(ایک معیاری اسکول کے خدو خال(تحریر: محترمہ راحیلہ وقار

578

کارٹون کی تخلیانی دنیا ۔۔۔سائرہ فاروق۔۔۔
کارٹون کی دنیا بڑی رنگین، بے حد تخیلاتی ہوتی ہے۔ خوبصورت رنگوں سے مزین دلآویز مناظر، مسحور کن لائٹس اور کہانی کے اتار چڑھاؤ، اور سچویشن کے مطابق موسیقی کی دھنیں بچوں کو کتنی مسرتیں دے جاتی ہیں اس کا احساس مجھے اس لیے بھی ہے کہ میں اب تک ان کے سحر سے نہیں نکلی۔ عصرِ حاضر میں سماج میں بے پناہ تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئی ہیں، ان تبدیلیوں نے جہاں بہت سی قدریں، رویّے، طرزِ معاشرت، رسم و رواج پر اثر ڈالا ہے وہیں ہماری پسند و ناپسند کو بھی بدلا ہے۔ ان جدید برقی تبدیلیوں نے ہمارے گھر کے ماحول کو بھی بدلا ہے۔
ماہرینِ سماجیات کہتے ہیں کہ سماجی رویّے سکھانے میں اہم کردار والدین کا ہے۔ گھر سے نکل کر بچہ باہر کی دنیا سے متعارف ہوتا ہے تو اساتذہ، دوست، محلہ دار اس کے تعلم میں اضافہ کرتے ہیں، مگر بدقسمتی سے میڈیا کے کردار کو سب سے آخر میں رکھا گیا ہے۔ مشاہدے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سب سے زیادہ اثر ٹی وی پروگرام جن میں سرفہرست کارٹون، ڈرامے، موسیقی، فلمیں وغیرہ ہیں، ہمارے عہد کے کم سن ذہنوں پر گہرا اور دیرپا اثر چھوڑ رہے ہیں۔
’’امن! بات نہیں سنتا، بدتمیز ہوگیا ہے‘‘۔ میری بہن گل اکثر جھلاّتے ہوئے اپنی مخصوص لائن دہرانے کی عادی سی ہوگئی ہے، جس پر میں اکثر اسے چھیڑتے ہوئے کہتی ہوں کہ ’’یہ خاندانی اثر ددھیال کی مرہونِ منت ہے‘‘، تو بدلے میں ایک گھرکی منتظر ہوتی ہے۔ اس کی یہ جھلاہٹ مجھے سوچ میں مبتلا کر جاتی ہے کہ۔۔۔ پانچ سال کا امنؔ ، گلؔ کی گرفت میں نہیں تو جن کے اٹھارہ انیس سال کے بچے ہوں گے، ان ماؤں کی جھلاہٹ کا کیا عالم ہوگا۔۔۔ یہ سوچ کر ہی جھرجھری آجاتی ہے۔
امن اور گل اکثر چھٹیوں میں اسلام آباد سے مانسہرہ رہنے کے لیے آتے ہیں۔ میرا اِس بار کا سمسٹر تھیوری اور ریسرچ بیس تھا، لہٰذا ریسرچ فوبیا ہوگیا، اور اسی فوبیے نے مجھے امن کی طرف متوجہ کیا، اور تعلیمی شعبے میں ہونے کی وجہ سے اکثر ماؤں کی شکایات مجھے گل سے مختلف نہیں لگیں تو سوچا کیوں ناں تحقیق کا آغاز اپنے گھر سے کروں۔ امن اور میرے درمیان دوستی کے رشتے کی بنیاد کارٹون بنے، اور یوں دوستی بڑھتی چلی گئی۔ مگر مجھے شدید حیرت کا سامنا اُس وقت ہوا، جب ایک ہی کارٹون لگاتار نئی نئی اقساط کے ساتھ مسلسل چلے جارہے ہیں۔ اگر میں غلط نہیں ہوں تو اس وقت کیبل پر تین چار اسٹیشن کارٹون نیٹ ورک کے نان اسٹاپ چلتے ہیں۔ ایک ہمارا دور تھاکہ کارٹون صرف آدھا گھنٹہ دیکھنے کو ملتے، کیونکہ دورانیہ ہی اتنا ہوتا تھا، اور دوسرے ہر شخص کو بلا تخصیص جنس و عمر کارٹون ہی دیکھنے پڑتے۔ انتخاب آسان تھا، مگر وقت کے تقاضوں نے کارٹون کی دنیا بھی بدل ڈالی۔ اب ریموٹ بچے کے ہاتھوں میں ہے۔ بڑوں کی تقلید میں بچہ بھی نت نئے چینلوں پہ سرچ کا رسیا ہوگیا ہے۔ ’’اگر اچھا لگے تو ٹھیک، ورنہ بدل ڈالو‘‘ کی پالیسی اب تین، چار سال کا بچہ بھی اپنانے لگا ہے۔ بچہ جانتا ہے کہ وہ اکیسویں صدی کا باسی ہے اور ڈورے مون 22 ویں صدی میں سے آیا ہے۔ وہ اس حقیقت سے بھی آگاہ ہے کہ یہ تخیلاتی دنیا ہے، حقیقت سے تعلق نہیں رکھتی۔ لیکن آج کا بچہ ایسے کارٹون دیکھنے کے بعد 22 ویں صدی میں ایسا ہوجانے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے اور یہ ایک فطری عمل ہے۔ بچہ جو دیکھے گا من وعن اس کی تقلید کرے گا۔ برصغیر میں صحافت مغرب کی دین ہے، اس طرح کارٹون نگاری بھی مغرب کی دین ہے۔ کارٹون طنز و مزاح کی صنف میں شمار کیا جاتا ہے، لیکن طنز و مزاح کے جتنے بھی حصے ہیں ان میں کارٹون کا شعبہ سب سے مشکل ہے، بلکہ اسے مشکل ترین فن کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ کارٹون انگریزی زبان کا لفظ ہے، اس کے معنی تصویر کے ذریعے کسی کا مضحکہ اڑانا یا مزاحیہ تصویر کے ہیں۔
یوں تو بچوں کے پسندیدہ کارٹون میں موٹو پتلو، چھوٹا بھیم،کڈز کرش، ڈھولک چاچو، مائٹی راجو وغیرہ ہیں۔ ان سب کارٹون میں سے صرف ڈورے مون کو ہم بطور مثال لیتے ہیں۔ ڈورے مون کے خلاف دنیا بھرکے سیاست دانوں اور سماجی کارکنوں نے احتجاج کیا۔ پاکستان میں بھی یہ احتجاج ہوا۔ والدین بھی ڈورے مون کو انتہائی غیر اخلاقی قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی لگانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ یہاں تک کہ بھارتی چینلوں پر ہندی زبان میں دکھائے جانے والے جاپانی کارٹون کے خلاف آوازیں بلند ہونے لگیں۔ بھارت میں ایک سماجی کارکن اشیش چترویدی ڈورے مون کارٹون کے خلاف سرگرم ہوگئے اور ان چینلوں کو قانونی نوٹس دے دیا جن یہ کارٹون چلایا جارہا ہے۔ ڈورے مون کے مشاہدے کے بعد جو چیزیں میرے سامنے آئیں وہ میں آپ کے سامنے رکھتی ہوں اور فیصلہ آپ پر چھوڑتی ہوں:
ڈورے مون جاپانی کارٹون سیریز ہے جو کہ جاپانی کارٹونسٹ Fujjiko Fujio کی تخلیق ہے۔ یہ 1969ء میں شائع ہوئی۔ ٹی وی پر پہلی بار 1973ء میں پیش کیا گیا۔ بنیادی طور پر یہ مزاحیہ کارٹون پروگرام ہے۔ یہ ایک ذہین روبوٹ کی داستان ہے جو وقت میں پیچھے کی طرف سفر کرتے ہوئے 22 ویں صدی سے ہماری دنیا میں آیا ہے، جو چوتھی جماعت کے ایک بچے نوبیتا کے پاس رہتا ہے اور اپنے مختلف جادوئی گیجٹس سے اُس کی اور اُس کے دوستوں کی مدد کرتا ہے۔ اس کارٹون کے بے شمار منفی پہلو ہیں جو میری بے چینی کا باعث بنے اور میرے علم میں آئے۔ اس کارٹون کے دو کردار نوبیتا اور شیزو والدین کے نافرمان دکھائے گئے۔ نوبیتا، شیزو کو متاثر کرنے کے لیے جتن کرتا ہے اور اس چکر میں انتہائی غیر اخلاقی رومانوی مناظر بھی ان کے درمیان چلتے ہیں۔ والدہ سے بات کرتے ہوئے گھمنڈی کا لفظ استعمال کرتا ہے، جبکہ یہی نوبیتا شیزو سے انتہائی تمیز وشائستگی سے بات کرتا ہے۔
ڈورے مون میں مختلف گیجٹس (جدید آلات) کے استعمال کی ترغیب ملتی ہے جس سے بچوں میں تعلیم سے عدم دلچسپی بڑھتی جارہی ہے۔ بچوں میں اس سوچ نے جنم لیا ہے کہ کاش ان کے پاس بھی گیجٹس ہوتے تو ان کا ہوم ورک خودبخود ہوجاتا۔ صرف ڈورے مون ہی نہیں بلکہ اس جیسے تمام کارٹون بچوں میں یہ تحریک پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں کہ جادو کا علم اچھا ہے، بغیر محنت وہ جادو کے ذریعے کچھ بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ گویا معصوم ذہنوں کو فریب دینے کا کام اس کارٹون کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔ یہ کارٹون ہندی زبان میں ترجمہ ہوتے ہیں، لہٰذا بچے روزمرہ زندگی میں ہندی الفاظ کا بکثرت استعمال کرنے لگے ہیں جیسے شانتی، پوجا، وشواس گھاٹ وغیرہ۔ گالیوں کا استعمال بھی بکثرت دیکھنے کو ملتا ہے جیسے ڈھولک چاچو میں ایک کردار ’’اُلّو کا پٹھا‘‘ بولتا ہے اور زبان کا استعمال کچھ یوں کرتا ہے ’’میں کھانا کھاتا، کیا یہ کھاتا۔۔۔‘‘ ایسے لب ولہجے بچے جلدی قبول کرلیتے ہیں اور ان کے اذہان آلودہ ہوجاتے ہیں۔ ایسی زبان ہماری معاشرتی اقدار کے منافی ہے۔ 24 گھنٹے دکھائے جانے والے ان کارٹون سے بچوں میں منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
یہ کارٹون بھارتی ثقافت، زبان اور ہندو مذہب کو فروغ دینے کا باعث بن رہے ہیں۔ اگر کارٹون ہماری زندگی میں ناگزیر ہوگئے ہیں تو پھر وہ کارٹون دکھائیں جو مکمل پاکستانی معاشرے کی عکاسی کرتا ہو، جیسے ’’جان کارٹون‘‘ جو پاکستان کا سب سے پہلا اردو کارٹون ہے۔ مکمل اصلاحی اور اخلاقی اقدار سے مزین۔۔۔ اور اردو زبان کو صحیح لب و لہجہ اور ادائیگی کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے۔ سب سے بڑی بات ہماری اپنی ثقافت، لباس، رہن سہن، زبان، اقدار کو ترویج دی گئی ہے جو اس ثقافتی یلغار میں وقت کی اہم ضرورت بھی ہے۔ آج کے عہد کا بچہ کمپیوٹر گیم اور کارٹون کا قیدی بن گیا ہے۔ ٹکٹکی باندھ کر اسکرین کو دیکھنے سے بچوں میں بینائی جیسے مسائل بھی بڑھے ہیں اور ساتھ ساتھ ذہنی اور جسمانی نشوونما بھی متاثر ہورہی ہے۔
ان کارٹون کا سب سے منفی پہلو یہ ہے کہ ان میں جادو، اور سائنسی ایجادات کا غلط استعمال بچوں میں منفی رجحان پیدا کررہا ہے، اور بچوں کا اپنی صلاحیتوں پر اعتماد متاثر ہوا ہے۔ وہ بھی خواہش کرتے ہیں کہ ان کے پاس بھی گیجٹس ہوں اور ان کا ہوم ورک خودبخود ہوجائے۔ یہی وجہ ہے کہ بچے پڑھنے میں دلچسپی کم لیتے ہیں۔ والدین پر دہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، کیونکہ بچہ ذہنی، جسمانی اور معاشرتی سوجھ بوجھ میں ناپختہ اور خام صلاحیتوں کا مالک ہوتا ہے۔ میڈیا جو کچھ دکھا رہا ہے، اُس میں سے کتنا دیکھنا اور کیا دکھانا ہے اپنے بچوں کو، اب یہ فیصلہ والدین کو کرلینا چاہیے۔ کیونکہ اب کارٹون میں بھی فلموں کی طرح غیر اخلاقی مناظر کی بھرمار ہے جو بچوں سے ان کی معصومیت چھین رہی ہے۔ بچوں کو الگ کمرہ، کمپیوٹر، موبائل جیسی سہولیات دے کر والدین یہ نہ سمجھیں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے اب بری الذمہ ہوگئے، بلکہ یہ جدید سہولیات دینے کے بعد اس محاورے کے مطابق چلیں کہ ’’کھلاؤ سونے کا نوالہ اور دیکھو شیر کی نگاہ سے‘‘۔ غیر محسوس طور پر عقابی نظر رکھنا وقت کا تقاضا ہے۔ ٹی وی، ویڈیو گیمز، کارٹون بچوں کو خیالی دنیا کا شیخ چلی بنانے میں لگے ہوئے ہیں، ایسے میں بچوں کو جسمانی کھیل کی طرف راغب کرنا اشد ضروری ہے تاکہ بچہ کھیل کے بعد خوب تھکے اور گہری، قدرتی نیند لے سکے۔ بچوں کے جسمانی، ذہنی، معاشرتی پہلوؤں سے روگردانی نہ کریں۔ اگر آپ وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ’’ان کی ذہنی اور جسمانی عمر کے لیے کیا اچھا ہے، کیا برا‘‘ تجویز نہیں کریں گے تو کچی عمر اور ناتجربہ کاری کی بنا پر حاصل کیا ہوا علم آپ کے بچے کی شخصی بنیادوں کو ہمیشہ کے لیے کھوکھلا کردے گا۔
