پھر گومگوں!

264

اب ایک اور خط ملاحظہ کیجیے جس نے ہمیں بھی تھوڑا سا پریشان کیا ہے کہ ’’جملا کو جملہ لکھنا قطعی اور صریح غلطی ہے‘‘۔ ہم نے تو کئی لغات دیکھ ڈالیں۔ جملا کہیں نہیں ملا۔ امید ہے کہ محترمہ اپنی بات کے لیے کوئی حوالہ بھی رکھتی ہوں گی۔وہ لکھتی ہیں:
’’عرض یہ ہے کہ میں، جمعہ 10 مارچ کے ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ کے کالم میں آپ کی (کے) ایک سہو کی نشان دہی ’’تنقید برائے تنقید‘‘ کے لیے نہیں بلکہ ’’تنقید برائے اصلاح‘‘ کے لیے کرنا ضروری سمجھتی ہوں۔ چونکہ میں تدریسِ اردو سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ اردو کی ایک ادنیٰ سی طالبہ بھی ہوں، اس لیے میں آپ سمیت ان سب ’’ اہلِ قلم حضرات‘‘ کی تصحیح کرنا چاہتی ہوں جو عموماً یہ غلطی کرتے ہیں۔
محترم !آپ نے بہت سہولت سے ’’کوّوں کے کوسے سے ڈھور نہیں مرا کرتے‘‘ کو اردو کا محاورہ بنادیا ہے، گزارش یہ ہے کہ یہ محاورہ نہیں بلکہ اردو کی ’’ضرب المثل یا کہاوت ‘‘ ہے۔ برائے مہربانی کسی ہفتے ذرا ’’محاورے اور ضرب المثل‘‘ کا بنیادی فرق ضرور واضح کیجیے، تاکہ مجھ ناچیز کی اصلاح کے ساتھ ساتھ ’’کئی اور۔۔۔ اردو زبان سے واقفیت کے دعویداروں‘‘ کا بھی بھلا ہوجائے۔ اس قلمی جسارت کے لیے میں مشکور و ممنون ہوں گی۔
دیگر یہ کہ میں آپ کی اس بات سے سو فیصد متفق ہوں کہ ’’غلط العام‘‘ کی سند حاصل کرنے والے الفاظ کو صحیح قرار دینا کسی طور درست نہیں۔ ’’جملا‘‘ کو ’’جملہ‘‘ لکھنا قطعی اور صریح غلطی ہے۔ اس کی اصلاح بہت ضروری ہے!! اور یہ آپ کی اور تدریسِ اردو سے وابستہ، مجھ سمیت تمام اساتذہ کی ذمہ داری ہے۔ اُمید ہے کہ میری کی گئی ’’نشان دہی‘‘ کی داد رسی ضرور ہوگی۔ جزاک اﷲ!
فقط: مسز زرقا فرخ‘‘
محاورے اور ضرب المثل میں فرق کسی پرانے کالم میں واضح کیا تھا۔ اب تلاش کرنا پڑے گا کہ کیا لکھا تھا۔ پچھلے کالم میں ہمارے ساتھی ناصر صدیقی نے توجہ دلائی ہے کہ ’ہمزہ‘ کو مونث لکھا گیا ہے جب کہ یہ مذکر ہے۔ بہت شکریہ۔
ناصر صدیقی ہی نے گدھے کے حوالے سے محاورہ، ضرب المثل یا کہاوت سنائی ہے کہ ’’گدھے کی لات سے گدھے نہیں مرتے‘‘۔
پچھلے کالم میں ممبئی کے سینئر ادیب و شاعر جناب ندیم صدیقی نے اپنے مکتوب میں پاکستان کی شاعرہ بسمل صابری کے اس شعر کا حوالہ دیا تھا:
وہ اشک بن کے مری چشمِ تر میں رہتا ہے
عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے
اس پر ہمیں ایک واقعہ یاد آیا۔ بسمل صابری کسی مشاعرے میں کلام پڑھ رہی تھیں تو سامعین میں سے کسی نے فرمائش کردی ’’وہ ڈھڈو والا شعر ہوجائے‘‘۔ پنجابی میں ڈھڈو مینڈک کو کہتے ہیں اور مینڈک پانی کے گھر میں رہتا ہے۔ اس سخن فہمی کی داد دینی چاہیے۔ ویسے ڈھڈو کی دوسری ’ڈ‘ پر زبر ہو تو مطلب پانی سے باہر آجاتا ہے۔ ڈھڈَو ہندی کا لفظ اور مونث ہے۔ بڑھیا عورت کو کہتے ہیں۔ عموماً ’’بُڑھیا ڈھڈو‘‘ ایک ساتھ آتا ہے۔ اس کا مطلب بے شرم عورت بھی ہے اور ایک چڑیا کو بھی کہتے ہیں۔
عالمی یوم خواتین پر ایک اخبار کے ہر بدھ کو شائع ہونے والے میگزین میں ایک مضمون کی سرخی بڑی دلچسپ تھی ’’رخ عارض میری شرکت ہی سے سنورے گا‘‘۔ جس بچی کا یہ مضمون ہے اُسے خود ہی سرخی پر غور کرلینا چاہیے تھا، اِلاّ یہ کہ سرخی کسی اور نے نکالی ہو۔ رخ اور عارض میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ’رخ‘ رخسار، منہ، گال وغیرہ کو کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ طرف، جانب اور سمت کو بھی کہتے ہیں۔ کسی کو متوجہ کرنے کے لیے کہا جاتا ہے ’میری طرف رخ کیجیے‘ یا ’آپ کا رخ کس طرف ہے‘۔ عارض بھی گال یا رخسار کو کہتے ہیں۔ علاوہ ازیں عارض حادثہ، واقعہ یا واقع ہونے والا، پیش آنے والا کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ تاہم ’’رخ عارض‘‘ کی یکجائی مہمل ہے۔
