھی دِل میں پتھر کی لکیروں کی طرح نقش ہے۔ اُنھوں نے زندگی کو مقصدیت اور جہدِ زندگی کوللّٰہیت سے لبریز کر دیا۔ شوقِ مطالعہ، ذوقِ تحقیق اورشعروادب کا جوسروراُنھوں نے اُس عمر میں اپنے شاگرد کی طبعیت میں بھردیا تھا، اُس کی مخموری آج بھی طاری ہے۔ اُنھوں نے ایک روز “Tariq Burns His Boats” پڑھاتے ہوئے بتلایاکہ’’بیٹا!یاد رکھو، دُنیا میں کامیابی کے حصول کا بس ایک ہی طریقہ ہے۔ ساحلِ مُراد پر اُترو تو کشتیاں جلادو۔اورجان لوکہ اجنبی دیس کے اِن ساحلوں سے گھر دُور ہے اور بہشتِ بریں نزدیک۔ بے جگری سے جہاد کروگے تو کامیابی تُمھارا مقدّربن جائے گی‘‘۔شوقؔ صاحب نے میرا شوقِ مطالعہ دیکھ کر ایک کتاب مکمل مطالعے کی تاکید کے ساتھ مجھے مستعار دی۔ یہ مرزا فرحت اللہ بیگ کا تحریر کردہ شخصی خاکہ تھا:’’ڈپٹی نذیر احمد کی کہانی، کچھ اُن کی کچھ میری زبانی‘‘۔ اس کتاب نے گویا دلچسپیوں کی دُنیا ہی بدل ڈالی۔ کرکٹ، گلی ڈنڈا، ہاکی اور پٹھو باری کے کھیل سے زیادہ مزہ ادبی کتابوں کے مطالعے میں آنے لگا۔ اس کتاب کے مطالعے سے مجھے متعدد فوائد حاصل ہوئے۔ شخصی خاکوں سے دلچسپی پیدا ہوگئی۔ معیاری مزاح کی طرف رغبت ہوئی۔ ’زبان کا رس‘ کسے کہتے ہیں، یہ جاننے کا موقع ملا۔اور زبان کے چٹخاروں کی چاٹ لگ گئی۔
اس کے بعد ایک اور کتاب نے میرے اس شوق کو مہمیز دی۔ محترم افسر عمران صاحب، جو مدرسۂ ثانویہ میں ہمارے اُستاد تھے اور آج کل ایک بڑے ٹی وی چینل پر کوالٹی کنٹرولر ہیں، نصابی کلاس لینے کے بعد اضافی پیریڈ میں ہمیں تقریر کا فن سکھایا کرتے تھے۔مجھ پر اُن کی خصوصی توجہ تھی۔ایک بار اسکول کے بین الجماعتی تقریری مقابلے میں مجھے اوّل انعام ملا۔ یہ انعام بھی ایک کتاب کی صورت میں تھا، جوافسر عمران صاحب کا انتخاب تھی اور یہ کتاب بھی شخصی خاکوں کی کتاب تھی۔ شاہد احمد دہلوی کے تحریر کردہ خاکوں کا مجموعہ ’’گنجینۂ گوہر‘‘۔ ایک تو شاہد احمد دہلوی کی ٹکسالی زبان، پھر ایسی شخصیات کا ذکر جن کی تحریریں پڑھ پڑھ کر اُن سے دلچسپی پیدا ہوگئی تھی، مثلاً خواجہ حسن نظامی، مرزا عظیم بیگ چغتائی، میراجی، منٹو، جگر مرادآبادی،اُستاد بُندو خان، جوشؔ ملیح آبادی اور جمیل جالبی وغیرہ۔شاہد احمد دہلوی کے طرزِ تحریر اور اُن کی تحریر کا موضوع بننے والی شخصیات کے دلچسپ قصوں نے بہت متاثر کیا۔ متواتر مطالعے سے لکھنے کا ڈھنگ سیکھا۔ پڑھنے کا سلیقہ جاننے کی جستجو ہوئی۔ مسلسل مطالعے سے معلوم ہوا کہ کتابی دُنیا بھی عجب دُنیا ہے۔ آپ کوئی بھی کتاب پڑھیں وہ آپ کو ایک نئی دُنیا میں لے جاتی ہے۔ نئی دُنیا میں پہنچ کر آپ بھی نئے ہوجاتے ہیں۔ آپ کی شخصیت بھی نئی ہو جاتی ہے۔ آپ وہ نہیں رہتے جو کتاب پڑھنے سے پہلے تھے۔ ایک نئے آدمی بن جاتے ہیں۔ ایک نئی شخصیت ظہور میں آتی ہے۔ آپ وہ باتیں جان جاتے ہیں جو اب تک نہیں جانتے تھے۔ کثرتِ مطالعہ سے قرآنِ مجید(سورہ زُمر۔ آیت ۳۹) کے اس سوال کی تفسیر سمجھ میں آجاتی ہے کہ ’’کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں کبھی یکساں ہو سکتے ہیں؟‘‘