nn

ایک معیاری اسکول اساتذہ اور والدین دونوں کی یکساں تلاش، جستجو یا خواہش ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ وہ کیا معیار ہے جس پر کسی اسکول کو پرکھ کر یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ وہ معیاری ہے یا نہیں۔ مختلف دائرۂ کار سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنی اپنی سمجھ کے مطابق معیار مقرر کرتے ہیں اور اسی کے مطابق قوم کی نئی نسل کے لیے فیصلے کرتے ہیں۔ ایک یکساں معیار قوم کی سمت کو یکسو کرنے کے لیے ضروری ہے۔ ذیل میں چند لازمی عناصر دیئے جا رہے ہیں جو ایک معیاری اور مؤثر اسکول کے جزوِلاینفک ہیں۔
اسکول کا فلسفہ
ایک مؤثر اسکول کے لیے سب سے اوّلین ضرورت اُس کا فلسفہ ہے۔ فلسفہ ہی ادارے کے ہر فرد کی سمت کا تعین کرتا ہے۔ کسی ادارے کا فلسفہ یہ بتاتا ہے کہ وہ ادارہ کن اصولوں پر قائم ہے، اس کا مشن اور اس کے اہداف کیا ہیں اور اس کی ترجیحات کیا ہیں۔ یہ فلسفہ ادارے کے کتابچے(brochure) ، اشتہارات، درو دیوار، پروگرامات وغیرہ میں صریحاً درج ہوتا ہے، یا اس کے نصاب کا حصہ ہوتا ہے۔ یہ فلسفہ ایک مؤثر ادارے کے ہر فرد کی زبان پر جاری اور ان کا ہر عمل اس کا عکاس ہوتا ہے۔ طلبہ اور والدین بھی اس فلسفے سے واقف ہوتے ہیں بلکہ اس سے اتفاق کرنے کی وجہ سے ہی وہ اس ادارے سے وابستہ ہوتے ہیں۔
ایک اسلامی ریاست میں قائم ہونے والے اسکولوں کا فلسفہ اللہ سبحانہٗ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دیئے ہوئے دستورکے مطابق ہونا چاہیے، اور اسی کے تحت اس کی تمام سرگرمیاں۔ مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ قوم اس مجتمع کرنے والے قومی فلسفے سے محروم ہے۔ ہر ایک کی اپنی دکان ہے جسے بڑھانے میں مگن وہ قوم کے حصے بخرے کرنے میں لگا ہوا ہے۔
عمل درآمد کا طریقہ کار
دوسری چیز جو کسی ادارے کو مؤثر بناتی ہے وہ عمل درآمد کے صریح، تحریری اورباقاعدہ معلوم طریقہ کار کی موجودگی ہے۔ طریقہ کار کو فلسفے کے مطابق بنانے کے لیے لازمی ہے کہ اس کو ضبطِ تحریر میں لایا جائے تاکہ کوئی کہیں بھی اس پر عمل کرے تو اس کا طریقہ طے شدہ اصولوں سے مطابقت رکھتا ہو۔ تحریر شدہ پالیسیاں سب کو یاد رہتی ہیں اور عمل درآمد میں تغیرات کا امکان کم ہوجاتا ہے۔ اس کا نتیجہ ایک خاموش اتحاد ہوتا ہے جو ادارے سے وابستہ لوگ محسوس کرتے ہیں۔ روزمرہ کے تمام کام ہر محکمہ ایک ہی طریقے سے کرتا ہے۔ پالیسی میں ہی یہ بھی طے پاجاتا ہے کہ عمل کے کس حصے میں ادارے کے ملازمین کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کی آزادی ہے۔ غرض ادارے کے ہر عمل کے لیے ایک باقاعدہ طریقہ ادارے کے فلسفے کے مطابق تیار کرلیا جاتا ہے۔ جب ادارے کے اہم ذمہ داران غور و خوص کے بعد ان پالیسیوں کو طے کرتے ہیں تو ان کے صحیح اور غلط ہونے کا انحصار صرف اور صرف اس کا فلسفہ ہوتا ہے۔