’’گومگوں‘‘ کے بارے میں پہلے بھی لکھا جا چکا ہے کہ یہ ’’مگوں‘‘ کیا چیز ہے! کثیرالاشتہار اخبار کی 17 مارچ کی اشاعت میں ایک سرخی ہے ’’رپورٹ کے اجرا کا معاملہ گومگوں کا شکار ہوگیا‘‘۔ یہ گومگوں کی حماقت جسارت میں بھی نظر آجاتی ہے اور کچھ دوسرے اخبارات میں بھی۔ ’’مگوں‘‘ بے معنیٰ ہے۔ ایک بار پھر یاد دہانی کرا دیتے ہیں کہ فارسی میں کسی لفظ کی نفی بنانے کے لیے اس کے شروع میں ’م‘ لگا دیتے ہیں جیسے ’گو‘ کی نفی ’مگو‘۔ یعنی کہوں یا نہ کہوں۔ اسی طرح فارسی کا مشہور محاورہ (یا ضرب المثل؟) ہے ’’سگ باش، برادر خورد مباش‘‘۔ اس میں باش کی نفی بنائی گئی ہے۔ ایسے کئی الفاظ آپ خود تلاش کرسکتے ہیں مثلا کُشا سے مکشا۔ ’’کاکل مشکیں مکشا‘‘۔ اپنی مشکیں زلفوں کو مت کھولو۔
18 مارچ کے ایک اخبار میں بہت ہی سینئر صحافی افتخار احمد کا مضمون ہے جس میں انہوں نے ’’مواقعوں‘‘ کا ذکر کیا ہے۔ بھائی افتخار، کیا مواقع سے کام نہیں چل سکتا تھا! یہ مواقعوں کیا ہوتا ہے؟
بچوں کے لیے کچھ بھی لکھا جائے اس میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ بڑے تو کسی غلطی کی خود بھی اصلاح کرلیتے ہیں لیکن بچے جو پڑھتے ہیں وہ ان کے ذہن میں راسخ ہوجاتا ہے۔ ایک اخبار نے بچوں کو صحافت کی طرف راغب کرنے کے لیے بچوں کے صفحہ پر ’’دیوارِ صحافت‘‘ کے عنوان سے ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔ اچھا سلسلہ ہے لیکن نگران کو خود بھی زبان پر توجہ دینی ہوگی۔ مثلاً 18 مارچ کے دیوارِ صحافت میں ایک جملہ ہے ’’صحافی بننے کی صلاحیات‘‘ اور اسکول کی طالبات۔ یہ یقیناًکمپوزنگ کا سہو ہے، لیکن بچوں کے لیے تحریروں میں کوئی سقم نہیں رہنا چاہیے۔ کیا پتا کوئی بچہ ’’صلاحیات‘‘ ہی کو درست سمجھ بیٹھے۔ ویسے اس سلسلے کا عنوان ’’دیوارِ صحافت‘‘ کے بجائے کچھ اور رکھ لیا جائے تو اچھا ہوگا۔ دیوار عموماً رکاوٹ کے معنوں میں آتا ہے۔
اخبارات میں ’’ہمراہ‘‘ کا استعمال بھی عموماً غلط ہورہا ہے۔ مثلاً تصویر میں فلاں، فلاں بھی ہمراہ ہیں۔ جب کہ یہ ہمراہ نہیں بلکہ ساتھ ہوتے ہیں۔ ہمراہ کا مطلب تو راہ میں ساتھ ہونا ہے۔
گزشتہ کسی کالم میں ’’کی بجائے‘‘ یا ’’کے بجائے‘‘ پر ماہرین لسانیات کی مدد طلب کی تھی۔ کلیم چغتائی اور میرپور آزاد کشمیر کے ماہر لسانیات اور ادب کے دلدادہ پروفیسر علم الدین نے ’’کی بجائے‘‘ کو ترجیح دی ہے۔ لیکن ایک شاعر اور صحافی جناب فیض عالم بابر نے ’’کے بجائے‘‘ کے حق میں کچھ اشعار تلاش کرکے عنایت کیے ہیں۔ آپ بھی پڑھ لیں:
اس دور میں یہ طرزِ جدا آزما کے دیکھ
دل کے بجائے دل کے سکوں کو مٹا کے دیکھ
(فانی بدایونی)
بے نام سی اک آگ جلاتی رہی مجھے
خوں کے بجائے جسم میں تیزاب سا رہا
(مظفر وارثی)
سوال یہ ہے کہ جس نے جنا تھا وہ پاسُک
بجائے زہر اگلنے کے، بانٹتا تھا سکوں
(صابر ظفر)
کچھ ایسے پھول کی خواہش پہ بارہا لعنت
بجائے خون کے رکھتا ہوں نوکِ خار پہ تُف
(تصور آفاق)
ان میں فانی بدایونی کو سند تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ صابر ظفر اور تصور آفاق کے شعر تو بجائے خود چیستاں ہیں۔ اب لغت میں ’’پاسک‘‘ کے معنی ڈھونڈتے رہے۔ شاید سنسکرت میں ماں، باپ میں سے کسی کو کہتے ہوں۔ لغت میں فارسی کا ایک لفظ ’’پا سُخ‘‘ ہے، یعنی جواب۔

حصہ