جب میں نے سندھ مسلم سائنس کالج میں داخلہ لیا تو پروفیسر حشمت اللہ لودھی اور پروفیسر اشرف شیر جیسے کثیر المطالعہ اساتذہ کی رہنمائی ملی۔کالج کا دورایسا دور تھا (۱۹۷۲ء سے ۱۹۷۴ء کا دور) جب میں اسلامی جمعیت طلبہ میں بہت فعال تھا۔ جمعیت کا رُکن بننے کے امیدواروں کو نصابِ رُکنیت میں شامل اور نصابِ رُکنیت سے زائد بھی بہت سی کتابوں کا مطالعہ کرنا پڑتاتھا۔ ان تین برسوں میں جتنی کتابوں کا مطالعہ کیا، اتنا مطالعہ اس سے قبل ہو سکا تھا نہ اس کے بعد اس رفتار سے مطالعہ کیا جا سکا۔کالج ہی کے زمانے میں کتب خانوں سے استفادہ کرنے کا شوق پیدا ہوا۔ کراچی کی برٹش کونسل لائبریری، امریکن سینٹر لائبریری، گوئٹے انسٹیٹیوٹ، لیاقت میموریل لائبریری اور فریر ہال لائبریری سمیت متعدد کتب خانوں سے استفادہ کیا۔گوئٹے انسٹیٹیوٹ سے جرمن زبان کا کورس بھی کیا۔ فراؤ آئک ہماری اُستانی تھیں۔ انہوں نے جرمن زبان کی تعلیم کے ساتھ ساتھ جرمن ادب سے دلچسپی بڑھائی۔ بالخصوص جرمن شاعری سے۔ فراؤ آئک ہی نے۱۹۷۷ء میں مشہور جرمن مستشرق ڈاکٹر اینّے ماری شمیل سے (جن کو انگریزی میں این میری شمیل لکھا جاتا ہے) میری ملاقات بھی کروائی اور تعارُف بھی کرایا۔
جامعہ کراچی میں داخلہ لیا تو گویا دبستاں کھل گیا۔ میں طالب علم تو شعبۂ ریاضی کا تھا، مگر سائنس اور ریاضی کی نصابی و غیر نصابی کتب کے ساتھ ساتھ میں اپنی دلچسپی کے اور بہت سے دوسرے مضامین کی کتابیں بھی مرکزی لائبریری سے (جو آج کل ڈاکٹر محمود حسین لائبریری کہلاتی ہے) اور مختلف شعبہ جاتی کتب خانوں سے حاصل کرکے پڑھا کرتا۔ جامعہ کراچی میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران بھی بڑے مشفق اساتذہ کی رہنمائی مجھے حاصل رہی۔ ان اساتذہ میں پروفیسر این ایچ زیدی،پروفیسر شائستہ زیدی،پروفیسر نسیمہ ترمذی، ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی، میجر آفتاب حسن،پروفیسر علی محسن صدیقی، ڈاکٹر اسلم فرخی، پروفیسر سحر انصاری، محترمہ اُمِّ سلمیٰ زمن اور محترمہ عطیہ بنت خلیل عرب سمیت بہت سے اساتذہ شامل ہیں۔ میرے ذوقِ مطالعہ کی تشکیل میں میرے کچھ دوستوں کا ساتھ بھی بہت مفید ثابت ہوا۔ ان سے ہونے والے تبادلۂ کتب اور تبادلۂ خیال سے معیاری کتب کا مطالعہ کرنے میں بہت مدد ملی۔ ان میں میرے اسکول کے دوست محمد مرتضیٰ (سابق پرنسپل ٹیکنیکل ٹریننگ سینٹر، کراچی)، یحییٰ بن زکریا صدیقی (مدیر ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ کراچی ) سید خالد جامعی (سابق سربراہ شعبۂ تصنیف و تالیف و ترجمہ، جامعہ کراچی) اور کئی دوسرے احباب شامل ہیں۔