اگر فلسفہ درست نہ ہو یا درست تو ہو مگر واضح نہ ہو تو طریقہ کار میں کمی ہونے کا امکان لازم ہے۔ اور یہ اُس وقت ہوتا ہے جب فلسفہ تحریری شکل میں نہ ہو اور ہر فرد اس کو اپنے انداز میں دیکھتا ہو اور اپنی مرضی کے معنی پہناتا ہو۔ shared vision نہ ہونے سے ادارے کے افراد الجھن اور پریشانی کا شکار ہوتے ہیں۔
عمل درآمد
فلسفہ اور طریقہ کار طے کرنے کے بعد عمل کا مرحلہ آتا ہے۔ اس بات کی یقین دہانی کے لیے کہ طریقہ کار پر ٹھیک سے عمل ہو، ادارے تربیت کا انتظام کرتے ہیں اور پھر نگرانی اور جانچ کا ایک منظم پروگرام ترتیب دیتے ہیں تاکہ کمی اور کوتاہی کو نظرانداز نہ کیا جائے بلکہ ضرورت کے مطابق افراد کو نصیحت اور رہنمائی فراہم کی جائے۔ ایک مؤثر ادارے میں باقاعدہ افراد اس کام کو سرانجام دیتے ہیں، تاکہ جو پروگرام سوچ بچار کے بعد بنایا گیا ہے اس پر عمل کا معیار بھی اعلیٰ ہو۔
ردعمل اور فیڈبیک
عمل درآمد کے دوران مستقل دو قسم کے ردعمل یا فیڈ بیک سامنے آتے ہیں۔ ایک تو افراد کے حوالے سے کہ وہ کیا کام کرپاتے ہیں اور کہاں انہیں مدد یا تربیت کی ضرورت ہے، اور دوسرا فیڈ بیک طریقہ کارکے حوالے سے ملتا ہے۔ عمل درآمد کے دوران ادارہ بہ آسانی یہ جان سکتا ہے کہ اس کے کس Standard Operating Procedure (SOP) میں کوئی کمی ہے اور کس کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ فیڈبیک اساتذہ، طلبہ اور والدین سب سے ملتا ہے اور ایک حساس ادارہ اس ردعمل کو اہمیت دیتا ہے اور اس کے مطابق جہاں تک ممکن ہو تبدیلی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تبدیلی کے اس عمل میں وہ اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ اس کا فلسفہ کسی صورت compromise نہ ہو۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ادارہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے فلسفے میں ہی کچھ کمی ہے تو وہ اس کو بھی درست کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ یہ کشادگی اس کو آگے بڑھنے اور ترقی کرنے سے نہیں روکتی بلکہ اس کی معاون ہوتی ہے۔
مندرجہ بالا عناصرکسی بھی قسم کے ادارے کی کامیابی کے ضامن ہیں، لیکن اسکول کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔ اسکول تعلیم و تربیت کا مرکز ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک اچھا اسکول بغیر واضح مقاصد کے قائم کیا جائے اور وہ مؤثر بھی ہو! تعلیم و تربیت ایک انتہائی اہم اور سنجیدہ عمل ہے جس کے لیے ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا انتہائی ضروری ہے۔ اہداف کو حاصل کرنے کے باقاعدہ قلیل مدتی اور طویل مدتی منصوبے بناکر ٹائم لائن کے مطابق عمل کرنے سے اہداف کے حصول کا اندازہ لگانا آسان ہوجاتا ہے، اور جہاں بھی کمی ہو اس کو دور کرنے کے لیے طریقہ کار طے ہوسکتا ہے۔
کوئی بھی ادارہ جب فیڈبیک کو نظرانداز کرتا ہے اور بدلتے حالات پر نظر نہیں رکھتا تو وہ ترقی نہیں کرپاتا، بلکہ تنزلی کا شکار ہوجاتا ہے۔ ایک مؤثر ادارہ اس بات کا انتظام کرتا ہے کہ اس کو فیڈبیک ملے تاکہ اسٹیک ہولڈرزکی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے ضروری تبدیلیاں ہوتی رہیں۔ ان تمام اصولوں پر ایک اسلامی ادارے کو سب سے زیادہ عمل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل کے معماروں کی تیاری میں کوئی کمی نہ رہے۔

حصہ