(جاری ہے)
دلچسپ بات یہ ہے کہ میری دلچسپی کے موضوعات کبھی تبدیل نہیں ہوئے۔ البتہ ان موضوعات میں اضافہ بھی ہوا، اور وقت کے ساتھ ساتھ ارتقا بھی۔ مثلاً بچوں کے ادب (کہانیوں، ناولوں، نظموں اور لطائف) سے بچپن میں جو دلچسپی پیدا ہوئی وہ دلچسپی آج بڑھاپے میں بھی برقرار ہے۔یہ ضرور ہے کہ اب بچوں کے ادب کا مطالعہ ناقدانہ نظر سے کرتا ہوں۔ اسکول ہی کے زمانے میں طنزو مزاح سمیت اُردو ادب کی تمام اصناف کے مطالعے سے دلچسپی پیدا ہوگئی اور بڑھتی چلی گئی۔ تفسیری ادب اور لسانیات کے مطالعے سے دلچسپی اپنے تایا مولانا ابوالجلال ندوی کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ فلسفے اور فلسفیانہ مباحث سے رغبت اپنے ایک برادرِ بزرگ مرحوم زکریا صدیقی کی صحبت میں پیدا ہوئی، جو میرے مربی بھی تھے اور کئی معاملات میں میرے لیے اُستاد کا درجہ رکھتے تھے۔ اُصول فقہ اور تقابل ادیان کے موضوعات سے دلچسپی جامعہ کراچی کے کلیہ معارفِ اسلامیہ میں داخلہ لینے کے بعد پیدا ہوئی۔ فقہی موضوعات سے متعلق کتب کے انتخاب میں میرے سب سے بڑے بھائی مرحوم عبدالرحمن صدیقی میری رہنمائی فرمایا کرتے تھے۔ ریاضی، شماریات، طبیعیات اور معاشیات کے موضوعات سے دلچسپی شعبہ ریاضی میں بی ایس سی آنرز کرنے کے دوران میں نصابی مطالعے سے پیدا ہوئی۔ان تمام موضوعات سے اور ان کے علاوہ، اور بھی کئی دیگر موضوعات سے دلچسپی اب بھی برقرار ہے۔دلچسپی کے موضوعات میں سے کسی موضوع پر کوئی نئی کتاب ہاتھ لگ جائے تو اُس کا مطالعہ کرنا آج بھی پسند ہے۔ہرنئے مطالعہ سے کوئی نہ کوئی نئی بات علم میں ضرور آجاتی ہے۔
پسندیدہ مصنفین کی فہرست بھی دلچسپی کے موضوعات کی طرح طویل ہے۔بچوں کے ادب سے، جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا، بچپن ہی سے دلچسپی پیدا ہو گئی تھی۔ عمر میں اضافے کے ساتھ ساتھ ادبِ اطفال تخلیق کرنے والے تمام جدید و قدیم ادیبوں کی تحریریں پڑھ ڈالیں۔نثر میں مولانا مائل خیر آبادی، مولانا عبد الحئی، امتیاز علی تاج، میرزا ادیب، ’’بیلو کی پٹائی‘‘ لکھنے والی عصمت چغتائی اور معراج صاحب جو ہمدرد نونہال میں ’’خرگوش کے کارنامے‘‘ لکھا کرتے تھے، میرے پسندیدہ مصنفین میں شامل ہیں۔بچوں کے لیے نظمیں تخلیق کرنے والوں میں مرزا اسد اللہ خان غالبؔ ،مولانا الطاف حسین حالیؔ ، مولانا اسمٰعیل میرٹھی، اقبالؔ ، افسرمیرٹھی اور شاعر لکھنوی میرے پسندیدہ شعرا میں سے ہیں۔ نثری طنزو مزاح میں مرزا فرحت اللہ بیگ، مرزا عظیم بیگ چغتائی، کنہیا لال کپور، رشید احمد صدیقی، احمد شاہ بخاری پطرس، شوکت تھانوی، شفیق الرحمن، مُلّاابنِ عرب مکّی (یہ مولانا عامر عثمانی کا قلمی نام ہے)، ابن انشا، مشتاق احمد یوسفی اور خامہ بگوش (مشفق خواجہ) سب ہی پسندیدگی کے درجے پر فائز ہیں۔ منظوم مزاح میں ظریف جبل پوری، دلاور فگار، سید محمد جعفری، ڈاکٹر انعام احسن حریفؔ ، ضمیر جعفری،انور مسعود، پروفیسر عنایت علی خان، سرفراز شاہد، بیدل جونپوری اور ڈاکٹر انعام الحق جاوید پسندیدہ شعرا ہیں۔ افسانہ نگاروں میں کرشن چندر اور قرۃ العین حیدر کا طرزِ تحریر زیادہ پسند آیا،کچھ دوسرے ادیب بھی پسند ہیں، مگر اُن کی صرف منتخب تحریریں پسند آئی ہیں، جیسے احمد ندیم قاسمی کا افسانہ ’’پرمیشر سنگھ‘‘ اور اشفاق احمد کا ’’گڈریا‘‘۔ یہ فہرست بھی خاصی طویل ہے۔ سنجیدہ تحریروں میں شاہد احمد دہلوی، ملا واحدی اور مختار مسعودکے اُسلوبِ تحریر نے بہت متاثر کیا۔ اُردوزبان کے تفسیری ادب میں مولانا حمیدالدین فراہی، مولانا ابوالجلال ندوی، مولانا ابوالکلام آزاد،مولانا ابوالاعلیٰ مودودی اور مولانا امین احسن اصلاحی کو پسندیدہ مصنفین کا درجہ حاصل ہے۔ سیرت نگاری میں بلاشبہ مولانا شبلی نعمانی اپنے مدلل محققانہ اُسلوب کے سبب پسند آئے۔ اسی اُسلوب کو اُن کے شاگرد مولانا سید سلیمان ندوی نے بھی آگے بڑھایا۔ مگر مجھے سب سے زیادہ متاثر مولانا مناظراحسن گیلانی کے اُس انداز تحریر نے کیا جو اُنہوں نے ’’النبیؐ الخاتم‘‘ میں اپنایا ہے۔صاحبِ ’’الرحیق المختوم‘‘ مولانا صفی الرحمن مبارک پوری بھی سیرت نگاری کے حوالے سے پسندیدہ مصنفین میں شامل ہیں۔ محققین میں ڈاکٹر حمید اللہ کا اندازِ تحقیق و تحریر بہت پسند ہے۔ اُن کا ہر استدلال دل میں گھر کر لیتا ہے اور اُن کی نظر بہت گہری ہے۔ چوں کہ آپ کا سوال صرف میرے مطالعے اور میری پسند سے متعلق ہے، چناں چہ میں مصنفین اور اُن کی تصانیف پر فرداً فرداً تبصرے اور تنقید سے گریز کر رہا ہوں، کیوں کہ یہ اس کا محل نہیں۔
اُردو کے علاوہ، سوائے انگریزی کے، کسی اور زبان میں باقاعدہ مطالعہ نہیں کیا۔ فارسی شاعری کا چیدہ چیدہ مطالعہ کیا ہے۔ عربی کی چند دینی کتب پڑھی ہیں۔ جرمن زبان کی منتخب شاعری پڑھی ہے۔ انگریزی کتب کا باقاعدہ مطالعہ کیاہے، مگر پسندیدہ مطالعہ بہت منتخب اور محدود ہے۔ جن کتب کے تراجم کیے ہیں اُن کا پڑھنا تو پیشہ ورانہ مجبوری تھی۔ مگر خود اپنے ذوق سے جو مطالعہ کیا ہے اُس میں ہم نصابی کتابوں کے علاوہ بچوں کی مشہور ادیبہ اینیڈ بلیٹن (Enid Blyton) کی اکثر کتب کا مطالعہ کیا ہے، مزاح نگاروں میں مارک ٹوئین، جیمس تھربر اور جارج مِکیش کا مطالعہ کیا ہے۔جب کہ کالم نگاروں میںآرٹ بخوالڈ پسندیدہ کالم نگار تھے۔
جیسا کہ میں اس امر کی نشان دہی کر چکا ہوں کہ ۔۔۔ طبعِ حسرتؔ نے اُٹھایا ہے ہر اُستاد سے فیض۔۔۔ تو کسی ایک مصنف کو بلند ترین مقام پر رکھنے والا سوال ذرا مشکل محسوس ہو رہا ہے۔میری ذہنی نشوونما پر سب سے زیادہ اثرات تو میرے تایا مولانا ابوالجلال ندوی کے ہیں۔میری تعلیم کے آغاز اور میری ذہنی تربیت میں اُن کا جو پدرانہ کردار رہاہے، اُس سے قطع نظر، اُن کو بحیثیت مصنف بلند ترین مقام پر رکھنے کی وجہ یہ ہے اُن کا اُسلوبِ تحریر بہت دلکش اور دل پر گہرا اثرچھوڑ جانے والا ہے۔ ان کا ہر استدلال لاجواب اور قائل کر دینے والا ہوتا ہے۔ بحیثیت مفسر قرآن اُن کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ آیاتِ قرآنی کے تاریخی پس منظر کو بڑی تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔ ترتیب نزول پر اُن کی گہری نظر ہے۔ قرآنِ مجید کو صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے کس طرح سمجھا؟ کس پس منظر میں سمجھا اور کلامِ الٰہی سے کیا کیا نکات اخذ کیے؟ یہ سب باتیں اُن کے یہاں بڑی جامعیت سے ملتی ہیں۔ حروفِ مقطعات کی حقیقت جاننے کے لیے انھوں نے نہ صرف عربی و عبرانی زبان کے حروفِ تہجی کی تشکیل پر تحقیق کی، بلکہ دیگر زبانوں کی ساختیات کا علم بھی حاصل کیا۔ اُن کی رائے میں قرآنِ مجید کے زمانۂ نزول کے لوگ حروفِ مقطعات کی معنویت سے نا آشنا نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مشرکینِ مکہ نے قرآنِ مجید پر ہرقسم کے اعتراضات کیے، جن میں سے بعض کا قرآن نے جواب بھی دیا ہے، مگرتاریخی ریکارڈ میں کسی کی طرف سے حروفِ مقطعات پر کوئی اعتراض نہیں ملتا کہ یہ کیسے بے معنی الفاظ ہیں جن کے معانی کا علم اللہ اور اُس کے رسولؐ کے سوا کسی کو نہیں۔ چناں چہ حروفِ مقطعات پر اُن کی مدلل لسانی تحقیق موجود ہے۔ انہی حروف کی تحقیق کے لیے انہوں نے قدیم نقوش کا مطالعہ بھی کیا اور اسی ضمن میں موہنجوڈارو سے برآمد ہونے والی مہروں پر کندہ حروف بھی پڑھ لیے۔ ان سب پر مستزاد اُن کاطرزِ تحریر بہت سادہ ہے اور اس میں ادبی چاشنی بھی ملتی ہے۔ اگراس سوال کا جواب طویل ترین ہو جانے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں آپ کی خدمت میں اُن کے اُسلوبِ تحقیق کی چند مثالیں بھی پیش کرتا۔ مثلاً میں یہ بتاتا کہ انہوں نے کن دلائل سے ثابت کیا کہ قمری تقویم (یا اسلامی کلینڈر) ہی فطری تقویم ہے۔ دنیائے انسانیت کے لیے اس میں بہت سے فوائد مضمر ہیں۔مثلاً میں آپ کو یہ بھی بتاتا کہ ان کے ہاں کیا کچھ منفرد ہے۔بطورِ مثال عرض کرتا ہوں کہ وہ آیاتِ الٰہی کی تفسیر کرتے ہوئے یہ بات بھی واضح کرتے ہیں کہ اگر کسی آیت میں ’قومِ یعقلون‘ کا ذکر کیا گیا ہے تو کیوں کیا گیا ہے اور یہ کون لوگ ہیں۔ ’قومِ یسمعون‘ کا ذکر کیا گیا ہے تو کیوں کیا گیا ہے اور یہ کون لوگ ہیں۔ ’قومِ یفقہون‘ کا ذکر کیا گیا ہے تو کیوں کیا گیا ہے اور یہ کون لوگ ہیں اور اگر ’قومِ یتدبرون‘ کا یا ’قومِ یتفکرون‘ کا ذکرکیا گیا ہے تو کیوں کیا گیا ہے اور یہ کون لوگ ہیں۔ علیٰ ہٰذالقس!
(جاری ہے)

حصہ